Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی رجب المرجب ۱۴۳۱ھ - جولائی ۲۰۱۰ء

ہ رسالہ

7 - 13
 ابو الاعلی مودودی اور سریہ عبد اللہ بن جحش  !
ابو الاعلی مودودی اور سریہ عبد اللہ بن جحش 

مودودی صاحب کی تصنیف تفہیم القرآن کے بارے میں ایک سوال نامہ ہمیں موصول ہوا ہے، سوال ایک آیت کی تفسیرکے بارہ میں ہے، سورہٴ بقرہ کی یہ آیت واقعہ سریہ عبد اللہ بن جحش کے بعد نازل ہوئی، سریہ عبد اللہ بن جحش یعنی حضرت عبد اللہ بن جحش  کا فوجی دستہ، یہ فوجی دستہ نبی ا نے رجب ۲ھ کو مقام نخلہ کی طرف بھیجا تھا، حضرت عبد اللہ بن جحش  اس فوجی دستہ کے امیر تھے، اس فوجی دستے کی کارروائی پر مشرکین مکہ، منافقین مدینہ اور یہود مدینہ نے اعتراضات کئے، جس پر اہل ایمان اس بارے میں وضاحت کے طلبگار ہوئے، چنانچہ صحابہ کرام نے نبی ا سے حرام کے مہینے میں جنگ کے بارے میں دریافت کیا، جس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اور اس سے اگلی آیت یعنی دو آیتیں نازل فرمائیں، اس آیت کی تفسیر میں جو کچھ مودودی صاحب نے لکھا ہے، سائل کاکہنا یہ ہے کہ اس تفسیر سے صحابہ کرام کے بارے میں اچھا تأثر پیدا نہیں ہوتا، سائل کا سوال نامہ، مودودی صاحب کی تفسیر آیت: ”یسئلونک عن الشہر الحرام قتال فیہ ،،۔اور مودودی صاحب کی اس تفسیر پر مفصل تبصرہ یعنی سائل کے سوال نامے کا مفصل جواب آئندہ صفحات میں ملاحظہ فرمائیں:
”محترم المقام واجب الاحترام مؤرخ اسلام حضرت مولانا بشیر احمد حامد حصاری صاحب زیدمجدکم السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ، اما بعد:بانی وامیر جماعت اسلامی جناب مودودی صاحب کی تصنیف کردہ تفسیر تفہیم القرآن کے مطالعہ کے دوران سورة البقرہ کی آیت: ۲۱۷ ”یسئلونک عن الشہر الحرام قتال فیہ ،،کی تفسیر میں مودودی صاحب کا صحابہ کرام کے بارے میں لکھا ہوا ایک واقعہ نظر سے گزرا، جس واقعہ نے صحابہ کرام کی پاک سیرت، اخلاق وکردار، فرمانبرداری رسول اکرم ا وللہیت، تقویٰ وپرہیزگاری کو شدید دھچکا لگایا۔حضرت آپ سے گزارش یہ ہے آپ تحقیق سے احادیث وتاریخ کی روشنی میں بتائیں کہ واقعہ کی حقیقت کیا ہے، وگرنہ تو جو واقعہ جناب مودودی صاحب نے لکھا ہے اس پر نبی ا کا رد عمل اور دیگر اہل مدینہ کا رد عمل صحابہ کرام کی سیرت کا جو نقشہ پیش کرتا ہے، وہ یہ ہے کہ:
۱:…آپ ا نے جنگ کی کوئی اجازت نہیں دی، مگر (نعوذ باللہ) یہ لوگ پھر بھی انتہائی ڈھٹائی سے ایک قافلہ پر ٹوٹ پڑے اور وہ بھی تجارتی قافلہ، کیا ان حضرات کے سامنے مالِ تجارت اور دولت آنے سے منہ میں پانی آگیا اور یہ نبی کریم ا کے بتائے ہوئے مقصد کو چھوڑ کر نہ صرف مال لوٹ رہے ہیں، بلکہ بے گناہ خون بہاکر ایک شخص کو قتل بھی کررہے ہیں؟
۲:…گروہ بھی ان قدسی صفات حضرات پر مشتمل ہے جن کے بارے میں قرآن حکیم جگہ جگہ ”اولئک ہم المؤمنون، اولئک ہم المفلحون، اولئک ہم المتقون،،۔کے الفاظ استعمال کرکے ان کی صفائی پیش کرتا ہے اور ان سے اتنا غیر ذمہ دارانہ فعل کا ارتکاب،بلکہ مقصد اصلی سے (جو ہدایت نبوی ا پر تھا) منہ موڑا جارہا ہے۔
۳:…اس دستہ نے جو لڑائی کی ،اس پر نبی اکرم ا اتنے سخت ناراض ہیں کہ بقول مولانا مودودی صاحب : مال غنیمت سے بیت المال کا حصہ لینے سے انکار فرمارہے اور پھر ان کی اس ناجائز لوٹ مار پر نہ کوئی آیت نازل ہوئی ہے، حالانکہ کافروں کے چھوٹے بڑے گناہ پر قرآن مجید گرفت کرتا ہے، جبکہ کافر سے گناہ ہونا نہ کوئی حیرت کی بات ہے مگر جب ان لوگوں سے گناہ ہو جو ہروقت آپ ا کی صحبت مبارکہ سے فیض یاب ہوتے ہیں، جن کے دل ایمان کی کرنوں سے منور ہیں، اتنی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ حضور ا سمیت تمام اہل مدینہ اس فعل کو نا پسند کرتے ہیں، اس پر نہ اللہ رب العزت کی طرف سے کوئی عتاب آتا ہے اور نہ حضور ا ان کے لئے کوئی سزا تجویز کرتے ہیں تو کیا پھر ہرمسلمان جو اس واقعہ کو پڑھے گا ،وہ یہ نہ سوچے گا (العیاذ باللہ) یہ تو اقرباء پروری ہوئی، جیساکہ پاکستانی سیاست کہ اپنے جو چاہیں کرتے پھریں، جس کی لاٹھی اس کی بھینس اور کوئی پوچھنے والا نہ ہو اور اگر مخالف سیاسی جماعت سے کوئی ادنیٰ سا کارکن چوں وچرا کرے، فوراً اس کی گردن دبوچ لی جائے۔ آپ اس واقعہ کے بارے میں وضاحت فرمائیں، آیا کہ ماجرا ایسا ہی ہے جو مودودی صاحب بیان فرمارہے ہیں اور صحابہ کرام کیا واقعی ایسی سیرت واخلاق والے لوگ تھے؟والسلام، دعاؤں کا طالب:
ابو عیینہ محمد عثمان قاسمی، جلیبی چوک رحیم یارخان۔“
تمہید
اصل موضوع پر بات کرنے سے پہلے چند ضروری باتیں ذہن نشین کرلیں:
۱:…مودودی صاحب اپنا ایک خاص مسلک رکھتے ہیں، جس کا کوئی تعلق علماء حق کے مسلک سے نہیں، کیونکہ علماء حق کا مسلک ہے: اسلاف کی اتباع۔ اور مودودی صاحب کا مسلک ہے ان کا اپنا دریافت کردہ ایک فکری وعملی نظام۔ اور اگر علماء حق اور مودودی صاحب کے مسلک میں کہیں کوئی موافقت معلوم ہوتی ہے تو وہ محض ایک اتفاقی بات ہے ،حقیقی اور واقعاتی نہیں ۔اور اس حقیقت کو مودودی صاحب نے بذات خود بڑی وضاحت سے بیان فرمایا ہے، جس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں، بہرحال مثال کے طور پر مختصراً ہم ذکر کرتے ہیں، تاکہ بات سمجھ میں آسکے: مثلاً وہ فرماتے ہیں:
”اسلام کو جس صورت میں میں نے اپنے گرد وپیش کی سوسائٹی میں پایا، میرے لئے اس میں کوئی کشش نہ تھی، تنقید وتحقیق کی صلاحیت پیدا ہونے کے بعد پہلا کام جو میں نے کیا، وہ یہی تھاکہ اس بے روح مذہبیت کا قلادہ گردن سے اتار پھینکا جو مجھے میراث میں ملی تھی، اگر اسلام اس مذہب کا نام ہوتا جو اس وقت مسلمانوں میں پایا جاتا ہے تو شاید میں بھی ملحدوں اور لامذہبوں میں جاملا ہوتا،،۔ (آزادئ ہند دوم ص:۲۴)
یعنی مسلمانوں والا اسلام ترک کرکے دائرہ اسلام سے نکل جانے کے بعد پھر کہاں گئے؟ فرماتے ہیں:
”جس چیز نے مجھے الحاد کی راہ پر جانے یا کسی دوسرے اجتماعی مسلک کو قبول کرنے سے روکا،وہ قرآن اور سیرت محمدی کا مطالعہ تھا،،۔ (ایضاً)
یعنی اسلام کے دائرے سے نکل جانے کے بعد پھر دوسرے غیر مسلموں کی طرح اپنے طور پر انہوں نے قرآن کا اور سیرت محمدی کا مطالعہ کیا ،پھر اپنے حاصل مطالعہ کو انہوں نے ایمان کا ہدف قرار دیا، لہذا فرماتے ہیں:
”پس در حقیقت میں ایک نو مسلم ہوں ،خوب جانچ کر اور پرکھ کر اس مسلک پر ایمان لایا ہوں جس کے متعلق میرے دل ودماغ نے گواہی دی ہے کہ انسان کے لئے فلاح وصلاح کا کوئی راستہ اس کے سوا نہیں ، میں صرف غیر مسلموں ہی کو نہیں بلکہ خود مسلمانوں کو بھی اسلام کی طرف دعوت دیتا ہوں،،۔ (ایضاً)
یعنی از سرنو ایمان لانے سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ وہ دوبارہ مسلمانوں والے اسلام ہی میں واپس لوٹ آئے ،بلکہ جس چیز پر وہ ایمان لائے ہیں اور جسے اب وہ اسلام کہہ رہے ہیں یہ ان کی اپنی دریافت ہے جو مسلمانوں والے اسلام سے علیحدہ کوئی چیز ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ غیر مسلموں کے ساتھ مسلمانوں کو بھی اسلام قبول کرنے کی دعوت دے رہے ہیں، ورنہ اگر یہ مسلمانوں والا اسلام ہی ہوتا تو یہ اسلام تو مسلمانوں نے پہلے سے قبول کیا ہوا ہے، جس کو مودودی صاحب کبھی کے چھوڑ چکے ہیں ، پھر اس کی طرف دعوت دینے کا کیا مطلب ؟باقی رہی یہ بات کہ مسلمانوں کے دین کا نام بھی اسلام ہے اور جو مسلک مودودی صاحب نے دریافت کیا ہے ،اس کا نام بھی انہوں نے اسلام ہی رکھا ہے تو اس کے بارے میں مودودی صاحب فرماتے ہیں:
”ہمارے درمیان الفاظ مشترک ہیں مگر معنی ومفہوم میں اختلاف ہے ۔ایک ہی لفظ ہے۔ ”مسلمان،، لیکن میں اس سے کچھ اور مراد لیتا ہوں اور دوسرے اس کا مفہوم کچھ اور سمجھتے ہیں،،۔ (ایضاً ص:۷۲)
مطلب یہ ہے کہ مسلمان جب کسی شخص کو مسلمان کہتے ہیں تو وہ اپنے اسلام کے اعتبار سے کہتے ہیں اور مودودی صاحب جب کسی کو مسلمان کہتے ہیں تو وہ اپنے اس مسلک کے لحاظ سے کہتے ہیں جو ان کی اپنی دریافت ہے۔اور جس کا نام انہوں نے بھی اسلام ہی رکھا ہے۔
۲:…یہ چند اقتباسات مثال کے طور پر ذکر کئے ہیں، کیونکہ یہاں ہمارا مقصد مودودی صاحب کے مسلک پر تنقید کرنا نہیں ہے، بلکہ صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ مودودی صاحب کی تفسیر بھی ان کے اپنے مسلک کے تقاضے کی ترجمان ہے،لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان سے پہلے مودودی صاحب اپنے مسلک کو مسلمانوں والے اسلام سے ایک علیحدہ چیز ثابت کرنے کے لئے جو وضاحتیں اور تصریحات فرماتے رہے تھے، پاکستان بن جانے کے بعد انہوں نے دیکھا کہ دین بیزاری کے ان اعلانات اور وضاحتوں کے لئے اب فضا سازگار نہیں رہی، لہذا اپنے دین بیزار اور ملحدانہ مسلک پر سختی سے قائم رہتے ہوئے ان وضاحتوں اور تصریحات کی طرف سے انہوں نے چپ سادہ لی جو ان کے دریافت کردہ اسلام کو امت مسلمہ کے اسلام سے جدا دکھاتی تھیں، اور انہوں نے جو فرمایا تھا کہ:
”ہمارے درمیان الفاظ مشترک ہیں،، الفاظ کے اس اشتراک سے اب انہوں نے بھر پور فائدہ اٹھایا اور یہ جو فرمایا تھا کہ: ”مگر معنی ومفہوم میں اختلاف ہے،، اس کو ”تقیہ،، کی ٹوکری میں ڈال دیا اور اب وہ اپنے ترقی پذیر اسلام کے اسلوب کو چھوڑ کر نسلی مسلمانوں کے محاورے میں بولنے لگے اور افسوس یہ ہے کہ عام مسلمان ان کے تقیہ کو سمجھ نہ سکے اور ان کی زبان سے اسلام کا نام سن کر مغالطہ میں پڑ گئے، حالانکہ وہ اسلام کہہ رہے تھے اپنے اس مسلک کو جس کو انہوں نے اپنے مطالعہ کے زور سے دریافت کیا ہے، اور حقیقی اسلام کو ایک دفعہ چھوڑ دینے کے بعد پھر انہوں نے دوبارہ اس کو قبول نہیں کیا ،اور اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ مودودی صاحب دوبارہ مسلمانوں والے اسلام ہی میں شامل ہوگئے تھے تو وہ اس کا ثبوت اور ا س کی دلیل لائے، اور ہماری معلومات میں اضافہ کرے، ہم اس کے بے حد مشکور وممنون ہوں گے۔
۳:…جدید تعلیم یافتہ طبقے کی بھاری تعداد مغربی اثرات سے متأثر ہونے کی بنا پر تفسیر میں جدید تعبیرات بآسانی قبول کرلیتی ہے، علم دین سے بے بہرہ ہونے کی وجہ سے غلط وصحیح کی تمیز سے وہ بے خبر ہوتے ہیں، ایسے میں مودودی صاحب جیسے مفسرین ومصنفین کی بن آتی ہے۔
۴:…مودودی صاحب لکھنے کے بادشاہ ہیں، عربیت میں ماہرانہ دسترس نہ رکھنے کے باوجود انہیں بات بنانے میں ید طولیٰ حاصل ہے، عام آیات کی تفسیر میں یا فقہی احکام کی تفسیر میں وہ احادیث کی کتابوں کے حوالے دیں گے، صحابہ کرام وتابعین کی روایتوں کا ذکر کریں گے، فقہاء ومحدثین کی آراء پیش کریں گے، جس سے پڑھنے والے کا اعتماد قائم ہوجائے گا اور وہ سمجھے گا کہ مودودی صاحب بہت محتاط انسان ہیں، ہر بات پر مستند حوالہ لاتے ہیں، اپنی طرف سے کوئی نہیں کہتے، جو بات ہے اسلاف کی اتباع میں ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہے ،یہ سب ”تقیہ،، کی کارفرمائی ہے، چنانچہ جہاں انہیں نظریاتی ڈنڈی مارنی ہے، وہاں کسی طرح کا کوئی حوالہ نہیں ہوگا ،اور اگر ہوگا بھی تو سبائی روایتوں کا شاخسانہ ہوگا ،لیکن وہاں بات کا اندازوآہنگ ایسا باوثوق ہوگا کہ پڑھنے والا اسے ایک مسلمہ حقیقت اور اجماعی بات سمجھے گا، اس کی ایک مثال آیت زیر بحث کی تفسیر بھی ہے۔ اس تمہید کے بعد اب ہم اصل موضوع کی طرف آتے ہیں:
مودودی صاحب کی طرف سے آیت کی تفسیر
آیت زیر بحث کی تفسیر میں مودودی صاحب کی پوری عبارت حسب ذیل ہے :
”یہ بات ایک واقعہ سے متعلق ہے، رجب ۲ھ میں نبی کریم ا نے آٹھ آدمیوں کا ایک دستہ نخلہ کی طرف بھیجا تھا (جو مکے اور طائف کے درمیان ایک مقام ہے) اور اس کو ہدایت فرمائی تھی کہ قریش کی نقل وحرکت اور ان کے آئندہ ارادوں کے متعلق معلومات حاصل کرے۔جنگ کی کوئی اجازت آپ نے ان کو نہیں دی تھی، لیکن ان لوگوں کو راستے میں قریش کا ایک چھوٹا سا تجارتی قافلہ ملا اور اس پر انہوں نے حملہ کرکے ایک آدمی کو قتل کردیا اور باقی لوگوں کو ان کے مال سمیت گرفتار کرکے مدینے لے آئے۔ یہ کارروائی ایسے وقت ہوئی جب کہ رجب ختم اور شعبان شروع ہو رہا تھا۔ یہ امر مشتبہ تھا کہ آیا حملہ رجب (یعنی ماہ حرام) ہی میں ہوا ہے یا نہیں، لیکن قریش نے اور ان سے درپردہ ملے ہوئے یہودیوں اور منافقین مدینہ نے مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے کے لئے اس واقعہ کو خوب شہرت دی اور سخت اعتراضات شروع کردیئے کہ: یہ لوگ چلے ہیں اللہ والے بن کر اور حال یہ ہے کہ ماہ حرام تک میں خونریزی سے نہیں چوکتے، انہی اعتراضات کا جواب اس آیت میں دیا گیا ہے، جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ بلاشبہ ماہ حرام میں لڑنا بڑی بُری حرکت ہے ،مگر اس پر اعتراض کرنا ان لوگوں کے منہ کو تو زیب نہیں دیتا جنہوں نے ۱۳/برس مسلسل اپنے سینکڑوں بھائیوں پر صرف اس لئے ظلم توڑے کہ وہ ایک خدا پر ایمان لائے تھے پھر ان کو یہاں تک تنگ کیا کہ وہ جلاوطن ہونے پر مجبور ہوگئے، پھر اس پر بھی اکتفا نہ کیا اور اپنے بھائیوں پر مسجد حرام تک راستہ بھی بند کردیا، حالانکہ مسجد حرام کسی کی مملوکہ جائیداد نہیں ہے اور پچھلے دو ہزار برس میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی کو اس کی زیارت سے روکا گیا ہو۔ اب جن ظالموں کا نامہٴ اعمال ان کرتوتوں سے سیاہ ہے ،ان کا کیا منہ ہے کہ ایک معمولی سی سرحدی جھڑپ پر اس زور شور سے اعتراضات کریں، حالانکہ اس جھڑپ میں جو کچھ ہوا ہے وہ نبی کی اجازت کے بغیر ہوا ہے اور اس کی حقیقت اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ اسلامی جماعت کے چند آدمیوں سے ایک غیر ذمہ دارانہ فعل کا ارتکاب ہوگیا ہے، اس مقام پر یہ بات بھی معلوم رہنی چاہئے کہ جب یہ دستہ قیدی اور مال غنیمت لے کر نبی کریم ا کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے اسی وقت فرما دیا تھا کہ میں نے تم کو لڑنے کی اجازت تو نہیں دی تھی۔ نیز آپ نے ان کے لائے ہوئے مال غنیمت میں سے بیت المال کا حصہ لینے سے بھی انکار فرمادیا تھا ،جو اس بات کی علامت تھی کہ ان کی یہ لوٹ ناجائز ہے، عام مسلمانوں نے بھی اس فعل پر اپنے ان آدمیوں کو سخت ملامت کی تھی اور مدینے میں کوئی ایسا نہ تھا جس نے انہیں اس پر داد دی ہو،،۔ (تفہیم القرآن جلد اول ص:۱۶۵)
مودودی صاحب کی تفسیر کی نمایاں باتیں
۱:…رسول اللہ ا کی طرف سے انہیں یہ ہدایت تھی کہ وہ بس قریش کی نقل وحرکت اور ان کے آئندہ ارادوں کے متعلق معلومات حاصل کریں۔
۲:…جنگ کی کوئی اجازت آپ ا نے ان کو نہیں دی تھی۔
۳:…آپ انے اسی وقت فرمادیا تھا کہ میں نے تم کو لڑنے کی اجازت تو نہیں دی تھی۔
۴:…جو کچھ ہوا نبی ا کی اجازت کے بغیر ہوا۔
۵:…ان لوگوں کو راستے میں قریش کا ایک چھوٹا سا قافلہ ملا اور اس پر انہوں نے حملہ کرکے ایک آدمی کو قتل کردیا۔
۶:…گویا ابھی منزل پر پہنچے بھی نہ تھے کہ لوٹ مارشروع کردی۔
۷:…صحابہ کرام نے جو اقدام کیا وہ صریحاً رسول اللہ ا کی نافرمانی اور حکم عدولی تھی۔
۸:…یہ ایک معمولی سی سرحدی جھڑپ تھی جس پر اس زور شور سے اعتراضات کررہے تھے۔
۹:…آپ انے ان کے لائے ہوئے مال غنیمت میں سے بیت المال کا حصہ لینے سے بھی انکار کردیا تھا۔
۱۰:… یہ اس بات کی علامت تھی کہ ان کی یہ لوٹ ناجائز ہے۔
۱۱:…یہ امر مشتبہ تھا کہ آیا حملہ رجب ہی میں ہوا یا نہیں۔
۱۲:…اس کی حقیقت اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ اسلامی جماعت کے چند آدمیوں سے ایک غیر ذمہ دارانہ فعل کا ارتکاب ہوگیاہے۔
۱۳:…یہ بات ایک واقعہ سے متعلق ہے۔
۱۴:…قریش کے اعتراضات کا جواب اس آیت میں دیا گیا ہے۔
یہ چودہ نکات جو مودودی صاحب کی تفسیر سے لئے گئے ہیں ،تقریباً ان کے اپنے الفاظ پر مشتمل ہیں، اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ یہ چودہ نکات حقیقت سے کس قدر مطابقت رکھتے ہیں، اس کے لئے ضروری ہے کہ پہلے ہم اس واقعہ کا مطالعہ کریں جو حضرت عبد اللہ بن جحش کو پیش آیا اور واقعہ کا ذکر کرنے سے پہلے ہم ایک نظر ان حالات پر بھی ڈال لیں جن حالات میں یہ واقعہ پیش آیا، تاکہ واقعہ کا پس منظر سامنے آنے سے صورت حال کا سمجھنا آسان ہوجائے۔
رفتار حالات
ہجرت سے پہلے صحابہ کرام نے مکہ مکرمہ میں اپنے دفاع کے لئے جہاد کی اجازت طلب کی تھی، لیکن رسول اللہ انے فرمایا:
”لم اؤمر بقتالہم فاشتغلوا باقامة دینکم من الصلاة والزکوٰة،،۔(تفسیر کبیر ج:۱۰،ص:۱۸۴)
یعنی مجھے ان سے جنگ کرنے کا حکم نہیں ملا، لہذا تم نماز اور زکوٰة کے ذریعہ اپنا دین قائم رکھو۔
لیکن جب آپ ا نے ہجرت فرمائی تو آپ ابھی تعمیر مسجد اور مواخات وغیرہ ابتدائی ضروریات سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ اجازت جنگ کی آیت نازل ہوگئی اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”اذن للذین یقاتلون بانہم ظلموا،،۔ (الحج:۳۹)
یعنی ان لوگوں کو بھی اجازت دے دی گئی جن کے خلاف جنگ کی جارہی ہے، اس بناپر کہ ان پر ظلم ہوا ہے۔اس آیت کے نازل ہوتے ہی آپ انے جنگی کارروائیاں شروع فرمادیں، چنانچہ ہجرت کے چھ ماہ بعد ہی پہلا فوجی دستہ رمضان المبارک:۱ھ میں قریش کے تجارتی قافلے کے تعاقب میں حضرت حمزہ لے کے گئے، اس کے بعد ذوالقعدہ: سنہ۱ھ میں حضرت سعد بن ابی وقاص کو بنوکنانہ پر حملہ کے لئے بھیجا گیا۔ (تاریخ ذہبی،ج:۲،ص:۴۱)
سنہ۲ھ کے شروع میں آپ ا بنفس نفیس قریش کے تعاقب میں نکلے، ودان تک آئے، وہاں قبیلہ بنو ضمرہ سے صلح ہوگئی اور واپس تشریف لے آئے۔ (ایضاً ج:۲،ص:۴۵)
ربیع الاول یا ربیع الثانی سنہ۲ھ میں پھر حضرت حمزہ کا فوجی دستہ قریش کے تجارتی قافلے کے تعاقب میں نکلا، لیکن جنگ کی نوبت نہیں آئی۔ (ایضاً ج:۲،ص:۴۵)
ربیع الاول میں آپ اجبل رضویٰ کی جانب کوچ فرمایا، احد بواط تشریف لائے لیکن جنگ پیش نہیں آئی۔ (ایضاً ج:۲،ص:۴۷)
جمادی الاولیٰسنہ ۲ھ میں جنگ کے لئے اقدام فرمایا اور مقام عثیرہ تک تشریف لائے اور وہاں ایک ماہ قیام فرمایا، لیکن جنگ کی نوبت نہیں آئی ،اور بنو مدلج سے صلح کرکے واپس تشریف لائے۔
(ایضاً ج:۲،ص:۴۷)
اسی سال جمادی الاخریٰ میں آپ ا کرز بن جابر فہری کے تعاقب میں نکلے اور بدر کے اطراف میں وادئ سفوان تک پہنچے، کرزبن جابر بھاگ نکلا، ہاتھ نہیں آیا، اسے غزوہ سفوان بھی کہتے ہیں اور بدر صغریٰ بھی۔ (ایضاً ج:۲،ص:۴۷)
اسی سال حضرت سعد بن ابی وقاص کو بھیجا وہ ضرار تک پہنچے، دشمن بھاگ گیا اور وہ واپس آگئے۔ (ایضاً ج:۲،ص:۴۸)
اسی سال رجبسنہ ۲ھ میں حضرت عبد اللہ بن جحش کو مقام نخلہ کی طرف بھیجا، مسند احمد میں ہے حضرت سعد بن ابی وقاص فرماتے ہیں :”کان اول امیر امر فی الاسلام،،۔
یعنی حضرت عبد اللہ بن جحش سب سے پہلے شخص ہیں جنہیں اسلام میں امیر مقرر کیا گیا اور اس کا سبب حضرت سعد بن ابی وقاص یہ بتاتے ہیں کہ: ”ہم سو کے قریب افراد تھے، جنہیں نبی ا نے رجب کے مہینے میں بھیجا اور بنو کنانہ کے ایک قبیلہ پر حملہ کرنے کا حکم دیا، چنانچہ ہم ان پر حملہ آور ہوئے اور وہ سب بڑی تعداد میں تھے، لہذا قبیلہ جہینہ کے ہاں ہم نے پناہ لی، جنہوں نے ہمیں تحفظ دیا اور وہ ہمیں کہنے لگے: تم حرام کے مہینے میں کیوں جنگ کرتے ہو؟ ہم نے کہا: ہم ان لوگوں سے جنگ کرتے ہیں جنہوں نے ہمیں بلد حرام سے حرام کے مہینے میں نکالا، بعد میں ہم نے آپس میں کہا کہ ان لوگوں نے جو سوال اٹھایا ہے ،اس بارے میں کیارائے ہے؟ ہم میں سے بعض کہنے لگے: ہمیں رسول اللہ ا کی خدمت میں حاضر ہوکر یہ بات ان کے گوش گذار کرنی چاہئے! بعض کہنے لگے نہیں! ہمیں یہیں قیام کرنا چاہئے اور میں نے کہا: ہم تو قریش کے قافلے پر حملہ آور ہوں گے، چند آدمی اور بھی میرے ہمنوا تھے، لہذا ہم قریش کے قافلے کی طرف چل پڑے، اور مال غنیمت کا مسئلہ ان دنوں یہ تھا کہ جس کے ہاتھ جو چیز لگی ،وہ اسی کی ہے، غرض ہم قافلے کی طرف چلے اور ہمارے ساتھی رسول اللہ ا کی طرف روانہ ہوئے، جب آپ اکو صورت حال سے آگاہ کیا تو آپ ا نہایت غضبناک ہوئے، چہرہ سرخ ہوگیا اور آپ ا اٹھ کر کھڑے ہوئے اور فرمانے لگے: میرے پاس سے اکٹھے جاتے ہو اور واپس کئی گروہ بن کر آتے ہو؟ تم سے پہلے لوگوں کو اسی گروہ بندی نے تباہ کیا! اب میں تم پر ایسے شخص کو مقرر کروں گا جو تم سے بہتر تو نہیں لیکن بھوک پیاس میں تم سے زیادہ صبر مند ہے، چنانچہ حضرت عبد اللہ بن جحش کو آپ ا نے ہم پر امیر مقرر فرمایا اور وہ پہلے شخص تھے جو اسلام میں امیر مقرر کئے گئے،،۔ (الفتح الربانی علی مسند الامام احمد بن حنبل الشیبانی ج:۲۱،ص:۲۶)
تنقیح وتجزیہ
حالات کے مذکورہ بالا نقشے سے حسب ذیل باتیں معلوم ہوئیں:
۱:…مکہ میں کسی جنگی کارروائی کا نہ ہونا اس بنا پر ہے کہ اللہ کی طرف سے اجازت نہیں تھی۔
۲:…ہجرت کے بعد ابتداء ہی میں اجازت جنگ کی آیت نازل ہوگئی تھی۔
۳:…اذن جنگ کی آیت نازل ہوتے ہی آپ انے جنگی کارروائیوں کا آغاز فرمادیا تھا۔
۴:…حضرت عبد اللہ بن جحش کا فوجی دستہ جنگی سلسلہ کا پہلا اقدام نہیں تھا، بلکہ تقریباً ایک سال پہلے سے جنگی کارروائیوں کا سلسلہ قائم تھا، اس سے پہلے کئی فوجی دستے بھیجے گئے، اور ودان، ابواء، بواط، عثیرہ اور سفوان کی فوجی مہموں میں آپ انے بنفس نفیس قیادت فرمائی۔
۵:…ہر مہم جنگ ہی کے لئے روانہ کی جاتی تھی اور ضروری نہیں کہ ہر فوجی کارروائی میں جنگ پیش بھی آئے۔
۶:…مال غنیمت کے بارے میں ابھی کوئی حکم نازل نہیں ہوا تھا، اس لئے دوسرے بعض معاملات کی طرح اس بارے میں بھی ابھی تک عرب کے رواج پر عمل جاری تھا۔
۷:…حضرت سعد بن ابی وقاص کی ایک مہم ذوالقعدہ میں روانہ کی گئی اور دوسری مہم بنو کنانہ کی طرف بھیجی گئی، یہ مہم بھی رجب کے مہینے میں روانہ ہوئی، اور یہ دونوں جنگی کارروائیاں دو حرام کے مہینوں ہی میں عمل میں آئیں، یعنی ذوالقعدہ اور رجب میں ۔
۸:…حرام کے مہینے میں جنگی کارروائیوں کے لئے فوجی دستے بھیجنے کا مطلب یہ ہے کہ حرام کے مہینوں میں جنگی اقدام جائز ہے، کیونکہ آپ ا کی یہ تمام کارروائیاں دفاعی اقدامات کے دائرے میں آتی ہیں، جہاں ان مہینوں کی حرمت کا سوال ختم ہوجاتا ہے۔
۹:…حرام کے مہینے میں جنگ والا اعتراض بنو کنانہ والی مہم میں پیدا ہوا ہے، جس کا معقول جواب دینے کے باوجود بعض صحابہ کرام کے دل میں خلجان پیدا ہوا، جس کی تشفی کے لئے وہ نبی ا کی خدمت میں واپس آئے ہیں۔
۱۰:…آپ انے ان کی اس طرح واپسی پر سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا، گویا اس خلجان کا پیدا ہونا غلط تھا ،جو اختلاف کا سبب بنا۔
۱۱:…بنو کنانہ والی مہم میں جب اختلاف کی وجہ سے صحابہ کرام دو حصوں میں بٹ گئے تو اگلی مہم پر حضرت عبد اللہ بن جحش کو امیر مقرر کیا گیا۔
۱۲:…گویا حضرت عبد اللہ بن جحش سے پہلے جو فوجی مہم روانہ کی جاتی، وہ ایک عام گروپ کی شکل میں روانہ کی جاتی تھی، اس پر کوئی باقاعدہ امیر مقرر نہیں کیا جاتا تھا، جیساکہ عام اجتماعی کاموں میں آج بھی عموماً ایسا ہی ہوتا ہے اور علامتی طور پر ہر مہم کسی معروف شخصیت کے نام سے متعارف ہوتی تھی، جیسے سریہ حمزہ، سریہ سعد بن ابی وقاص اور پرچم ہر سریہ کا شعار تھا۔
۱۳:…امیر اول کے طور پر نبی ا کی طرف سے حضرت عبد اللہ بن جحش کا انتخاب حضرت عبد اللہ بن جحش پر آپ ا کے غیر معمولی اعتماد کی دلیل ہے، خصوصاً جب کہ اس فوجی دستے میں حضرت سعد بن ابی وقاص اور ابو حذیفہ بن عتبہ جیسے جلیل القدر صحابہ کرام بھی شریک ہیں۔
۱۴:…آپ ا نے فرمایا:
”لابعثن علیکم رجلاً لیس بخیرکم ،اصبرکم علی الجوع والعطش،،۔ (مسند احمد)
یعنی میں تم میں ایسا آدمی مقررکروں گا جو تم میں سے بہتر تو نہیں ہے لیکن بھوک اور پیاس میں صبر مند ہے ۔یعنی سب اس ایک کی اطاعت میں ہوں گے تاکہ اختلاف وافتراق کی گنجائش ہی ختم ہوجائے، تم سے بہتر نہیں ہے یعنی امیر لشکر کا افضل ہونا شرط نہیں، بلکہ قابل اعتماد ہونا شرط ہے ۔اور تدبیر جنگ میں قابلیت ہونا ضروری ہے ”بھوک پیاس میں زیادہ صبر مند ہے،، یعنی حریص اور لالچی نہیں، ورنہ جنگ کے نتائج الٹ سکتے ہیں۔
۱۵:… آخری صفت نے اس لزام کی پیشگی تردید کردی جو منافقین کی طرف سے لگایا جانا تھا کہ حضرت عبد اللہ بن جحش کی یہ کاروائی لوٹ ہے، جو ناجائز ہے۔ کیونکہ جو شخص نہ حریص ہے اور نہ لالچی، اس کا لوٹ مارسے کیا تعلق؟
۱۶:…اجازت جنگ کی آیت نازل ہونے کے بعد نبی ا کا کسی فوجی دستے کو روانہ فرمانا درحقیقت اسے جنگ کے لئے مامور کرنا ہی ہے۔
۱۷:…صرف وہ اس سے مستثنی ہوگا جس کو روانہ فرماتے وقت آپ باقاعدہ یہ ہدایت فرمائیں کہ تمہیں جنگ نہیں کرنی ہوگی، جیسے کہ غزوہ ٴ خندق میں آپ انے حضرت حذیفہ کو کفار کے لشکر میں بھیجا اور ہدایت فرمائی:”فانظر ما یفعلون ولاتحدث شیئاً حتی تأتینا،، ۔
یہ دیکھ کے آؤ کہ وہ کیا کر رہے ہیں اور دیکھنا واپس ہمارے پاس آنے تک کوئی نئی بات عمل میں نہ لانا۔ حضرت حذیفہ فرماتے ہیں: اگر نبی ا نے مجھے یہ ہدایت نہ فرمائی ہوتی تو وہ میرے تیر کی زد میں تھا، میں چاہتا تو اسے قتل کرڈالتا۔ (الفتح الربانی علی مسند احمد بن حنبل الشیبانی)
یعنی آپ ا حضرت حذیفہ کو اگر کوئی کارروائی کرنے سے روک نہ دیتے تو حضرت حذیفہ ”اذن للذین یقاتلون،، کی اجازت عام کی رو سے کارروائی ضرور کرتے۔
۱۸:…ایک اور بات پیش نظر رہے کہ اجازت جنگ کی آیت میں ”الذین یقاتلون،، سے مراد مہاجرین ہیں، کیونکہ کفار کا اصل ہدف وہی تھے، یہی وجہ ہے کہ غزوہٴ بدر میں انصار کو ”الذین آووا ونصروا،، کی صفت سے موسوم فرمایا گیا، اور یہی وجہ ہے کہ آپ ان فوجی دستوں میں صرف مہاجرین کو بھیجتے تھے۔
۱۹…”الذین یقاتلون،، کی تعبیر سے یہ بات معلوم ہوئی کہ مہاجرین صحابہ کے ان فوجی دستوں کی پوزیشن دفاعی تھی، کیونکہ ان کے خلاف جنگ جاری تھی۔
۲۰:…بنو کنانہ کی مہم میں حرام کے مہینے میں قتال والا اعتراض سامنے آنے کے باوجود آپ حضرت عبد اللہ بن جحش کے فوجی دستے کو حرام کے مہینے رجب ہی میں روانہ فرمارہے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ اعتراض لائق توجہ نہیں۔ (جاری ہے)
اشاعت ۲۰۱۰ ماہنامہ بینات , رجب المرجب:۱۴۳۱ھ - جولائی: ۲۰۱۰ء, جلد 73, شمارہ 7

    پچھلا مضمون: مسجد خانقاہ سراجیہ میں منعقدہ روح پرور تقریب کی روئیداد !
Flag Counter