Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی رجب المرجب ۱۴۳۱ھ - جولائی ۲۰۱۰ء

ہ رسالہ

6 - 13
مسجد خانقاہ سراجیہ میں منعقدہ روح پرور تقریب کی روئیداد !
مسجد خانقاہ سراجیہ میں منعقدہ روح پرور تقریب کی روئیداد

مورخہ ۷/مئی ۲۰۱۰ء بروز جمعة المبارک بعد از نماز ظہر حضرت مولانا خواجہ خان محمد صاحب کے وصال کے بعد مسجد خانقاہ سراجیہ میں نہایت سادگی سے ایک پُروقار مجلس منعقد ہوئی، جس میں حضرت کے پانچوں خلفاء حضرت حاجی عبد الرشید صاحب رحیم یارخان، حضرت مولانا نذر الرحمن صاحب رائیونڈ، حضرت مولانا عبد الغفور صاحب ٹیکسلا، حضرت مولانا گل حبیب صاحب بلوچستان، حضرت مولانا محب اللہ صاحب لورالائی اور حضرت رحمہ اللہ کے خاندان کے تمام حضرات اورخانقاہ سراجیہ میں موجود سب مریدین اور متوسلین شریک تھے۔
اس مجلس میں پانچوں خلفاء نے متفقہ طور پر حضرت مولانا عزیز احمد صاحب اور حضرت مولانا خلیل احمد صاحب کو سلسلہ کی اجازتِ خلافت اور نسبت باطنیہ سے نوازا اور دستار خلافت عنایت کی۔اس کے بعد حضرت مولانا خلیل احمد صاحب کی مسند نشینی کا اعلان کیاگیا، اور حضرت مولانا عزیز احمد صاحب کو مجلس ختم نبوت، جمعیت علماء اسلام، خانقاہ سراجیہ بنگلہ دیش، انگلینڈ وغیرہ بیرون ممالک سے متعلقہ امور کا ذمہ دار مقرر کیا گیا۔ اس مجلس سے قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب نے روح پرور بیان کیا، پھر حاجی عبد الرشید صاحب نے خطاب کیا اور دعا ہوئی۔ اس کے بعد تمام حاضرین نے حضرت مولانا خلیل احمدصاحب کے ہاتھ پر تجدید بیعت کی۔
قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب دامت برکاتہم کا بیان
حضرات علماء کرام! قبلہ حضرت صاحب رحمہ اللہ کے تمام خلفاء اور متوسلین ومعتقدین!
حضرت صاحب رحمہ اللہ کا وجود مسعود، ہمارے لئے ایک بہت بڑا گھنا سایہ تھا، آج وہ سایہ ہمارے سروں سے اٹھ چکا ہے، تاریخ میں انبیاء علیہم السلام کی سرپرستی اور قیادت سے امت محروم ہوئی ہے، اور یہ محرومی ہرزمانے میں امت کا بھی بہت بڑا خسارہ تصور کیا جاتا تھا، آج حضرت رحمہ اللہ کی رحلت ایک بار پھر پوری امت کے لئے ایک بہت بڑا خسارہ ہے، پوری امت کے لئے ایک بہت بڑا دھچکا ہے اور اس کے سوا کر بھی کیا سکتے ہیں کہ اپنے رب سے صبر کی دعا کریں، اللہ سے تسلی مانگیں، اللہ رب العزت کے علاوہ ان غمزدہ دلوں کو اور کوئی تسلی نہیں دے سکتا۔
حضرت کی جدائی سے ان کے متعلقین ومتوسلین کو جو صدمہ پہنچا ہے، اس صدمے کا ازالہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت ومہربانی سے ہی کرسکتا ہے۔ حضرت کا یہ سانحہ ٴ ارتحال صرف اس خانقاہ کا نقصان نہیں ہے،صرف حضرت کی اولاد کا نقصان نہیں ہے، بلکہ یہ پوری امت کا نقصان ہے اور کل کے جنازے کے اجتماع میں لوگوں کا یہ ہجوم اور تاحد نظر انسانوں کے سرہی سر، یہ خالصتاً حضرت سے عقیدت اور روحانی تعلق ہی تھا کہ دنیا میں اس تعلق سے بڑھ کر اور کوئی تعلق نہیں ہے، حضرت نے دنیا کی یہ محبت کیسے حاصل کی؟ یہ قبولیت کیسے حاصل کی؟ یہ جہاں جہاں کی محبتیں اور روحانیت اور یہ تمام عالم کا غمگین ہونا، آخر یہ کیا چیز تھی؟ یہ خاموش مبلغ جنہوں نے کبھی کسی جلسے میں خطاب نہیں کیا، کبھی پند ونصیحت کی محفلیں نہیں جمائیں، اس کے باوجود ان کا یہ خاموش پیغام کس طرح لوگوں کے دلوں کے اندر جا گزیں ہوا، حضرت نے اپنے احساسات کو کس طرح لوگوں کے دلوں کی گہرائی تک پہنچایا، یقینا یہ اللہ کی دین تھی، اللہ نے آپ کے اندر جو صلاحیت پیدا کی، یہ اسی کا اثر تھا اور آج دنیا جو غم میں ڈوبی ہوئی نظر آرہی ہے، یہ حضرت کا اخلاص تھا جو آپ نے اپنے نصب العین، اپنے مشن اور اپنے کاز کے ساتھ ثابت کرکے دکھادیا اور حضرت نے کس طرح لوگوں کو کھینچ کھینچ کر اپنے رب کے ساتھ ملایا، اپنے رب کے ساتھ مخلوق کا رشتہ جوڑنے میں حضرت کا کتنا عظیم کردار ہے، جو آج ہرشخص اپنی آنکھ سے دیکھ سکتا ہے۔
میرے محترم دوستو! ہمارا عقیدہ اور ایمان ہے کہ دنیا میں جو بھی آیا، جانے کے لئے آیا، ہمیشہ ہمیشہ یہاں رہنے کے لئے کوئی نہیں آیا۔ کتنے کتنے عظیم لوگ دنیا میں آتے رہے اور جاتے رہے اور اکابر کی ساری زندگی کی تعلیم وتربیت جو انہوں نے ہمیں دی ہے آج اس پر ہماری نظر نہیں رہی کہ انہوں نے ہمیں کیا سمجھایا۔ اللہ رب العزت نے صحابہ کرام  کی جماعت کو جوتعلیم دی وہ ہم سب کے لئے تعلیم ہے، اور ہمارے اکابر نے بھی ہمیں وہی تعلیم دی ہے۔
رسول اللہ ااور تمام انبیاء کرام علیہم السلام اپنی اپنی امتوں کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نہیں رہے۔ موت کا یہ پردہ بہرحال درمیان میں حائل ہوگیا اور ایک جدائی درمیان میں آئی، اگر ہم اپنے اکابر کو زندہ رکھناچاہتے ہیں اور ان کی عقیدت کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں تو پھر جس نصب العین کے ساتھ حضرت رحمہ اللہ وابستہ تھے تو ہم بھی اسی نصب العین کے ساتھ وابستہ رہیں۔
اب اگلی بات یہ ہے کہ ہم حضرت رحمہ اللہ کی روح کا تصور کریں کہ حضرت ہمارے اوپر بہت بڑا بوجھ چھوڑ گئے ہیں کہ جس چیز پر انہوں نے ہمیں کھڑا کیا ہے، یہ ہمارا امتحان ہے کہ ہم اس چیز پر قائم رہتے ہیں یا نہیں۔ اب ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ ہم اس سلسلہ کو آگے چلائیں، اس کو قائم دائم رکھیں، جب بھی اس قسم کے اکابر دنیا سے جاتے ہیں تو پھر پوری جماعت میں یہ فکر دامن گیر ہوجاتی ہے کہ ان کا جانشین کون ہوگا؟ اس کام کو کون سنبھالے گا؟ اس نظم کو کون سنبھالے گا؟قرآن کریم میں ارشاد ہے:
”واذ ابتلی ابراہیم ربہ بکلمات فاتمہن، قال انی جاعلک للناس اماماً، قال ومن ذریتی، قال لاینال عہدی الظالمین“۔ (بقرہ:۱۲۴)
قرآن کریم کی اس آیت میں ایک زریں اصول بیان کیا گیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا امتحان لیا اور وہ اس امتحان میں پورے اترے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو عظیم الشان مرتبہ امامت عنایت فرمایا اور فرمایا: ”انی جاعلک للناس اماماً“ تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بتقاضہ ٴ بشریت فرمایا:”ومن ذریتی“اللہ تعالی نے فرمایاٰ”لاینال عہدی الظالمین“ نااہل ہمارے عہد کے قریب بھی نہیں آسکتے۔
ہمارے اکابر نے اپنی زندگی میں اسی اصول پر عمل کیا، محض خاندانی خلافت پر عمل نہیں کیا، اگر صلاحیت اور اہلیت ہے تو ٹھیک ہے ،ورنہ نہیں۔ اور آج ہمیں خوشی ہے اور ہمیں فخر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت رحمہ اللہ کو اولاد دی، الحمد للہ! باصلاحیت دی اور ہم یہ دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس خانقاہ کے فیض کو اسی خاندان میں جاری وساری رکھے، ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں گے اور ہمیں خوشی ہوگی۔
ہمارے صاحبزادہ عزیز احمد صاحب، صاحبزادہ خلیل احمد صاحب، صاحبزادہ رشید احمد صاحب، صاحبزادہ سعید احمد صاحب، صاحبزادہ نجیب احمد صاحب اور جہاں تک میرا ذاتی تعلق ہے وہ یہ ہے کہ ایک باپ کو اپنی اولاد کے لئے جو فکر دامن گیر ہوتی ہے، میں نے وہی فکر مندی اپنے اندر پائی ہے اور میں خود کو اس خاندان کا ایک فرد تصور کرتا ہوں۔ میرے پاس کسی نے موبائل پر میسج بھیجا کہ آپ دوسری مرتبہ یتیم ہوگئے ہیں، اس نے یہ ٹھیک سمجھا اور مجھے یہ تعلق میرے والد محترم رحمہ اللہ کی طرف سے منتقل ہوا۔ ہم جس محاذ پر کام کررہے ہیں، یہ طوفانوں کا میدان ہے، میں ہر جگہ یہ گواہی دوں گا کہ جب بھی ہماری طرف کوئی طوفان آنے لگا تو حضرت رحمہ اللہ اس طوفان کے سامنے پہاڑ تھے، تو پھر ہم کیوں نہ کہیں کہ ہم نے اتنی بڑی متاع کھودی ہے ، وہ میرے لئے اتنی بڑی متاع تھے، میں اتنی بڑی متاع سے محروم ہوا ہوں، لیکن بہرحال ہمارے صاحبزادگان کو اللہ تعالیٰ سلامت رکھے، اللہ تعالیٰ نے ہمارے حضرت کو ایسی طاقت دی تھی کہ حضرت نے اس صحراء میں جو دنیاوالوں کی محبت اور فریفتگی جمع کر رکھی ہے ،اس کی نظیر ملنا مشکل ہے۔
بہرحال !اب یہ آپ کا امتحان ہے اور آپ کے رویوں پر دار ومدار ہے کہ یہ حضرات خوب سے خوب حالت پر برقرار رہیں، پہلے اپنے گھر میں، بھائیوں میں اور خاندان کے لوگ ایک دوسرے کا سہارا بنیں، ایک دوسرے سے محبت کا تعلق قائم رکھیں، پورے ماحول کو سنبھالیں، کل میں ایک کتاب کا مطالعہ کررہا تھا، جس میں حضرت عبد اللہ بن مسعود کا اثر منقول تھا۔ حدیث تو لمبی ہے، اس کا ایک ٹکڑا ہے ،اس نے مجھے بہت متاثر کیا، فرمایا: ”ما تکرہون فی الجماعة خیرکم مما تحبون فی الفرقة“ جماعت کے اندر کوئی ناپسندیدہ چیز اکیلے ہونے کی حالت میں پسندیدہ چیز سے بہتر ہوتی ہے“ یعنی ساری خیر جماعت کے ساتھ وابستہ رہنے کی صورت میں ہی ہے۔
میں آج جب ظہر کی نماز میں حاضر ہوا تو مجھے بتایا گیا کہ حضرت کے خلفاء کے مشورہ سے خصوصاً حضرت کے بڑے خلیفہ حاجی عبد الرشید صاحب جو حضرت کے ہمعصر بھی ہیں اور حضرت کے شانہ بشانہ بھی رہے ہیں اور حضرت  کے دوست بھی ہیں اور انتہائی قریبی خلفاء میں سے ہیں اور میں جب ان کو دیکھتا تھا تو مجھے خیال ہوتا تھا کہ وہ حضرت کے مزاج کو خوب سمجھتے ہیں، حضرت خود خاموش رہتے تھے اور اگر کسی کو نصیحت کرنی ہوتی تو حاجی صاحب نصیحت کرتے تھے اور اگر کسی کوڈانٹنا ہوتا تو بھی یہی ڈانٹتے تھے، اور یہ سب ہماری خوش قسمتی ہے، اس وقت اس ماحول میں ہمارے پاس ایک ایسے رہنما موجود ہیں جو حضرت کے مزاج کو بھی جانتے ہیں، خاندان کو بھی جانتے ہیں اور گھر کے ماحول کو بھی جانتے ہیں، اندر کی اچھی بھلی صورت حال کو بھی جانتے ہیں اور سب کاموں سے بڑھ کر اس بات پر مجھے خوشی ہوئی ہے کہ خانقاہ کی ذمہ داری اور حضرت کی خلافت کے لئے اور حضرت کے اس سلسلے کو آگے بڑھانے کے لئے حضرات کی مشاورت کے ساتھ صاحبزادہ حضرت مولانا خلیل احمد صاحب کو منتخب کیا ہے۔اور ختم نبوت کا کام اور خانقاہ سراجیہ ڈھاکہ بنگلہ :یش اور انگلینڈ وغیرہ بیرون ممالک سے متعلقہ معاملات صاحبزادہ عزیز احمد صاحب کے سپرد کئے گئے ہیں کہ وہ ان تمام معاملات کو آگے بڑھائیں گے۔
میں نے یہ پہلے عرض کیا کہ تمام معاملات کا فیصلہ اللہ ہی کی طرف سے ہوتا ہے۔ پہلے حضرت صاحب رحمہ اللہ ان کاموں کو بخوبی انجام دیتے رہے اور آج اتفاق رائے اور دعا کے ساتھ اس معاملے کو طے کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے بھائی خلیل احمد صاحب کو اس پر استقامت نصیب فرمائے اور خلافت کے بعد اس کام کو آسان فرمائے اور ہمیشہ کے لئے مرجع خلائق بنائے اور یہ تب ہی ہوسکتا ہے کہ گھر کے اندر سے گرم ہوائیں باہر نہ جائیں ۔ گھر سے ٹھنڈی ہوائیں باہر جائیں۔ محبت کی ہوائیں چلیں، اتحاد کی ہوائیں چلیں اور اللہ تعالیٰ ان سب کو آباد رکھیں اور قائم ودائم رکھیں اور میرے خیال میں آپ سب کی رائے میرے ساتھ ہوگی۔
سب کی طرف سے تائیدی جواب بلند ہوا: ان شاء اللہ اس کے بعد حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب اور حضرت کے خلیفہ حاجی عبد الرشید صاحب نے اپنے دست مبارک سے حضرات کی دستار بندی کرائی۔
اشاعت ۲۰۱۰ ماہنامہ بینات , رجب المرجب:۱۴۳۱ھ - جولائی: ۲۰۱۰ء, جلد 73, شمارہ 7

    پچھلا مضمون: تحدید پس نسل کامعروضی وفقہی منظر !
Flag Counter