Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی رجب المرجب ۱۴۳۱ھ - جولائی ۲۰۱۰ء

ہ رسالہ

11 - 13
افاداتِ حمادیہ !
افادات ِ حمّادیہ

سرزمین سندھ میں حضرت مولانا حماد اللہ صاحب ہالیجوی ان اکابرِ امت میں سے تھے کہ ان کے کمالات کو یا تو کسی نے صحیح طور پر پہچانا نہیں یا پھر صحیح فائدہ نہیں اٹھایا ۔وہ پیر ومرشد تھے، لیکن متبعِ سنت، وہ حکیم بھی تھے، لیکن نہایت حاذق، وہ عالم بھی تھے، لیکن نہایت محقق، وہ زاہد تھے جن کے زہد کی نظیر میں نے اپنی زندگی میں نہ دیکھی، نہ سنی، وہ عارف تھے، تصوف کے رموز واسرار اور ان کے لطائف واذکار کے دانائے راز تھے، ان کی یہ خصوصیات تو ایک مقالے کی محتاج ہیں، دوچار ملاقاتوں میں ان کی زندگی کے ایسے گوشے نظر آئے کہ حیرت ہوئی، ان مختصر مجالس اور مختصر قیام میں چند باتیں سنی تھیں، جن کی حلاوت ولذت سے اب تک سرشار ہوں، ان افادات کو اپنی یادداشت میں کچھ عرصہ کے بعد قلم بند کرلیا تھا، جی چاہا کہ ”بینات“ کے ناظرین اور اہل علم حضرات کو بھی اس لذت میں شریک کروں، کاش ان کے علمی ملفوظات اور مجلسی جواہرات قلم بند ہوتے تو آج تصوف کے علمی خزانے میں بیش بہا جواہرات کا اضافہ ہوتا:
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
فائدہ:۱…
”اولٰئک الذین انعم الله علیہم من النبیین والصدیقین والشہداء والصالحین“ الآیة:
”الانبیاء: ہم الذین جعل الله سبحانہ وتعالیٰ قلوبہم موارد الوحی الالٰہی، ینزل علیہا الوحی، والصدیقون: ہم الذین جعل الله قلوبہم ادعیة للوحی فتحفظ ا لوحی، والشہداء: ہم الذین یغدون بمہجہم واموالہم لحفظ الوحی، والصالحون: ہم الذین یعملون بمقتضی الوحی الالٰہی فاحق ہؤلاء بالعمل الذین اختارہم منازل وموارد لوحیہ، واعرفہم بحقائقہ، ثم الذین قلوبہم اوعیة بطبیعتہا لحفظہ فلایضیع الوحی الالٰہی ہناک ابداً، ثم الشہداء، ثم الصالحون، ہذا ما استفدتہ من العارف السندی مولانا الشیخ حماد الله السندی“۔
ترجمہ:…”ارشاد خداوندی ہے: جو حکم مانے اللہ کا اور اس کے رسول کا“۔ پس یہ لوگ ان کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ کا انعام ہوا، یعنی نبی، صدیق، شہید اور صالحین، انبیاء علیہم السلام وہ حضرات ہیں جن کے قلوب کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے وحی الٰہی کا محل بنایا کہ ان پر وحی نازل ہوتی ہے۔
صدیق: وہ حضرات ہیں جن کے قلوب کو حق جل شانہ نے خازن وحی بنایا، وہ وحی کو محفوظ کرتے ہیں۔
شہید: وہ حضرات ہیں جو حریم وحی کی پاسبانی کے لئے جان ومال قربان کرتے ہیں۔
صالحین: وہ حضرات ہیں جو منشاء وحی کی تعمیل کے لئے ہر آن حاضر رہتے ہیں، پس جن حضرات (انبیاء کرام علیہم الصلاة والسلام) کو اللہ پاک نے اپنی وحی کا محل ومورد بنانے کے لئے منتخب فرمایا، وہ وحی کے حقائق ومعارف کے علم اور اس کی تعمیل میں سب سے آگے ہیں، ان کے نقش قدم پر وہ حضرات ہیں جو فطرتاً خازنِ وحی ہیں، ان حضرات کے ہوتے وحی الٰہی کے (علماً یا عملاً) ضائع ہوجانے کا احتمال نہیں، ان کے بعد شہداء کا ،پھر صالحین کا درجہ ہے“۔
یہ تو عارف سندھی مولانا حماد اللہ کا افادہ ہے۔اور شاہ عبد العزیز دہلوی (نور اللہ مرقدہ) فتح العزیز میں فرماتے ہیں:
”ویقول الشاہ عبد العزیز الحجة الدہلوی فی فتح العزیز: النبی من تأثر بنور القدس الالٰہی من جہة القوة النظریة العلمیة فیتجلی لہ الاشیاء وحقائقہا من غیر ان یقع فیہا اشتباہ، ومن جہة القوة العملیة بحیث تحصل لہ ملکة تصدر منہا الاعمال الصالحة بغایة المحبة والرضاء وتنفر من اعمال الشر بتبیعتہ ثم اذا تم کمال قواہ البدنیة واستوفی عقلہ التجربی ونضج یبعث الی ہدایة الخلق ویؤید بالمعجزات الالٰہیة وبالآیات العقلیة، ثم بین تلک الآیات العقلیة من اخلاقہ الکریمة، وعلومہ الصادقة، والبیان الواضح، والحجة الواضحة، وتأثر الخلق بانوار صحبتہ وما الی ذالک، وہذہ الآیات یستدل بہا اہل الفضل والکمال من الخواص کما ان المعجزات یستدل بہا العامة۔
ترجمہ:…”نبی وہ ہوتا ہے جس کی قوتِ نظریہ اور قوتِ عملیہ دونوں قدس الٰہی کے نور سے منور ہوں، چنانچہ اس کی قوت نظریہ کے اعتبار سے ان کے سامنے تمام اشیاء کے اصل حقائق روشن ہوجاتے ہیں، اور ان میں کسی قسم کا اشتباہ نہیں رہتا اور قوتِ عملیہ کے اعتبار سے اسے ایسا فطری ملکہ حاصل ہوتا ہے جس کی بنا پر وہ کمالِ محبت ورضا کے ساتھ اعمال صالحہ پر قادر ہوتا ہے اور برے اعمال سے اسے طبعاً نفرت ہوتی ہے، پھر جب اس کی بدنی قوتیں پایہ ٴ تکمیل کو پہنچ جاتی ہیں اور عقل تجربی پوری طرح کامل وپختہ ہوجاتی ہے تو اسے مخلوق کو ہدایت کے لئے کھڑا کیا جاتا ہے اور خدائی معجزات اور عقلی دلائل وآیات اس کی پشت پر ہوتے ہیں ۔ اس کے بعد شاہ صاحب نے دلائل عقلیہ کی تفصیل بیان کی ہے، یعنی نبی کے اخلاق کریمہ، علوم صادقہ، بیان واضح، حجة قاطعہ، مخلوق کا اس کی صحبت سے اثر پذیر ہونا وغیرہ، خواص اہل فضل وکمال ان آیات سے نبی کی نبوت پر اسی طرح استدلال کرتے ہیں جس طرح کہ عوام، حسی معجزات سے“۔
”والصدیق: من یقارب النبی فی قوتہ النظریة دون العملیة والشہید: من یثلج صدرہ باجابة النبی ویشاہد قلبہ عیاناً ذلک بحیث یستعد لکل تضحیة من نفسہ ومالہ بکل سہولة فہو یشبہ النبی فی قوتہ العملیة“۔
ترجمہ:۔”صدیق: وہ ہوتا ہے جو قوت نظریہ میں نبی کے ہم رنگ ہو، مگر قوت عملیہ میں نہیں۔
شہید: وہ ہوتا ہے جو نبی کی ہربات ثلج صدر (قلبی اطمینان) سے قبول کرتا ہے اور اس کا قلب آنکھوں سے اس کا مشاہدہ کرتا ہے۔ اور اسی بنا پر وہ اپنی پوری قوت کے ساتھ ہرقسم کی جانی ومالی قربانی کے لئے ہمہ وقت تیار رہتا ہے، یہ گویا قوت عملیہ میں نبی کے ہم رنگ ہوتا ہے“۔
”والصالح: من لم یبلغ فی قوتہ الیہ غیر انہ یتابع النبی فی حیاتہ من اجتناب المعاصی والاتصاف بالعقائد الطاہرة وما الی ذلک۔ ویطلق الولی فی العرف علیہ وان کان یشمل ہؤلاء الثلاثة والقدر المشترک بین الاربعة بان الله یحبہم ویضع لہم القبول فی الارض ویتکفل (رزقہم) ومعاشہم بامتیاز من عامة الناس ویکون ہمتہم عالیةً لایرضون بحطام الدنیا وتکون قلوبہم مستنیرةً ینجلی لہم الاشیاء ما تقصر عنہا عقول الناس انتہی ملخصاً“۔
ترجمہ:…”صالح:وہ ہوتا ہے جو اپنی دونوں قوتوں میں نبی سے ہم رنگی تک نہیں پہنچ پاتا، تاہم وہ اپنی زندگی کے تمام لمحات میں نبی کے نقش قدم پر چلتا ہے، عقائد واخلاق میں بھی، اعمال وعبادات میں بھی، اور گناہوں سے بچنے میں بھی، عرف عام میں اسی کو ”ولی“ کہتے ہیں، اگرچہ ”ولی“ کا مفہوم پہلی تین قسموں کو بھی شامل ہے اور ان چاروں قسم کے حضرات کے درمیان قدر مشترک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے محبت فرماتا ہے، ان کی مقبولیت زمین میں پھیلا دی جاتی ہے، عام لوگوں سے کچھ نرالے انداز میں ان کی ہمتیں بلند ہوتی ہیں، وہ دنیا کی متاع حقیر کو خاطر میں نہیں لاتے، ان کے قلوب روشن ہوتے ہیں، ان کے سامنے وہ حقائق روشن ہوتے ہیں جن سے عام انسانی عقلیں قاصر رہتی ہیں، اھ ملخصاً“۔
یہاں حجة الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی کی تحقیق بھی پیش نظر رہے تو مناسب ہے ،وہ فرماتے ہیں:
”اہل فہم جانتے ہیں کہ نبوت کمالاتِ علمی میں سے ہے، کمالات ِ عملی سے نہیں، الغرض کمالاتِ ذوی العقول کل دو کمالوں میں منحصر ہیں، ایک کمال علمی، دوسرا کمالِ عملی، اور بنائے مدح کل انہیں دوباتوں پر ہے، چنانچہ کلام اللہ میں چار فرقوں کی تعریف کرتے ہیں: نبیین اور صدیقین اور شہداء اور صالحین، جن میں سے انبیاء علیہم السلام کو منبع العلوم اور فاعل اور صدیقین کو مجمع العلوم اور قابل سمجھئے ،اور شہداء کو منبع العمل اور فاعل اور صالحین کو مجمع العمل اور قابل خیال فرمایئے…“۔ (تحذیر الناس ص:۵)
اس کے بعد حضرت نے تفصیل سے اس متن کی شرح کی ہے، یہ پوری بحث دلچسپ اور قابل مطالعہ ہے۔
فائدہ،۲: حسنات الابرار سیئات المقربین:
”الابرار:ہم الذین یعملون الصالحات ابتغاءً لجنتہ ونعیمہا وما اعد الله سبحانہ لہم من الجنة الدائمة“۔
ترجمہ:…”ابرار: وہ حضرات ہیں جو جنت اور نعمائے جنت کے لئے اعمال صالحہ کرتے ہیں، تاکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کے لئے جو پائیدار نعمتیں اور دائمی جنت تیار کر رکھی ہے، اسے حاصل کر سکیں“۔
”والمقربون: ہم الذین یریدون وجہہ تعالیٰ وذاتہ العلیا، بحیث فنیت شہواتہم واراداتہم من دون کبریائہ، فوصلوا الی درجة المحبة الذاتیة، والابرار بقوا فی درجة المحبة الصفاتیة، ولم یرتقوا منہا، فکأنہم یذکرون ویحمدونہ حصولاً لتلک النعماء الالٰہیہ۔کمثل رجل لہ ابنان :ابن، یخدم اباہ ویعطف علیہ ویبرہ نظراً الی حصول ما وعدہ ابوہ من اعطاء صلة ووراثة، فیعلم انہ یستحقہ اذابربہ ویحرم اذا عقہ ،فہذا اذا حصل لہ مرادہ فترعطفہ وبرہ او ینتہی او اذا یئس منہ وتیقن حرمانہ لامر ینتہی عاطفتہ، وابن: یخدم اباہ محبةً مع شخصیتہ وذاتہ دون ان یخطر بقلبہ ہذہ الاغراض، فان برہ وعطفہ لاینتہی ابداً سواء حصل لہ من خیر او لم یحصل، فالاول فی درجة الابرار والثانی درجة المقربین، فلاشک ان حسنة یقوم بہا الابرار غرضاً لتلک الصلة المادیة سیئة کبیرة فی نظر المقربین، الذین لایریدون الا وجہہ ولایشوب محبتہم شئ من الاغراض المادیة، فاذن علاقة المقربین علاقة مینة قویة لا انفصام لہا، وعلاقة الابرار واہیة علی شرف السقوط عند حصول المقصود، وبالجملة لیس الفرق بین ہؤلاء وہؤلاء الا من جہة النیات دون الاعمال، فہم متفقون فی ظواہرہم، ومختلفون فی بواطنہم، وانما الاعمال بالنیات، وانما لامرئ ما نویٰ“ واللہ اعلم“۔
ترجمہ:…”مقربین: وہ ہیں جو صرف حق تعالیٰ کی ذات اور اس کی رضا چاہتے ہیں، ذات کبریاء کے سامنے ان کی خواہشیں اور ان کے ارادے مٹ چکے ہیں، پس مقربین محبت ذاتیہ کے مقام پر فائز ہوچکے ہیں اور ابرار ابھی محبت صفاتیہ کے مقام میں ہیں، اس سے اوپر نہیں گئے، یہ حضرات اللہ تعالیٰ کا ذکر وحمد نعمتہائے خداوندی کے لئے کرتے ہیں، ان کی مثال ایسی سمجھو ! کہ ایک شخص کے دوبیٹے ہیں، ایک بیٹا باپ کی خدمت بھی کرتا ہے، اس کی ضروریات بھی پوری کرتا ہے، اس کے ساتھ اظہار محبت بھی کرتا ہے مگر اس کا مقصد یہ ہے کہ والد ماجد نے جس انعام یا وراثت کا اس سے وعدہ کررکھا ہے ،اسے حاصل کرسکے، اسے معلوم ہے کہ وہ اپنے باپ کا مطیع وفرمانبردار ہوگا تو انعام ومیراث کا مستحق ہوگا اور عاق ہونے کی صورت میں محروم رہے گا،اس بیٹے کے بارے میں یہ توقع بے جا نہیں کہ جب اس کا مطلب پورا ہوجائے گا تو اس کی خدمت واطاعت میں فتور آجائے گا یا یہ سلسلہ بالکل ہی ختم ہوجائے گا، اسی طرح اگر وہ کسی وقت انعام سے مایوس ہوجائے، اور اسے یقین آجائے کہ وہ بہرحال محروم رہے گا، تب بھی اس کی خدمت گذاری کا سارا سلسلہ یکسر بند ہو جائے گا، اس کے برعکس ایک دوسرا بیٹا ہے جو اپنے باپ کی خدمت اس کی ذات وشخصیت سے محبت کی بنا پر کرتا ہے، کسی اور غرض کا کبھی خیال تک اس کے دل میں نہیں آیا، اس بیٹے کو باپ کی طرف سے کوئی انعام ملے یا نہ ملے مگر اس کی خدمت واطاعت کا سلسلہ کبھی موقوف نہیں ہوگا، پہلا بیٹا ابرار کے درجہ میں ہے اور دوسرا مقربین کے درجہ میں، ظاہر ہے کہ ان مادی انعامات کے لئے ابرار جو نیکیاں کرتے ہیں وہ مقربین کی نظر میں بہت بڑی غلطیاں ہوں گی، وہ تو صرف اس کی رضا چاہتے ہیں، ان کی محبت ان اغراض مادیہ کی آمیزش کو گوارا نہیں کرتی۔
اس سے معلوم ہوا کہ مقربین کا تعلق ایسا مضبوط ہے کہ اس کے ٹوٹنے کا احتمال نہیں اور ”ابرار“ کا تعلق کمزور ہے، ہر دم خطرہ ہے کہ ان کا مقصود برآجائے تو یہ جاتا رہے، خلاصہ ٴ کلام یہ کہ ان میں اور ان میں فرق ہے تو صرف نیت کا ہے، عمل کا نہیں۔ ظاہر دونوں کا ایک جیساہے لیکن باطن الگ الگ۔ ”اعمال کا مدار نیتوں پر ہے اور ہر شخص کو وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی“۔ واللہ اعلم
بہاں مقصود صرف ان دونوں بتوں کے درمیان فرق بتانا ہے اور یہ کہ محبت ِ ذاتیہ کا مرتبہ سب سے عالی ہے، اس مرتبہ میں ارتداد کا خطرہ نہیں مگر صفاتی محبت میں مرنے سے پہلے پہلے زوال کا خطرہ رہتا ہے مگر اس کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ جب تک محبت ِ ذاتیہ کا مرتبہ حاصل نہ ہو سب کچھ بیکار ہے ،بہت سے لوگ بعض بزرگوں کے حالات (مثلاً رابعہ بصریہ کے واقعہ) سے یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ جنت اور نعمتِ الٰہیہ کے حصول کے لئے یا اس کے عذاب اور جہنم سے بچنے کے لئے عبادت کرنا بے کار اور غلط ہے، حالانکہ اگر یہ خیال صحیح ہوتا تو قرآن وحدیث میں جگہ جگہ ثواب وعذاب اور وعدہ وعید کی کیا ضرورت تھی؟ سورہ ٴ انبیاء میں بہت سے انبیاء کرام علیہم السلام کا تذکرہ فرمانے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
”انہم کانوا یسارعون فی الخیرات ویدعوننا رغباً ورہباً ،وکانوا لنا خاشعین“۔ (الانبیاء:۹۰)
ترجمہ:۔”تحقیق یہ حضرات بھلائیوں میں جلدی کرتے تھے، اور رغبت سے اور ڈرسے ہمیں پکارتے تھے اور ہمارے سامنے عاجزی کرنے والے تھے“۔
اس آیت کی تفسیر میں شاہ عبد القادر دہلوی لکھتے ہیں: ”لوگ کہتے ہیں جو کوئی اللہ کو پکارے توقع سے یا ڈر سے محب ِتحقیق نہیں، یہاں سے اس کی غلطی نکلی“۔
حکیم الامت حضرت تھانوی اپنے شیخ امام العارفین مولانا حاجی امداد اللہ مہاجر مکی نور اللہ مرقدہ سے نقل کرتے ہیں کہ وہ فرمایا کرتے تھے: ”بھائی ہم تو احسانی عاشق ہیں“۔
درحقیقت محبت صفاتیہ ہی محبت ذاتیہ کا زینہ ہے، جب تک مقام صفات میں رسوخ نہ ہو، مقام ذات تک رسائی کیسے نصیب ہوسکتی ہے؟ اور ہم نالائقوں کو حق تعالیٰ کی صفات واحسانات کا بھی شعور نہیں، ذاتی محبت کیا کریں گے۔
یہاں یہ بھی یاد رہنا چاہئے کہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام اور ان کے مخلص متبعین مقام ذات کے ساتھ مقام صفات کو بھی جمع کر لیتے ہیں، وہ عمل جنت ہی کے لئے کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے باربار جنت اور نعمائے جنت کی دعائیں کرتے ہیں (جیساکہ احادیث میں بکثرت وارد ہے) مگر جنت ان کو اسلئے مطلوب ہے کہ وہ محبوب حقیقی کی رحمت کا وعدہ ہوچکا ہے،بس جنت خود مطلوب نہیں، بلکہ اس لئے مطلوب ہے کہ رضائے الٰہی کا مظہر ہے، خدانخواستہ وہاں بھی رضائے الٰہی نصیب نہ ہو تو جنت، جنت نہیں، بدترین دوزخ ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اصل مقام حب ذاتی کا ہے، تاہم جنت اور نعمائے جنت سے استغناء نہیں، واللہ اعلم ۔
اشاعت ۲۰۱۰ ماہنامہ بینات , رجب المرجب:۱۴۳۱ھ - جولائی: ۲۰۱۰ء, جلد 73, شمارہ 7

    پچھلا مضمون: حضرت عمر کی حضور سے محبت !
Flag Counter