Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی رجب المرجب ۱۴۳۱ھ - جولائی ۲۰۱۰ء

ہ رسالہ

10 - 13
حضرت عمر کی حضور سے محبت !
حضرت عمر  کی حضورسے محبت

حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنی جاہلیت کے دور میں مسلمانوں کے سخت مخالف تھے ، اور ان کا اسلام لانا اسلام کی عظیم نصرت تھی ․ اور آپ کا اسلام لانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاء کی قبولیت کا نتیجہ تھا،جس میں آپ نے فرمایا :
”اللّٰھم أعز الاسلام بأحب العمرین إلیک : عمرو بن ھشام ۔ ھو ابوجھل ۔ أو عمر بن الخطاب“
ترجمہ: اے اللہ عمرین میں سے جو آپ کو زیادہ محبوب ہے، اس کے ذریعے اسلام کو عزت بخش : عمرو بن ھشام - ابوجھل - یا عمر بن الخطاب “․
اور جب سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ مسلمان ہوئے ،مسلمان اپنے آپ کو طاقتور محسوس کرنے لگے ․ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم ان کو لے کر بیت اللہ میں تشریف لے گئے اور سب نے طواف کیا ، اور کوئی ان کو خوف زدہ نہ کر سکتا تھا ۔ حضرت عمر رضی اللہ نے اپنی جان اور ہر قیمتی چیز کو نبی کریم صلی اللہ ولیہ و سلم پر قربان کر دیا ․ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت کو اپنے نفس کی محبت سے بھی زیادہ ثابت کیا ، جیسا کہ ان کی گفتگو صحیح بخاری میں گزر چکی ہے ۔
اور ان کی اس شدید محبت کا نتیجہ تھا کہ ان کی اکثر رائے وحی کے موافق ہوتی تھی ․ ان کے صاحبزادے حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :
” إن الله جعل الحق علی لسان عمرو قلبہ“․
ترجمہ:۔”بیشک اللہ تعالی نے عمر کی زبان اور دل پر حق کو جاری کیا ہے ۔“
نیز حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ : جب بھی مسلمانوں کو کوئی معاملہ در پیش ہوا اور انہوں نے اس میں اپنی رائے دی ہو اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی اپنی رائے دی ہو تو حضرت عمر کی رائے کے مطابق قرآن اترا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی محبت کے واقعات میں ایک یہ بھی ہے کہ آپ فرماتے ہیں : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے عمرہ ادا کرنے کی اجازت چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے اجازت دے دی اور فرمایا :
”لا تنسنا یا اُخَیّ من دعائک ،،
ترجمہ:۔”میرے پیارے بھائی! مجھے اپنی دعامیں نہیں بھلانا ۔“
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ : یہ ایسی بات ہے کہ اس کے بدلے اگر مجھے پوری دنیا مل جائے تو مجھے اتنی خوشی نہ ہوتی یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ فرمانا : ”یا اُخَیّ “ اے میرے پیارے بھائی ! جتنی خوشی مجھے اس بات سے ہوئی ہے ۔
نیز صحیح حدیث میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ قول وارد ہوا ہے کہ : میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اس حال میں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ایک چٹائی پر تشریف فرماتھے ․ تو میں بیٹھ گیا، آپ ازارباندھے تھے، آپ کے جسم مبارک پر دوسرا کپڑا نہ تھا ، اس چٹائی کے نشانات آپ کے جسم مبارک پر ظاہر تھے ․ دیکھتا کیا ہوں کہ کمرہ میں ایک طرف ایک صاع کے قریب جو کے دانے پڑے ہیں ․ دوسرے کونے میں چمڑا پکانے کے چھلکے ․ ایک کچا چمڑا لٹکا ہوا ، یہ دیکھ کر میری آنکھیں بہہ پڑیں ، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : اے خطاب کے بیٹے ! کیوں روتے ہو ؟میں نے عرض کیا : اے اللہ کے نبی ! میں کیوں نہ رووٴں ، حال یہ ہے کہ اس چٹائی نے آپ کے جسم مبارک پر نشانات بنا دیئے ہیں ․ اور کمرہ میں آپ کی کل پونجی وہ ہے جو مجھے نظر آ رہی ہے ․ ادھر وہ قیصر و کسریٰ ہیں جو باغوں اور نہروں میں زندگی بسر کر رہے ہیں ، اور آپ اللہ کے نبی ہیں اور اس کے برگزیدہ ہیں اور یہ آپ کا پورا خزانہ ہے ! تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : اے خطاب کے بیٹے ! کیا آپ کو یہ پسند نہیں کہ ہمارے لئے تو آخرت ہو اور ان کے لئے دنیا ؟ اور ایک دوسری صحیح حدیث میں یہ الفاظ آئے ہیں : یہ وہ لوگ ہیں جن کو ان کی دنیا کی لذات دنیا میں ہی دے دی گئی ہیں ․
اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی حضورصلی اللہ علیہ و سلم سے محبت کی علامت آپ کے اہل بیت سے ان کی شدید محبت ہے ․ اور یہی تمام صحابہ کرام کی عام عادت مبارک تھی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ اہل بیت رضی اللہ عنہم کو بہت عطیات پیش کرتے تھے ، اور دوسرے لوگوں سے پہلے ان کو دیتے ․ اور حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کو اپنے قریب رکھتے ۔
نیز آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھی اپنے بہت قریب رکھتے ، اور اہم معاملات میں اس وقت تک فیصلہ نہ فرماتے جب تک حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مشورہ نہ فرمالیتے ․ اور ان کا یہ حکیمانہ مقولہ مشہور ہے ” قضیة و لا اباحسن لہا “ ؟ اور ان کا یہ مقولہ : ” لولا علی لہلک عمر“ اگر علی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہو جاتے ۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نہایت محبت اور اخلاص سے انہیں مشورہ دیتے ․ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ بیت المقدس کے سفر پر روانہ ہوئے تو آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مدینہ منورہ میں تمام امور خلافت کا نائب مقرر فرمایا ۔
محترم قاری ! آپ ایسے لوگوں کی طرف توجہ نہ دیں جو تاریخ کو بگاڑتے ہیں ، اور حضرت عمراور دوسرے خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کی صاف ستھری سیرت کو تبدیل کرنے کی کو شش کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خلافت کے آخری دور تک مسلمان ایک جماعت تھے اور کسی مسلمان کے ذہن میں خلافت کے بارے میں کوئی اشکال نہیں تھا ، اور اس بارے میں بھی کوئی اشکال نہیں تھا کہ کون خلافت کا زیادہ حق دار ہے ۔
حضرت علی اور حضرت عمررضی اللہ عنہما کے درمیان خصوصی اخوّت اور محبت کے لئے یہی ذکر کردینا کافی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے اپنی گوشہٴ جگر صاحبزادی حضرت ام کلثوم کا نکاح کردیا تھا ، جو کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی صاحبزادی تھیں ۔
نیز اس اخوّت اور محبت کے لئے یہ بھی ذکر کردینا کافی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک صاحبزادہ کا نام عمر، اور ایک کا ابوبکر اور ایک کا عثمان رکھا ، اور انسان اپنی اولاد کے لئے ان ناموں کاانتخاب کرتا ہے جو اسے سب سے زیادہ محبوب ہوں اور جن کو وہ اپنے لئے اقتداء کا بہترین نمونہ سمجھتا ہے ۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے حدیث مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”قدیکون فی الأمم محدّثون أی ملہمون کمافی روایة ،فإن یکن فی أمّتی أحد فعُمربن الخطاب “
ترجمہ:۔”کبھی امتوں میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جن کو الہام ہوتا ہے ، اور اگر میری امت میں کوئی ہے تو وہ عمر بن الخطاب ہیں ۔“
بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے یہ حدیث مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔میں نے جنت میں ایک سونے کا محل دیکھا ، تو میں نے پوچھا : یہ کس کا ہے ؟ تو مجھے جواب ملا کہ : یہ عمربن الخطاب کا ہے ، رضی اللہ عنہ و ارضاہ ۔
اشاعت ۲۰۱۰ ماہنامہ بینات , رجب المرجب:۱۴۳۱ھ - جولائی: ۲۰۱۰ء, جلد 73, شمارہ 7

    پچھلا مضمون: حدیثِ قرطاس اور اہلِ سنت کا موقف !
Flag Counter