Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی رجب المرجب ۱۴۳۱ھ - جولائی ۲۰۱۰ء

ہ رسالہ

5 - 13
تحدید پس نسل کامعروضی وفقہی منظر !
تحدید پس نسل کامعروضی وفقہی منظر

ہمیں اس طرز عمل پر کوئی حیرت نہیں، کیونکہ یہ مغربی طوفانوں کا ایک دھارا ہے جو ٹوٹنے کا نام نہیں لیتا ، حیرت کا مقام تو یہ ہے کہ اب اس صیہونی فکر کو اسلامی فکر باور کرنے کے لئے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے علماء طبقہ پر مختلف طریقوں سے محنت ہو رہی ہے، کہیں فکری نشستیں منعقد ہو رہی ہیں، کہیں تربیتی ورکشاپ کا انعقاد ہورہاہے، کہیں ملکی سطح کے سیمینار ہو رہے ہیں اور علماء دین کو اس موضو ع پر بحث و مباحثہ کے لئے مواقع دیئے جارہے ہیں اور کئی سادہ لوح مخلصین شعوری و لا شعورعی طور پر ” عزل“ کے جوا ز کے دلائل لیکر انتہائی سادگی کے ساتھ ” بہبودی آبادی“ کے دربار میں بطور نذرانہ پیش کرآتے ہیں ، جسے بعد میں ”بہبود آبادی “ والے اسلام کی اہم ترین خدمت کے طور پر خطیر رقم خرچ کرکے وسیع پیمانے پر شائع کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس طرح کرنے سے ملکی معیشت فقر و فاقہ سے آزاد ہو جائے گی۔
حالانکہ علماء کرام کے لئے مقام فکریہ ہے کہ میاں بیوی کے ازدواجی تعلقات اور اس تعلق کے دوران صوابدیدی احتیاطی تدابیر اس قدر اہم مسئلہ نہیں کہ اس پر اتنی علمی توانائیاں صرف کی جائیں اور اسے مستقل موضوع کا درجہ دیا جائے۔دوسرے اس پروگرام کے محرکین کو بھی سوچنا چاہیے کہ خاندانی منصوبہ بندی کے نام پر جس قدر مصارف اٹھائے جارہے ہیں، اگر یہی مصارف کسی پسماندہ دیہی علاقے کی تعمیر و ترقی اور وسائل روزگار میں صرف کئے جائیں تو اس سے فقر و فاقہ میں کمی اور ملکی معیشت میں مناسب بہتری آئے گی۔لیکن ان پروگراموں کے پس پردہ اصل مقصد فقر وفاقہ کا خاتمہ اور ملکی معیشت میں بہتر استحکام نہیں ہے، اس لیے ان لوگوں سے یہ سوچ متوقع نہیں۔
تحدید نسل کا اصل مقصد ازدواجی قوت پر ہے
فی زمانہ خاندانی منصوبہ بندی /تحدید نسل/ ضبط ولادت کے پس پردہ اصل مقصد یہ ہے کہ صحت مند مسلمان معاشرے میں افرادی قوت کا مناسب شرح کے ساتھ اضافہ، مذہبی اور جمہوری اصولوں کے تناظر میں مغرب کے لئے حد درجہ پریشان کن ہے، کیونکہ مستقبل قریب میں عددی اکثریت کے بل بوتے پر اقلیت کو انفعالی طور پر اپنے اندر مدغم کرے گی، جیسا کہ جرمنی کے بارے میں دستاویزی فلم سے ظاہر کیا گیا ہے کہ آئندہ برسوں میں جرمنی کا اقتدار مسلمانوں کے ہاتھوں میں آسکتا ہے، وجہ اس کی یہ ہے کہ ایک تو اسلام تیزی سے اپنا اثر و نفوذ بڑھا رہا ہے، دوسرے یہ کہ مسلمانوں میں الحمد لله! بچوں کی پیدائش کا رجحان بحوبی پایا جارہا ہے، یہی سلسلہ دیگر غیر مسلم ممالک میں بھی قائم ہے۔
چائناکی افرادی قوت اور معاشی ترقی!
اسی طرح چائنا میں آبادی کی شرح برتھ کنٹرول کے فلسفہ پر نظریہ کو سو فیصد غلط قرار دیتی ہے، چائنا کو عالمی دوڑ میں شریک کرنے میں اس کی افرادی قوت کا بنیادی کردار ہے، اگر چائنا اپنی تمام وسعتوں اور بھر پوروسائل کے باوجود محنت کا روں کی کھیپ سے محروم ہو تا تو شاید اسے گلگت کی چائنا مارکیٹ سے آگے بڑھنے کا موقع نہ ملتا۔ مگردنیا جانتی ہے کہ اس کی افرادی قوت کو جب روز گار کے جس قدر وسائل مہیا ہو ئے اس قدر محنت ہوئی اور ظاہر ہے کہ محنت پیداوار کا بنیادی ستون ہے ،جب پیداورا بڑھی توپوری دنیا میں اقتصادی سیلاب کی صورت اختیار کرگئی، جس کے بل بوتے آج چائناسپر پاور بننے کے لئے پر تول رہا ہے
معاشی استحکام ، محنت اور وسائل کی مناسب تنظیم پر منحصر ہے
اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ معاشی استحکام اور اقتصادی خوشحالی میںآ بادی کے کم یا زیادہ ہونے کا کوئی کردار نہیں، بلکہ اصل کردار محنت کا ہے ، اگر تھوڑی آبادی ہو وہ محنت نہ کرے تو موجودہ شہر ی وسائل معاش کو استعمال کرتے کرتے ایک دن ختم کردیں گے، لیکن اگر معاشرے کے افراد زیادہ ہیں اور محنت سے جی نہیں چراتے ،نکما پن کا عارضہ انہیں لا حق نہ ہو ،اور وہ محنت کش ہوں تو ایسے لوگ جتنے زیادہ ہوں گے اسی بقدر پیداوار بڑھے گی، وسائل میں اضافہ ہو گا، جن کی موجودگی میں معاشرہ عدم استحکام اور اقتصادی بدحالی کا شکار نہیں ہو سکتا۔البتہ یہ ممکن ہے کہ کہیں وسائل کی فراوانی ہو، اس کے باوجود آبادی کا ایک حصہ دوسرے کے لیے مضر ثابت ہو، اس میں آبادی کا قصور نہیں ،بلکہ ایسا طبقاتی تقسیم کی وجہ سے ہوسکتا ہے، جس پر شریعت اسلامیہ پابندی عائد کرتی ہے۔نیز یہ بھی ممکن ہے کہ وسائل کی فراوانی ہو مگر معاشرے کے تمام افراد اس سے مستفید نہ ہو سکتے ہوں ، لیکن یہاں بھی آبادی کی کثرت کو مورد الزام ٹھہرانے کی بجائے حکومت وقت کی عدم تنظیم کو ذمہ دار ٹھہرانا چاہیے، اگر حکومت کسی معاملہ میں بد انتظامی کی مرتکب ہو تو اس کے نتیجہ میں رعایا کی نسل کشی کے مشورے دینا حماقت کے سوا کیا ہو سکتا ہے؟
آبادی کی قلت اور کثرت جمہوریت کی نظر میں!
اس وقت مغربی دنیا جس نظام کے تحت زندگی گزارنے کی ترغیب و تلقین کی علم بردار بنی ہوئی ہے وہ جمہوری نظام ہے، جمہوری نظام میں سارے فیصلے اکثریتی رائے کے تحت ہو نا ضروری ہیں، اس اکثریت میں شامل ہونے کے لئے صرف انسان ہونا کافی ہے، یہاں تک کہ انسانی کمالات اور انسانی اوصاف سے عاری انسان بھی گنتی میں وہی وزن رکھتا ہے جو ایک باکمال اور اعلیٰ اوصاف کا حامل انسان رکھتا ہے۔اس غیر فطری تفاوت سے صرف نظر کرتے ہوئے ایک نااہل اور ناقص انسان کو بھی جمہوریت”گنتی“ کے لئے محض اس لئے قبول کرلیتی ہے کہ اس کی وجہ سے افرادی قلت، کثرت میں بدل سکتی ہے۔
غور کا مقام یہ ہے کہ دنیا پر حکمرانی کرنیو الے جس نظام میں افراد کی” کثرت “اس حد تک قابل قدر ہو کہ جہاں ناقص اور کامل انسان مرد اور عورت کا فرق معتبر نہ سمجھا جا تا ہو، اس نظام کے علم بردار جب ہمیں ”آبادی“ میں کمی کا مشورہ دیں اور اس کے لیے سرکاری سطح پر محنتیں کرائی جائیں تو ہمیں صرف عزل کی گنجائشوں میں کھو جانے پر اکتفاء نہیں کرنا چاہیے، بلکہ یہ سوچنا چاہیے کہ اس وقت دنیا ایک گاوٴں کی مانند ہو چکی ہے اور دنیا میں بین الاقوامی اور قومی مسائل اکثریتی رائے کے تحت ہورہے ہیں،جس کے لئے افراد کی کثرت مطلوب ہے۔ مثال کے طور پر اس گاوٴں ( دنیا) کی سطح پر کسی معاملے میں قومیتوں کی بنیاد پر رائے شماری ہو توکون سی قوم ایسی ہوسکتی ہے جو اس موقع پر اپنی عددی اکثریت کو اہمیت دینے کے بجائے اس کے محدود ہو نے پر رضامند ہو؟
ذرا انصاف فرمائیے کہ ایسے نظام کے تحت بسنے والا انسان ، ادارہ یا ملک اگر خطیر وسائل اور کثیر خزانے صرف کرکے اپنی عددی اکثریت کو محدود کرنے کا تصور پیش کرے اور اس کے لئے اپنی صلاحیتیں صرف کرے تو اسے عقلمندی کا مظہر کہیں گے یا اسے حماقت کے ایورارڈ کا مستحق سمجھا جائے گا؟
الغرض !اگر صرف افرادی قوت اور وسائل معاش کے لئے اس کی اہمیت و ضرورت یا خالص جمہوری نقطہٴ نظر سے آبادی کے محدود ہونے کا جائزہ لیا جائے تو اقتصادی اور جمہوری اصول بھی اس کی شدید نفی کرتے ہیں،مگر مسلمانانِ پاکستان ہیں کہ وہ مغربی چالوں اور دوسرے معیاروں کی طرف توجہ دینے کی بجائے اپنی سادگی کو ان کی عیاری کے قدموں میں قربان کئے جارہے ہیں ۔
آبادی کی قلت و کثرت شریعت کی روشنی میں
جہاں تک مسلمان معاشرہ کے لئے آبادی کی قلت و کثرت کا تعلق ہے، اس سلسلے میں شریعت اسلامیہ کا موقف اور مزاج بالکل واضح ہے، استشراقی مزاج کے مغرب پرست بعض اسلامی دانشور،مالتھس کے نظریئے کو قبائے اسلام پہنانے کی ناروا کو شش نہ کرتے تو یقینا اہل اسلام کے لئے اس موضوع کے رد میں دلائل کی ضرورت نہ ہوتی ،بلکہ یہ بالکل ایسے ہی ہو تا جیسے مسلمان معاشرے میں نکاح کے جواز کے دلائل پیش کئے جاتے یا نماز کی فرضیت پر دلائل پیش کئے جاتے ہیں، کیونکہ ہر مسلمان نکاح اور اس کے جواز سے، نیز نماز اور اس کے فرضیت سے واقف ہوتا ہے، یہی معاملہ مسلمان معاشرے کے لئے افرادی قوت کا بھی تھا ،مگر اسے مغرب پرستوں نے اس غلط عنوان کے تحت درج کردیا ہے کہ اسلام میں آبادی کی کثرت ناپسند ہے اور آبادی و خاندان کا محدود ہونا عین اسلام ہے، بلکہ بعض مواقع پر ضروری بھی ہے ،جبکہ اسلامی مزاج کے بالکل خلاف اور اسلام کے نام پر سراسر جھوٹ ہے۔
اشاعت ۲۰۱۰ ماہنامہ بینات , رجب المرجب:۱۴۳۱ھ - جولائی: ۲۰۱۰ء, جلد 73, شمارہ 7

    پچھلا مضمون: دامن کو ذرا دیکھ ،ذرا بندِ قبا دیکھ !
Flag Counter