Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی رجب المرجب ۱۴۳۱ھ - جولائی ۲۰۱۰ء

ہ رسالہ

2 - 13
سارق اور رہزن کا حکم !
سارق اور رہزن کا حکم!

کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان دین اس مسئلہ کے بارہ میں کہ:
آج کل آپ حضرات کے سامنے ہے کہ چوری اور ڈکیتی کی وارداتوں میں کس قدر اضافہ ہوگیا ہے، بعض دفعہ دیکھا گیا کہ کچھ لوگوں نے چوریا ڈاکو کوپکڑنے کے بعد اسے خوب مارا، حتی کہ جان سے ماردیا اس بارے میں کسی عالم نے صراحتاً وضاحت نہیں کی ۔ برائے مہربانی مندرجہ ذیل مسائل کے جوابات عنایت فرمادیں۔
۱…کیا کسی چور کو پکڑ کر اس کو مارنا یا زدوکوب کرنا یا جان سے مار دینا شریعت کی رو سے جائز ہے یا نہیں؟ اور یہ مسلمان پر ظلم شمار ہوگا یا نہیں؟
۲…اگر کسی کے سامنے کوئی ڈاکو پستول وغیرہ لے کر لوٹنا چاہے اور وہ اس سے الجھ پڑے اور اس دوران دونوں فریقوں میں سے ایک قتل ہوجائے تو ان کی موت کے بارے میں شرعاً کیا حکم ہے؟
۳… اگر کوئی چور یا ڈاکو کسی اور سے کوئی رقم یا کوئی اور چیز طلب کر رہا ہو تو اس میں کوئی دوسرا جس کا اس سے کوئی تعلق نہیں وہ الجھ پڑے اوراس دوران میں سے ایک قتل ہوجائے تو ان کا کیا حکم ہے؟ نیز اپنی گاڑی سے چور یا ڈاکوکو کچلنا اور اپنے ذاتی اسلحے کا استعمال کرکے اس کو نقصان پہنچانا یا قتل کر دینا تو اس میں قاتل شریعت کی رو سے قاتل ہے یا نہیں؟ نیز ظالم ہوا یا نہیں؟جبکہ اکثر علماء نے احتیاطاً الجھنے سے منع کیا ہے حفظ جان کی وجہ سے ۔ برائے کرم وضاحت کے ساتھ جواب ارسال فرمائیں۔
محمد رفیع ، توکل اسٹور جونا مارکیٹ کراچی۔
الجواب حامداً ومصلیاً
سائل کے سوالات کے جوابات سے قبل تمہیداً چند باتوں کا سمجھنا ضروری ہے:
۱…کسی شخص کا مال ناحق طریقہ سے خفیةً لے لینا شرعی اصطلاح میں سرقہ (چوری) کہلاتا ہے۔ اگر یہی قبیح حرکت کھلم کھلا علی الاعلان اسلحہ کے زور پر کی جائے تو اسے فقہاء قطع الطریق (رہزنی وڈاکہ زنی) سے تعبیر کرتے ہیں۔
اسلامی آئین حدود وتعزیرات کی رو سے پہلے جرم (چوری) کی سزا مجرم کا دایاں ہاتھ کاٹنا ہے، جبکہ دوسرے جرم یعنی ڈاکہ زنی کی صورت میں بحسب شرائط وتفصیل دائیں ہاتھ اور بائیں پاؤں کو کاٹ دیا جاتا ہے۔ البتہ ڈاکو اگر کسی کا مال چھیننے کی کوشش میں ناکام ہوجائے اور صاحب مال کو قتل کردے تو اس صورت میں اس ڈاکوکی سزا قتل ہے اور اگر مال بھی چھینے اور صاحب مال کو قتل بھی کردے اور پھر ایسا ڈاکو پکڑا جائے تو اس کی سزا شریعت میں سولی پر لٹکاکر نیزوں کے ذریعے مارکر قتل کر دیناہے، تاہم اگر صرف مال چھین کر بھاگ جائے اور پھر بعد میں پکڑا جائے تو اس کی سزا یہ ہے کہ اس ڈاکو کا دایاں ہاتھ اور بایاں پاؤں کاٹ دیا جائے۔ یہ دونوں سزائیں قرآن کریم میں واضح اورصاف طور پر مذکور ہیں،جیساکہ ارشاد ہے:
۱…”والسارق والسارقة فاقطعوا ایدیہما“ (مائدہ:۳۸)
ترجمہ:…”چوری کرنے والے مرد اورچوری کرنے والی عورت کے ہاتھ کاٹ دیا کرو“۔
۲…”انما جزاء الذین یحاربون الله ورسولہ ویسعون فی الارض فساداً ان یقتلوا او یصلبوا او تقطع ایدیہم وارجلہم من خلاف او ینفوا من الارض“۔ (مائدہ:۳۴)
ترجمہ:…”جو اللہ تعالیٰ سے اور اس کے رسول سے لڑیں اور زمین پر فساد کریں ان کی سزا یہی ہے کہ وہ قتل کردیئے جائیں یا سولی چڑھادیئے جائیں یا مخالف جانب سے ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیئے جائیں یا انہیں جلاوطن کردیا جائے۔
۲…قانون اسلامی میں جس چوری پر یہ سزا عائد ہوتی ہے، اس کے لئے شرعاً یہ شرائط ہیں:
۱…مجرم مکلف ہو، یعنی عاقل بالغ ہو۔
۲…بینائی وگویائی کا مالک ہو۔
۳…چوری شدہ مال دس دراہم یا اس سے زائد مالیت کا ہو۔
۴…قصداً یہ حرکت کرے۔
۵…مال محفوظ ہو، یعنی چورنے اس مال کو کسی محفوظ جگہ سے چوری کیا ہو۔
۶…مسروقہ مال جلد خراب ہونے والا نہ ہو۔
۷…متاثر شخص اس مال پر شرعاً جائز طور پر قبضہ رکھتا ہو۔
۸…یہ واقعہ دارالاسلام میں پیش آیا ہو۔
۹…چور کا اس مال میں نہ ملکیت کا شبہ ہو اور نہ تاویل کی گنجائش ۔
۱۰…چور کی چوری شرعی طورپر ثابت ہوجائے۔
کسی ایک شرط کی عدم موجودگی میں ہاتھ نہیں کاٹے جائیں گے، البتہ مجرم گناہ وتعزیر کا مستحق ہوگا۔شامی میں ہے:
”وباعتبار القطع وہی اخذ مکلف ناطق بصیر عشرة دراہم او مقدارہا مقصوداً بالاخذ ظاہرةً الاخراج ففیہ من صاحب ید صحیحة مما لایتسارع الیہ الفساد فی دار العدل من حرز لاشبہة ولاتاویل فیہ “۔ (درمختار کتاب السرقة ،ج:۱۴ ص:۸۲)
قطع طریق (رہزنی) ثابت کرنے کے لئے بھی مندرجہ ذیل شرائط ضروری ہیں۔
۱… سرقہ (چوری) کی تمام شرائط پائی جائیں۔
۲…یہ حرکت زور زبردستی قوت وطاقت کے ساتھ علی الاعلان کی جائے۔
۳…ڈاکو کا متاثرین سے کسی قسم کا خونی رشتہ نہ ہو۔
شامی میں ہے:
”قد علم من شروط قطع الطریق: کونہ ممن لہ قوة ومنعة، وکونہ فی دارالعدل، ولو فی المصر ولو نہاراً ان کان بسلاح، وکون کل من القاطع والمقطوع علیہ معصوماً، ومنہا: کما یعلم مما یاتی کون القطاع منہم اجانب لاصحاب الاموال، وکونہم عقلاء بالغین ناطقین، وان یصیب کلامنہم نصاب تام من المال الماخوذ، وان یوخذوا قبل التوبة“۔ (شامی، کتاب الحدود، باب قطع الطریق ۴/۱۱۳)
۳… شریعت اجرائے حدود کا اختیار صرف امام (مسلم حکمران) یا اس کے نائب (جج وغیرہ) کو دیتی ہے، لہذا مندرجہ بالا جرائم پر سزا دینے کا اختیار عوام کو نہیں۔قال الامام الکاسانی رحمہ اللہ:
”واما شرائط جواز اقامتہا، فمنہا: ما یعم الحدود، منہا ما یختص البعض دون بعض، اما الذی یعم الحدود کلہا فہو الامامة وہو ان یکون المقیم للحد ہو الامام او من والاہ الامام“۔ (بدائع ۵/۵۷) (احسن الفتاویٰ ۸/۵۵)
۴… تفصیلات بالا سے معلوم ہوا کہ محض مال چھیننے کی سزا شریعت نے قتل مقرر نہیں کی ہے اور مقررہ شرعی سزا دینے کا اختیار عوام کو نہیں، بلکہ مسلمان حاکم وقت کو ہے، البتہ اگر عین واقعہ کے وقت کوئی عامی اپنی جان ومال کے دفاع میں مجرم کو کوئی نقصان پہنچائے یا اسے غیر ارادی طور پر قتل کردے تو شرعاً اس کی گنجائش ہے۔
تفصیل اس کی یہ ہے کہ اگر کوئی چوریا ڈاکو کسی فرد واحد یا جماعت سے ان کا مملوکہ مال زبردستی طلب کرے تو شریعت صاحب مال کو اس کی اجازت دیتی ہے کہ وہ اپنے مال کی امکانی حد تک حفاظت کرنے کی بھر پور کوشش کرے، اسے ڈاکو پر دست درازی کی رخصت بھی حاصل ہے، حتی کہ اگر اس سلسلے میں قتل وقتال کی نوبت آجائے اور صاحب مال قتل ہوجائے تو وہ شہید ہے اور اگر ڈاکو مارا جائے تو نہ قصاص لازم ہے اور نہ دیت ہے، بشرطیکہ اس انتہائی اقدام کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہو، لہذا اگر ڈاکو کا شر چیخ وپکار یا معمولی مارپیٹ سے دور ہوجانے کا غالب گمان ہو توپھر قتل کرنے کی اجازت نہیں ہے ورنہ قصاص لازم ہے ،درمختار میں ہے:
”ویجوز ان یقاتل دون مالہ وان لم یبلغ نصاباً ویقتل من یقاتل علیہ“ لاطلاق الحدیث، من قتل دون مالہ فہو شہید‘ ‘ (شامی، کتاب السرقة، باب قطع الطریق، ۴/۱۷۷)
مزید لکھا ہے:
”ومن دخل علیہ غیرہ لیلاً فاخرج السرقة من بیتہ (فاتبعہ) رب البیت (فقتلہ فلاشئ علیہ) لقولہ علیہ السلام: قاتل دون مالک، وکذا لوقتلہ قبل اخذ مالہ ولم یتمکن من دفعہ الا بالقتل اذا لم یعلم انہ لو صاح علیہ طرح مالہ، وان علم ذلک فقتلہ مع ذلک وجب علیہ القصاص لقتلہ بغیر حق، کالمغصوبة منہ اذا قتل الغاصب فانہ یجب القود لقدرتہ علی دفعہ بالاستغاثة بالمسلمین والقاضی“۔قال الشامی: ”انظر ما اذا لم یقدروا المسلمون والقاضی کما ہو مشاہد فی زماننا، والظاہر انہ یجوز لہ قتلہ لعموم الحدیث“۔ (شامی، کتاب الجنایات، مبحث شریف ۴/۵۴۵)
وفی المبسوط: ”ولو قیل لرجل دلنا علی مالک او لنقتلنک فلم یفعل حتی قتل، ولم یکن آثماً، لانہ قصد الدفع عن مالہ وذلک عزیمة، قال علیہ السلام من قتل دون مالہ فہو شہید، ولان فی دلالتہ ایاہم علیہ اعانة لہم علی معصیة الله“۔ (المبسوط کتاب الاکراہ باب ما یسع الرجل فی الاکراہ:۲۴/۱۷۷)
وفی الفتح القدیر:”ویجوز للرجل ان یقاتل دون مالہ، وان لم یبلغ نصاباً ویقتل من یقاتلہ علیہ لاطلاق قولہ علیہ السلام: من قتل دون مالہ فہو شہید“۔ (فتح القدیر، کتاب السرقة، باب قطع الطریق: ۵/۱۸۷)
وفی العنایة:”وتاویل المسألة اذا لم یتمکن من الاسترداد الا بالقتل“۔ (العنایة شرح الہدایة،: ۴/۳۲)
”واما انہ لو صاح بہ یترک ما اخذہ ویذہب فلم یفعل ہکذا، ولکن قتلہ کان علیہ القصاص“۔ (ہندیہ، کتاب الجنایات، باب فیمن یقتل قصاصا: ۴/۷)
اس تفصیل کے بعد سائل کے لئے ترتیب وار جوابات کچھ یوں ہیں:
۱…چوریا ڈاکو کو عین چوری یا ڈاکہ زنی کرتے وقت پکڑنااور مارنا جائز ہے، تاہم اس سے قتال صرف اس وقت جائز ہے جب اس کے بغیر حفاظت مشکل ہو ۔نیز یہ حکم بھی عین موقع کے ساتھ خاص ہے، بعد میں اگر وہی چور نظر آجائے، تو اس سے مسروقہ مال واپس لینا، اسے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حوالہ کرنا تو جائز ہے مگر اسے قتل کرنا ناجائز ہے، بصورت دیگر مقتول کے اولیاء کو دیت دینی لازم ہے، اسی طرح اگر عین موقع پر بھی چوریا ڈاکو کسی رد عمل کی بناپر فرار ہونے لگے یافرار ہوجائے تو اس صورت میں بھی قتل کرنا ناجائز ہے۔ففی الہندیة:
”فان فر منہم الی موضع ترکوہ لایقدر علی قطع الطریق علیہم فقتلوہ کان علیہم الدیة، لانہم قتلوہ لا لاجل ما لہم، ولو فر رجل من القطاع فلحقوہ وقد القی نفسہ الی مکان لایقدر معہ علی قطع الطریق فقتلوہ کان علیہم الدیة، لان قتلہم ایاہ لا لاجل الخوف علی المال۔ “ (ہندیہ، کتاب السرقة، باب قطع الطریق: ۲/۱۸۸)
وفی البحر:”لص ہو معروف بالسرقة وجدہ رجل یذہب فی حاجتہ غیر مشغولی بالسرقة، لیس لہ ان یقتلہ، ولہ ان یاخذہ وللامام ان یحسبہ حتی یتوب، لان الحبس للزجر لتوبة مشروع“۔ (البحر الرائق، کتاب الحدود، باب قطع الطریق: ۵/۷۰)
وفی تبیین الحقائق:”ومن دخل علیہ غیرہ لیلاً فاخرج السرقة فقتلہ فلاشئ علیہ، لقولہ علیہ السلام: قاتل دون مالک ای لاجل مالک، ولان لہ ان یمنعہ بالقتل ابتداءً فکذا لہ ان یستردہ بہ انتہاء اذا لم یقدر علی اخذہ منہ، ولو علم انہ لو صاح علیہ یطرح مالہ فقتلہ مع ذلک یجب علیہ القصاص، لان قتلہ لہ بغیر حق“۔ (تبیین الحقائق، کتاب الجنایات، باب ما یوجب القصاص ومالا:۷/۲۳۲)
وفی الدر المختار:”(ولا) یقتل من شہر سلاحاً علی رجل لیلاً او نہاراً فی مصر او غیرہ او شہر علیہ عصاً لیلاً فی مصر او نہاراً فی غیرہ فقتلہ المشہور علیہ… (ولو ضربہ الشاہد فانصرف) وکف عنہ علی وجہ لایرید ضربہ ثانیاً فقتلہ الآخر ای المشہود علیہ او غیرہ قتل القاتل، لانہ بالانصراف عادت عصمتہ قلت: فتحرر انہ مادام شاہد السیف لہ ضربہ والا لا فلیحفط“۔ (شامی، کتاب الجنایات، مبحث شریف ۶/۵۴۵)
۳… صاحب مال مسلح ڈاکو سے الجھ پڑے اور نوبت قتل وقتال تک جا پہنچے تو مظلوم صاحب مال کے قتل ہونے کی صورت میں اسے زبان نبوی سے جنت کی خوشخبری ہے اور ظالم ڈاکو کے قتل ہونے کی صورت میں وہ جہنم کا ایندھن ہے۔ اس صورت میں(مقتول ڈاکو کے اولیاء کو) دیت دینا بھی لازم نہیں ہے۔حدیث شریف میں ہے:
”جاء رجل الی النبی ا فقال: الرجل یأتینی فیرید مالی، فقال فذکرہ باللہ قال: فان لم یذکر قال: فاستعن علیہ من حولک من المسلمین قال: فان لم یکن حولی احد من المسلمین، قال: فاستعن علیہ بالسلطان، قال: فان نأی السلطان عنی، قال: قاتل دون مالک حتی تکون من شہداء الآخرة او تمنع مالک“۔
(نسائی، کتاب المحاربة، باب ما یفعل من تعرض لمالہ: ۲/۱۷۲)
ترجمہ:…“ایک صحابی  نے حضور ا کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا:اے اللہ کے رسول ! اگر کوئی شخص مجھ سے میرا مال چھیننا چاہے، آپ علیہ السلام نے فرمایا: اسے اللہ (کے خوف) کی نصیحت کر، عرض کیا: اگر وہ نہ قبول کرے؟ فرمایا: اپنے ارد گرد کے مسلمانوں سے مدد طلب کر، عرض کیا: اگر ارد گرد مسلمان نہ ہوں (یا وہ مدد سے عاجز ہوں؟ فرمایا: بادشاہ وقت (یا اس کے عملے سے) مدد طلب کر، عرض کیا: اگر وہ دور ہو؟ فرمایا: اپنے مال کی حفاظت کی خاطر اس سے قتال کرو تاکہ تم شہادت کا درجہ پالو یا مال بچاسکو“۔
ایک اور حدیث میں ہے:
”عن ابی ہریرة  قال: جاء رجل الی رسول اللّٰہ ا ارایت ان جاء رجل یرید اخذ مالی؟ قال: فلاتعطہ مالک، قال: ارایت ان قاتلنی قال: قاتلہ قال ارایت ان قاتلنی قال: فانت شہید، قال ارایت ان قتلتہ فہو فی النار“۔ (مسلم کتاب الایمان، باب الدلیل علی ان من قصداخذ مال غیرہ ۱/۸۱)
ترجمہ:…”حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص حضور اکی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اگر ایک شخص میرے پاس آکر مجھ سے میرا مال چھیننے کی کوشش کرے تو آپ اس میں کیا فرماتے ہیں؟ فرمایا: اس کو اپنا مال نہ دو، عرض کیا: اگر وہ مجھ سے قتل وقتال کرنے لگے تو کیا کروں؟ فرمایا: تم بھی لڑ، عرض کیا: اگر وہ مجھے قتل کردے؟ فرمایا: تم شہید کے مرتبہ پر ہوگے، عرض کیا: اگر وہ مارا جائے فرمایا: وہ جہنم میں چلا جائے گا“۔
صحیح بخاری میں آپ اکا ارشاد ہے:
”من قتل دون مالہ فہو شہید“۔ (بخاری، ۱/۳۳۷)
ترجمہ:…“جو اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے مرجائے وہ شہید ہے“۔
واضح رہے کہ یہ حکم وجوبی نہیں ہے، بلکہ مباح ہے۔ یعنی اگر صاحب واقعہ حفاظت ِ جان کو حفاظتِ مال پر ترجیح دیتے ہوئے اپنا مال ڈاکو کو بلاحیل وحجت حوالے کردے تو یہ نہ صرف جائز ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت واسعہ سے امید ہے، وہ حضور ا کی اس بشارت کا مصداق ہوگا۔فرمایا:
”انا زعیم ببیت فی ربض الجنة لمن ترک المراء وہو محق“۔(کنزالعمال،۸۳۱۰)
ترجمہ:…”جو شخص حق پر ہوتے ہوئے جھگڑے سے کنارہ کشی اختیار کرلے، میں اس کے لئے جنت کے بیچوں بیچ محل کا ضامن ہوں“۔
علامہ عینی  بھی مندرجہ بالا حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں:
”ومن اخذ فی ذلک بالرخصة واسلم المال والاہل والنفس فامرہ الی الله تعالیٰ، والله یعذرہ ویاجرہ“۔ (عمدة القاری، ۱۳/۴۹۵)
ترجمہ:…”جو شخص اس معاملہ میں رخصت پر عمل کرے اور مال کو حوالے کردے، امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے اجر سے نوازیں گے“۔
۳…صورت متعلقہ میں اگر کوئی تیسرا شخص صاحب مال کی امداد کی خاطر ڈاکو سے الجھ پڑے یا ڈاکو کو کسی قسم کی تکلیف پہنچائے تو شرعاً اس میں حرج نہیں البتہ نمبر (۱) میں ذکر کردہ شرائط کا خیال رکھا جائے۔
وفی البحر الرائق:”وکذا اذا شہر علی رجل سلاحاً فقتلہ او قتلہ غیرہ دفعاً عنہ فلایجب بقتلہ شئ“۔ (البحر الرائق،۸/۳۰۲)
وفی الشامی:”اخذ اللصوص متاع قوم فاستغاثوا بقوم فخرجوا فی طلبہم، فان کان ارباب المتاع معہم او غابوا لکن یعرفون مکانہم ویقدرون علی رد المتاع علیہم حل لہم قتال اللصوص، وان کانوا لایعرفون مکانہم ولایقدرون علی الرد لایحل“۔ (شامی، ۴/۱۱۷)

الجواب صحیح الجواب صحیح

محمد عبد المجید دین پوری محمد داؤد

کتبہ

محمد وصی فصیح

بمتخصص فقہ اسلامی

جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی
اشاعت ۲۰۱۰ ماہنامہ بینات , رجب المرجب:۱۴۳۱ھ - جولائی: ۲۰۱۰ء, جلد 73, شمارہ 7

    پچھلا مضمون: اسلام اور پاکستان کے خلاف سازش !
Flag Counter