اسلام اور پاکستان کے خلاف سازش !
اسلام اور پاکستان کے خلاف سازش
الحمد للّٰہ وسلام علی عبادہ الذین اصطفی!
اسلام، مسلمان اور اسلامی ممالک ایک عرصہ سے دہشت گردی کی لپیٹ میں ہیں، روایت بن چکی ہے کہ جھوٹے پروپیگنڈوں اور رپورٹوں کو بنیاد اور سہارا بناکر نہتے مظلوم، مقہور اور مجبور مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کیا جاتا ہے، ان پر گولیاں اور بم برسائے جاتے ہیں، ان کے گھروں کو مسمار کیا جاتا ہے، ان کے بوڑھے ماں باپ، بچوں ، رشتہ داروں اور پیاروں کو سلاخوں کے پیچھے دھکیل کر انہیں ہیبت ناک اذیت میں مبتلا کیا جاتا ہے۔ براجمان اقتدار ہیں کہ انہیں ان مظلوموں کی آہوں، سسکیوں اور چیخوں کی کوئی پرواہ نہیں اور نہ ہی انہیں اس کی فرصت ہے کہ وہ یہ سوچیں اور کھوج لگائیں کہ یہ دہشت گردی کہاں سے درآمد ہورہی ہے، اس کی پشت پر کونسی ملک دشمن قوتیں ہیں اور اس کی وجوہ اور اسباب کیا ہیں کہ جن کی بنا پر ہماری قوم کے منتخب افراد کو چن چن کر موت کے گھاٹ اتارا جارہا ہے۔
کبھی دہشت گردی کی یہ کارروائی الجزائر میں ہوتی ہے تو کبھی عراق میں، کبھی انسانیت کشی کے یہ مظالم افغانستان میں برپا کئے جاتے ہیں تو کبھی اردن اور فلسطین میں، کبھی گستاخانِ رسول کو سیاسی پناہ دے کر انہیں نوازا جاتا ہے تو کبھی گستاخانہ خاکوں کا مقابلہ کراکراہلِ اسلام کے قلوب کو مجروح کیا جاتاہے۔ ہرجگہ مسلمان ہی ان ”خصوصی نوازشات“ کا مستحق ٹھہرایاجا تا ہے۔آخر کیوں؟
پاکستان میں بھی اس دہشت گردی کے لئے ایک گراؤنڈ تیار کیا گیا،اس کے لئے فضا ساز گار بنائی گئی، لوگوں کے ذہنوں کو اس کے لئے آمادہ کیا گیا، اور اس طرح کے حالات بنائے گئے کہ کارروائی ہوتے ہی سب کچھ ہمارے حق میں ہو، اور اس کے خلاف بولنے کی کوئی تاب نہ لاسکے، چنانچہ ”عالمی برادری“ اور ”مہذب دنیا“ نے اپنے مخصوص مفادات کے تابع مہمل افراد، آلہ کار اور ایجنٹوں کے ذریعے ہمارے ملک ِپاکستان میں اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے کبھی سنی، شیعہ جھگڑا کرایا، کبھی دیوبندی، بریلوی فساد برپاکرنے کی سازش کی، کبھی عصبیت، لسانیت اور قومیت کو ہوا دی گئی، کبھی صوبوں کے نام پر قوم کو لڑانے اور تقسیم کرنے کی اسکیمیں بنائی گئیں، کبھی علماء، طلباء ، جج، وکلا ، سیاستداں، ڈاکٹر، انجینیئر، پروفیسر اور صحافی غرض ہر طبقہ کے حضرات وافراد کو ٹارگٹ کلنک کا نشانہ بنایاگیا اور اب سوچی سمجھی اسکیم اور منصوبہ بندی کے تحت قادیانیوں کے مراکز پر حملہ کراکر اپنے اگلے ہدف کی طرف بڑھنے کی تیاریاں کی جاچکی ہیں۔
ہندو، پارسی، سکھ، عیسائی، یہودی یاقادیانی کسی بھی کافر گروہ کی عبادت گاہ ہو، اسلام اور شریعت ہرگز اس کی اجازت نہیں دیتا کہ عبادت میں مصروف لوگوں پر حملہ کیا جائے،بلکہ اسلام تو اہل اسلام کو اس بات کا پابند بناتا ہے کہ عین حالت جنگ میں بھی مسلمانوں کے ساتھ لڑائی میں جو لوگ بالواسطہ یا بلا واسطہ شریک کار نہیں، ان کو امن دے دیا جائے۔یہی وجہ ہے کہ ہماری جامعہ کے رئیس اور عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے قائم مقام امیر حضرت مولانا ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر اور مجلس کے راہنماؤں نے اس واقعہ کی مذمت کی اور اخبارات کو یہ بیان جاری کیا:
”عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے قائم مقام امیر مولانا ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر ، مرکزی ناظم اعلیٰ مولانا عزیز الرحمن جالندھری، مولانا اللہ وسایا، مولانا محمد اسماعیل شجاع آبادی، مولانا محمد اکرم طوفانی، مولانا قاضی احسان احمد اور مولانا محمد اعجاز نے ایک مشترکہ بیان میں ماڈل ٹاؤن اور گڑھی شاہو لاہور میں قادیانی عبادت گاہ پر حملہ کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ بے گناہوں کے قتل عام کی کسی بھی مذہب میں کوئی گنجائش نہیں، اسلام امن وآشتی کا دین ہے، بعض حلقوں کی رائے کے مطابق یہ بہت بڑی عالمی سازش ہے اور پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کی آڑ میں قانون توہین رسالت اور امتناع قادیانیت آرڈیننس پر ضرب لگانے کی سوچی سمجھی منصوبہ بندی ہے، بین الاقوامی حقوق انسانی کی تنظیموں کی ملی بھگت سے یہ ڈرامہ رچایا گیا ہے ،جس میں بے گناہوں کو نشانہ بنایا گیا اور عالمی رائے عامہ کو قادیانیوں کے حق میں ہموار کرنے کی کوشش کی گئی ہے، علمائے کرام نے بعض ملزمان کو زندہ گرفتار کرنے پر اطمینان کا اظہار کیا اور کہا کہ حکومت کا فرض بنتا ہے کہ غیر جانبدارانہ تحقیقات کر کے اس سازش کا کھوج لگایاجائے اور ذمہ داران کو قانون کے حوالے کیا جائے، جن لوگوں نے یہ کارروائی کی وہ کسی رعایت کے مستحق نہیں، انہوں نے کہا کہ مسلمان قادیانیوں کے خلاف نہیں بلکہ قادیانیت کے خلاف ہیں، ماضی میں قادیانی اپنی مظلومیت کی آڑ میں غیر ممالک میں سیاسی پناہ اور مالی مفادات حاصل کرتے تھے، کچھ عرصے پہلے ان کے خلاف انکوائری کرنے کے بعد ان کے ویزوں پر پابندی لگادی گئی، انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ خفیہ ایجنسیوں، تحقیقی وتفتیشی اداروں کے ذریعہ غیر جانبدارانہ انکوائری کرائے، تاکہ صحیح صورت حال عوام کے سامنے آجائے“۔ (روز نامہ جنگ کراچی، مؤرخہ:۲۹ مئی ۲۰۱۰ء)
یادر ہے کہ قادیانیت کی تخم ریزی اور آبیاری اول روز سے ہی اہل اسلام کوبے چینی اور باہمی انتشار میں مبتلا کرنے اور اسلام دشمنی پر استوارکی گئی ہے، اس کا انکشاف ایک برطانوی دستاویز ”دی ارائیول آف برٹش امپائران انڈیا“ سے ہوتا ہے۔ آغا شورش مرحوم اپنی تصنیف ”عجمی اسرائیل“ میں اس دستاویز کے حوالہ سے لکھتے ہیں:
”اس راز کی گرہ ایک برطانوی دستاویز ”دی ارائیول آف برٹش امپائران انڈیا“ (برطانوی سلطنت کا ہندوستان میں ورود) سے کھلتی ہے، ۱۸۶۹ء میں انگلینڈ سے برطانوی مدبروں اور مسیحی راہنماؤں کا ایک وفد اس بات کا جائزہ لینے کے لئے ہندوستان پہنچاکہ ہندوستانی باشندوں میں برطانوی سلطنت سے وفاداری کا بیج کیونکر بویا جاسکتا ہے اور مسلمانوں کو رام کرنے کی صحیح ترکیب کیا ہوسکتی ہے؟ اس زمانہ میں جہاد کی روح مسلمانوں میں خون کی طرح دوڑ رہی تھی، اور یہی انگریزوں کے لئے پریشانی کا سبب تھا، اس وفد نے ۱۸۷۰ء میں دو رپورٹیں پیش کیں، ایک سیاست دانوں نے، ایک پادریوں نے، جو محولہ نام کے ساتھ یکجا شائع کی گئیں، اس مشترکہ رپورٹ میں درج ہے کہ:
”ہندوستانی مسلمانوں کی اکثریت اپنے روحانی راہنماؤں کی اندھا دھند پیروکار ہے، اگر اس وقت ہمیں کوئی ایسا آدمی مل جائے جو ”اپاسٹالک پرافٹ“ (حواری نبی) ہونے کا دعویٰ کرے تو بہت سے لوگ اس کے گرد اکٹھے ہوجائیں گے، لیکن مسلمانوں میں سے ایسے کسی شخص کو ترغیب دینا مشکل نظر آتا ہے، یہ مسئلہ حل ہوجائے تو پھر ایسے شخص کی نبوت کو حکومت کی سرپرستی میں بہ طریق احسن پروان چڑھایا جاسکتا اور کام لیا جاسکتا ہے، اب کہ ہم پورے ہندوستان پر قابض ہیں تو ہمیں ہندوستانی عوام اور مسلمان جمہور کی داخلی بے چینی اور باہمی انتشار کو ہوا دینے کے لئے اس قسم کے عمل کی ضرورت ہے“ (عجمی اسرائیل ص:۱۹)
اسلامی ممالک میں انگریز اور دیگر استعمار پسندوں کو مسلمانوں کی جانب سے جہاد کے تلخ تجربوں سے دوچار ہونا پڑا ،مغربی استعمار نے مسلمانوں کے جذبہ جہاد کو کچلنے، انہیں فرنگی سیاست کے خار زار میں الجھانے اور صدیوں تک یورپ کی ذہنی غلامی میں محبوس رکھنے کے لئے متعدد اقدامات کیے، ان میں سے ایک فتنہ قادیانیت کو پیدا کرنا اور پروان چڑھانا بھی ہے جو آج تک امت مسلمہ اور پاکستان کے لئے ناسور بناہوا ہے۔
مرزا غلام احمد قادیانی نے انگریز اور مغربی استعمار کی شہہ پر بتدریج مناظر اسلام، مجدد، مہدی اور پھر نبی ہونے کا دعویٰ کیا اور اس کے بعد اپنے پیرو کاروں کو حکم دیا کہ مسلمانوں کے پیچھے نماز نہ پڑھی جائے، ان کا جنازہ نہ پڑھا جائے، ان سے نکاح اور شادی بیاہ حرام ہے۔اسی بنا پر پاکستان بنتے وقت قادیانیوں نے رائے شماری میں اپنے آپ کو مسلمانوں سے الگ رکھنے کا مطالبہ کیا، پاکستان بننے کے بعد ظفر اللہ قادیانی نے قائد اعظم کا جنازہ نہ پڑھا، ۱۹۵۲ء میں صوبہ بلوچستان کو قادیانی اسٹیٹ بنانے کا منصوبہ بنایا، ۱۹۵۳ء میں پر امن تحریک ختم نبوت چلی جس میں دس ہزار مسلمانوں کو شہید کیا گیا، پھر ۱۹۷۴ء میں قادیانیوں نے ٹرین پر سوار نشتر میڈیکل کالج کے مسلم طلباء پر چناب نگر (ربوہ) ریلوے اسٹیشن پر حملہ کرکے انہیں شدید زخمی اور لہو لہان کیا، جس پر تحریک چلی۔
محدث العصر علامہ سید محمد یوسف بنوری جو اس وقت تحریک کی قیادت فرمارہے تھے، آپ نے نہایت صفائی، اور غیر مبہم الفاظ میں اس وقت کے وزیر اعظم کے سامنے مسلمانوں کے موقف کی وضاحت کی، آپ نے جو کچھ فرمایا: اس کا خلاصہ آپ ہی کے الفاظ میں یہ تھا:
”قادیانی مسئلہ بلاشبہ پاکستان کے روزِ اول سے موجود ہے، پہلی غلطی اس وقت ہوئی جب ظفر اللہ قادیانی کو وزیر خارجہ مقرر کیا گیا۔ شہید ملت (خان لیاقت علی خان مرحوم) کو اس خطرناک غلطی کا احساس ہوا، اور انہوں نے قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے کا عزم کرلیا تھا، لیکن افسوس کہ وہ شہید کردیے گئے۔ اور ہوسکتا ہے کہ ان کا یہ عزم ہی ان کی شہادت کا سبب ہوا ہو۔ اس وقت جو جرأت مرزائیوں کو ہوئی ہے، اگر اس وقت اس کا تدارک نہ کیا گیا اور وہ غیر مسلم اقلیت قرار نہیں دیئے گئے تو مسلمانوں کے جذبات بھڑکیں گے اور ان کی (قادیانیوں کی) جان ومال کی حفاظت حکومت کے لئے مشکل ہوگی۔ اقلیت قرار دیئے جانے کے بعد اس ملک میں ان کی حیثیت ”ذمی“ کی ہوگی اور ان کی جان ومال کی حفاظت شرعی قانون کی رو سے مسلمانوں پر ضروری ہوگی، اس طرح ملک میں امن قائم ہوجائے گا۔میں مانتاہوں کہ آپ پر خارجی غیر اسلامی حکومتوں کا دباؤ ہوگا، لیکن اس کے بالمقابل ان اسلامی ممالک کا تقاضا بھی ہے کہ ان کو جلد غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے۔ جن ممالک سے ہمارے اسلامی تعلقات بھی ہیں اور ہرقسم کے مفادات بھی وابستہ ہیں، خارجی دنیا میں غیر اسلامی حکومتوں کے بجائے اسلامی مملکتوں کو مطمئن اور خوش کرنا زیادہ ضروری ہے۔ نیز ایک معمولی سی اقلیت کو خوش کرنے کے لئے اتنی بڑی اکثریت کو غیر مطمئن کرنا دانش مندی نہیں۔ اگر آپ حق تعالیٰ پر توکل واعتماد کرکے اللہ کی خوشنودی کے لئے مسلمانوں کے حق میں فیصلہ فرمائیں تو دنیا کی کوئی طاقت آپ کا بال بیکا نہیں کرسکتی، اور اس راستہ میں موت بھی سعادت ہے“۔
(ماہنامہ بینات کراچی، رمضان ، شوال ۱۳۹۴ھ)
پاکستان کی قومی اسمبلی نے ۱۴ دن بحث وتمحیص اورباقاعدہ قادیانیت کا موقف سننے کے بعد متفقہ طور پر ان کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا، وہ دن اور آج کا دن قادیانیت نے نہ آئین پاکستان کو مانا، نہ ۱۹۸۴ء کے امتناع قادیانیت آرڈیننس کا احترام کیا، بلکہ دنیا بھر میں پاکستان کو بدنام کیا، اس صورت حال میں تو ان کی حیثیت باغیوں کی سی ہوجاتی ہے۔
ہم منصف مزاج حضرات سے یہ سوال کرنا چاہیں گے کہ دنیا کا کونساایسا ملک ہے جس کا باشندہ ملکی قوانین کو تو نہ مانے اور پھر بھی اس ملک سے اپنے حقوق کا مطالبہ کرے اور شور مچاتا پھرے، لیکن اس کے باوجود نہ صرف یہ کہ یہ ملک پاکستان میں رہتے ہیں بلکہ مسلم اکثریت کے حقوق غصب کرکے ملک پاکستان کے کلیدی عہدوں پر مسلط ہیں۔
قادیانی عبادت گاہوں پر حملے کی آڑ میں قادیانیت نواز صحافی اور ان سے خفیہ مراسم اور یارانہ رکھنے والے کچھ نام نہاد کالم نگار ، اسلام، مسلمان، پاکستانی آئین اور پارلیمنٹ کو مطعون وبدنام کررہے ہیں، خصوصاً قانون توہین رسالت اور امتناع قادیانیت آرڈیننس پر ضرب لگانے کی منصوبہ بندی میں لگے ہوئے ہیں، ایسے بیمار دل اور ذہنی مریضوں کے لئے ایک کثیر الاشاعت اخبار کے کالم نگار جناب سیف اللہ خالد کے چند اٹھائے گئے نکات کے اقتباسات کا مطالعہ ضروری ہوگا، تاکہ انہیں معلوم ہو کہ یہ سازش کہاں، کب اورکس طرح کی گئی ہے۔لیجئے ملاحظہ ہو: جناب سیف اللہ خالد اپنے کالم بعنوان ”قادیانیوں پر حملہ۔ ایک سازش“ کے تحت لکھتے ہیں:
”…حیرت انگیز طور پر قادیانی جماعت کے ترجمان سلیم الدین ہی کا رویہ سب سے زیادہ سوالیہ نشان پیدا کررہا ہے کہ جب واردات ابھی چل رہی تھی، لاشیں گر رہی تھیں، زخمی تڑپ رہے تھے، خون بہہ رہا تھا کہ یہ صاحب بی بی سی سے بات چیت کرتے ہوئے ۱۹۸۴ء کے امتناع قادنیت آرڈنینس ا ور ۱۹۷۴ء میں قومی اسمبلی کے متفقہ فیصلے پر تنقید کر رہے تھے، کیوں؟ اس کا جواب انہی کے ذمہ ہے۔دوسرا معنی خیز رویہ خود قادیانی جماعت کا ہے کہ دونوں معبد میں دسیوں کے حساب سے کلوز سرکٹ کیمرے نصب ہیں، مگر پولیس کو ان کی فوٹیج نہیں دی جارہی، بلکہ اس پر وہ اس قدر حساس ہیں کہ عام اخبار نویس بھی پریشان ہو کر پوچھتے پھرتے ہیں کہ اس کا مقصد کیا ہے؟اس موقع پر جب حکومت پنجاب سوالا ت کی زد پر ہے اور پوری دنیا سیکورٹی ایشو پر سوال اٹھارہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سیکورٹی یہ لوگ خود نہیں لیتے بلکہ اسے اپنے امور میں مداخلت قرار دیتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ اور بہت سے ادارے ہیں جو آہنی پردوں کے پیچھے رہنے کو ترجیح دیتے ہیں، اگر سیکورٹی دی جائے تو اسے اپنی پرائیویسی کے خلاف خیال کرتے ہیں۔ آج کی صورت حال یہ سوال پیدا کر رہی ہے کہ نو گو زون بناکر رہنے کے عادی یہ ادارے جن میں سے اکثریت کا تعلق اقلیتوں سے ہے یانام نہاد انسانی حقو ق سے ۔ اس حوالے سے وہ اتنے حساس کیوں ہے؟ اگر ان کی سرگرمیاں ملکی مفاد اور قوانین کے اندر ہیں تو پھر انہیں خوف کیسا ؟ دوسرا یہ کہ اگر کل کوئی اس طرح کا حادثہ ان کے ساتھ ہو جاتا ہے تو ذمہ دار کون ہوگا؟ حکومت جو سیکورٹی دینے پر آمادہ ہے یا خود یہ ادارے جو سیکورٹی سے الرجک ہیں؟ اس کو بھی دیکھنا چاہیے کہ کیا قانون ایسی حساسیت کی اجازت دیتا ہے؟
سوال یہ بھی ہے کہ قادیانی عبادت گاہوں پر حملوں کے فوراً بعد کینیڈین وزیر خارجہ کا قانون توہین رسالت پر اعتراض کیوں ؟ اور اس حملے سے کوئی دو ہفتے قبل سے ہی ایسی فضا کیوں پیدا کی جاری تھی کہ جیسے کچھ ہونے کو ہے؟ ایک نجی ٹی وی کے اینکر نے جس پر ان سے ر وابط کا الزام ہے پورا پروگرام اس پر کیا کہ اقلیتوں خصوصاً قادیانیوں کو کیا خطرات لاحق ہیں۔ اور یورپی یونین نے کوئی ایک ہفتہ قبل توہین رسالت پر تنقید کی اور احمدیوں کے حوالے سے مطالبات کئے، جس پر شہباز بھٹی نے یقین دہانی کروائی کہ اس سال کے آخر تک قانون توہین رسالت میں تبدیلی کر دی جائے گی، ان سارے واقعات کا باہم تعلق کیا ہے؟ اور ہے بھی یا نہیں ، اس پر سوچنا ضروری ہے۔رہا یہ سوال واردات کس نے کی؟ تو اس حوالے سے کوئی دوسری رائے ہی نہیں کہ ملک دشمن عناصر کو استعمال کرتے ہوئے غیر ملکی انٹیلی جنس کنسو رشیم نے اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ اسلام آباد میں سیکورٹی کے اداروں کے پاس ثبوت موجود ہیں کہ افغانستان کی سرزمین پر را، موساد ، سی آئی اے، اور ایم ون سیکس، کا کنسور شیم کیا گل کھلارہا ہے۔ وزیر داخلہ جن کو ہر جرم کی جڑیں وزیرستان میں دکھائی دیتی ہیں، وہ بھی یہ ماننے پر مجبور ہو گئے کہ را کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا ۔اوپر سے بھارتی ویب سائٹ پر اتر پردیش سے طالبان نامی کسی گروپ کا ان واقعات کی ذمہ داری قبول کرلینا سارے معاملے کو مربوط کردیتاہے۔“ (روزنامہ امت کراچی۔ مورخہ ۳۰۔مئی ۲۰۱۰ء،صفحہ،۴)
خلاصہ یہ کہ مسلمانوں کو مطعون کرنے، اسلام کو بدنام کرنے ، بیرون ملک پاکستان کی ساکھ خراب کرنے، قانون توہین رسالت اور امتناع قادیانیت آرڈیننس کو منسوخ کرانے، مدارس کے خلاف راہ عامہ ہموار کرنے اور جنوبی پنجاب اور وزیر ستان میں آپریشن کا جواز پیدا کرنے کے لئے یہ کھیل کھیلا گیا، ہم اس گھناوٴنی حرکت اور مکروہ کردار کی شدیدالفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ اسلام، اہل اسلام ، پاکستان اور تمام ممالک اسلامیہ کی خصوصی مدد و نصرت فرمائے اور ان کے دشمنوں کو ان کے ناپاک عزائم میں ناکام ونامراد بنائے، آمین۔
وصلی الله تعالیٰ علی خیر خلقہ سیدنا محمد وآلہ وصحبہ اجمعین۔
اشاعت ۲۰۱۰ ماہنامہ بینات , رجب المرجب:۱۴۳۱ھ - جولائی: ۲۰۱۰ء, جلد 73, شمارہ