Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی محرم الحرام ۱۴۳۱ھ - جنوری ۲۰۱۰ء

ہ رسالہ

7 - 13
مناقب حضرت عمر فاروق 
مناقب حضرت عمر فاروق 

نیل کو حکم عمر سن کر پسینہ آگیا
ریت کے ذرے پگھل کر ہوگئے سب آب آب
”یہ مال نہ عمر کا ہے، نہ عمر کے باپ کا،، امیر المؤمنین حضرت عمر بن خطاب  نے ایک عیسائی راہب کے ایک تحریری وثیقہ پیش کرنے پر یہ بات فرمائی۔ بیت المقدس فتح ہوچکا تھا، مسلمانوں نے بیت المقدس کا محاصرہ حضرت عمرو بن عاص  کی قیادت میں کئی ماہ جاری رکھا تھا، پھر سیدنا ابو عبیدہ بن جراح بھی پہنچ گئے تھے، وہاں کے رہنے والوں نے تنگ آکر مسلمانوں کے امیر عسکر کو پیغام بھیجا تھا کہ:
”بیت المقدس کو جو شخص فتح کرے گا ہم اسے اچھی طرح پہچانتے ہیں، اس کی نشانیاں، اس کا حلیہ ہماری آسمانی کتابوں میں لکھا ہوا ہے۔ ہاں اگر تم وہ شخص ہمیں دکھادو اور ہم اسے اپنی کتابوں کے مطابق پہچان لیں تو بغیر لڑائی کے شہر تمہارے حوالے کردیں گے،،۔
نائب رسول ، مراد رسول امیر المؤمنین حضرت عمر  کو بات پہنچائی گئی، انہوں نے سوچا اور مشورہ کیا کہ اگر خون خرابے اور قتل مشرکین کے بغیر ہی اس مقدس شہر پر اسلام کا پرچم لہراسکتا ہے تو سفر کی صعوبتیں مجھے گوارا ہیں…المختصر آں جناب پہنچے، مشرکین اہل کتاب نے اپنی کتاب میں درج تمام علامتیں ان میں موجود پائیں تو کہنے لگے ۔ ”ہذا ہو،، یہ وہی تو ہیں اور شہر پناہ کی چابیاں ان کے حوالے کردیں، اسی واقعہ کے کچھ عرصہ کے بعد ایک عیسائی راہب عالم ان کے پاس آیا اور ان کی خدمت میں ایک تحریر پیش کی، اس تحریر کو پڑھ کر حضرت عمرنے وہ فرمایا جو اوپر درج کیا ہے کہ:”یہ مال نہ عمر کا ہے، نہ عمر کے باپ کا،،۔ساتھ بیٹھے لوگ حیرت میں گم تھے اور ابن خطاب کی تو بیسیوں ایسی کہانیاں ہیں جو اہل علم وفہم ساتھیوں کو حیرت زدہ کردیا کرتی تھیں مگر سیدنا علی  فرمایا کرتے تھے۔”عمر کو کچھ نہ کہو، یہ اپنی حیرت اور استعجاب میں ڈالنے والی ہربات کا جواب رکھتے ہیں،،۔
حاضرین کی حیرانی پر امیر المؤمنین نے پورا واقعہ انہیں سنادیا۔ابن عساکر اور دینوری نے لکھا ہے جسے ازالة الخفا میں نقل کیا گیا کہ حضرت عمر نے فرمایا : میں ایک تجارتی قافلہ کے ساتھ قبل از اسلام ملک شام گیا، قافلہ واپس روانہ ہوا مگر میری کوئی ضروری چیز رہ گئی تھی، میں اسے لینے چلا گیا،قافلہ جا چکا تھا، مجھے ایک پادری اپنے ساتھ گرجا میں لے گیا اور پردیسی سمجھ کر ایک پھاؤڑا اورٹوکری میرے حوالے کی اور مٹی کا ایک ڈھیر دوسری جگہ ڈالنے کا حکم دیا،وہ گرجا کا دروازہ بند کرکے چلا گیا (میں کوئی اس کا غلام تو تھا نہیں) جب وہ دوپہر کو واپس آیا تو مٹی وہیں کی وہیں پڑی تھی، اس نے غصے میں میرے سر پر مکّا مارا، جواب میں میں نے اس کے سر میں پھاؤڑا ماردیا، جس سے اس کا بھیجا نکل آیا ،میں وہاں سے چل دیا، بقیہ دن اور پوری رات چلتا رہا، اگلی صبح ایک گرجا گھر کے سامنے آرام کرنے کے لئے بیٹھ گیا،یہ موجودہ شخص اندر سے نکلا، اس نے مجھے سر سے پاؤں تک غور سے دیکھا، میرے لئے کھانا اور پانی لایا،پھر کہنے لگا:”اہل کتاب جانتے ہیں کہ آج روئے زمین پر مجھ سے بڑا عالم کتب ربانی موجود نہیں، دیکھ رہا ہوں کہ آپ وہی شخص ہیں جو ہمیں اس گرجا سے نکالے گا، آپ اس گرجا کو میرے نام واگزار کردیجئے، مجھے ایک تحریر لکھ دیجئے۔ میں نے کہا: آپ نے مجھے کھانا کھلایاہے، مجھ پر احسان کیا ہے، آپ میرے ساتھ مسخری نہ کیجئے، مگر وہ نہ مانا، آخر میں نے اسے یہ تحریر لکھ دی، آج اسی تحریر کو لے کر یہ حاضر ہوا ہے، کہتا ہے، اپنا وعدہ پورا کیجئے، تو میں نے جواب دیا ہے: یہ مال نہ میرا ہے، نہ میرے باپ کا۔ میں تجھے کیسے دے سکتا ہوں،،۔
سیدنا فاروق اعظم قریش مکہ کی زائد از دو درجن شاخوں میں سے عدی بن کعب کی اولاد میں سے اپنے بہنوئی اور چچازاد بھائی سعید بن زید کے ساتھ عشرہ مبشرہ کی سعادت وبشارت سے سعاد ت مند ہوئے ، آٹھویں پشت میں رسول مقبول ا کے ہم جد بن جاتے ہیں، بخاری شریف ج :۱،ص:۵۴۴ میں ہے کہ فاروق اعظم ایک دن ایک بت خانے میں سورہے تھے کہ ایک بت پر ایک قربانی چڑھائی گئی تو بت کے اندر سے آواز آئی۔”اے جلیح ایک فصیح البیان کہتاہے :”لا الہ الا اللّٰہ،، یہ آواز سن کر لوگ تو بھاگ گئے مگر میں کھڑا رہا، دوسری بار پھر وہی آواز آئی، اس کے کچھ دن بعد چرچا ہوا کہ یہ نبی ہیں۔ کچھ دنوں بعد نبی اکرم ا کو حرم کعبہ میں دوران نماز سورة الحاقة پڑھتے سنا، جس میں قیامت اور حشر ونشر کا موثر بیان ہے،دل پر ایک خاص اثر ہوا، فرماتے ہیں ”وقع الاسلام فی قلبی کل موقع،، اسلام پوری طرح میرے دل میں بیٹھ گیا، مگر بقول محاورہ ”سہج پکے سو میٹھا ہو،، اسلام کا اعلان نہیں کیا۔ اس کے بعد سرداران قریش ابوجہل وغیرہ نے دار الندوة میں میٹنگ بلائی کہ اس نئے مذہب اور اس میں داخل ہونے والے لوگوں کا کیا کیا جائے؟ طے یہ ہوا کہ داعئی اسلام سرور دو عالم ا ہی کا خاتمہ کر دیا جائے۔ مگر اس مشکل قرار داد پر عمل کی کیا صورت ہو، ادھر دو دن پہلے باگارہ الٰہی میں خاتم المعصومین ا کے مقدس ہاتھ عزت اسلام کے لئے ابن خطاب کی نشاندہی کر چکے تھے، اب خطاب کا بیٹا نہایت درجہ اعتماد کے ساتھ اٹھا اور کہنے لگا ”یہ بڑا کام میرے ذمہ لگا دو،، سب سرداروں نے بہ نظر تحسین دیکھا اور کہا کہ ہاں اس جبل عزیمت کو سر کرنا تمہارے ہی جیسے جوان کے مقدر میں ہے۔ حضرت عمر بن خطاب اٹھے اور سید الانبیاء کے گھر کا رخ کیا مگر چند ہی قدم پر ایک دوسرے نوجوان نعیم بن عبد اللہ نے کانٹا بدل دیا۔ ”عمر! پہلے اپنے گھر کی خبر لو ! تمہارے بہنوئی اور بہن کلمہ ٴ توحید پڑھ چکے ہیں،، بہن کے گھر پہنچے ، بہنوئی کو مارا، بہن آڑے آئی اورکہا”عمر تو خطاب کا بیٹا ہے تو میں بھی اسی خطاب کی لخت جگر ہوں، ہماری جان جاسکتی ہے ہم ایمان نہیں چھوڑ سکتے،،۔علامہ اقبال نے کیا خوب کہا:
تو مے دانی کہ سوز قرأت تو
دگرگوں کرد تقدیر عمررا
سیدہ فاطمہ بنت خطاب چند لمحے پہلے سورة طٰہٰ کی تلاوت سیکھ رہی تھیں،ابتدائی آیات تھیں ،سیدنا عمر کی نظر ان آیات مقدسہ پر پڑی تو وہاں لکھا تھا۔ ”اننی انا اللّٰہ لا الٰہ الا انا فاعبدنی،، بلاشبہ میں ہی اللہ ہوں، میرے سوا کوئی الٰہ، کوئی مالک ومختار، کوئی معبود ومسجود ومقصود نہیں، میری بندگی کرلے،،۔ سورہ حدید میں اللہ نے لوہے کی تعریف کی ہے، اگر لوہا خالص ہو تو مقناطیس اسے کھینچ ہی لیتا ہے، نبی کی دعا، بہن کی دعوت اور آیات کریمہ کی گرفت نے ابن خطاب کے دل ودماغ کو کسی دوسرے کا نہ رہنے دیا تھا، قدموں کو اٹھانا محال ہوگیا تھا مگر گرتے پڑتے مدرسہ ٴ حق، دار ارقم سید الکونین ا کے قدموں میں پہنچے، غلامی کا اعلان کیا، سرور دو عالم نے تکبیر بلند فرمائی جس کی تائید میں چالیس نعرہ ہائے تکبیر بلند ہوئے، مشرک سرداران قریش کسی خوشخبری کی انتظار میں تھے، ان پر عالم سوگ طاری ہو گیا، حمزہ وعمر کی قیادت اور خاتم المعصومین کی نگرانی میں چالیس اہل توحید نے پہلی بار حرم کعبہ میں باجماعت نماز ادا کی، ایک روایت میں ہے کہ سیدنا عمر  نے اس کے بعد حرم کعبہ کے متصل مکہ مکرمہ کے بڑے پہاڑ پر کھڑے ہوکر نعرہ ٴ توحید بلند کرکے اپنے اسلام کا اعلان کیا کہ جن لوگوں تک ابھی ابن خطاب کے اسلام کی اطلاع نہیں پہنچی ان کو بھی پتا چل جائے، اس بڑے پہاڑ کانام اسی دن سے ”جبل عمر،، ہوگیا۔
سیدنا عمر داخل اسلام ہوئے تو چالیسویں نمبر پر تھے، دینی خدمات اور فیض صحبت رسول میں قدم بڑھا تے رہے تو سوائے بلا فصل خلیفہ ٴ رسول سیدنا ابوبکر کے سب صحابہ سے آگے بڑھ گئے یعنی ثانی رسول کے ثانی بن گئے، سیدہ طاہرہ ام المؤمنین عائشہ  نے عرض کیا :یا رسول اللہ! آج رات بہت تاریک ہے، بے شمار ستارے چھوٹے بڑے نظر آرہے ہیں اور بے شمار ایسے جو نظر نہیں بھی آرہے، کیا ایسا کوئی مؤمن ہے جن کی نیکیاں ان سیاروں ستاروں جتنی ہوں؟ ارشاد سرور دو عالم ا ہوا، ہاں ابن خطاب کی نیکیاں اس سے بڑھ کر ہیں۔ہاں یہی ابن خطاب جب امیر المؤمنین بنے تو ہوا کے دوش پر ساریہ کو میدان جہاد میں ہدایات دے کر فتح کی راہ دکھائی۔زمین پر زلزلہ آیا تو درہ مار کر کہا: کیا میں نے تجھ پر عدل قائم نہیں کیا؟ زمین سکون پذیر ہوگئی، پہاڑ سے آگ نکلی تو تمیم داری کو بھیج کر اسے واپس ہونے کا حکم دیا ۔دریائے نیل کو جاری نہ ہونے پر ایسا دھمکایا کہ اسے اپنے نخرے بھول گئے ،وہ آج تک اسلامیان مصر کی خدمت میں سرگرداں ہے۔مٹی، آگ، پانی، ہوا ان کا حکم تمام عناصر پر چلا، کیوں نہ چلتا کہ علمائے یہود ونصاریٰ بھی ان کا نام ونسب اور صفات اپنی کتابوں میں لکھا پاتے تھے اور اس کا اعلان قرآن نے بھی کیا کہ اصحاب نبی خصوصاً اصحاب کبار کا مبارک ذکر اور ان کی مبارک امثال تورات وانجیل میں دی جاچکی ہیں، خوش نصیب ہیں وہ جو قرآن ذی شان پر ایمان رکھتے ہیں۔
سمندروں سے خراج مانگا، ابھرتے سورج سے تاج مانگا
کسے خبر ہے کہ ان کا سکہ جہاں میں جاری کہاں کہاں تھا
اشاعت ۲۰۱۰ ماہنامہ بینات , محرم الحرام:۱۴۳۱ھ - جنوری: ۲۰۱۰ء, جلد 73, شمارہ 1

    پچھلا مضمون: چند قیمتی نصائح !
Flag Counter