Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی محرم الحرام ۱۴۳۱ھ - جنوری ۲۰۱۰ء

ہ رسالہ

2 - 13
قومی اور ملکی مفادات کے ”خیر خواہ“...؟
قومی اور ملکی مفادات کے ”خیر خواہ“...؟
حالات وواقعات کا دیانت دارانہ تجزیہ
ایک سرسری جائزہ!

الحمدللّٰہ وسلام علی عبادہ الذین اصطفی!
اخباری اطلاعات کے مطابق پاکستان کی اعلیٰ عدالت سپریم کورٹ کی ۱۷رکنی طویل بینچ نے متفقہ طورپر یہ فیصلہ دیا ہے کہ پاکستان کے جن سابق و حاضر سروس ”بڑوں اورچھوٹوں“ نے قتل وغارت، منی لارڈنگ،ٹارگٹ کلنک کی ،یا غریب ملک کے ملکی خزانہ سے اربوں روپے کے قرضے لے کر این آر او کی ”برکت“سے شیر مادر کی طرح ہضم کئے تھے اور ان کے خلاف این آر او سے قبل اندرون وبیرون ملک اعلیٰ عدالتوں میں مقدمات زیر سماعت تھے،اور این آر او کے نفاذ اور فوجی آمر پرویز مشرف کی ”عنایت“ سے ان تمام مقدمات سے ان کی گلو خلاصی ہوگئی تھی، ان سب کے خلاف ازسرنو مقدمات چلائے جائیں اور ان سے ملکی خزانہ کی لوٹی ہوئی رقم کا حساب لیا جائے۔ اس سلسلہ کی تفصیلی خبر ملاحظہ ہو: ”اسلام آباد (طارق اقبال/ نمائندہ جنگ /اے پی پی) سپریم کورٹ نے قومی مفاہمتی آرڈیننس (این آر او) کو آئین سے متصادم قرار دیتے ہوئے اس کو ابتدا سے ہی کالعدم قانون قرار دے دیا ہے اور قرار دیا ہے کہ این آر او کا اجرا قومی مفاد کے منافی ہے اور آئین کی مختلف شقوں کی خلاف ورزی کرتا ہے، جبکہ عدالت نے این آر او کے تحت ختم کئے گئے مقدمات کو این آر او کے اجرا کے دن ۵/ اکتوبر ۲۰۰۷ء سے پہلے والی پوزیشن پر بحال کردیا ہے اور ہدایت کی ہے کہ ان تمام مقدمات کو اسی جگہ سے دوبارہ شروع کیا جائے جہاں پر این آر او کے تحت کارروائی روک دی گئی تھی، جبکہ عدالت نے صدر آصف علی زرداری کے بیرون ملک مقدمات کی بحالی کا بھی حکم دیا ہے اور حکومت کو ہدایت کی ہے کہ سوئس مقدمات کی بحالی کے لئے درخواست دے۔ فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ اٹارنی جنرل کو یہ اختیار نہیں تھا کہ وہ سوئس مقدمات ختم کرنے کے لئے خط لکھتے۔ فیصلے میں وفاقی حکومت سے کہا گیا ہے کہ وہ سابق اٹارنی جنرل ملک قیوم کے خلاف کارروائی کرے۔ فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ نیب کے چیئرمین ،نیب پراسکیوٹر جنرل اور ڈپٹی پراسکیوٹر جنرل کو تبدیل کرکے نئی تعیناتیاں کی جائیں۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں ۱۷ رکنی بینچ نے متفقہ طور پر مختصر فیصلہ سنایا جس میں کہا گیا کہ صدر آصف علی زرداری کے بیرون ملک سوئٹزرلینڈ میں زیر سماعت مقدمات سے الگ ہونے اور قانونی معاونت سے دستبردار ہونے کے لئے سابق اٹارنی جنرل ملک قیوم کا تحریر کردہ خط مجاز اتھارٹی کی اجازت کے بغیر لکھا گیا اور اس کو کسی بھی قانونی جواز کے بغیر قرار دیا اور مزید کہا کہ ملک قیوم کو ایسا اقدام کرنے کا قانونی اختیار نہیں تھا اور نہ ہی مجاز اتھارٹی نے ان کو ایسا کرنے کی اجازت دی تھی، کیونکہ عدالت میں این آر او سے متعلق پیش کردہ ریکارڈ سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ اس ضمن میں کوئی حکم یا اجازت شامل نہیں تھی۔ عدالت نے بیرون ملک مقدمات میں منی لانڈرنگ سے متعلقہ رقم کے حصول کے لئے دعویٰ کی بحالی کا حکم دیا ہے اور وفاق کو اس ضمن میں اقدامات اٹھانے کی ہدایت کی ہے۔ عدالت نے کہا ہے کہ قانونی معاونت کے معاہدہ اور رقم کے حصول کے دعویٰ سے دستبرداری شروع سے ہی موجود نہ تھی، عدالت نے وفاقی حکومت کو ہدایات دی ہیں کہ بیرون ملک مقدمات کی دستبرداری کے غیر قانونی اقدامات پر ملک قیوم کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے جبکہ فل کورٹ بینچ نے اپنے فیصلے میں چیئرمین نیب نوید احسن پراسکیوٹر جنرل نیب دانشور ملک اور ایڈیشنل پراسکیوٹر جنرل عبدالبصیر قریشی کے خلاف اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ ان افراد نے کیس کی سماعت کے دوران عدالت کی ایمان دارانہ طریقے سے معاونت نہیں کی جس کے بعد یہ افراد اہم عہدوں پر قائم رہنے کے اہل نہیں ہیں۔ ان عہدوں پر ساکھ رکھنے والے افراد کا تقرر کیا جائے۔ عدالت نے ان عہدیداروں کو فارغ کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ جب تک ان عہدوں پر نئی تقرریاں نہیں ہوتیں یہ افراد اپنے عہدوں پر کام جاری رکھ سکتے ہیں اور سپریم کورٹ کے مانیٹرنگ سیل کو اپنی ہفتہ وار رپورٹ بھجوائیں گے۔ عدالت نے کہا کہ این آر او آئین کے ارٹیکل ۴،۸،۲۵،۶۲ ایف، ۶۳ ون پی، ۸۹،۱۷۵ اور ۲۲۷کے منافی ہے، این آر او کا اجرا قومی مفاد کے منافی ہے، یہ قومی مفاہمت نہیں تھی۔ عدالت نے نیب کے مقدمات کی مانیٹرنگ کے لئے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے مانیٹرنگ سیل بھی قائم کردیئے۔ سپریم کورٹ میں چیف جسٹس یا ان کی جانب سے نامزد کردہ کوئی بھی جج نیب کے ان مقدمات پر ہونے والی عدالتی کارروائی کو مانیٹر کریں گے، چند صوبائی ہائیکورٹس میں بھی چیف جسٹس یا ان کی جانب سے نامز کردہ جج کی سربراہی میں اس طرح کی سیل قائم کی جائے گی۔ عدالت نے سیکریٹری قانون کو حکم دیا کہ وہ ایسے مقدمات کی تیزی سے سماعت کے لئے احتساب عدالتوں کی تعداد بڑھائے اور اس ضمن میں فوری اقدامات کریں۔ عدالت نے کہا کہ این آر او کی گہرائی سے پتہ چلتا ہے کہ یہ قومی مفاہمت نہیں تھی جس طرح کے قانون ساز اسمبلی نے ۱۹۷۳ء کے آئین کے وقت مفاہمت کی تھی۔ این آر او کے تحت تمام اقدامات، احکامات، فوائد، بشمول مقدمات سے بریت سب اقدامات کو کالعدم قرار دے دیا ہے اور ان کو ایسے تصور کیا جائے گا جیسے کہ یہ موجود ہی نہیں تھی۔ عدالت نے کہا کہ این آر او کے سیکشن ۲ اور ۷ کے تحت جن مقدمات میں فائدہ حاصل کیا گیا ایسے تمام مقدمات ۱۵ اکتوبر سے پہلی والی پوزیشن پر بحال ہوجائیں گے اور ان تمام ختم کئے گئے مقدمات میں وہیں سے کارروائی شروع ہوگی جہاں سے رُکی تھی، جبکہ عدالت نے اپنے مختصر حکم میں وفاقی حکومت، چاروں صوبائی حکومتوں، نیب حکام اور استغاثہ کے افسران کو بھی ہدایت کی ہے کہ وہ ان مقدمات کی عدالت میں معاونت کریں۔ عدالت نے این آر او کے تحت ختم کئے گئے ایسے مقدمات جو کہ زیر تفتیش تھے ان میں تفتیش بحال کردی ہے جبکہ سپریم کورٹ نے ۳۱ اے سیکشن کو بھی فعال کردیا ہے اور سیکشن ۶ کے تحت حاصل کردہ فائدہ بھی ختم کردیا گیا ہے۔ ۱۷ رکنی بینچ جسٹس جاوید اقبال، جسٹس سردار محمد رضا خان، جسٹس خلیل الرحمن رمدے، جسٹس میاں شاکراللہ جان، جسٹس تصدق حسین جیلانی، جسٹس ناصر الملک، جسٹس راجہ فیاض احمد، جسٹس چوہدری اعجاز احمد، جسٹس محمد سائر علی، جسٹس محمد محمود اختر شاہد صدیقی، جواد ایس خواجہ ، جسٹس انور ظہیر جمالی، جسٹس خلیجی عارف حسین، جسٹس رحمت حسین جعفری، جسٹس طارق پرویز اور جسٹس غلام ربانی پر مشتمل تھا۔“ (روزنامہ جنگ کراچی ، ۱۷ دسمبر ۲۰۰۹ء)
خدا کرے کہ اس فیصلہ پر عمل درآمد ہوجائے اور اللہ تعالیٰ فیصلہ کرنے والوں کی حفاظت فرمائے اور انہیں آئندہ بھی جرأت، ہمت اور استقامت پرگامزن رکھے۔ بلاشبہ ہمارے ملک میں فیصلے تو بہت ہوتے ہیں اور اچھے اچھے ہوتے ہیں، مگر شومی ٴ قسمت کہ وہ عدالتی فائلوں سے باہر نہیں آسکتے، اس لئے کہ جن لوگوں کے پاس قوت نافذہ ہے، افسوس کہ وہ خود چور اور ڈاکو ہوتے ہیں یاان کے سرپرست ،اور یہ دو اور دو چار کی طرح واضح ہے کہ جب کسی باغ اور ریوڑ کا پاسبان اور رکھوالا خود ہی چور بن جائے تو اس باغ اور گلے کی حفاظت کیونکر ہوسکے گی؟
بہرحال سپریم کورٹ کی بینچ کا یہ فیصلہ اپنی جگہ قابل ستائش اور لائق صد آفرین ہے۔ اس فیصلہ سے قبل این آر او کے فیض سے مستفید ہونے والوں کی جو فہرست جاری ہوئی ہے ،اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ خیر سے اس گنگا میں سب ہی نے اشنان فرمایا ہے اور پاکستانی لیلائے اقتدار سے ہم آغوش ہونے والوں میں سے کوئی بھی اس سے محروم نہیں رہا، اگر کسی نے خود اس گنگا سے ہاتھ دھونے میں احتیاط کی ہے تو کم از کم اپنی بیوی، بچوں اور اعزہ اقربا کو اس ”خیرات“ سے حصہ دلانے کی سعی و کوشش ضرور فرمائی ہے۔
اس فہرست سے اندازہ ہوتا ہے کہ کم از کم موجودہ حکومت ...الا ماشاء اللہ...ساری کی ساری این آر او زدہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر خدانخواستہ اس فیصلہ پر عمل درآمد ہوگیا تو ان ”غریبوں“ کا کیا بنے گا جنہوں نے ملکی خزانہ کی اس ”زکوٰة“ سے ”تن بدن“ کا رشتہ قائم رکھنے کی سعی و کوشش فرمائی تھی؟ اور اگر بالفرض اس فیصلہ پر عمل درآمد ہوجاتا ہے اور آئندہ کے لئے قانون سازی ہوجاتی ہے کہ کوئی ”غریب و مسکین“ ملکی خزانہ سے قرض لے کر معاف نہیں کراسکے گا، تو اس کا خطرناک اور ”تاریک ترین“ پہلو یہ ہوگا کہ ان جدی پشتی ”غریبوں“ کا مستقبل تاریک ہوجائے گا، جن کی گزر و بسر ہی ہمیشہ اسی ”زکوٰة و خیرات“پر رہی ہے۔
بہرحال یہ فیصلہ اپنی جگہ سو فیصد درست ہے، تاہم عدالت عالیہ کو اس طرف بھی توجہ کرنا چاہئے کہ جن لوگوں نے پاکستان کے اقتدار کی کرسی پر بیٹھ کر ملکی مفادات کا سودا کیا، اس کی خود مختاری اور سالمیت کے عوض اپنی جیبیں بھریں اور اغیار کو لاجسٹک سپورٹ مہیا کی، ان کو اپنے اڈے فراہم کئے، اپنے ہی لوگوں کو گرفتار کرکے اغیار کے حوالے کیا، ملک کا اسلامی تشخص بگاڑا، ملک کو لاقانونیت اور دہشت گردی میں دھکیلا، ملک کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کو پامال کیا۔ جس کی بناپر آج ملک بھر میں ڈرون حملوں اور بلیک واٹر نامی امریکی ایجنسیوں کا طوفان ہے، وہ جب چاہتے ہیں اور جہاں چاہتے ہیں بمباری اور فائرنگ کرکے معصوم انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں اور جب جہاں چاہتے ہیں ریموٹ کنٹرول کے ذریعے مساجد، مدارس، فوجی، عسکری مراکزاور پولیس اسٹیشنوں پر حملے کرتے ہیں، اسی طرح ملک بھر کے نامور لیڈروں، مذہبی راہنماؤں اور اپنے مفادات کے مخالف دینی، مذہبی، سیاسی اور فوجی افسران کو اپنی راہ سے ہٹانے کی ناپاک کوشش کرتے ہیں اور اس کا سارا الزام دین دار حلقوں کے سر تھوپ دیتے ہیں اور اپنے ایجنٹوں کے ذریعے اس سب کو ”طالبان“ کی کارروائیاں باور کراتے ہیں، چنانچہ اس کے ثبوت کے لئے باقاعدہ کسی نام نہاد طالبان لیڈر کی جانب سے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے کا بیان بھی اخبارات میں لگوادیتے ہیں۔
اس سے جہاں ملک و قوم کی بدنامی ہوتی ہے، وہاں دین دار طبقہ کے خلاف آپریشن کا جواز بھی مہیا ہوتا ہے ،اس کے علاوہ اندرون ملک کارروائیاں کرنے اور ڈرون حملوں کا جواز بھی مل جاتا ہے، بلاشبہ یہ سب کچھ اغیار کی سازش اور ملک و قوم دشمن اور ننگ دین و وطن افراد کی مفاد پرستی کی ”برکت“ ہے۔
بیرونی دراندازوں کے ڈرون حملے اور بلیک واٹر نامی امریکی ایجنسیوں کی کارروائیاں ایسی منظم اور پُر پیچ ہوتی ہیں کہ عام شہری ان کی شرارتوں اور سازشوں کا ادراک تک نہیں کر پاتا، مثلاً ایک طرف وہ دینی مدارس، مساجد، دین دار علاقوں اور غیور مسلمانوں پر حملے کرتے ہیں تو اس کے فوراً بعد فوجی، عسکری مراکز اور پولیس اسٹیشنوں پر حملہ کرکے یہ تاثر دیتے ہیں کہ یہ طالبان کی ہی کارروائیاں ہیں، دوسری طرف وہ اپنے ایجنٹوں کے ذریعے طالبان کے نمائندوں کے نام سے اس قسم کے بیانات بھی دلادیتے ہیں کہ یہ کارروائی ہم نے کی ہے۔ اس سے جہاں سیدھی سادی عوام، دین دار طبقہ، مساجد، مدارس، علما، طلبا سے بدظن ہوجاتی ہے، وہاں پاکستانی افواج اور حکومت و پولیس کو بھی دین دار طبقہ مدارس اور مساجد اور طالبان کے خلاف کارروائی پر آمادہ اور برانگیختہ کیا جاتا ہے، ورنہ کون نہیں جانتا کہ نماز پڑھنے والے مسلمانوں خصوصاً بوڑھوں اور بچوں پر حملہ کرنا اور ان کو خاک و خون میں تڑپانا کسی دین دار بلکہ کسی مسلمان کا کام نہیں ہوسکتا ۔ یہاں یہ اشکال بھی نہیں ہونا چاہئے کہ اگر یہ کارروائیاں طالبان نہیں کرتے تو وہ اس کو قبول کیوں کرتے ہیں؟ اس لئے کہ اخبارات، رسائل، میڈیا اور ملک و قوم کے بہی خواہوں کے بیانات شاہد ہیں کہ یہ طالبان کا نہیں، بلکہ طالبان کی طرف سے طالبان کے دشمنان کا بیان ہوتا ہے، ورنہ کون نہیں جانتا کہ کوئی اس قسم کی حرکت کا ارتکاب کرکے اس کا اعتراف کیونکر کرسکتا ہے؟
پھر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ آج تک ایسے کسی بیان کے بارہ میں ثبوت مہیا نہیں ہوسکا اور نہ ہی ہوسکتا ہے کہ یہ کس نے جاری کیا؟ اور کہاں سے جاری ہوا؟ ایسے میں اگر کوئی بدباطن ایسا بیان جاری کردے تو اس سے باز پرس کون کرسکتا ہے؟
دیکھا جائے تو دراصل یہ بین الاقوامی میڈیا وار ہے اور پاکستان اس کی شش جہاتی کاٹ کا شکار ہے مثلاً:
۱:...ان گھناوٴنی کارروائیوں سے اہل دین، مساجد، مدارس اور علما، طلبا کے خلاف کارروائی کرنے کی فضا ہموار کی جارہی ہے اور ان کو گالی کا درجہ دینا مقصود ہے۔
۲:... اس صورت حال سے پاکستان اور مسلمانوں کو بدنام کرنا مقصود ہے۔
۳:... اس سے پاکستان میں امریکی دراندازوں کی موجودگی کا جواز ثابت کرنا ہے ۔
۴:... اس سے پاکستان کو معاشی، اقتصادی اعتبار سے کمزور کرنا مقصود ہے۔
۵:... اس سے ملکی فوج، پولیس اور عوام کو باہم دست و گریباں کرنا مقصود ہے تاکہ وہ اپنے حریف ممالک کی طرف آنکھ اٹھاکر نہ دیکھ سکیں۔
۶:... اس سے پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں پر ہاتھ صاف کرنا اور اس پر قبضہ کرنا مقصود ہے۔
لہٰذا اگر ملکی خزانہ لوٹنے والے مجرم ہیں اور واقعی مجرم ہیں تو سوال یہ ہے کہ جن لوگوں نے ملکی سالمیت کا سودا کیا ہے، اس کو دہشت گردی کی موجودہ دلدل میں دھکیلا ہے اور اس کو اپنے مفادات کی بھینٹ چڑھایا ہے ،وہ کیونکر مجرم نہیں ؟
نیز ملکی سا لمیت کو مخدوش کرنے کے علاوہ ملکی خزانہ میں سے لاکھوں، کروڑوں کا اسلحہ اور فوج کی صلاحیتوں کو اپنے ہی شہریوں کے خلاف استعمال کرنا، لاکھوں لوگوں کو گھر سے بے گھر کرنا، بستیوں کی بستیاں اور شہروں کے شہر بلکہ شمالی علاقہ جات، سوات اور پورے وزیرستان کی تباہی و بربادی کی ذمہ داری بھی ان مجرموں کے سر آتی ہے۔ لہٰذا ان کے خلاف بھی کوئی اقدام ہونا چاہئے اور ان کے خلاف بھی اعلیٰ عدالت کو توجہ دینی چاہئے، کیونکہ ملکی خزانہ تب ہی کار آمد ہوگا جب ملک محفوظ ہوگا، اگر خدانخواستہ ملک ہی محفوظ نہ رہے تو ملکی خزانہ کس کام کا؟
آخر میں ایک اور گزارش بھی کرنا چاہوں گا، وہ یہ کہ:
جو طبقہ ملا، مولویوں، علماء، دین دارطبقہ اور مذہبی لیڈروں کو منہ بھر کر گالیاں دیتا ہے اور ان کی توہین و تنقیص کے کسی موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتا اور اسے ملک و قوم کے لئے نقصان دہ تصور کرتا ہے، ان کی خدمت میں عرض ہے کہ وہ ذرا این آر او کی جاری شدہ اس طویل ترین فہرست پر بھی ایک نظر ڈال لیں اور بتلائیں کہ ملک و قوم کا دشمن ملا ،مولوی ہے؟ یا لکھا پڑھا روشن خیال طبقہ؟
چنانچہ آپ آٹھ ہزار سے زائدافراد کی اس بھاری بھرکم فہرست کو بغور پڑھ جایئے بلکہ بار بار پڑھئے! انشاء اللہ ان میں سے کوئی ایک بھی ملا، مولوی نظر نہیں آئے گا، بلکہ ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہوگا جسے دینی یا مذہبی راہنما کا نام دیا جاسکے، ماشاء اللہ اس میں سب ہی وہ لوگ ہیں جو قوم کے معتمد اور لائق صد رشک لیڈران ہیں اور انہیں ملک و قوم کی خیر خواہی کا دعویٰ اور لکھے پڑھے ہونے کا زعم بھی ہے۔ فیاسبحان اللّٰہ۔
اس لئے پاکستانی عوام سے درخواست ہے کہ وہ علماء کو بدنام کرنے کی سازش کا ادراک کریں اور پہچانیں کہ ملک دوست کون ہے؟ اور ملک دشمن کون؟ ملکی خزانہ کو نقصان پہنچانے والے کون ہیں؟اور اس کے محافظ کون؟ ملک پر بوجھ کون ہیں؟ اور اس کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کے محافظ کون؟

وصلی اللّٰہ تعالیٰ علی خیر خلقہ محمد وآلہ واصحابہ اجمعین
اشاعت ۲۰۱۰ ماہنامہ بینات , محرم الحرام:۱۴۳۱ھ - جنوری: ۲۰۱۰ء, جلد 73, شمارہ 1

    پچھلا مضمون: بت کدے میں برہمن کی پختہ زناری بھی دیکھ !
Flag Counter