Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی محرم الحرام ۱۴۳۱ھ - جنوری ۲۰۱۰ء

ہ رسالہ

3 - 13
عورتوں کے لباس اورزیب وزینت کا معیار !
عورتوں کے لباس اورزیب وزینت کا معیار

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان عظام مندرجہ ذیل مسئلہ میں کہ:
۱… آج کل عورتوں کی کثرت تنگ اور باریک لباس اور اس طرح ہاف بازو قمیص پہنتی ہیں، شرعاََایسالباس پہننااوراس میں نماز پڑھنا کیسا ہے؟
۲…عورتوں کے لئے لباس کا معیارکیا ہے یعنی کتنا کھلا ہو، اس طرح گلا کتنا کھلا ہو؟ ۔
۳…عورت رات کو سونے کے لئے ہاف بازو والا لباس پہن سکتی ہے اور کیا عورت کو سوتے وقت بھی سر پر دوپٹہ کرنا چاہئے؟ وضاحت فرمادیں۔
۴…موجودہ دور میں بیوٹی پارلر سے دلہن کا میک اپ کرانا کیسا ہے؟
۵… عورت کاناخن بڑھانا، سر کے بال کاٹنا،بھنویں بنانا کیسا ہے؟
۶…عورت کا گھر میں خوشبو لگانا کیسا ہے؟

محمد شعیب ندیم تلہ گنگ چکوال۔

الجواب ومنہ الصدق والصواب
۱…واضح رہے کہ عورتوں کویسا لباس پہننا جس سے عورت کا بدن جھلکے یا ایسا چست لباس پہننا جس سے اعضاء کی ساخت ظاہر ہو، حرام ہے۔ جیساکہ حدیث شریف میں ہے:
”عن ابی ہریرة  قال: قال رسول اللہ ا: صنفان من اہل النار لم ارہما قوم معہم سیاط کأذناب البقر یضربون بہا الناس ونساء کاسیات عاریات ممیلات مائلات رؤسہن کأسنمة البخت المائلة لایدخلن الجنة ولایجدن ریحہا وان ریحہا لتوجد من مسیرة کذا وکذا،، (صحیح مسلم ۲/۲۰۵)
ایسے لباس میں نماز نہیں ہوگی ،البتہ اگر چست لباس اتنا موٹا ہو کہ اس میں سے بدن کارنگ نظر نہ آتا ہو تو اس میں اگرچہ نماز کا فرض تو ادا ہوجائے گا، مگر مکروہ ہوگا۔جیساکہ فتاویٰ شامی میں ہے:
”وللحرة جمیع بدنہا حتی شعرہا النازل فی الاصح خلا الوجہ والکفین، فظہر الکف عورة علی المذہب والقدمین علی المعتمد،،۔ (۱/۳۷۶)
وفیہ ایضاً: (قولہ لایصف ما تحتہ) بان لایری منہ لون البشرة احتراز ا عن الرقیق ونحو الزجاج،،۔ (۱/۳۸۱)
۲۔۳…عورت ذات کی تخلیق اللہ تعالیٰ نے اس طرح کی ہے کہ اس کا وقار اسی وقت برقرار رہ سکتا ہے جب وہ اسلامی تعلیمات کے مطابق مکمل پردہ میں ہوگی اور اگر وہ اسلامی تعلیمات سے انحراف کرتے ہوئے بلاجھجک اور بلا حجاب غیر مردوں کے سامنے آئے گی تو جہاں اور لوگوں کے فتنہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہے، وہیں خود اس عورت کے محفوظ رہنے کے امکانات معدوم ہو جاتے ہیں۔ حضور اکرم اکا ارشاد ہے:
”المرأة عورة فاذا خرجت استشرفہا الشیطان،،۔ (مشکوٰة ص:۲۶۹)
عورت کے اس وقار کو برقرار رکھنے کے لئے شریعت مطہرہ نے اس کے لباس کی بھی کچھ حدود متعین کی ہیں، چنانچہ عورت کو ایسے لباس کے استعمال سے منع کردیاگیا ہے جس سے اس کا بدن ظاہر ہوتا ہو،جیساکہ حدیث ہے:
”عن عائشة ان اسماء بنت ابی بکر دخلت علی رسول اللّٰہ ا وعلیہا ثیاب رقاق فاعرض عنہا رسول اللّٰہا وقال: یا اسماء ان المرأة اذا بلغت المحیض لم یصلح لہا ان یری منہا الا ہذا وہذا واشار الی وجہہ وکفہ،،۔ (سنن ابی داؤد ۲/۲۱۳)
بلکہ باریک لباس پہننے کو برہنہ ہونے کے مثل قرار دے کر اس پر سخت وعید فرمائی ہے،جیساکہ حدیث ہے:
”عن ابی ہریرة  قال: قال رسول اللہ ا : صنفان من اہل النار لم ارہما قوم معہم سباط کأذناب البقر یضربون بہا الناس ونساء کاسیات عاریات ممیلات مائلات رؤسہن کأسنمة البخت المائلة لایدخلن الجنة ولایجدن ریحہا وان ریحہا لتوجد من مسیرة کذا وکذا،،۔ (مسلم ۲/۲۰۵)
علامہ ابن حجرنے ”فتح الباری میں نقل کیا ہے:
”وکانت ہند لہا ازرار فی کمیہا بین اصابعہا والمعنی انہا کانت تخشی ان یبدو من جسدہا شئ لسبب سعة کمیہا فکانت تزر ذلک لئلا یبدو منہ شئ فتدخل فی قولہ ا کاسیة عاریة…،، (فتح الباری ۱۰/۳۷۳)
اسی طرح عورت کو اپنا سینہ بھی ڈھانپ کر رکھنا ضروری ہے، قمیص کا گلااگر اتنا کھلا ہو جس سے سینہ مکمل طور پر نہ چھپتا ہو تو یہ حرام ہے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ دوپٹاکے ذریعے سے جسم کی بناوٹ کو بھی پوشیدہ رکھنا ضروری ہے، اللہ تعالیٰ ”سورة النور،، میں ارشاد فرماتے ہیں:
”ولیضربن بخمرہن علی جیوبہن،، ( نور:۳۱)
باقی جہاں تک رات کو سوتے وقت عورت کے لئے ہاف بازو والے لباس کے استعمال اور سر پر دوپٹانہ لینے کا تعلق ہے تو گو کہ اس کی اجازت ہے لیکن احتیاط بہرحال بہتر ہے۔ فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
”فی غریب الروایة: یرخص للمرأة کشف الرأس فی منزلہا وحدہا فاولیٰ ان یجوز لہا لبس خمار رقیق یصف تحتہا عند محارمہا کذا فی القنیة،، (۵/۳۲۳)
۴… بیوٹی پارلر سے دلہن کا میک اپ کرانا بہت سے مفاسد شرعیہ پر مشتمل ہونے کی بناء پر ناجائز ہے، نیز فضول خرچی اور لغو کام ہے بلکہ ایک قسم کی دھوکہ دہی ہے کہ اپنے اصلی رنگ کو چھپا نا اور مصنوعی خوبصورتی کی نمائش کرنا ہے، نیز زیب وزینت کو قدیم طریقے اپنا کر بھی پورا کیا جاسکتا ہے۔
۵… عورتوں کے لئے ناخن بڑھانا، سرکے بال کٹا نا، بھنویں بنانا حرام ہے، ہاں اگر بھنویں اتنی بڑی ہوں کہ چہرہ بدنما معلوم ہوتا ہو تو پھر ضرورت کے بقدر ان کی درستگی کی گنجائش ہے۔
حدیث شریف میں ہے:
”من الفطرة حلق العانة وتقلیم الاظفار وقص الشارب،، (بخاری ۲/۸۷۵)
فتاوی سراجیہ میں ہے:
”ویستحب قلم الاظفار یوم الجمعة فان راٰی انہ جاوز الجلد قبل یوم الجمعة یکرہ لہ التاخیر،، (باب المتفرقات ص:۷۷)
ملا علی قاری  نے ناخن بڑھانے کا نقصان ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے:
”من کان ظفرہ طویلاِ کان رزقہ ضیقاََ،، (مرقات: ص:۲۱۲)
فتاوی شامی میں ہے:
”قطعت شعر رأ سہا اثمت ولعنت زاد فی البزازیة وان یاذن الزوج لانہ لاطاعة لمخلوق فی معصیة الخالق، ولذا یحرم علی الزوج قطع لحیة والمعنی المؤثر التشبہ بالرجال،،۔ (۶/۴۰۷)

صحیح مسلم میں ہے:
”عن عبد اللّٰہ  قال: لعن اللّٰہ الواشمات ،والمستوشمات ،والنامصات، والمتنمصات، والمتفلجات للأسنان، المغیرات خلق اللہ،،۔ (۲/۲۰۵)
وقال الامام النووی تحتہ:
”اما النامصة :فہی التی تزیل الشعر من الوجہ ،والمتنمصة :التی تطلب فعل ذلک بہا ،وہذا الفعل حرام… وان النہی انما ہو فی الحواجب وما فی طرف الوجہ،،۔ (۲/۲۰۵)
فتاوی شامی میں ہے:
”ولعلہ محمول علی ما اذا فعلتہ لتتزین للاجانب، والا فلو کان فی وجہہا شعر ینفرز وجہا عنہا لسببہ ففی تحریم ازالتہ بعد ،لان الزینة للنساء مطلوبة للتحسین، الا ان یحمل علی مالا ضرورة الیہ۔ وفی تبیین المحارم: ازالة الشعر من الوجہ حرام ،الا اذا نبت للمرأة لحیة او شوارب فلاتحرم ازالتہ، بل تسحتب… وفی التاتارخانیة عن المضمرات: ولابأس باخذ الحاجبین وشعر وجہہ ما لم یشبہ المخنث،،۔ (۵/۳۳۹)
عورت کے لئے ایسی خوشبو کا استعمال جو پھیلتی ہو ،حرام ہے۔ حدیث شریف میں ہے:
’وایما امرأة استعطرت فمرت علی قوم لیجدوا من ریحہا فہی زانیة،،۔ (نسائی ۱/۲۹۲)
البتہ گھر میں شوہر کے لئے خوشبو اور عطر وغیرہ لگانا جائز ہے،ملا علی قاری  فرماتے ہیں:
”اما اذا کانت عند زوجہا فلتتطب بما شاء ت،، (مرقات:ص:۲۲۵)

الجواب صحیح الجواب صحیح

محمد عبد المجید دین پوری محمد شفیق عارف محمد

کتبہ

ابراہیم فضل خالق

متخصص

جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن
اشاعت ۲۰۱۰ ماہنامہ بینات , محرم الحرام:۱۴۳۱ھ - جنوری: ۲۰۱۰ء, جلد 73, شمارہ 1

    پچھلا مضمون: قومی اور ملکی مفادات کے ”خیر خواہ“...؟
Flag Counter