Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی محرم الحرام ۱۴۳۱ھ - جنوری ۲۰۱۰ء

ہ رسالہ

11 - 13
محبت رسول ﷺایمان میں سے ہے !
محبت رسول ﷺایمان میں سے ہے

غالباً سنہ ۲۰۰۸ء کا واقعہ ہے کہ جامعة ازہر مصر کی جانب سے ایک کانفرنس کوالالمپور مالیشیا میں ”ملتقیٰ خرّیجی الأزہر“ کے عنوان سے منعقد ہوئی، جس کی میزبانی مالیشیا گورنمنٹ کی مذہبی امور کی وزارت کررہی تھی، مجھے بھی اس کانفرنس میں شرکت کی دعوت ملی، اس کانفرنس میں میری ملاقات فضیلة الشیخ الدکتور نور الدین عتر سے ہوئی، جو دمشق یونیورسٹی کے شعبہ علوم القرآن والسنة کے سابق نگران اعلیٰ ہیں، جامعة ازہر سے دکتورہ کیا ہے، اور چند سال جامعة اسلامیة مدینہ منورہ میں بھی استاذ رہے ہیں، میں نے بھی اس دوران ان سے ”مصطلح اصول حدیث“ کا مضمون پڑھا ہے، اس اعتبار سے وہ میرے استاذ ہیں، البتہ اس وقت یہ جوان تھے، اب بوڑھے اور کمزور ہوگئے ہیں، بہت محبت اور شفقت سے ملے، اور مجھے اپنی لکھی ہوئی کتاب ”حب الرسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم من الإیمان“ دی اور اس کے سرورق پر لکھدیا کہ یہ ہدیہ ہے اور آپ کو اس کی نشر واشاعت اور ترجمہ کی اجازت ہے، میں نے مسلمان اردو خواندہ بھائیوں تک پہنچانے کے لئے اس کا اردو ترجمہ کیاہے۔
”حبّ الرسول صلی الله علیہ وسلم من الإیمان“یہ عنوان ہی جاذبِ نظر ہے اور جب آپ اس رسالہ کو پڑھیں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ محبت نبوی کیا ہے؟ اس کے تقاضے کیاہیں؟ اور صحابہ کرام نے کس انداز میں آپ صلی الله علیہ وسلم سے محبت کی؟ یہ سب کچھ آپ اس کتاب میں پڑھیں گے۔
حضور صلی الله علیہ وسلم سے محبت، ایمان کا جز ہے اور محبت کی منجملہ علامات میں سے یہ ہے کہ تمام معاملات میں حضور صلی الله علیہ وسلم کا اتباع کیا جائے، قرآن کریم سے محبت اور تلاوت ہو، آپ کی احادیث پڑھی جائیں، آپ صلی الله علیہ وسلم کی سنت اور طریقہ پر عمل کیا جائے، آپ کی سیرت اور شمائل کو اپنایا جائے، آپ کا ذکر خیر کثرت سے کیا جائے، آپ پر درود پڑھا جائے، آپ صلی الله علیہ وسلم سے ملنے کا اشتیاق ہو، یہ سب محبت کی علامات ہیں اور ایسی محبت کا عملی نمونہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جماعت تھی۔
صحابہ کرام حضور صلی الله علیہ وسلم کی نبوت کے عینی شاہد اور گواہ، آپ صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات سے آراستہ وپیراستہ، آپ صلی الله علیہ وسلم کی تربیت وصحبت یافتہ اور آپ کے دین کو پہچانے اور پھیلانے کا اولین ذریعہ اور وسیلہ تھے، صحابہ کرام کی زندگی رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی محبت سے معمور اور بھر پور تھی، اپنی جان ومال اور آل واولاد کی پرواہ کئے بغیر آپ صلی الله علیہ وسلم کے ہر حکم پر تعمیل کرنا ان کا خاصہ اور طرہ ٴ امتیاز تھا۔
صحابہ کرام نے آپ صلی الله علیہ وسلم کی اسی محبت کو اقوام عالم میں روشناس کرایا اور پھیلایا جو آپ صلی الله علیہ وسلم کے مکارم اخلاق اور جود وکرم کے ذریعہ ان کے اعمال واخلاق پر چھائی ہوئی تھی۔ صحابہ کرام کی یہ اعلیٰ سیرت اسلام کی طرف دلوں کے میلان کا ذریعہ اور اقوام عالم پر ان کی عظمت وفضیلت کا سبب بنی۔
صحابہ کرام آپس میں الفت ومحبت، عزت واحترام اور مرتبہ و مقام کاپاس اور لحاظ رکھتے تھے، آپ اس کتاب میں پڑھیں گے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیا اور پوچھا کہ سب سے بہادر کون ہے؟ لوگوں نے کہا :”امیر المؤمنین وہ آپ ہیں۔ حضرت علی نے فرمایا: جہاں تک میرا تعلق ہے، مجھ سے جس نے بھی مقابلہ کیا، میں نے اس سے بدلہ لیا ہے، لیکن سب سے بہادر حضرت ابوبکر ہیں اور پھر غزوہٴ بدر میں ان کی بہادری کا ذکر کیا۔
حضرت علی نے پھر فرمایا: مجھے بتاؤ ! کہ فرعون کے خاندان کا مؤمن بہتر ہے یا حضرت ابوبکر؟ لوگ خاموش ہوگئے ۔ حضرت علی نے فرمایا: بخدا! حضرت ابوبکر کی ایک گھڑی فرعون کے خاندان کے مؤمن سے زمین بھر جائے ان سے بہتر ہے، کیونکہ فرعون کے خاندان کے شخص نے ایمان چھپا رکھا تھا اور حضرت ابوبکر وہ ہیں جنہوں نے اپنے ایمان کا برملااعلان کیا تھا۔
اللہ پاک ہمیں بھی حضور صلی الله علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام کی سچی محبت اور اتباع نصیب فرمائے۔ آمین
وصلی الله تعالیٰ علی خیر خلقہ سیدنا محمد وعلی آلہ وأصحابہ أجمعین۔
مقدمہ مؤلف
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت، فضائل اورکمالات کے حصول کے لئے ایک عظیم شاہراہ ہے،اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ایمان میں سے ہے ،بلکہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہوتے تو ایمان کی پہچان بھی نہ ہوتی ۔
یہ ایک مختصر سی کتاب ہے جو اس محبت کی حقیقت کو بیان کرتی ہے ، جس پر عامل باعمل ہوکر امت کے پہلے طبقہ (جوسب سے اعلی طبقہ ہے یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم) نے اونچامقام حاصل کیا ۔
ایمان کی اس علمی اور عملی تعریف کے بعد اس سے انتفاع آسان اور وہ بلند مقام حاصل کرنا سہل ہوجائے گا، جس کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں بشارت دی ہے :” اَلمَرْأُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ“یعنی ہرشخص کا حشر اس کے ساتھ ہوگا جس سے اس نے محبت کی ہوگی۔
میں نے اس مختصر رسالہ کے نام کا انتخاب امام بخاری رحمہ اللہ تعالی کی کتاب ”صحیح بخاری“ کی ” کتاب الإیمان“ کے اس عنوان ”حُبُّ الرَّسُوْلِ صَلَّی اللّٰہُ علیہ وسلم منَ الإیمانِ“سے لیا ہے،یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ایمان کا جزء ہے، نیز میں نے جوروایات اس موضوع سے متعلق ذکر کی ہیں، وہ صحیح اور ثابت ہیں اوریہ تنبیہ یہاں اس لئے کردی ہے تاکہ تخریج احادیث اور اسانید پر کلام کی تفصیلات سے بچاجائے ۔ ہاں بعض خاص خاص جگہو ں پر تاکید مزیدکے لئے میں نے ان احادیث کے ثقاہت و ثبوت پر کلام کیا ہے ، وگرنہ اس مختصر کتاب کا مضمون اللہ کے فضل سے صحیح ثابت اور مقبول ہے ۔
اے اللہ! ہمیں محبت کا وہ مقام نصیب فرما جس کے بارے میں ہمارے سردار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :”المرأ مع من أحبّ “۔”ہر شخص کا حشر اس کے ساتھ ہوگا جس سے اس نے محبت کی “۔
”الحبّ اور المحبّة“یہ دونوں الفاظ ایسے معنی کواداکرتے ہیں جس کا تعلق قلب سے ہے ، جودوسری صفات کے مقابلہ میں اپنے اندر ایک وسیع مفہوم رکھتا ہے ، اور اپنی تاثیر کے اعتبارسے سب سے زیادہ عظیم ہے ، کیونکہ اس میں دل کا میلان اور محبوب کی طرف کھچاؤ پایا جاتا ہے ،اور وہ انسان کی طبیعت میں ایسا شعور اورسلوک کا جذبہ پید ا کردیتا ہے کہ کبھی یہ کیفیت ہوجاتی ہے کہ محبت کرنے والا اپنے محبوب کی رضا حاصل کرنے کے لئے اپنا سب کچھ قربا ن کردیتاہے ، بلکہ اپنے محبوب کی محبت میں وہ اپنے آپ سے بھی بیگانہ ہوجاتا ہے اور اپنی صفات چھوڑ کر محبوب کی صفات اختیار کرلیتاہے ۔
بے شک اللہ تعالی جو رب العالمین ہیں اور سب کے خالق ہیں وہ ہر قسم کی محبت اور عظیم ترمحبت کے سب سے زیادہ مستحق ہیں ،کیونکہ وہ اعلیٰ صفاتِ کمال سے متصف ہیں ،جن کی کوئی انتہاء اور کوئی حدنہیں ہے، جن کی نہ کوئی تعداد ہے اور نہ انہیں گِنا جاسکتا ہے ،وہی ہے جو بندوں پر اپنے جود و سخا کے خزانوں سے وہ نعمتیں برساتا ہے جن کا شمار نہیں ہوسکتا ، اور وہ احسانا ت کرتا ہے جن کا احاطہ نہیں ہوسکتا۔ ارشاد باری ہے :
﴿وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَةَ اللّٰہِ لَاتُحْصُوْھَا﴾ ( ابراہیم:۳۴)
ترجمہ : ۔”اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننا چاہو تو ان کا شما ر نہیں کرسکتے ۔“
بلکہ بہت ہی کم ان کی نعمتوں کا احاطہ اور شمار کیا جاسکتا ہے، جیسا کہ مذکورہ بالا آیت میں لفظ ”لَاتُحْصُوْھَا “ سے اشارہ ملتا ہے ۔
ہمارے نبی سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وصحبہ وسلم مخلوق میں اس محبت کے سب سے زیادہ مستحق اورحق دار ہیں، بلکہ آپ صلی الله علیہ وسلم ہماری ذات سے زیادہ ہماری محبت کے حق دار ہیں۔ ارشاد باری ہے :
﴿ اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ أنْفُسُہِمْ وَ أزْوَاجُہُ أمَّہَاتُھُمْ ﴾ (الأحزاب:۶)
ترجمہ :” نبی سے لگاوٴ ہے ایمان والوں کو زیادہ اپنی جان سے اور اس کی عورتیں ان کی مائیں ہیں ۔“
تو اس آیت نے بغیر کسی قیدو تحدید کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات عالی کو ہرمسلمان کی ذات پر فوقیت دی ہے،یہ آیت ہرچیزکو شامل ہوگئی ہے ، لہذا اس میں غورو فکر کرو اور خوش ہو جاؤ:
﴿ اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ أنْفُسُہِمْ وَ أزْوَاجُہُ أمَّہَاتُھُمْ﴾
محبت کو واجب کرنے والی صفات
جس شخص کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت حاصل ہوگئی ،وہ اس حقیقت کو نہ صرف یہ کہ جان لے گا ، بلکہ ذوقاً بھی محسوس کر لے گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو واجب کرنے والی جتنی بھی صفات ہو سکتی ہیں وہ بدرجہ کمال صرف آپ میں موجود ہیں اورکسی اور مخلوق میں نہیں ،، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان کامل صفات کا خلاصہ ائمہ علم و عرفان اور اہل محبت نے دو عظیم حصوں میں تقسیم کیا ہے :
۱: ۔وہ کامل صفات جن سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم متصف تھے۔
۲:۔آپ کی جود و سخاوت ۔
جہاں تک صفات ِ کمالیہ کا تعلق ہے جن کی وجہ سے ایک انسان دوسرے انسان سے محبت کرتا ہے ، مثلاً ایک انسان کبھی دوسرے انسان سے اس کے خوبصورت چہرے کی وجہ سے محبت کرتا ہے یا اس کی خوش الحانی کی وجہ سے یا ایسی دوسری صفات جمال کی وجہ سے محبت کرتا ہے جو محبت کو واجب کرتی ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جمال خلقت اور جمال صورت میں تمام مخلوق سے اعلیٰ اور افضل ہیں، جیسا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے تواتر اور یقینی طریقہ سے ثابت ہے کہ:
” کان رسول ُ الله صلی الله علیہ وسلم أحسن الناس وجہاً وأحسنَہم خَلقاً“۔
ترجمہ :” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب انسانوں میں زیادہ حسین چہرے والے اور سب سے زیادہ خوب صورت جسم والے تھے “۔
حضرت ھند بن ابی ھالہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
”کان رسول الله صلی الله علیہ وسلم فخمًا مفخّماً، یتلأ لأ وجہہ تلألوٴ القمر لیلة البدر“
ترجمہ :”حضور صلی الله علی وسلم اپنی ذات و صفات کے اعتبار سے بھی عظیم الشان تھے اور دوسروں کی نظروں میں بھی بڑے رتبہ والے تھے، آپ صلی الله علیہ وسلم کا چہرہ مبارک چودھویں کے چاند کی طرح چمکتا تھا۔“
حضرت ابوھریرة رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
”مارأیت أحسن من رسول الله صلی الله علیہ وسلم کأنّ الشمس تجری فی وجہہ“۔
ترجمہ :” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ میں نے کسی کو حسین نہیں دیکھا۔ گویا سورج آپ کے چہرہ مبارک میں گردش کررہاہے “۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
”مامَسِسْت دیباجةً ، ولا حریرةً ألین من کفّ رسول الله صلی الله علیہ وسلم، ولا شممت مسکةً ولا عنبرةً أطیب من رائحة النبی صلی الله علیہ وسلم، وفی روایة : أطیب من عرق النبی صلی الله علیہ وسلم“․
ترجمہ :” میں نے کسی موٹے یا باریک ریشم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتھیلی سے زیاد ہ نرم نہیں پایا ، اورنہ ہی مشک اور عنبر کی خوشبو کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشبو سے عمدہ پایا ،اورایک روایت میں ہے کہ نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پسینہ سے زیادہ خوشبودار اورعمدہ پایا “۔
جس نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف بیان فرمائے ہیں، سب نے یہی کہا:
” لم أر قبلہ ولا بعدہ مثلَہ صلی الله علیہ وسلم “۔
ترجمہ :” آپ صلی اللہ علیہ وسلم جیساہم نے نہ آپ سے پہلے کسی کو دیکھا اور نہ آپ کے بعد کسی کو دیکھا “۔
لہٰذا آپ مخلوق کے جمال سے کتنے ہی متاثر ہوں، آپ پر لازم ہے کہ آ پ تمام مخلوق اور اپنے نفس سے بھی زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کریں ، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر قسم کے جمال کے اعلیٰ و ارفع مقام پر فائز ہیں ۔
اسی طرح ایک عقلمند انسان کسی سے محبت اس کے حسن اخلاق اور اعلیٰ سیرت کی بنا پر کرتا ہے ،اگرچہ وہ خوداس سے کتنا ہی دور ہو ۔جبکہ ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پورے عالم میں سب سے زیادہ اخلاق میں کامل ہیں ، اور جس کے لئے اللہ تعالی کی گواہی کافی ہے :
﴿وَاِنّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ﴾ (سورة القلم :۴)
ترجمہ :” بے شک آپ اخلاق کے عظیم مقام پر ہیں “۔
اللہ تعالی کے اس قول ”لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ“میں غور کریں تو آپ اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ جتنے بھی اخلاق حسنہ اور انسان کی صفاتِ کمالیہ ہوسکتی ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان صفات کے اعلیٰ مقام پرفائز ہیں، کیونکہ ”علٰیٰ“ بلندی پردلالت کرتا ہے ، لہٰذا جس قسم کے بھی اعلیٰ اخلاق ہو سکتے ہیں ،آپ ان اخلاق میں سب سے اعلیٰ و ارفع مقام پرفائز ہیں اور جس قسم کے انسانی کمالات ہو سکتے ہیں ،آپ ان کمالات میں سب سے بلند درجہ پر ہیں۔
رہابہت زیادہ عطااور احسان کی وجہ سے کسی سے محبت کرنا، تو انسان دنیا میں ہراس شخص سے محبت کرتا ہے جس نے اس پر ایک یا دو بار کوئی احسان کیا ہو، اور وہ احسان کتنا ہی زیادہ قیمتی اور نفیس کیوں نہ ہو بالآخروہ فانی اور زائل ہونے والا ہے ، جیسے کسی نے اسے ایسی مصیبت سے بچایا جس میں اس کی ہلاکت یقینی تھی یااس میں کسی نقصان کا خطرہ تھا۔کچھ بھی ہو یہ احسان بالا ٓ خرختم ہونے والا ہے، جس کے لئے دوام نہیں ۔
بھلا دنیوی احسان کا مقابلہ نبی کریم اور رسول عظیم صلی اللہ علیہ وسلم کے احسانات سے ہوسکتا ہے جوتما م محاسنِ اخلاق و تکریم کے جامع ہیں ،جن کو اللہ تعالیٰ نے تمام مکارمِ اخلاق ، عظیم صفات اور فضیلت عامہ سے نوازا۔جن کے ذریعے اللہ تعالی نے ہمیں کفر کی تاریکیوں سے نکال کر نورِ ایمان میں داخل کیا ،اور جن کے ذریعے اللہ تعالی نے ہمیں جہالت کی آگ سے نجات دے کر یقین اور معرفت کی جنت میں پہنچادیا ۔
خوب اچھی طرح غور و فکر کرلوتاکہ آپ کوبخوبی معلوم ہوجائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی آپ کے جنت کی نعمتوں میں ہمیشہ رہنے کا سبب ہیں ، اب خود بتاوٴکہ حضور صلی الله علیہ وسلم کے اس جلیل القدر اور عظیم الفضل احسان سے بڑھ کر کو ن سااحسان ہوسکتا ہے ۔
اب اس احسان کا شکر اور اس کا حق ہم کیسے ادا کریں ؟ جبکہ اللہ تعالی نے ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے ذریعہ دنیا و آخرت کی نعمتوں سے نوازا ہے اور اپنی ظاہر ی وباطنی نعمتوں کی ہم پر بوچھاڑ کردی ہے ، اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی آپ کی کامل ومکمل محبت کے مستحق ہیں جو ہر ایک کے نفس ،اس کے اہل وعیال اور سب مخلو ق کی محبت سے زیادہ ہو، بلکہ بعض اہل معرفت حضرات نے یہاں تک کہاہے کہ ”اگر جسم کے رویں رویں سے آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا اظہار ہورہاہوتب بھی آپ صلی اللہ علیہ کا جو حق محبت ہے اس کا یہ جزء ہوگا،کیونکہ اللہ اور اس کے رسول کی محبت کو ہرچیز پر فوقیت حاصل ہے

(جاری ہے)
اشاعت ۲۰۱۰ ماہنامہ بینات , محرم الحرام:۱۴۳۱ھ - جنوری: ۲۰۱۰ء, جلد 73, شمارہ 1

    پچھلا مضمون: مدارس پر چھاپے… ایک سوجا سمجھا منصوبہ !
Flag Counter