Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی محرم الحرام ۱۴۳۱ھ - جنوری ۲۰۱۰ء

ہ رسالہ

10 - 13
مدارس پر چھاپے… ایک سوجا سمجھا منصوبہ !
مدارس پر چھاپے… ایک سوجا سمجھا منصوبہ

حالیہ دنوں میں دینی مدارس پر چھاپوں کا ملک گیر سلسلہ شروع ہوا، اس سلسلے کا آغاز اسلام آباد کے مدارس پر چھاپوں سے ہوا اور بعد ازاں لاہور اور فیصل آباد سے ہوتا ہوا یہ سلسلہ کراچی کے مدارس تک پھیل گیا،اس آپریشن کے دوران بیسیوں مدارس پر چھاپے مارے گئے، لیکن کہیں سے نہ تو اسلحہ برآمد ہوا اور نہ ہی کسی مشکوک شخص کی گرفتاری عمل میں آئی، پولیس نے اپنی ناکامی اور سبکی مٹانے کے لئے عجیب اوچھے ہتھکنڈوں سے کام لیا، آپ کراچی کے مدرسہ رحمانیہ بفرزون کی مثال لے لیجئے، اس ادارے میں قریبی تھانے کے پولیس اہلکار آئے، انہوں نے پوچھا: ”کیا آپ کے ہاں غیر ملکی طلباء زیر تعلیم ہیں؟ ادارے کی انتظامیہ نے کہا: ”جی ہاں ! بالکل ہیں، مگر ان کے پاس مکمل سفری اور قانونی دستاویزات، این او سی اور نادرا کارڈ موجود ہیں،، پولیس اہلکاروں نے کہا کہ ”بہت اچھی بات ہے، آپ مہربانی فرماکر ان طلباء کو ہمارے ساتھ بھیج دیں، ہم اپنے ہاں ان کے کوائف کا اندراج کرنا چاہتے ہیں،، مدرسہ انتظامیہ نے ان طلباء کو پولیس کے ہمراہ بھیج دیا، لیکن پولیس نے ان کے کوائف کا اندراج کرنے کی بجائے میڈیا کے نمائندوں کو تھانے بلایا اور ان معصوم، مظلوم اور مہمان طلبہ کو دہشت گردوں کے روپ میں میڈیا کے سامنے پیش کردیا اور ان کی گرفتاری ڈال دی۔ ان طلباء کو اگلے دن جب عدالت میں پیش کیا گیا تو عدالت نے ان کے کاغذات کو تسلی بخش اور قابل قبول قرار دیتے ہوئے انہیں بری کردیا، لیکن میڈیا کے ذریعے جو ڈھنڈورا پیٹا جا چکا تھا اس کا ازالہ ممکن نہ تھا، اسی طرح کے اوچھے ہتھکنڈے دوسری جگہوں پر بھی بروئے کار لائے گئے۔
یہاں یہ بات یاد رہے کہ مدارس کی انتظامیہ اور تمام مدارس کے نمائندہ وفاقوں نے ہمیشہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ تعاون بھی کیا اور اپنے اداروں کو کھلی کتاب کی مانند قرار دیا، یہ مدارس کبھی بھی نوگوایریا نہیں رہے کہ ان پر پورے لاؤولشکر سمیت یلغار کی ضرورت پیش آئے، لیکن عجیب بات یہ ہے کہ وقفے وقفے سے ان مدارس کو مشقِ ستم بنایا جاتا ہے اور معمول کی چیکنگ، کوائف وغیرہ کے حصول، خفیہ نگرانی کے مسلسل اور مربوط سلسلے کے ہوتے ہوئے سمجھ نہیں آتی کہ کیوں کچھ عرصے بعد مدارس پر اس اندازسے چڑھائی کردی جاتی ہے، جیسے اسرائیلی افواج غزہ یا بھارتی افواج کشمیر پر چڑھائی کیا کرتی ہیں۔
حالیہ دنوں میں مدارس کے خلاف جن حالات میں کریک ڈاؤن کیا گیا ،ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان چھاپوں کے لئے ڈوری کہیں اور سے ہلائی گئی تھی، کیری لوگر بل میں چونکہ مدارس کی مشکیں کسنے کی شرط بھی شامل تھی، اس لئے اس بل کی وفاقی کابینہ سے منظوری ہوتے ہی مدارس کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کردیا گیا اور عین اس موقع پر جب سینیٹر جان کیری اور جنرل پیٹریاس پاکستان کے دورے پر آئے تھے، مدارس پر چھاپے مارے گئے اور لاہور کے مدارس کو اس وقت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جب بعض ”اہم مہمانوں،، کی لاہور آمد آمد تھی۔ مدارس کے ذمہ داران نے ایک بات بطور خاص نوٹ کی کہ چھاپے مارنے سے قبل پورے میڈیاکو باقاعدہ اطلاع دے کر ان کی حاضری کو یقینی بنایا جاتا تھا اور پھر اس چھاپہ مار مہم کا خوب ڈھنڈورا پیٹا جاتا تھا۔ اس سے لگتا ہے کہ یہ آپریشن مدارس کے میڈیا ٹرائل اور ایک منظم مہم کا حصہ تھا، ان چھاپوں کے بعد ایک اور بات یہ نوٹ کی گئی کہ بعض نجی چینلز کے بعض اینکر پرسنز نے مدارس کو آڑے ہاتھوں لیا اور بعض نام نہاد دانشوروں اور قلم کاروں نے مدارس کے خلاف مزید کارروائی کے لئے ہلہ شیری دی اور بتدریج مدارس کے خلاف ماحول بنایاجانے لگا ،یہ سب کچھ ایک ہی سلسلے کی مختلف کڑیاں لگتی ہیں۔
ملک میں دہشت گردی کی حالیہ لہر کے تناظر میں مدارس پر چھاپے مار کر جہاں اس عسکریت پسندی اور دہشت گردی کے ڈانڈے مدارس سے ملانے کی کوشش کی گئی وہیں حکومتی اداروں نے اپنی ناکامی کو چھپانے کے لئے بھی مدارس کو ہی اپنا ہدف بنایا۔ ہمارے ہاں یہ عجیب ماحول بن گیا ہے کہ ملک میں دہشت گردی اور تخریب کاری کی وارداتیں کروانے والی اصل قوتوں کو بے نقاب کرنے کی بجائے ”مرے کو مارے شاہ مدار،، کے مصداق ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے دینی مدارس پر چڑھ دوڑتے ہیں اور اپنے نمبر بنانے اور لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کرتے ہیں اور دوسری طرف اصل تخریب کاروں کو افغانی بھیس، جعلی نمبر پلیٹ، ناجائز اسلحہ سمیت گرفتار کرکے اپنے ”صوابدیدی اختیارات،، کی بنیاد اور ایک فون کال پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔
مدارس کے خلاف یہ کریک ڈاؤن ایک ایسے وقت کیا گیاجب وطن عزیز تاریخ کے انتہائی نازک ترین دور سے گزررہا ہے، اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام کے گلے شکوے دور کئے جائیں اور مختلف ناراض طبقات کے خدشات کے ازالے کی فکر کی جائے، جبکہ ہمارے ارباب اختیار الٹانت نئے محاذ کھول رہے ہیں اور مدارس کے لاکھوں طلباء، ہزاروں علماء اور مدارس کے ملک بھر میں پھیلے معاونین اور متعلقین میں تشویش واضطراب پیدا کرکے وطن عزیز کو مزید بدترین حالات اور بحرانوں سے دو چار کررہے ہیں۔ موجودہ حالات میں مدارس کے خلاف چھاپے جہاں غلامانہ ذہنیت کی عکاسی کرتے ہیں وہیں بدترین ناعاقبت اندیشی کے زمرے میں بھی آتے ہیں۔ اس وقت اعلیٰ سرکاری حکام کو سوچنا چاہئے کہ کہیں کوئی ایسی خاص قسم کی لابی تو نہیں جو دانستہ طور پر حالات کو بگاڑنا چاہتی ہے اور حکومت اور دینی قوتوں کے مابین محاذ آرائی کے لئے راہ ہموار کررہی ہے۔
مدارس پر حالیہ چھاپے مدارس کے خلاف امتیازی سلوک بھی ہے، کیونکہ وہ عصری ادارے جہاں سے آئے روز اسلحہ برآمد ہورہا ہے، جہاں قتل وغارتگری اور طلباء کے مابین تصادم روز کا معمول بن گیا ہے، ان کے خلاف کریک ڈاؤن کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی اور سارا نزلہ صرف مدارس پر گرایاجاتا ہے۔ اسی طرح نجی ہاسٹلز، ہوٹلوں اور دوسری جگہوں پر کریک ڈاؤن نہیں ہوتا، صرف مدارس کے خلاف ہی کیوں ہوتا ہے؟
دینی مدارس جہاں سے ہر وقت قال اللہ وقال الرسول کی صدائیں گونجتی ہیں، جہاں ملک کے استحکام وسالمیت کے لئے قرآن کریم کا ختم، سورہٴ یٰسین کی تلاوت اور آیت کریمہ کا ورد کیا جاتا ہے، وہاں اس طرح چھاپے مار کر ان اداروں کا تقدس پامال کرنا نہایت افسوس ناک ہے، بعض جگہوں سے یہ اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں کہ پولیس اہلکار جوتوں سمیت مسجدوں میں گھس گئے، بعض جگہوں پر بچیوں کے مدارس میں چادر اور چار دیواری کا تقدس بھی پامال کیا گیا۔ یہ کس قدر شرمناک بات ہے؟ پاکستان کے عوام یہ سمجھ رہے ہیں کہ دینی مدارس کو اس لئے نشانہ بنایا جارہاہے تاکہ وہ مراکز جو اسلام کی حفاظت کے قلعے ہیں ان میں نقب لگائی جائے اور جو ادارے لوگوں کے دین سے وابستگی اور حصول علم کا ذریعہ ہیں ان کو بدنام کردیا جائے، اس لئے اس قسم کے کریک ڈاؤن کا سلسلہ فی الفور بند ہونا چاہئے، تاکہ عوامی تشویش واضطراب کا خاتمہ ہوسکے۔
میں نے ان چھاپوں کے بعد تقریباً ہر مدرسہ انتظامیہ اور مہتمم صاحبان سے رابطہ کیا، ان کی حوصلہ افزائی اور دلجوئی کی، اس دوران یہ بات بڑی شدت سے محسوس کی کہ اس قسم کی کارروائیوں سے ملک بھر میں بہت زیادہ اشتعال اور غم وغصہ پایا جاتا ہے۔ ان چھاپوں کے بعد راولپنڈی، اسلام آباد کے علماء کرام نے تمام اہم سرکاری شخصیات اور اعلیٰ حکام سے وفد کی صورت میں ملاقاتیں کیں، اسی طرح کراچی کے علماء نے گورنرسندھ سمیت دیگر لوگوں سے گفتگو اور خود میں نے وزیر داخلہ عبد الرحمن ملک ، سیکرٹری داخلہ، آئی جی پنجاب، ہوم سیکرٹری، چیف کمشنر اسلام آباد اور دیگر تمام اعلیٰ حکام سے رابطہ کیا۔ عجیب بات یہ ہے کہ ان لوگوں میں سے کوئی بھی مدارس کے خلاف ہونے والے کریک ڈاؤن کی ذمہ داری قبول کرنے کے لئے تیار نہیں، بلکہ ہرایک دوسرے پر ڈال رہا ہے اور زبانی طور پر مدارس کے خلاف کارروائی نہ کرنے کی یقین دہانی کروائی جاتی ہے، لیکن عملاً پھر مدارس پر چڑھائی کردی جاتی ہے، ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ تعلیم وتعلم میں مصروف لوگوں کے غم وغصہ اور مدارس کے طلباء کے اشتعال کو آخر کب تک کنٹرول کیا جاسکتا ہے اور ہم یہ بھی سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اس صورتحال کو کیا نام دیا جائے؟… قول وفعل کا تضاد کہا جائے یا کسی تیسری قوت کی کارستانی؟… اسلام دشمنی سمجھا جائے یا استعماری قوتوں کی غلامی؟… اور متاثرہ فریق کو صبر وتحمل کی ترغیب دیں یا لانگ مارچ کی تیاری کریں؟… کیونکہ اس ملک میں لانگ مارچ کے بغیر نہ تو کوئی مطالبہ منوایاجاسکتا ہے اور نہ ہی اپنا حق حاصل کیا جاسکتا ہے۔
اشاعت ۲۰۱۰ ماہنامہ بینات , محرم الحرام:۱۴۳۱ھ - جنوری: ۲۰۱۰ء, جلد 73, شمارہ 1

    پچھلا مضمون: عوام میں دینی شعور کیسے پیدا ہو؟
Flag Counter