Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی محرم الحرام ۱۴۳۱ھ - جنوری ۲۰۱۰ء

ہ رسالہ

5 - 13
حج کے بعد زندگی کیسے گزاریں؟
حج کے بعد زندگی کیسے گزاریں؟

اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے سورة الشمس میں متعدد چیزوں کی قسم کھا کر فرمایا ہے:” کامیاب ہوا وہ شخص جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کرلیا ،اور ناکام ہوا وہ شخص جس نے اپنے نفس کو برائیوں میں دھنسادیا،،۔
تزکیہ کے لغوی معنی پاک وصاف کرنے کے آتے ہیں۔ (المحیط فی اللغة ج:۲،ص:۹۵)
اصطلاح شریعت میں اس کے معنی ہیں :اپنے باطن کو رذائل سے پاک کرنا اور فضائل سے آراستہ کرنا۔
نبی کریم ا نے ظاہر وباطن کی اصلاح پر بہت زیادہ زور دیا ہے اور یہ حقیقت بھی واضح فرمادی ہے کہ باطن کی اصلاح کے بغیر کوئی بندہ اللہ تعالیٰ کا دوست اور اچھا مسلمان نہیں بن سکتا، وہ صفات جن کو حاصل کرنا ہر شخص پر فرض ہے، ان کا بیان درج ذیل ہے:
اللہ تعالیٰ کی محبت ومعرفت
اللہ تعالیٰ کی محبت ومعرفت کی بنیاد توحید ہے اور توحید اس وقت تک کامل نہیں ہوتی جب تک انسان اپنے خالق اور معبود سبحانہ وتعالیٰ کی محبت حاصل نہ کرے، جس رب نے ہم پر احسانات کی بارش کر رکھی ہے اور اس قدر نعمتیں عطا فرمائی ہیں جن کو شمار بھی ہمارے لئے ناممکن ہے ،اس کی معرفت حاصل کرنا ضروری ہے۔ لہذا دل کو شرکیہ عقائد سے پاک کرنا اور اللہ تعالیٰ کی عظمت اور محبت وخشیت دل میں بٹھانا صرف اللہ تعالیٰ کوحاجت روا اور مشکل کشا جاننا، مصیبت اور تکلیف میں صرف اللہ تعالیٰ کو پکارنا اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی طرف دل کا متوجہ رہنا۔
رسول اللہﷺ کی محبت واطاعت
رسول اللہﷺکی محبت کس درجہ دل میں ہونی چاہئے؟ اس کا جواب قرآن مجید میں پڑھ لیں: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
”النبی اولیٰ بالمؤمنین من انفسہم وازواجہ امہاتہم،، (الاحزاب:۸)
ترجمہ:…”نبی کریم ﷺ ایمان والوں کو اپنی جانوں سے زیادہ عزیز ہیں اور آپ ﷺکی ازواج مطہرات ان کی مائیں ہیں،،۔
حضرت انس  فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا : تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک میری محبت اس کے دل میں اس کے والد اور اس کے اولاداور تمام لوگوں سے زیادہ نہ ہو۔ (بخاری ومسلم)
حضرات علماء کرام نے ارشاد فرمایا ہے کہ اس محبت سے مراد وہ محبت ہے جس کی علامت اور نشانی یہ ہے کہ اس کے نزدیک آنحضرت ا کا حکم اور آپ ﷺ کی مبارک سنت ساری مخلوق کے مقابلہ میں راجح ہو، ایسا نہ ہو کہ اعزہ واحباب ، بیوی، بچوں اور دوسرے لوگوں کی خاطر یا اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے آپ ا کی تعلیمات کو پس پشت ڈالدے۔ جب تک اس کی خواہش دین کے تابع نہ ہو، اس وقت تک کامل مؤمن نہیں۔جیساکہ ارشاد ہے:
”عن عبد الله بن عمر  قال: قال رسول الله ﷺ ”لایؤمن احدکم حتی یکون ہواہ تبعاً لما جئت بہ،، (رواہ فی شرح السنة وقال النووی حدیث صحیح)
ترجمہ:…”حضرت عبد اللہ عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:” تم میں سے کوئی اس وقت تک مؤمن نہ ہوگا جب تک اس کی خواہش میرے لائے ہوئے طریقے کے تابع نہ ہو،،۔
دل کو کبر وحسد اور دکھلاوے سے پاک کرنا۔
تکبر کا علاج
کبر کا علاج یہ ہے کہ خود کو تمام مسلمانوں سے کم تر سمجھے اور یہ خیال ہمیشہ رہے کہ اعتبار خاتمہ کا ہے، لہذا ہمیشہ ڈرتا رہے اور اللہ تعالیٰ سے مغفرت اور معافی مانگتارہے اور حسن خاتمہ کا سوال کرتا رہے، کسی کو حقیر نہ جانے، گنہگار مسلمانوں کے بارے میں سوچے کہ کسی بھی وقت اللہ تعالیٰ ان کو سچی توبہ کی توفیق دے دے گا اور اپنے اعمال کے بارے میں عدم قبولیت کا خوف دل میں رکھے اور قبولیت کی دعا مانگتا رہے۔
حسد کا علاج
حسد کا علاج یہ ہے کہ اس بات کو بار بار سوچے کہ اللہ تعالیٰ جس کو جو نعمت عطا فرمائے کوئی اس سے چھین نہیں سکتا، لہذا اللہ تعالیٰ کی عطا پر اعتراض کرنا اور اپنے دل کو جلانا سراسر بے وقوفی ہے، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: حسد اعمال صالحہ کو اس طرح کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑی کو کھاجاتی ہے۔ (رواہ ابو داؤد باب فی الحسد) حاسد جب تک حسد سے توبہ نہ کرلے ،اس کو چین وسکون نہیں ملتا۔
دکھلاوے کا علاج
دکھلاوے کا علاج یہ ہے کہ روزانہ مراقبہ کرے کہ میدان حشر میں ان لوگوں میں سے کوئی میرے کام نہ آئے گا، اگر ساری دنیا تعریف کرے اور اللہ تعالیٰ راضی نہ ہو تو کچھ فائدہ نہیں۔ لہذا دکھلاوا کرکے اپنے اعمال کو برباد کرنا سراسر حماقت ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن جب اعمال کا بدلہ ملے گا تو اللہ تعالیٰ دکھلاوا کرنے والوں سے فرمائے گا کہ جاؤ! دیکھو جن کو دکھانے کے لئے عمل کرتے تھے کیا ان کے پاس تمہارے لئے کوئی جزا ہے؟ (مسند احمد ج:۵،ص:۴۲۹)
فرائض اور واجبات ادا کرنا
فرائض اور واجبات ادا کرنا اور گناہوں سے اپنے تمام اعضاء کو بچانا، آنکھوں کو بدنظری سے اور زبان کو غیبت سے اور کانوں کو گانا اور غیبت سننے سے، ہاتھ پیروں کو ظلم سے محفوظ رکھنا۔
طاقت واستطاعت کے بقدر نفلی عبادات کی کثرت کرنا
طاقت واستطاعت کے بقدر نفلی عبادات کی کثرت کرنا مثلاً: نفلی نمازیں، نفلی روزے اور تلاوت وذکر اللہ کی کثرت کرنا (لیکن نفلی عبادت میں جسمانی اور دماغی صحت کا خیال رہے، کیونکہ اللہ تعالی ٰکو یہ پسند نہیں کہ بندہ اتنی مشقت کرے کہ بیمار ہوجائے، اگر فرائض اور واجبات ادا کرے اور سنن مؤکدہ کا اہتمام رکھے اور گناہوں سے بچتا رہے تو بھی اللہ تعالیٰ کی رضا اور محبت حاصل ہوجائے گی)۔
صحبت صالحین، غفلت کا بہترین علاج ہے
دینداری اور تقویٰ والی زندگی حاصل کرنے کا سب سے سہل اور آسان طریقہ یہ ہے کہ انسان صالحین اور متقین کی معیت اختیار کرلے ۔وہ حضرات جو خود متبع سنت ہوں اور قرآن وسنت کے مطابق زندگی گزارنے والے ہوں، ہرعمل میں جائز وناجائز کا خیال کرتے ہوں، اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے ہوں، ان کے دل فکر آخرت سے لبریز ہوں ،جب ایسے لوگوں سے تعلق اور دوستی ہوگی تو خود بھی انسان انشاء اللہ تعالیٰ ویسا ہی ہوجائے گا اور یہ تجربہ اور مشاہدہ ہے:
تنہا نہ چل سکیں گے محبت کی راہ میں
میں چل رہا ہوں آپ میرے ساتھ آیئے
صالحین کے قافلہ میں شامل ہو جانا بڑی سمجھداری اور سعادت کی بات ہے، رسول اللہ ا کا ارشاد ہے: ”المرء مع من احب،، (مشکوٰة شریف)…”انسان جن لوگوں سے محبت رکھے گا انہیں کے ساتھ ہوگا،،۔
یعنی صالحین سے محبت رکھے گا تو ان کی صحبت میں بیٹھے گا، اس طرح وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے سائے میں رہے گا، پھر آخرت میں بھی ان کے ساتھ انعام واکرام سے نوازا جائے گا، جو دوستی دنیاوی اغراض ومقاصد کے لئے ہوتی ہے وہ قائم نہیں رہتی، البتہ جو تعلق اللہ تعالیٰ کے لئے ہو وہ باقی رہتا ہے۔
اشاعت ۲۰۱۰ ماہنامہ بینات , محرم الحرام:۱۴۳۱ھ - جنوری: ۲۰۱۰ء, جلد 73, شمارہ 1

    پچھلا مضمون: پروفیسر سید ذو الکفل بخاری
Flag Counter