Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی محرم الحرام ۱۴۳۱ھ - جنوری ۲۰۱۰ء

ہ رسالہ

4 - 13
پروفیسر سید ذو الکفل بخاری
پروفیسر سید ذو الکفل بخاری

۲۶/ذوالقعدہ ۱۴۳۰ھ / مطابق ۱۵/نومبر ۲۰۰۹ء بروز اتوار سعودی وقت کے مطابق دو پہر دو بجے،امیر شریعت سید عطأ اللہ شاہ بخاری کے سبط اصغر، سید وکیل شاہ صاحب کے لخت جگر، امیر احرار پیر جی سید عطأ المہیمن کے داماد، برادرم سید کفیل شاہ بخاری کے برادر خورد، جامعہ ام القریٰ مکہ مکرمہ کے شعبہ انگلش کے استاذ، خواجہ خواجگان حضرت مولانا خواجہ خان محمد دامت برکاتہم کے مرید ومسترشد اور صالح ومتقی نوجوان جناب پروفیسر سید ذو الکفل شاہ بخاری ام القریٰ یونیورسٹی مکہ مکرمہ سے پڑھاکر واپس آتے ہوئے روڈ ایکسیڈنٹ میں شہید ہوگئے، انا للّٰہ وانا الیہ راجعون ،ان للّٰہ ما اخذ ولہ ما اعطی وکل شئ عندہ باجل مسمی۔
خانوادہ بخاری، دار بنی ہاشم اور ماہنامہ نقیب ختم نبوت ملتان سے منسلک حضرات کے لئے پروفیسر سید ذوالکفل شاہ بخاری کا نام نامی اور اسم گرامی اجنبی اور نامانوس نہیں ہوگا اور وہ ان کے شعر وادب اور تحریر وانشأ کی صلاحیتوں سے بھی نا آشنانہ ہوں گے۔
اے کاش! کہ یہ روسیاہ ان کی زیارت ومخاطبت کے اعزاز سے بہرہ ور نہ ہو سکا، لیکن بعد از شہادت سعودی اور پاکستانی اخبارات میں ان کے وقیع تذکروں سے ان کی جلالت قدر اور خداداد صلاحیتوں کا کسی قدر اندازہ ہوا۔
ان کو سعودی عرب گئے ہوئے کچھ زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا، یہی کوئی آٹھ نو سال ہوئے تھے اور وہ بھی کسی مرکزی شہر میں نہیں بلکہ سعودی عرب کے ایک دور افتادہ شہر املج میں ان کا قیام تھا اور ان کو جامعہ ام القُرٰی منتقل ہوئے ابھی ایک سال بھی نہ ہوا تھا، مگر بایں ہمہ” اردو نیوز،، جدہ نے ان پر جس قدر مقالات، ومضامین اور تفصیلی بلکہ خصوصی فیچر اور صفحات شائع کئے، انہیں دیکھ اور پڑھ کر اندازہ ہوا کہ انہوں نے اپنے مختصر قیام سعودی عرب میں اپنا کتنا بڑا حلقہ بنا لیا تھا اور انہوں نے اپنی خداداد صلاحیتوں سے اس جدید طبقہ کو کس قدر اپنا گرویدہ بنالیا تھا؟اور اخباری برادری سے اپنی خداداد صلاحیتوں کا کس طور پر لوہامنوالیا تھا؟۔
برادر عزیز جناب مولانا احمد عبد القیوم گلگتی متعلم جامعہ ام القریٰ مکہ مکرمہ نے بتلایا کہ موصوف ایک فرشتہ صفت انسان تھے ،عام طور پر انگلش پڑھے لکھے لوگ حاملین دین ومذہب کو خاطر میں نہیں لاتے اور ان کی اپنی ایک دنیا ہوتی ہے ،مگر موصوف نے جامعہ ام القریٰ کے انگلش استادوں کو اصلاح وارشاد کی ایک لڑی میں پرورکھا تھا اور پوری جامعہ کے اساتذہ ان کو عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے او ر ان کی صحبت کی برکت سے بہت سوں کے قبلے درست ہوگئے تھے۔ اسی طرح جدہ کی مجلس علم وادب اور شعر انشأ میں ان کا ایک خاص وزن تھا، چنانچہ وہ چھٹی کے دنوں میں اپنے حلقہ احباب کو روحانی خوراک پہنچانے کے لئے جدہ کا سفر فرماتے تھے اور ان کے خوابیدہ وٹھنڈے جذبات اور پژمردہ روح کو گرما آتے۔ ان کے تفصیلی احوال کے لئے تو ماہنامہ نقیب ختم نبوت دسمبر ۲۰۰۹ء کا شمارہ دیکھا جائے۔ لیکن بہرحال ان کے حالات وکمالات اور استعداد وصلاحیتوں اور جلد دنیا سے رخصت ہوجانے سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی تیزی دراصل اسی وجہ سے تھی کہ ان کو تھوڑے دنوں میں زیادہ کام کرنا تھا، چنانچہ یہ حقیقت ہے کہ جب بعض حضرات کی حیات مستعار کسی قدر قلیل اور محدود ہو اور ان کے کرنے کے کام زیادہ ہوں تو غیر اختیاری طور پر ان کی رفتار کار میں تیزی آجاتی ہے ،چنانچہ وہ سالوں کا کام مہینوں اور مہینوں کا ہفتوں اور ہفتوں کا دنوں میں کرلیتے ہیں اور اپنے حصہ کا کام جلدی جلدی نمٹا کر آناً فاناً جانب منزل رخصت سفر باندھ لیتے ہیں ۔
دیکھا جائے تو جناب پروفیسر سید ذوالکفل شاہ بخاری شہید کا معاملہ بھی کچھ اسی طرح کا تھا کہ انہوں نے اپنی زندگی اور حیات مستعار کی صرف چالیس بہاریں ہی دیکھیں تھیں کہ وہ شہرت وناموری کی اس بام پر پہنچ گئے، جہاں عام طور پر لوگ ساری زندگی محنت کرکے بھی نہیں پہنچ پاتے۔بلا شبہ ایسے ہی لوگوں کے بارہ میں کہا گیا ہے: ”خوش درخشید ولے شعلہ مستعجل بود،،
مخدوم مکرم جناب پروفیسر ذو الکفل شاہ بخاری شہید کی رحلت خاندان بخاری کے لئے بہت بڑا سانحہ ہے، اور بطور خاص بوڑھے والدین اوران کی بیوہ اور معصوم بچوں کے لئے بہت بڑا حادثہ ہے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات کو بلند فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق نصیب فرمائے اور ان کے معصوم بچوں کی کفایت وکفالت فرمائے۔
بایں ہمہ یہ امر لائق صد رشک ہے کہ ان کی خواہش وآرزو کے عین مطابق انہیں حدود حرم میں موت آئی اور وہ بھی شہادت کی۔ مولانا احمد عبد القیوم گلگتی صاحب کا بیان ہے کہ بوقت وفات ان کی اٹھی ہوئی شہادت کی انگلی ان کے کلمہ شہادت اور اعلان توحید کی واضح علامت تھی اور ان کے چہرہ کا اطمینان وسکون اور چہرے سے پھوٹتا ہوا نور ان کی سعادت کی علامات تھیں، پھر حرم مکہ اور مسجد الحرام میں قریب قریب ۱۵/۲۰ لاکھ کے اجتماع اور دنیا بھر کے اقطاب وابدال کا ان کی نماز جنازہ پڑھنا اور احاطہ بنی ہاشم اور اپنی دادی حضرت خدیجہ  کے قدموں میں تدفین کی سعادت کا اعزاز حاصل ہونا بھی ان کے ”طبت حیاً وطبت میتاً،، کی کھلی شہادت ہے ۔
اللہ تعالیٰ مرحوم کی بال بال مغفرت فرمائے اور ان کے خاندان کو اس سانحہ کے سہارنے کی ہمت نصیب فرمائے آمین۔ ادارہ بینات اور جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنور ی ٹاؤن کے اساتذہ اور کارکنان اس سانحہ کو اپنا ذاتی سانحہ سمجھتے ہوئے خاندان بخاری کے غم واندوہ میں برابر کے شریک ہیں۔ اللّٰہم اغفر لہ وارحمہ واعف عنہ واکرم نزلہ۔قارئین بینات سے درخواست ہے کہ مرحوم کو اپنی دعاؤں اور ایصال ثواب میں فراموش نہ فرمائیں۔
حضرت مولانا عبد الجلیل رائے پوری
۳ ذوالحجہ ۱۴۳۰ھ مطابق ۲۱ نومبر ۲۰۰۹ء بروز ہفتہ دوپہر ایک بجے خانقاہ رائے پور کے چشم وچراغ، حضرت اقدس مولانا عبد القادر رائے پوری قدس سرہ کے برادر زادہ وخلیفہ مجاز، شیخ الحدیث حضرت اقدس مولانا محمد زکریا مہاجر مدنی کے شاگرد وتربیت یافتہ حضرت مولانا عبد الجلیل رائے پوری قدس سرہ قریب قریب سوبرس کی قابل رشک عمر گزارکر رحلت فرمائے عالم آخرت ہوگئے۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون، ان للّٰہ ما اخذ ولہ ما اعطی وکل شئ عندہ باجل مسمی۔
حضرت مولانا عبد الجلیل قدس سرہ حضرت شاہ عبد القادر رائے پوری کے برادر خورد جناب حافظ محمد خلیل  کے فرزند اکبر، شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا مہاجر مدنی کے شاگرد خاص اور سخن دان تھے ۔آپ  کی پوری تعلیم تقریبا مظاہر علوم سہارنپور کی علمی فضا میں ہوئی، آپ حضرت شیخ الحدیث کے اخص تلامذہ میں سے تھے، چنانچہ آپ کو ایک عرصہ تک حضرت شیخ الحدیث کے کچے گھر میں رہنے کی سعادت اور اعزاز حاصل رہا۔ آپ کو اکابر اساطین علم وفضل کی صحبتوں سے خوب خوب فائدہ اٹھانے کی سعادت میسر آئی۔ حضرت شاہ عبد القادر رائے پوری اور شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا مہاجر مدنی ایسے باکمال اکابر کی تعلیم وتربیت نے آپ کو سراپا زہد واخلاص اور سچ مچ کندن بنادیا تھا ،آپ پر خانقاہ رائے پور کا ایسا رنگ چڑھا کہ آپ اپنے شیخ کی تصویر اور عکس معلوم ہوتے تھے ۔حضرت شاہ عبد القادر رائے پوری کی رحلت کے بعد آپ نے پاکستان میں اپنے شیخ کی خانقاہ اور رہائش گاہ ڈھڈیاں ضلع سرگودھا کو مستقل طور پر اپنا مستقر ومسکن بنالیا تھا۔
حضرت مولانا عبد الجلیل کو اپنے شیخ حضرت رائے پوری اور اپنے استاذ حضرت شیخ الحدیث سے اور حضرت شیخ الحدیث  کو ان سے کس قدر تعلق اورمحبت تھی؟ اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ حضرت شیخ الحدیث اور حضرت رائے پوری قدس سرہما کی تمام خط وکتابت کا واسطہ بلکہ مخاطب آپ ہی رہے۔ چنانچہ سوائے چند ایک خطوط کے تمام خطوط میں حضرت شیخ  نے آپ ہی کو مخاطب فرمایا،اوربعض خطوط میں حضرت شیخ  نے اپنے اس شاگرد کو بہت ہی اونچے الفاظ میں یاد کیااور ان کے مقامات تصوف میں ترقی اورعروج کااعتراف فرمایا۔حضرت مولانا عبد الجلیل نے اس اعزازاورمحبت کی قدردانی کا اس طرح مظاہرہ فرمایا کہ حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا مہاجر مدنی اور حضرت شاہ عبد القادر رائے پوری کی آپس کی خط وکتابت کے تقریبا ۶۵۱ مکتوبات کو جو تقریبا سب ہی کارڈوں کی شکل میں تھے، نہایت اہتمام اور حسن وسلیقہ سے محفوظ کئے رکھا، اور بحمد للہ! آج تک وہ سب کے سب ان کے پاس جوں کے توں محفوظ تھے، جبکہ حضرت رائے پوری اور حضرت شیخ الحدیث کی اس خط وکتابت کا عرصہ ۳۸ سال کے طویل زمانہ پر محیط تھا مگر مجال ہے کہ کوئی خط ضائع یا اِدھر سے اُدھر ہوا ہو، چنانچہ حضرت اقدس سید نفیس شاہ الحسینی قدس سرہ اپنی کتاب”․․․ قطب الارشاد حضرت مولانا شاہ عبد القادر رائے پوری کے نام مکاتیب شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا مہاجر مدنی ․․․“میں لکھتے ہیں:
”…زیر نظر مکتوبات ۱۳۶۰ھ ۱۹۴۱ء سے ۱۳۹۸ھ ۱۹۷۸ء کے ۳۸ برس کے زمانہ پر محیط ہیں اور ان کی تعداد ۶۵۱ ہے، چند خطوط حضرت اقدس رائے پوری کے وصال کے بعد حضرت مولانا عبد الجلیل صاحب کو تحریر فرمائے گئے ہیں۔ حضرت مولانا عبد الجلیل صاحب حضرت رائے پوری کے چھوٹے بھائی حافظ محمد خلیل صاحب کے فرزند اکبر ہیں، حضرت شیخ  کے شاگرد رشید، مظاہر علوم سہارنپور کے فاضل اور حضرت رائے پوری رحمہ اللہ کے مجاز طریقت ہیں ،اللہ پاک ان کی عمر مبارک میں برکت عطا فرمائے۔ تقریبا تمام خطوط حضرت اقدس رائے پوری کی خدمت عالی میں بتوسط مولانا عبد الجلیل صاحب ارسال فرمائے گئے ہیں، البتہ ابتداء میں کچھ مکتوبات براہ راست حضرت مولانا شاہ عبد القادر  کی خدمت میں نہایت موٴدبانہ انداز میں اور اعلی القابات سے حضرت کو مخاطب کرکے رقم کئے گئے… “ (ص:۹)
حضرت شاہ صاحب حرف تشکر کے زیر عنوان مزید لکھتے ہیں:
”مرتب راقم الحروف اپنے ان تمام احباب اور دینی بھائیوں کی سعی وخدمات کا دلی اعتراف کرتا ہے جنہوں نے ان مکاتیب کی ترتیب واشاعت میں ہر ممکن تعاون فرمایا، سب سے اول ہم مخدوم مکرم حضرت مولانا عبد الجلیل مدظلہ ،برادر زادہ حضرت اقدس رائے پوری قدس سرہ کے سپاس گزار کہ حضرت کے جملہ مکاتیب جو انہوں نے کمال حفاظت سے جمع کررکھے تھے، اشاعت کے لئے راقم ناچیز نفیس الحسینی کو مرحمت فرمائے، فجزاہ اللّٰہ احسن الجزاء،،۔ (ص:۱۳)
الغرض ۳۸ سال پر محیط طویل عرصہ کی خط وکتابت کو جوں کا توں اس طرح حفاظت سے سنبھال کر رکھنا کہ ان میں سے کوئی بھی ادھر سے ادھر نہ ہو، یہ حضرت موصوف کی کرامت اور اپنے چچا جان، شیخ طریقت اور استاذ مکرم  سے کمال محبت وعشق کا مظہر ہے۔ حضرت مولانا عبد الجلیل قدس سرہ خانقاہ رائے پور اور اپنے اکابر ومشائخ کی روایات کے امین تھے۔ آپ عزلت نشین، تنہائی پسند اور نمود ونمائش سے کوسوں دور تھے، آپ پر بھی حضرت رائے پوری کی نسبت کا پر تو تھا جس کی وجہ سے تردید باطل اور جہد وجہاد کی خوب خوب سرپرستی فرمایا کرتے تھے ۔اس کے علاوہ اصلاح وارشاد اورسلوک واحسان کی لائن سے بھی ہزاروں خوش نصیبوں نے آپ سے فیض پایا۔
شومئی قسمت کہ ناکارہ راقم الحروف کو حضرت کی زیارت کا شرف بہت بعد حاصل ہوا اور تعارف وملاقاتوں کا سلسلہ بھی بہت ہی مختصر رہا، غالباََ دوبار لاہور سے قصد کرکے حضرت کی خدمت میں حاضری کا شرف حاصل کیا، پہلی بارحاضری کے موقع پر جب راقم نے اپنا تعارف اور آمد کی غرض محض زیارت وملاقات عرض کی تو بہت ہی خوشی ، محبت اور شفقت کامعاملہ فرمایا۔
آخری بار حاضری گذشتہ سال رائے ونڈ کے اجتماع سے فراغت کے بعد ہوئی۔ شومی قسمت کہ راستہ خراب تھا، جس کی بناء عشاء سے کچھ پہلے حاضری ہوئی، خدام سے معلوم کیا تو حضرت خانقاہ کے کمرہ میں تشریف فرماتھے، چونکہ اس سفر میں مولانا زبیر احمد صدیقی مدیر جامعہ فاروقیہ شجاع آباد بھی ہمراہ تھے، اس لئے بے تکلف اپنا اور ان کا تعارف کرایا، بہت ہی عنایت کا معاملہ فرمایا ،اجازت پر پاوٴں دبانے اور مٹھیاں بھرنے کی سعادت بھی حاصل کی، نماز عشاء کا وقت ہوا تو حضرت اپنے پاوٴں پر چل کر مسجد تشریف لے گئے، حسنِ اتفاق کہ راقم اثیم کو بھی صف اول میں حضرت ہی کے قریب جگہ ملی۔یہ دیکھ کر حیرت ہو ئی کہ کس قدر مشقت و تکلیف کے باوجود مکمل قیام ، رکوع اور سجود سے نماز ادا فرمائی۔ چونکہ آپ کا قد مبارک اورخصوصاً گردن مبارک متناسب انداز میں طویل تھی، اس لئے بڑھاپے اور ضعف کی بناء پر پورے سیدھے کھڑے نہیں ہو سکتے تھے اور قعدہ میں ٹھیک سے سیدھا بیٹھنا بھی مشکل اور صعب تھا،مگر بایں ہمہ پوری نماز سنت کے مطابق ادافرمائی ،نماز اور نوافل سے فراغت کے بعد آپ خانقاہ تشریف لے گئے ،راقم الحروف بھی حضرت کے پیچھے پیچھے چلتا کمرہ میں حاضر ہو گیا،آپ نے ہمارے لئے بطور خاص چائے اور تواضع کا اہتمام فرما رکھا تھا، تبرک سمجھتے ہوئے ما حضر تناول کیا ،چائے پی ،دعائیں لیں، اور یہ بھی پوچھاکہ اب حضرت شاہ عبدا لقادر رائے پوری قدس سرہ کے خلفاء میں سے کون کون باقی ہیں؟
اس پر آپ نے ہندوستان کے کسی علاقہ میں ایک خلیفہ کا نام بتلایا ،دوسرے تبلیغی جماعت کے بزرگ الحاج بھائی عبدالوہاب صاحب مد ظلہ کا نام لیا۔آپ نے تواضعاً اپنا نام نہیں لیا تو راقم نے عرض کیا اور تیسرے آپ ؟
اس پر آپ نے تقریراً خاموشی اختیار فرمائی، اس کے ساتھ ہی میں نے عرض کیا: حضرت اقدس شاہ عبدالعزیز رائے پوری کے فرزند جناب مولانا سعید احمد رائے پوری صاحب کے بارے میں بھی سنا ہے،اس پر آپ نے بس اتنا فرمایا کہ وہ اپنے مشائخ کے انداز سے ہٹ گئے ہیں۔
آخر میں مولانا زبیر احمد صدیقی صاحب نے عرض کیا کہ حضرت ہم نے اکابر و اساتذہ کی مشاورت سے اس سال مدرسہ میں پہلی بار دورہ حدیث شریف کا اجراء کیا ہے ،دعاء فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ کامیابی سے ہم کنار فرمائے ۔اس پر حضرت نے خوب خوب دعاوٴں سے نوازا، بہر حال ہم نے اجازت لی اور مصافحہ و دست بوسی کی سعادت حاصل کرتے ہوئے خانقاہ سے باہر نکل آئے ۔کیا معلوم تھا کہ یہ آپ  سے ہماری آخری ملاقات ہو گی۔
بعد میں متعدد احباب سے پتہ چلتا رہا کہ حضرت کے سامنے جب بھی اس ہییجمنداں کا تذکرہ آیا، حضرت نے محبت کے الفاظ میں تذکرہ فرمایا، ان احباب میں سے ایک صاحب جن کا مجھ سے محبت کا تعلق ہے ،جب حضر ت کی خد مت میں حاضر ہو ئے، اپنے احوال سنائے تو حضرت نے پوچھا: کس سے تعلق ہے؟انہوں نے راقم کا نام لیا تو آپ رحمہ اللہ نے ان کو اجازت و خلافت سے بھی سرفراز فرمایا۔
اسی طرح ہمارے کرا چی کے دوست جناب سعد بن اسعد صاحب کی جب ڈھڈیاں حاضری ہوئی اور انہوں نے راقم کا نام لیا تو بہت ہی مسرت کا اظہار فرمایا ۔
سچ ہے ہمارے پاس اور تو کچھ نہیں، البتہ اکابر اولیاء اللہ کا حسن ظن ہے۔اللہ تعالیٰ ان اکابر کے حسن ظن کی لاج رکھتے ہوئے آخرت کی رسوائی سے محفوظ فرمائیں۔ آمین
اس سال شروع ذوالحجہ میں حضرت اقدس شیخ الحدیث مولانا عبدالمجید لدھیانوی دامت برکاتہم نے ایک دن اطلاع دی کہ حضرت مولانا عبد الجلیل کاانتقال ہو گیاہے،بہت ہی دکھ اور قلق ہوا۔ مگر ہم اپنی محرومی پر افسوس کے علاوہ کر بھی کیا سکتے ہیں۔ تاہم بارگاہ الہٰی میں التجاء کر تے ہیں کہ: اے اللہ! ہمیں ان اکابر کے جانے کے بعد کسی آزمائش میں مبتلا نہ کر نا اور ان کے اجر سے ہمیں محروم نہ فرمانا۔
اخبارات کے ذریعے معلوم ہوا کہ آپ کی نماز جنازہ ڈھڈیاں میں ہو ئی اور جنازہ کی امامت حضرت رائے پوری کے خلیفہ مجاز حضرت اقدس الحاج بھائی عبدالوہاب صاحب نے فرمائی اور آپ کو اپنے شیخ اور چچا جان حضرت اقدس شاہ عبدالقادر رائے پوری کے پہلو میں احاطہٴ خانقاہ میں سپر د خاک کردیا گیا۔باتوفیق قارئین کرام سے درخواست ہے کہ حضرت کو اپنی صالح دعاوٴں اور ایصال ثواب میں شامل رکھیں۔
الحاج محمد الرحمن رحمانی …شفیلڈ
۷ ذو الحجہ ۱۴۳۰ھ مطابق ۲۵ نومبر ۲۰۰۹ء بروز بدھ امام الاولیاء حضرت مولانا عبد الرحمن کامل پوری قدس سرہ کے خلف ، امام اہل سنت حضرت مولانا مفتی احمد الرحمن ،سابق صوبائی وزیر مذہبی امور حضرت مولانا قاری سعید الرحمن راولپنڈی اورسرپرست عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت یو، کے مولانا عبید الرحمن  شفیلڈ کے برادر جناب الحاج محمد الرحمن طویل علالت کے بعد شفلیڈ یو کے میں راہی آخرت ہوگئے ۔انا للّٰہ وانا الیہ راجعون ،ان للّٰہ ما اخذ ولہ ما اعطی وکل شئ عندہ باجل مسمی۔
جناب الحاج محمد الرحمن صاحب استاذ العلماء حضرت مولانا عبد الرحمن کامل پوری، خلیفہ مجاز حکیم الامت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی قدس سرہ کے تیسرے نمبر کے فرزند تھے ،اور آپ حضرت کامل پوری کے گرامی قدر فرزندوں میں سے واحد ایسے تھے جو باقاعدہ عالم دین نہیں تھے مگر اپنی خاندانی روایات اور نسبی ملکات اور خصوصیات کے پیش نظر نہایت صالح اور متدین انسان تھے، آپ کا اصلاحی تعلق خواجہ خواجگان حضرت مولانا خواجہ خان محمد صاحب دامت برکاتہم سے تھا ۔
جیساکہ اس سے قبل بینات شعبان ۱۴۳۰ھ میں حضرت مولانا قاری سعید الرحمن مدیر جامعہ اسلامیہ راولپنڈی کے تذکرہ میں آچکا ہے کہ آپ ایک عرصہ سے اپنے برادر بزرگ حضرت مولانا عبید الرحمن کی تقلیداور مشایعت میں انگلینڈ کے شہر شفیلڈ میں منتقل ہوگئے تھے اور زندگی بھر وہاں رہے، آپ اپنی خاندانی روایات کے مطابق خندہ رو، ملنسار، خوش اخلاق اور علماء ، صلحاء کے قدر دان اور ان کے میزبان تھے ،آپ کا عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت اور اس کے اکابرین سے گہرا تعلق تھا اور اس وقت خاندان رحمانی کے سرخیل اور بزرگ تھے۔
گزشتہ ایک عرصہ سے آپ  ہائی بلڈپریشر،شوگراورگردوں کے عارضہ میں مبتلاتھے،گزشتہ سال جولائی۲۰۰۹ء کے سفرانگلینڈمیں حضرت مولانا قاری سعید الرحمن  کی رحلت کے موقع پر ان سے حضرت قاری صاحب کی تعزیت اورخود ان کی عیادت وزیارت کی غرض سے مرحوم کے گھر پرحاضری ہوئی تو بظاہرہشاش بشاش مگربہرحال کافی علیل تھے،تاہم بہت ہی محبت وشفقت اوراکرام کامعاملہ فرمایا۔کچھ دیر آپ کی خدمت میں بیٹھنے اوردعائیں لینے کی سعادت نصیب ہوئی۔ کسے معلوم تھا کہ یہ ان سے آخری ملاقات ثابت ہوگی؟بہر حال مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی کے مصداق: ۷ ذو الحجہ ۱۴۳۰ مطابق۲۵ نومبر۲۰۰۹ء کو ان کا وقت موعود آن پہنچا اور انہوں نے داعی اجل کو لبیک کہتے ہوئے اس دنیائے دنی سے منہ موڑ لیا۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اوران کے پس ماندگان کوصبرجمیل کی توفیق نصیب فرمائے۔
جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاوٴن اور ادارہ بینات کے تمام کارکنان خصوصاََمدیرجامعہ مولاناڈاکٹرعبدالرزاق اسکندر،نائب مدیرمولاناسیدسلیمان یوسف بنوری،نے ان کے اعزہ،اقربا اور خاندان سے تعزیت کرتے ہوئے اس صدمہ کواپنا صدمہ قراردیااورمرحوم کی مغفرت اور بلندی درجات کی دعا فرمائی۔قارئین بینات سے بھی درخواست ہے کہ وہ اپنی ادعیہ ماثورہ اورایصال ثواب میں ان کو فراموش نہ فرماویں۔اللّٰہم اغفر لہ وارحمہ وعاعفہ واعف عنہ واکرم نزلہ
اشاعت ۲۰۱۰ ماہنامہ بینات , محرم الحرام:۱۴۳۱ھ - جنوری: ۲۰۱۰ء, جلد 73, شمارہ 1

    پچھلا مضمون: عورتوں کے لباس اورزیب وزینت کا معیار !
Flag Counter