سلام اُن پر جنہوں نے زخم کھاکرپھول برسائے
مفتی محمد مجیب الرحمن دیودرگی
آپ صلی الله علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے پہلووٴں میں ایک اہم پہلو آپ صلی الله علیہ وسلم کے اخلاق ہیں، یہ ایسا پہلو ہے جس میں تمام مصلحین امت آپ صلی الله علیہ وسلم سے پیچھے نظر آتے ہیں ، آپ صلی الله علیہ وسلم جلوت اورمجمع عام میں جس میں بات کی دعوت دیتے تھے، خلوت میں بھی بذاتِ خود اس پر عمل پیرا تھے۔
ام المومنین حضرت عائشہ سے کسی نے پوچھا آپ صلى الله عليه وسلم کے اخلاق کیسے تھے ؟ اماں جان نے جواب دیا کیا تم نے قرآن کریم نہیں پڑھا؟ ”کان خلقہ القرآن ․“ ( ابوداوٴد1/190 دیوبند ) یعنی قرآن کریم جن اوصاف حمیدہ کو چاہتا ہے وہ آپ صلى الله عليه وسلم کی ذات گرامی میں بدرجہٴ اتم موجود تھے اور قرآنِ کریم جن امور سے روکتا ہے آپ صلى الله عليه وسلم ان سے مکمل پاک تھے ۔
اخلاقِ کریمانہ میں سے ایک اہم وصف عفو ودر گذر ہے ، آپ صلی الله علیہ وسلم میں یہ وصف بدرجہٴ اتم موجود تھا اور اس کا مظاہر ہ باربار آپ صلی الله علیہ وسلم کی زندگی میں ہوا جس طریقہ سے آپ صلی الله علیہ وسلم نے ”خیر المال العفو“ یعنی معاف کرنا بہترین دولت ہے اس کی تعلیم دی اسی طرح عملی زندگی میں اس کو آشکارا کیا کہ امت اس عظیم وصف کو اپنا کر دار ین کی سعادت پائے۔
اہل طائف سے عفو ودرگذر
اہلِ مکہ پر سالہاسال محنت کرنے کے باوجود وہ دامنِ اسلام سے وابستہ نہ ہوئے اور ہرطرح کی تکالیف پہنچانا انہوں نے اپنا شیوہ بنا لیا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے طائف کا ارادہ کیا ، وہاں آپ صلی الله علیہ وسلم کی کچھ قرابتیں بھی تھیں اور یہ امید تھی کہ جب وہاں مسافرانہ ہیئت سے جائیں گے تو عرب کی روایت کے مطابق میری بات غور سے سنیں گے اور بہت ممکن ہے کہ وہ اسلام میں داخل ہوجائیں اور وہاں سے اسلام کا پھیلنا نسبتاً آسان ہوجائے ، مگر ان لوگوں نے خلاف توقع سختی کا معاملہ کیا، اپنے یہاں رہنے نہیں دیا ، اوباشوں کو آپ صلی الله علیہ وسلم کے پیچھے لگا دیا ، جنہوں نے پتھر مار مار کر آپ صلی الله علیہ وسلم کے جسم کو لہو لہان کردیا، ایک موقع پر جب ان اوباشوں سے نجات ملی اور تھوڑی دیر آرام کرنے کی غرض سے رکے تو ان کی سنگ دلی کو سوچ کر دل بھر آیا ، پہاڑ کا ذمہ دار فرشتہ حاضر ہوا اور عرض کیا : یا رسول اللہ !اگر آپ حکم دیں تو میں ان دونوں پہاڑوں کو ملادوں، تاکہ یہ دشمن اس میں پس کر رہ جائیں ، لیکن آپ صلی الله علیہ وسلم راضی نہ ہوئے اور فر مایا ممکن ہے کہ ان کی آئندہ نسل حلقہ بگوش اسلام ہوجائے۔
غزوہٴ احد کے موقع پر عفو ودرگذر
غزوہٴ احد کے موقع پر جب آپ صلی الله علیہ وسلم کے دندانِ مبارک شہید ہوئے تو یہ واقعہ اصحاب نبی پر گراں گزرا تو صحابہٴ کرام نے کفار مکہ کے لیے بددعا کی درخواست کی، آپ صلی الله علیہ وسلم نے جواب دیا میں لعنت کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا ہوں۔( الوفاء2/21 بیروت)
ناشائستہ کلمات کہنے والوں سے در گزر
حضرت جابر بن عبد اللہ فرماتے ہیں، جب غزوہٴ حنین کے بعد آپ صلی الله علیہ وسلم لوگوں میں مال تقسیم کررہے تھے تو ایک آدمی آیا اور بھر ے مجمع میں بڑے ترش لہجے میں کہا اے محمد !انصاف کرو آپ صلی الله علیہ وسلم نے کہا تعجب ہے میں نہیں انصاف کروں گا تو کون انصاف کرے گا؟! اگر میں نے انصاف نہ کیا تو میں خسارے میں رہوں گا، حضرت عمرنے کہا اگر آپ صلی الله علیہ وسلم اجازت دیں تو میں اس منافق کو قتل کردوں، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایاکہ چھوڑدو لوگ کہیں گے کہ محمد اپنے ہی اصحاب کاقتل کرتے ہیں ( الوفاء 2/22 بیروت) یعنی اتنے سارے صحابہ کی موجودگی میں اور پھر نبی کے ساتھ اس طرح پیش آنا کوئی معمولی بات نہیں تھی ، لیکن اس کے باوجود آپ نے اس سے در گزر فر مایا۔
غزوہٴ حنین میں نومسلموں کی تالیف قلب کے واسطے مال غنیمت کا بڑا حصہ ان میں تقسیم کیا گیا تھا، جس پر بعض حضرات ناراض تھے اور اپنی ناراضگی کا اظہار حضرت عبد اللہ بن مسعود کے سامنے کیا اور یہ کہا کہ اس تقسیم سے اللہ کی خوش نودی کا ارادہ نہیں کیا گیا ہے، ظاہر ہے کہ یہ بات شان نبی میں گستاخی تھی ، اس لیے حضرت بن مسعود نے آپ کے سامنے اس کا ذکر کیا، آپ صلی الله علیہ وسلم کا چہرہٴ انور غصہ کی وجہ سے متغیر ہوگیا، پھر فرمایا: اللہ تعالیٰ رحم کرے موسیٰ علیہ السلام پر، ان کو اس سے زیادہ تکلیف دی گئی تھی ، لیکن انہوں نے صبر کیا۔ ( السیرة النبویة لابن کثیر 3/686بیروت)
اہل مکہ سے در گزر
اہل مکہ کا ظلم مکی زندگی میں کسی سے مخفی نہیں ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم کو نعوذ باللہ کبھی پاگل ، کبھی شاعر ، کبھی مجنون ، کبھی جادو گر کہنا ، اسی طرح دھمکیاں دینا، راستے میں کانٹے بچھانا اور نجاست کا جسم مبارک پر انڈیل دینا معمول کی بات تھی ، اس کے باوجود جب مکہ فتح ہوا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایسے دشمنوں کو معاف کردیا، جنہوں نے اپنی پوری زندگی آپ صلی الله علیہ وسلم کی دشمنی میں بسر کی اور ہر دم آپ صلی الله علیہ وسلم کے خون کے پیاسے تھے، مثلاً صفوان بن امیہ آپ کے قدیم دشمنوں میں شمار ہوتے تھے ،آپ صلی الله علیہ وسلم کو نعوذ باللہ قتل کرنے کے لیے ایک آدمی کو مقرر بھی کیا تھا، جسے اللہ نے ناکام کردیا ، ابوسفیان بن حرب جو تمام جنگوں میں آپ کے خلاف محاذبنانے کی بھر پور کوشش کرتے رہے اور لوگوں کو ابھار کرکبھی احد کے میدان میں لائے اور کبھی غزوہٴ خندق میں یہودیوں کے ہمراہ مدینہ منورہ پر حملہ آور ہوئے ، عکرمہ بن ابی جہل اور ان کے والد یعنی ابوجہل کی دشمنی تو ایک معروف بات ہے، ان تمام لوگوں سے آنحضرت کا در گزر اور اپنے دامن عفو میں جگہ دینا تاریخ کا ایک ایسا نایاب واقعہ ہے جس کی نظیر پیش کرنے سے تاریخ عاجز ہے، کسی بھی فاتح کا فتح کے بعد ملک میں غارت گری مچانا عام سی بات ہے، جس کو قرآن کریم نے ﴿ان الملوک اذا دخلوا قریة افسدوہا﴾ کہہ کر بہترین نقشہ کھینچا ہے اور بتایا ہے کہ فاتح مقبوضہ بستیوں میں قتل وخون کا بازار گرم کرتے ہیں ، لیکن دوسری طرف آقائے رحمت صلی الله علیہ وسلم ہیں کہ معزز چچا کے قاتلین کو بھی معافی کا پروانہ عطا کرتے ہیں ۔( الوفاء 2/22 بیروت)
زید بن سعنہ کی گستاخی سے در گزر
عبد اللہ بن سلام فر ماتے ہیں : زید بن سعنہ اسلام لانے سے پہلے آپ صلى الله عليه وسلم سے کچھ لین دین کا معاملہ کرتے تھے ، ایک مرتبہ آپ کو انہوں نے ایک متعین وقت کے لیے قرض دیا تھا ،ابھی اس مدت کے آنے میں کچھ دن باقی تھے، آپ صلی الله علیہ وسلم ایک جنازے میں شریک تھے، یہ آئے اور آپ کی چادر پکڑ کر کھینچنے لگے اور بہت زیادہ سخت سست کہا اور کہا اے عبد المطلب کے خاندان والو! تم لوگ ہمیشہ یوں ہی ٹال مٹول کرتے رہتے ہو ، آپ صلى الله عليه وسلم کے ساتھ حضرت عمر موجود تھے ، غصہ سے بے تاب ہوگئے اور کہا اے اللہ کے دشمن! تو اللہ کے نبی صلى الله عليه وسلم کے ساتھ یہ معاملہ کرتا ہے اور اس طرح بکواس کرتا ہے!! اگر میرا بس چلتا تو میں تیری گردن ہی اڑا دیتا ، آپ صلى الله عليه وسلم بڑے ہی اطمینان سے حضرت عمر کو دیکھ رہے تھے، پھر مسکرا کر فر مایا: اے عمر! تمہارا تو یہ کام تھا کہ اس کو قرض وصول کرنے میں نرمی اختیار کرنے کی تلقین کرتے اور اچھاسلوک کرنے کا حکم دیتے اور مجھ کو قرض ادا کرنے کو کہتے ، تمہارا یہ کام نہیں کہ ان کہ درپہٴ آزارہوجاوٴ، انہیں لے جاوٴ، بیس صاع کھجور دے دو اور زائد بھی دو۔ اس کے بعد زین بن سعنہ مشرف بہ اسلام ہوئے۔( جمع الوسائل 2/157پاکستان)
عبد اللہ بن ابی سے در گزر
رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی سے کون واقف نہیں؟ اس نے ہر اعتبار سے آپ صلى الله عليه وسلم کو اور آپ صلى الله عليه وسلم کے اصحاب کو تکلیف دی اور اس میں کوئی کسر باقی نہ رکھی، اس کے باوجود جب اس کا انتقال ہوا تو آپ صلی الله علیہ وسلم اس کی نمازہ جنازہ پڑھانے کے لیے کھڑے ہوئے ، حضرت عمر سے رہا نہ گیا اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے سامنے آکر کہنے لگے کہ اللہ کا دشمن جس نے آپ کو اس طرح سے تکلیفیں دی ہیں اور آپ اس کی نمازہ جنازہ پڑھا رہے ہیں ؟! تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے مسکرا کر جواب دیا: اے عمر !مجھ کو اختیار دیا گیا ہے، اگر مجھ کو یہ بات معلوم ہوتی کہ ( ستر مرتبہ سے زائد استغفار کرنے سے اس کی مغفرت ہوجائے گی تو میں اس کے لیے مغفرت کی دعا کرتا) ( الوفاء 2/19 بیروت)
آج امت مسلمہ اس اہم صفت ”حلم“ سے دور ہے، اس کے فقدان کے سبب معاشرہ عجیب کشمکش سے دوچار ہے ، فتنہ وفساد، قتل وغارت گری کا بازار گرم ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم تو غیروں کے ساتھ بھی عفو ودر گزر کا معاملہ کرتے تھے، آج ہم اپنے بھائیوں اور خاندان میں بھی اختیار نہیں کرتے، کاش! ہم اس صفت کو اپنا لیں تو کتنے جھگڑے ختم ہوجائیں اور کتنے خاندان سکون واطمینان کے ساتھ زندگی گزارنے لگیں۔