Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق محرم الحرام 1437ھ

ہ رسالہ

5 - 15
حصولِ علم کی اہمیت

مولانا محمد شعیب گورکھپوری
	
علم کی تعریف
کسی شے کی حقیقت کو جاننے کا نام علم ہے، علم کا اطلاق بہت سے معانی پر ہوتا ہے، جیسے عقائد کا علم، زبان کا علم، نسب کا علم، علوم طبیعیہ، جیسے ریاضی اور فزکس وغیرہ۔

اگر مذاہبِ عالم کی تاریخ کا بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جائے گی کہ مذہبِ اسلام نے علم اور حصول علم پر جس قدر زور دیا ہے دیگر مذاہب میں اس کی مثال ملنی مشکل ہی نہیں، بلکہ ناممکن ہے۔

قرآن کریم کی سب سے پہلی وحی جو ہمارے پیارے رسول حضرت محمد مصطفی صلی الله علیہ وسلم پر نازل ہوئی اس میں حصول علم کا ہی حکم ہے اور یہ حکم آپ صلی الله علیہ وسلم اور آپ کے ذریعہ آپ کی امت کے ہر فرد کو شامل ہے ۔ پہلی بابرکت اور ایک عظیم انقلاب برپا کرنے والی وحی کی ابتدایوں ہوتی ہے:﴿اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ،خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ، اقْرَأْ وَرَبُّکَ الْأَکْرَمُ، الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ، عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ﴾․ (سورة العلق:5-1)

ان پانچ آیات کے ذریعہ الله جل جلالہ نے اپنے رسول حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم او رامت کے ہر شخص کو پڑھنے کا حکم دیا اور اس علم کے حصول کی ترغیب دی، جو خالق کو پہچاننے کا ذریعہ بنے۔ الله تبارک وتعالیٰ نے علم کو کتنی اہمیت بخشی ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ لفظ” علم“ اپنے مختلف مشتقات کے ساتھ 779 مرتبہ قرآن پاک میں وارد ہوا ہے او ران کے علاوہ ان الفاظ کی بھی ایک بہت بڑی تعداد ہے جو معنی علم کی طرف اشارہ کرتے ہیں، مثلاً: یقین، ہدیٰ، عقل، فکر، نظر، حکمت، برہان، دلیل، حجة، آیة،بینتہ وغیرہ۔

احادیث پاک میں جس کثرت سے علم اور حصول علم کی فضیلت کا ذکر ہے اس کا احاطہ کرنا محال ہے، چند احادیث پر اکتفا کیا جاتا ہے: رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”ان الله وملائکتہ واھل السماوات والأرض، حتی النملة فی حجرھا وحتی الحوت فی جوف البحر، یصلون علی معلم الناس خیراً․“(سنن ترمذی)

بے شک الله تعالیٰ اور اس کے فرشتے، آسمان اور زمین والے، یہاں تک کہ چیونٹی اپنے بل میں اور مچھلیاں سمندر کی گہرائی میں لوگوں کو خیر اور بھلائی کی بات سکھانے والوں کے لیے دعا کرتی ہیں۔

ایک دوسری جگہ آپ صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں:”من یرد الله بہ خیراً یفقہہ فی الدین“(صحیح بخاری) الله جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتے ہیں اس کو دین کی سمجھ عطا فرماتے ہیں۔ ایک اور مقام پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے طالب علم کی کچھ اس طرح حوصلہ افزائی فرمائی:”من سلک طریقا یلتمس فیہ علماً، سھل الله لہ بہ طریقاً إلی الجنة․“(صحیح مسلم) جو شخص علم کی طلب اور تلاش میں ایک راستہ پر چلا، الله تعالیٰ اس کے لیے جنت کا راستہ آسان فرما دیتے ہیں۔ تعلم او رحصول علم کو پیارے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے انبیائے کرام کی میراث قرار دیا ہے، اس سے بڑھ کر علم کی فضیلت اور کیا ہو سکتی ہے؟! چناں چہ حدیث نبوی ہے:”إن الإنبیاء لم یورثوا درھما ولا دینارا وإنما ورثوا العلم، فمن أخذہ أخذ بحظ وافر من میراثھم․“( سنن ابوداؤد) یعنی انبیا کرام ورثہ میں درہم اور دینار چھوڑ کر نہیں جاتے، بلکہ علم چھوڑ کرجاتے ہیں توجس نے علم حاصل کیا اس نے انبیائے کرام کی میراث کا ایک وافر حصہ حاصل کیا۔

علم کی ضرورت
علم زندگی کا نور ہے ، تمام بھلائیوں، عظمتوں، بلندیوں اور شرف کے حصول کا واحد ذریعہ ہے، علم ہی سے انسان اپنا دین، اپنی دنیا او راپنے حقیقی مقصد کو پہچانتا ہے۔ زندگی کی بہت سی مشکلات ہم علم کے ذریعہ ختم کرتے ہیں، علم ہی کے ذریعہ ہم اپنے اندر کی چیزوں کو تنقیدی زاویہ سے سوچنے کی صلاحیت پیدا کرتے ہیں ۔ علم ہماری زندگیوں میں خوشیاں لاتا ہے، علم زندگی کے ہر موڑ پر ہماری مدد کرتا ہے اور علم کا سب سے بڑا فائدہ ہماری زندگی میں یہ ہے کہ یہ ہمیں ہماری حقیقت سے آگاہ کرتا ہے ۔ علم اس گھر کو بھی رفعت بخشتا ہے جس کے پائے نہ ہوں اور جہالت عزت وشرف والے مکان کی تباہی کا باعث بن جاتی ہے ۔ دنیا اور آخرت کی سعادت کی بنیاد علم ہے ، علم تمام اعمال میں سب سے افضل ہے اور کیوں نہ ہو؟! کسی چیز کی فضیلت اس کے نتیجہ کی فضیلت سے ناپی جاتی ہے اور علم کا نتیجہ رب العالمین کا قرب ہے، جو ہماری زندگی کا حقیقی اور واحد مقصد ہے اور ہماری تمام جدوجہد کا عین مطلوب ہے۔ الله تعالیٰ نے اپنے نبی ورسول حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کو علم کی زیادتی کی طلب کا حکم فرمایا، چناں چہ حکم دیا گیا:﴿ وَقُل رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْما﴾․(سورة طہ:114) ”آپ کہیے: اے میرے رب! میرے علم میں اضافہ فرما۔“ علم ایمان کی علامات میں سے ہے او رجہالت اہل جہنم کی صفات میں سے ہے ۔ علم نوافل سے بہتر ہے او رایک عظیم جہاد ہے ۔ جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”من جاء مسجدي ھذا، لم یاتہ إلا لخیر، یتعلمہ، أو یعلمہ فھو بمنزلة المجاھد فی سبیل الله․“(سنن ابن ماجہ) ترجمہ: جو شخص میری اس مسجد میں صرف اچھی اور خیرکی بات سیکھنے یا سکھانے کے مقصد سے آتا ہے اس کا مرتبہ الله کے راستہ میں جہاد کرنے والے کے برابر ہے۔ دینی علم انسان کو یہ بتاتا ہے کہ اس کا رب کون ہے؟ اس کے رب کی صفات کیا ہیں؟ انبیائے کرام کون ہیں؟ ان کے اوامر کیا ہیں اور ان کی نواہی کیا ہیں؟ ایک انسان ان تمام باتوں کو جاننے اور اس کے مقتضا پر عمل کرنے کے بعد پرامن زندگی بسر کرتا ہے ۔ حضرت علی کرم الله وجہہ فرماتے ہیں کہ علم کے شرف کے لیے یہی بات کافی ہے کہ وہ شخص بھی علم کا دعویٰ کرتا ہے جو اس کا اہل نہیں او رجہالت کی عار کے لیے اتنی سی بات بہت ہے کہ جاہل بھی جہالت سے برأت کا اظہار کرتا ہے۔

علم، ایمان اور عمل
اسلام کی نظر میں علم او رحصول علم کی کوشش کی تمام مذکورہ بالا فضائل کے باوجود کوئی بھی اہمیت نہیں ہے اگر وہ علم ایمان سے خالی ہو، قرآن پاک میں الله تبارک وتعالی نے علم او رایمان کو ایک ساتھ ملا کر ذکر کیا ہے، چناں چہ سورہٴ روم کی آیت نمبر56 میں ہے:﴿وَقَالَ الَّذِیْنَ أُوتُوا الْعِلْمَ وَالْإِیْمَانَ لَقَدْ لَبِثْتُمْ فِیْ کِتَابِ اللَّہِ إِلَی یَوْمِ الْبَعْثِ﴾ اور ان لوگوں نے کہا جن کو علم اورایمان عطا کیا گیا کہ تم لوگ جیسا کہ کتاب الله میں ہے یوم قیامت تک پڑے رہے۔ اور سورہٴ مجادلہ آیت نمبر11 میں ہے:﴿یَرْفَعِ اللَّہُ الَّذِیْنَ آمَنُوا مِنکُمْ وَالَّذِیْنَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ ﴾ الله تعالیٰ ان لوگوں کے درجات کو بلند فرماتے ہیں جو ایمان لائے او رجنہیں علم دیا گیا۔ علم اور ایمان کے علاوہ جو تیسری چیز انتہائی اہمیت کی حامل ہے وہ عمل ہے۔ اسلام کی نظر میں حصول علم کا مقصد اس پر عمل کرنا ہے، ورنہ وہ علم صاحبِ علم کے لیے وبال جان بن جاتا ہے۔ اسلام نے علم کے اس پہلو پر سب سے زیادہ توجہ دی ہے اور اجر ونجات کا انحصار عمل ہی پر رکھا ہے۔ بے شمار وعیدیں اور مذمت اس شخص کے بارے میں وارد ہوئی ہیں جو اپنے علم پر عمل پیرا نہیں ہے ، قرآن پاک میں ہے: ﴿أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنسَوْنَ أَنفُسَکُمْ وَأَنتُمْ تَتْلُونَ الْکِتَابَ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ ﴾․(سورة البقرة:44) کیا تم لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتے ہو اوراپنے آپ کو بھول جاتے ہو اور تم کتاب کی تلاوت کرتے ہو، کیا سمجھتے نہیں ہو ، حدیث پاک میں ہے:”من تعلم علما مما یبتغی بہ وجہ الله عزوجل لا یتعلمہ إلا لیصیب بہ عرضا من الدنیا لم یجد عرف الجنة یوم القیامة (یعنی ریحھا)“(سنن ابوداؤد وسنن ابن ماجہ) جس شخص نے علم سیکھا جس سے الله کی رضا حاصل کی جاتی ہے اور وہ صرف دنیا کے سامان کے حصول کے لیے سیکھتا ہے تو وہ قیامت کے دن جنت کی خوش بو نہیں پائے گا۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن ابن آدم کا قدم اپنے رب کے سامنے سے اس وقت تک نہیں ہٹ سکتا جب تک کہ اس سے پانچ چیزوں کے بارے میں پوچھ نہ لیا جائے او ران پانچ چیزوں میں سے ایک یہ ہے کہ اپنے علم پر کیا عمل کیا۔ ( معجم طبرانی) جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم اس علم سے پناہ مانگا کرتے تھے جو نفع بخش نہ ہو ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ فرماتے تھے تھے کہ ” اس علم کی مثال جس پر عمل نہ کیا جائے اس خزانہ کی طرح ہے جس کو الله کے راستہ میں خرچ نہ کیا جائے۔“ حضرت عمر رضی الله عنہ کا قول ہے:” وہ شخص تم کو دھوکہ میں نہ ڈالے جو قرآن پڑھتا ہے، بلکہ اس شخص کو دیکھو جو اس پر عمل کرتا ہے۔“

علوم شرعیہ کی اہمیت
الله تبارک وتعالی نے انسانوں کی ہدایت کے لیے جتنے بھی انبیائے کرام کو مبعوث فرمایا، ان سب کا مقصد لوگوں کو الله کی طرف دعوت دینا تھا اورایک داعی کے کردار میں سب سے بڑا عنصر علم ہوتا ہے ۔ سردار انبیاء حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم پر نازل ہونے والی سب سے پہلی وحی میں آپ کو پڑھنے کا حکم دینا اور علم کا تذکرہ کرنا اس بات کی روشن دلیل ہے کہ علم اس دین کو، دنیا کو اور آخرت کو سمجھنے کی کنجی ہے، علم ہی کی روشنی میں دعوت کا کام پایہٴ تکمیل تک پہنچ سکتا ہے، شریعت کا علم ہمارے لیے کھانے، پینے ، لباس اور دوا سے بھی زیادہ ضروری ہے، اس لیے کہ علم شریعت ہی سے دین ودنیا کی بقا ہے، علم عبادت کی بنیاد ہے۔ مثلاً نماز پڑھنے کے لیے ہمیں ایک عالم کی ضرورت ہے، جو ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ہمارے رسول صلی الله علیہ وسلم کیسے نماز پڑھتے تھے؟ نماز کے ارکان کیا ہیں؟ فرائض کیا ہیں؟ سنتیں کیا ہیں؟ علم شریعت کے بغیر نہ نماز پڑھی جاسکتی ہے ، نہ روزہ رکھا جاسکتا ہے، نہ زکوٰة ادا کی جاسکتی ہے، نہ جہاد کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی فریضہٴ حج ادا کیا جاسکتا ہے۔

عقیدہ کی سب سے مشہور کتاب”شرح العقیدہ الطحاویة“ میں ہے کہ ” اصول دین کا علم تمام علوم میں سب سے اشرف ہے اور اسی لیے امام ابوحنیفہ رحمة الله تعالیٰ علیہ نے اصول دین کے بارے میں جو کچھ کہا اور صفحات میں جمع کیا اس کا نام ”الفقہ الاکبر“ رکھا۔ بندوں کو اس کی ضرورت تمام ضرورتوں پر فوقیت رکھتی ہے ،اس لیے کہ وہ قلوب مردہ ہوتے ہیں جو اپنے رب کو نہ پہچانیں، دلوں کی زندگی اور اس کا اطمینان وسکون اپنے رب، اپنے معبود او راپنے خالق ومالک کو اس کے اسماء وصفات او رافعال کے ساتھ جاننے میں مضمر ہے۔“ ( ص:17)

کسی قوم کی گم راہی اور بددینی کی بنیادی وجوہات علم دین سے دوری او رخواہشاتِ نفسانی کی اتباع ہی ہیں، گم راہوں او رغلو کرنے والوں کے احوال کے بارے میں اگر غور کریں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ وہ لوگ یا تو شریعت کے علوم سے بے خبر تھے یا خواہشاتِ نفسانی کے مرض میں مبتلا تھے۔ لوگ گناہ کبیرہ کے مرتکب ہوتے ہیں ، معاصی کے دلدل میں پھنستے جاتے ہیں، کم زوروں کے حقوق کو ہضم کر جاتے ہیں اور انہیں اس بات کااحساس نہیں ہوتا کہ ان کے یہ اعمال حرام ہیں جن پر دنیا وآخرت میں شدید ترین سزائیں مرتب ہوں گی، اگر انہیں شریعت کا علم ہوتا تو ان گناہوں کاارتکاب کرنے کی جرأت بھی نہ کرتے۔

جدید علوم
علوم کی فضیلت او راہمیت صرف علوم شریعہ کے ساتھ خاص نہیں ہے ، بلکہ ان فنون کی تعلیم بھی ثواب کا باعث بن سکتی ہیں جو الله کی رضا کے لیے دی جائیں اور ان کا مقصد الله کی مخلوق کو نفع پہنچانا ہواور وہ مقاصد شریعت کے ساتھ ٹکراتے بھی نہ ہوں، یہ فنون دراصل کرہ ارض پر بسنے والی مخلوق کی زندگی کو بہتر اور آسان بنانے کا ممکنہ ذریعہ ہیں۔

قرآن پاک میں ہے :﴿ ہُوَ أَنشَأَکُم مِّنَ الأَرْضِ وَاسْتَعْمَرَکُمْ فِیْہَا ﴾․(سورة ھود:61)اسی نے تمہیں زمین سے پیدا کیا اوراسی زمین میں تمہیں بسایا۔

حدیث پاک میں ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ:”انتم اعلم بشؤؤن دنیاکم“ یعنی تم اپنی دنیا کے معاملات کو زیادہ جاننے والے ہو۔

زمین کی تعمیر کے لیے ، وہاں انسانوں کو آباد کرنے کے لیے اور انسانی معاشرے میں زندگی کی اجتماعی ضروریات کو بہتر انداز سے پورا کرنے کے لیے ریاضی ،فن صناعت، فن زراعت او ر اقتصاد وتجارت وغیرہ کی تعلیم کی ضرورت پڑتی ہے۔ موجودہ دو رمیں مسلمانوں کو علوم شرعیہ کے ساتھ ساتھ ان دوسرے فنون میں بھی مہارت حاصل کرنا چاہیے جو دنیاوی ضروریات پورا کرنے کا ذریعہ ہیں، جیسے کمپیوٹر سائنس، میڈیکل، انجینئرنگ، میتھ میٹکس(Mathematics) ایگری کلچرل(Agricultural) او رانڈسٹریل سائنس(Industrial Science) وغیرہ۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ مذہب پر کاربند رہتے ہوئے اور دین کا ضروری علم حاصل کرنے کے بعد ان فنون کو بھی سیکھیں جو اسلامی شریعت اور اسلامی قواعد کے مخالف نہ ہوں، چناں چہ جوان فنون کو اس مقصد سے سیکھے کہ وہ اس کے ذریعہ مسلمانوں کے لیے نافع بنے گا تو وہ ماجور ہو گا اور اس شخص سے افضل ہو گا جس نے موقع ہونے کے باوجود بیکار سمجھ کر نہیں سیکھا۔ اسی طرح میڈیکل ، انجینئرنگ اور دوسرے فنون کا مسئلہ ہے۔ جسے دینی علوم پر رسوخ حاصل ہے اور کمپیوٹر اورانٹرنیٹ پر بھی عبورہے اور وہ اس کا استعمال شریعت کے دائرے میں رہ کر( یعنی جاندار کی تصاویر آویزاں کیے بغیر، اپنی نگاہوں کی حفاظت کرتے ہوئے، اپنے قیمتی اوقات زندگی کو ضائع ہونے سے بچاتے ہوئے، وغیرہ وغیرہ) کلمہٴ حق کو پورے عالم میں پہنچانے کی غرض سے کر رہا ہو تو وہ ان سے بہتر ہے جو اپنی فیملی اور اپنی اولاد سے ہٹ کر کچھ اور سوچنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔

ہمارے رسول حضرت محمد مصطفی صلی الله علیہ وسلم نے کتنی پیاری بات فرمائی:”إن ھذا الخیر، خزائن وتلک الخزائن مفاتیح، فطوبیٰ لعبد جعلہ الله مفتاحاً للخیر، مغلاقا للشر، وویل لعبد جعلہ الله مفتاحا للشر، مغلاقا للخیر․“(ابن ماجہ) بلاشبہ یہ خیر خزانے ہیں، تو خوش خبری ہے اس شخص کے لیے جس کو الله نے خیر کو کھولنے والا اور شر کو بند کرنے والا بنایا اور ہلاکت ہے اس شخص کے لیے جس کو الله نے شر کو کھولنے والا اور خیر کو بند کرنے والا بنایا۔

قوانین الہٰیہ کی پابندی کرتے ہوئے معاشی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے واسطے قوم کے افراد کا اپنی اپنی پسند اور طبعی رجحان کے مطابق ایک تخصص(Specialization) کا انتخاب کرنا بالکل فطری تقاضا ہے۔ صرف اس طرح پورا معاشرہ ایک مہذب، مثقف اور بے مثال معاشرہ بن پاتا ہے۔

رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا تھا:”ألا إن الدنیا ملعونة ، ملعون ما فیھا إلا ذکر الله، وما والاہُ، وعالم أو متعلم․“(سنن ترمذی) دنیا اور دنیا میں جو کچھ ہے وہ ملعون ہے، یعنی الله کی رحمت سے دور ہے، مگر الله کا ذکر اور وہ چیزیں جو الله سے قریب کریں ( یعنی نیک عمل) اورعالم اورمتعلم(طالب علم)۔ اس کا اثر تمام اسلامی دنیا پر پڑا، چناں چہ علم ومعرفت کے مختلف میدانوں میں ایک وسیع پیمانہ پر اس طرح کی سرگرمیاں مشاہدے میں آئیں جن کی مثال تاریخ میں ملنی مشکل ہے، مسلمان علماء کے ذریعہ ایک تہذیب وتمدن کی بنیاد پڑی اور انسانیت کو شان دار علمی ذخیرہ میسر آیا۔

ہمارے اسلاف نے نہ صرف علوم وفنون کی قدر وقیمت کو پہچانا بلکہ انہیں ان کی حیثیت کے مطابق اسلامی معاشرے میں جگہ دی۔ دنیاوی فنون کی قدردانی بھی کی مگر علوم اسلامی کو نسل انسانی کی دنیاوی اور اخروی کام یابی کے لیے لازمی حیثیت دی۔ معاشرے کا مرکز یعنی مساجد تعلیمی حلقوں سے پُر رہا کرتی تھیں، مدارس وجامعات قائم کیے گئے۔ جس کانتیجہ یہ ہوا کہ وہ لوگ دس صدیوں تک اس دنیا کے اساتذہ تھے، مغربی دنیا نے ان سے علوم بھی اور فنون بھی حاصل کیے مگر اپنی متعین کردہ ترجیحات کے مطابق اپنی تہذیب وتمدن کی بنیاد رکھی۔

مسلمان اپنے تاب ناک ماضی کی عزت وشرف کو تبھی واپس پاسکتے ہیں جب اسلاف واکابرین کے نقش قدم پر چلیں، ہمارے اسلاف نے اسلام کو اپنی زندگیوں میں اپنایا اور شرف وعزت والے کہلائے، دشمنانِ اسلام پوری طاقت کے ساتھ ان پر یلغار کرتے، مگر منھ کی کھاتے، انہوں نے اپنے مقصد کے حصول کے لیے علم الہٰی کووسیلہ بنایا اور افسوس کہ ہم نے علم الہٰی کو چھوڑ کر اپنی تمام تر توجہ ان فنون پر مرکوز کر دی جن کا دنیا میں تو فائدہ ملنے کا امکان ہوتا ہے، مگر آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہوتا۔

مختصراً یہ کہ ماضی کی شرف وعزت کا حصول علم شرعی او رعلوم دنیوی کے حصول پر ہی موقوف ہے۔

والله الموفق المستعان

Flag Counter