Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق محرم الحرام 1437ھ

ہ رسالہ

12 - 15
دینی مدارس کی قدر ومنزلت

مولانا مفتی محمد تقی عثمانی
	
حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے قرآن وحدیث کی تعلیم کا آغاز ایک ایسے چبوترے سے کیا تھا جس کے اوپر چھت بھی نہیں تھی، مطبخ تو بڑی بات ہے، لوگ کھجور کے خوشے ایک جگہ آویزاں کر دیا کرتے تھے، صحابہ کرام  حسب ضرورت چند کھجوریں کھا کر باقی دوسروں کے لیے چھوڑ دیا کرتے تھے، حضرت ابو ہریرہ بعض اوقات شدتِ بھوک کی وجہ سے بے ہو ش ہو کر گرجایا کرتے تھے، فرماتے ہیں کہ لوگ سمجھا کرتے تھے کہ مرگی کا دورہ پڑ گیا ہے، جس کی وجہ سے لوگ میری گردن پر پاؤں رکھ کر گزرا کرتے تھے (بطور علاج)۔ حضرت ابوہریرہ خود ارشاد فرماتے ہیں کہ خدا کی قسم! مرگی نہیں، بلکہ سخت بھوک کی وجہ سے بے ہوشی طاری ہوا کرتی تھی، صحابہ کرام رضی الله عنہم نے یہ عظیم قربانیاں دے کر دین ہم تک پہنچایا، یہی حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ کہ انہیں حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم کی طویل صحبت میسر نہیں آئی، 7 ہجری میں غزوہ خیبر کے موقع پر مشرف با اسلام ہوئے اور سن 11ہجری میں آفتاب نبوت غروب ہو گیا ،حضرت ابوہریرہ  نے اس مختصر ترین مدت میں بہت زیادہ کسب فیض کیا، بلکہ کثرتِ روایت کے اعتبار سے تمام صحابہ کرام  سے نمایاں نظرآتے ہیں، مرویات ابوہریرہ کی تعداد5364 ہے، جو سب سے زیادہ ہے، آج یہ سادہ سے مدارس جو نظر آرہے ہیں اگرچہ بے رنگ ہوں، بیٹھنے کے لیے بورے بھی میسر نہ ہوں، لیکن ان میں بیٹھ کر علوم قرآنی وحدیث حاصل کرنے سے حضرات صحابہ کرام کے ساتھ جو ایک نسبت قائم ہو جاتی ہے یہ اتنی بڑی نعمت اور انعامِ خداوندی ہے کہ جس کا حق اور شکر ادا نہیں ہو سکتا۔

دین ہم تک کیسے پہنچا؟
دین ہم تک اس طرح پہنچا ہے کہ ہر کسی نے باادب ہو کر زانوئے تلمذ تہہ کرکے ان اساتذہ سے سیکھا جن کی سند رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم تک متصل ہے،کتاب کا آپ خود مطالعہ کر لیجیے، ایک کتاب کسی کامل استاذ سے پڑھ لیجیے جس کا سلسلہٴ سند حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم سے ملتا ہو، دونوں میں زمین وآسمان کا فرق ہو گا، آج کل اسٹڈی (مطالعہ) کرنے کا رواج اور وباء پھیلی ہوئی ہے، مطالعہ کرنے کا بڑا شوق ہے، نتیجہ یہ ہے کہ اجتہادات کا ایک بازار گرم ہے۔

یاد رکھیے! اگر علم کا حاصل ہونا صرف مطالعہ کے ذریعے بغیر کسی استاذ کے ممکن ہوتا تو آسمانی کتابوں کے ساتھ کسی رسول کو بھیجنے کی حاجت نہ تھی، الله تعالیٰ کے لیے کوئی مشکل نہ تھا کہ کسی رات ہر مسلمان کے سرہانے قرآن پاک کا ایک ایک عمدہ نسخہ اور خوب صورت جلد میں مجلد رکھ دیا جاتا اور غیب سے یہ آواز لگا دی جاتی کہ اسے پڑھو اور اس پر عمل کرو! لیکن ایسا نہیں ہوا، بلکہ الله تعالیٰ نے قرآن مجید کے ساتھ شارح قرآن حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کو بھیجا اور فرمایا”یعلمھم الکتاب“ تاکہ وہ پیغمبر کتاب کی ان کو تعلیم دیں ،ایسے ہی ہر کتاب کے ساتھ الله تعالیٰ نے ایک ایک پیغمبر بھیجے ہیں، ایسا تو ہوا ہے کہ انبیاء علیہم السلام تشریف لاتے، مگر کتاب نہیں تھی، لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کتاب بغیر صاحب کتاب کے نازل ہوئی ہو۔ وجہ یہ ہے کہ کتاب بغیر معلم ومربی کے انسان کی ہدایت کے لیے کافی نہیں ، اگر انسان کتاب کا خود مطالعہ کرتا تو جب اسے مطلب سمجھ نہ آتا تو گم راہ ہو جاتا۔

اس کی مثال تو ایسے ہے کہ ایک آدمی علم طب پر لکھی ہوئی کتب کا خود مطالعہ کرکے مطب کھول کر بیٹھ جائے تو سوائے اس کے کہ وہ قبرستان آباد کرے، انسانیت کی کوئی خدمت انجام نہیں دے سکتا، کسی ڈاکٹر سے یہ علم حاصل کرنا پڑے گا، اس کے سامنے زانوائے تلمذ تہہ کرنے پڑیں گے، وگرنہ حکومت بھی اس کی اجازت نہیں دے گی، یہی معاملہ دین کا بھی ہے کہ اسے سیکھنے کے لیے کسی کامل مربی ومعلم کے پاس رہنا ہو گا ،وگرنہ گم راہی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو گا، ان مدارس کی قدر پہچانئے، ان کی بدولت الله تعالیٰ کا کلمہ بلند ہے اور دین اپنی اصلی شکل میں محفوظ ہے، ان ممالک میں جا کر دیکھیے جہاں یہ مدارس ختم کر دیے گئے، ان کا بیج ما ردیا گیا، وہاں بے دینی کا سیلاب امڈ رہا ہے، اور کوئی بند باندھنے والا نہیں ، بقول ہمارے حضرت علی میاں رحمہ الله کے ردة ولا ابا بکرلھا کہ ارتدار کا بازار گرم ہے لیکن کوئی ابوبکر رضی الله عنہ نہیں۔الله تعالیٰ نے مجھے دنیا کے بیشتر اسلامی ممالک میں جانے اور وہاں کے اہل علم اور دینی حلقوں سے ملاقات کا موقع عطا فرمایا، پہلے تو تقلیداً یہ بات سمجھتا تھا کہ یہ دینی مدارس جن کا تعلق حضرات علماء دیوبند سے ہے، ہمارے لیے بہت بڑی نعمت ہیں ،لیکن ان ممالک میں حالات دیکھنے کے بعد تحقیقا یہ سمجھا ہے کہ دین کی حفاظت وتحفظ کا ذریعہ الله تعالیٰ نے ان دینی مدارس کو بنایا ہوا ہے، خواہ بہ ظاہر یہ کتنے ہی سادہ کیوں نہ ہوں؟ معاشرے پر ان کی برکات واثرات الحمدلله آج بھی نمایاں ہیں، جہاں یہ مدرسے نہیں وہاں بے عملی وبے راہ روی کی عجیب وغریب شکلیں او رمناظر دیکھنے میں آئے۔

یہ مناظر بھی دیکھے گئے کہ منھ میں سگریٹ گلے میں ٹائی کلین شیو اور انگریزی لباس زیب تن کیے ہوئے ایک آدمی بخاری شریف پڑھا رہا ہے، یہ مناظر بھی دیکھے گئے کہ درس بخاری کا ہو رہا ہے، لیکن نماز پڑھنے کا سوال ہی نہیں، یہ منظر بھی دیکھا گیا کہ مرد وزن باہمی مخلوط بیٹھے ہیں اور اسلامی تعلیمات کا درس ہو رہا ہے کیا کیا بتاؤں یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔

آج سے کچھ عرصہ قبل مجھے عراق جانا ہوا، آج تو وہاں ایک طوفان برپا ہے، وہاں میں نے بعض دوستوں سے کہا کہ اگر کوئی پرانی طرز کا عالم ہو تو اس کی زیارت کو جی چاہتا ہے، یہ تقاضا اس لیے پیدا ہواکہ وہاں ایسے علماء وصلحاء کا بیج مار دیا گیا ہے تو کسی نے بتایا کہ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ الله کے مزار کے قریب ایک مدرسہ میں پرانی طرز کے بزرگ ہیں، آپ ان سے ملاقات کیجیے، میں وہاں پہنچا، جاکر دیکھا تو واقعی ایک بزرگ جن کی چال ڈھال میں، اندازِ گفتگو میں نشست برخاست میں اسلاف کی جھلک نظر آئی ، انہوں نے مجھ سے پوچھا آپ پاکستان میں کیا کرتے ہیں؟ میں نے کہا کراچی میں ہمارا ایک دارالعلوم ہے، اس میں پڑھنے پڑھانے کا کچھ سلسلہ ہے ،انہوں نے پوچھا وہ کون سی یونیورسٹی سے متعلق ہے؟ میں نے کہا ہمارے ہاں! یہ سلسلہ نہیں ہے، بلکہ عوامی قسم کے مدارس ہیں، انہوں نے حیران ہو کر پوچھا کیا تمہارے ہاں عوامی قسم کے مدارس ہیں؟ پھر خود ہی فرمایا ہم تو اس قسم کے تصور کو بھو ل گئے، آپ پر تو الله تعالیٰ کی یہ بہت بڑی نعمت ہے، پھر پوچھا وہاں کیا پڑھاتے ہو؟ میں نے مدارس میں پڑھائی جانے والی چند کتب کا نام لیا مثلاً شرح جامی اور سلم وغیرہ جب شیخ نے ان کتب کا نام سنا تو ان کی چیخ نکل گئی، پھر فرمایا: ” میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ جب تک تمہارے دم میں دم ہے، اس طریق کار اور نصاب تعلیم کو نہ چھوڑنا، کیوں کہ ہمارے ہاں عراق میں جب اس نصاب کی کتابیں زیر تعلیم تھیں تو فضا کچھ اور تھی او رجب سے یونیورسٹیوں کا نظام رائج ہو گیا اور دینی کتب چھوڑ دی گئیں اس وقت سے فضا بالکل تبدیل ہو گئی، پھر فرمایا:” کسی زمانہ میں ہم بھی یہ کتابیں پڑھاتے تھے، اس وقت علماء متبع سنت اور دینی جذبہ رکھنے والے پیدا ہوتے تھے، بعد میں تمام مدارس سرکار کی تحویل میں لے لیے گئے، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس وقت سے سرکاری مولوی پیدا ہونے لگے۔“

ان ممالک میں گھومنے پھرنے کے بعد یہ احساس مزید پختہ اور قوی ہو گیا کہ یہ مدارس جن کا سلسلہ ماضی قریب میں حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی ، حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی سے جڑا ہوا ہے اور پھر بالآخر سند متصل کے ساتھ حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم سے جاملتا ہے ایسی نعمتیں اور احسان ہے کہ جس پر شکر ادا نہیں ہو سکتا۔

ایک مرتبہ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا ( قدس سرہ) دارالعلوم کراچی تشریف لائے ( یہ الله کے بندے اخلاص کے پیکر عندالله اتنے مقبول ومنظور تھے کہ ان کی تصنیف شدہ کتب فضائل24 گھنٹوں میں سے کوئی لمحہ بھی ایسا نہیں ہے جس میں دنیا کے کسی نہ کسی حصہ میں پڑھی نہ جاتی ہوں ) ہم نے عرض کیا کہ حضرت نصیحت فرما دیجیے ، تقریر کرنے کا تو معمول نہ تھا، صرف ایک جملہ ارشاد فرمایا:”طالب علمو! اپنی حقیقت پہچانو! اپنی قدر پہچانو“۔ اشارہ اس بات کی طرف تھا کہ بعض اوقات تمہارے دلوں میں یہ خیال پیدا ہو جاتا ہے کہ ہم تو یوں ہی بوریوں پر بیٹھنے والے ہیں دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ،لیکن الله تعالیٰ نے جو نعمت عظمیٰ تمہیں عطا کی ہے اس کا مقابلہ دنیا اور اس کی دولت نہیں کر سکتی ،وہ نعمت ہے حضوراکرم صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ نسبت، یہ جو ہم پڑھتے ہیں ،حدثنا فلان حدثنا فلان عن فلان، عن رسول الله صلی الله علیہ وسلم اس سند متصل کے ساتھ اپنے کو جوڑ دینا آج تو شاید اس کی قدر ومنزلت ہمیں معلوم نہ ہو، لیکن جب آنکھیں بندہوں گی اور الله تعالیٰ کے ہاں حاضری ہو گی اس وقت پتا چلے گا کہ اس سلسلہ کے ساتھ وابستگی کتنی بڑی نعمت ہے۔

میرے شیخ حضرت ڈاکٹر عبدالحئی عارفی  مثال دیا کرتے تھے کہ کراچی سے صدر مملکت کی ایک ٹرین جارہی ہے، جس میں بہترین سیلون لگا ہوا ہے ، عمدہ اور عالی شان ڈبے لگے ہوئے ہیں، اس کے ساتھ کھانے پینے کا بہترین انتظام موجود ہے، بہت ہی پر کیف خوشبو ئیں اٹھ رہی ہیں، روانگی کے وقت اسٹیشن ماسٹر نے ایک پرانا اور بوسیدہ ڈبہ بھی اس ٹرین کے ساتھ جوڑ دیا، یہ بھی ٹرین کے ساتھ منزل مقصود تک پہنچ جائے گا، ایسے ہی ہم بوسیدہ اور خستہ حالت میں سہی، لیکن ہمارا کنڈا اعلیٰ اور عمدہ ڈبوں پر مشتمل ٹرین کے ساتھ جڑا ہوا ہے، ہمارا تعلق سند متصل کے ساتھ حضور صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ قائم ہوچکا ہے، اس نسبت او رتعلق کی وجہ سے الله تعالیٰ کی بے پایاں رحمتیں ہم پر نازل ہوں گی، اس لیے ہمیں چاہیے کہ اس سلسلے کی قدر پہچانیں۔

پڑھنے پڑھانے والوں کے علاوہ دوسرے لوگ بھی اپنے آپ کو محروم نہ سمجھیں ہ،و ان پڑھنے پڑھانے والوں کے ساتھ محبت کریں ”المرء مع من احب․“ اگر کسی کی محبت اس سلسلہ والوں کے ساتھ ہو گئی تو ان کا حشر بھی انہیں کے ساتھ ہوگا خود بھی تعاون کریں، دوسروں کو بھی توجہ دلائیں تو اس سلسلہ کے ساتھ وابستگی ہو جائے گی، خدا کے لیے ان دینی مدارس کی قدر پہچاننے کی کوشش کریں۔

Flag Counter