شاہ جیؒ کی شخصیت کے چندپہلو
مولانامحمدجہان یعقوب
سیدعطاء اللہ شاہ بخاریؒ پٹنہ، صوبہ بہار،بھارت میں حافظ ضیاء الدین کے گھرپیداہوئے، آپ کے داداکانام سیّدنورالدین احمدتھا،آپ کاسلسلہ نسب چھتیسویں پشت میں شہیدکربلاحضرت حسین سے جاملتاہے۔ آپ کواپنے ناناسے جذبہ حق گوئی وبے باکی اورجوشِ خطابت وراثت میں ملاتھا،جس کااندازہ حضرت شاہ جی کی زبانی اس واقعے سے کیاجاسکتاہے،اپنے ابتدائی ایام کاتذکرہ کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:
” ایک مرتبہ گھروالوں نے مجھے ایک روپیہ دے کربازارسے آٹالانے کو کہا،میں بازارگیا،راستے میں ایک جگہ انگریزکے خلاف جلسہ ہورہاتھااورانگریزکے خلاف خوب خوب بیانات ہورہے تھے ،مجھے بھی خوشی ہوئی، اسٹیج سیکرٹری سے وقت مانگاتواس نے یہ کہہ کرانکارکردیاکہ تم بچے ہو۔جب میں نے مسلسل اصرارکیاتواس نے میری معصومانہ ضدوپیہم اصرار کودیکھتے ہوئے صرف پانچ منٹ تقریرکرنے کی اجازت دی، چناں چہ میں نے انگریزکے خلاف خوب زوردارجذباتی تقریرکی۔پانچ منٹ ختم ہونے پرجب میں اسٹیج سے اُترنے لگاتولوگوں نے اصرارکیاکہ اس بچے کو مزیدموقع دیاجائے، چناں چہ پون گھنٹہ میری تقریرجاری رہی ،اس تقریر کا انگریز سرکار پر یہ اثرہواکہ اسٹیج سے اترتے ہی مجھے گرفتار کیا گیا۔ مجسٹریٹ بھی پولیس کے ساتھ تھا،اس نے ایک ماہ کی سزالکھ دی اوریہ میری پہلی سزاتھی۔“
آپ نے ابتدائی اورحفظ ِقرآن مجیدکی تعلیم اپنے ناناسے حاصل کی اورقرأت کی تعلیم عرب کے مشہورقاری سیّدعاصم عمر سے حاصل کی ،جب آپ پٹنہ سے پنجاب منتقل ہوئے توراجووال میں قاضی عطاء محمدکے مدرسے میں کچھ عرصہ تک زیرتعلیم رہے اور پھر1914ء کوامرتسرتشریف لے گئے اوروہاں ممتازعالم دین ومفسرقرآن حضرت مولانانوراحمدامرتسری سے قرآن مجیدکی تفسیرپڑھی اورفقہ واصول فقہ کی تعلیم دارالعلوم دیوبندکے چشم وچراغ حضرت مولاناغلام مصطفی قاسمی سے حاصل کی، جب کہ حدیث کی تعلیم برصغیرکے مشہورعالم دین اورملک کی عظیم دینی درس گاہ جامعہ اشرفیہ لاہورکے بانی حضرت مولانامفتی محمدحسن امرتسری سے حاصل کی۔
دنیائے خطابت کے مہرمنیر،شہنشاہ خطابت ،امیرشریعت حضرت مولاناسیدعطاء اللہ شاہ بخاری کاشماران علمائے حق اوراولوالعزم انسانوں میں ہوتاہے جنھوں نے ساری زندگی تحفظ ختم نبوت ،اسلام کی نشرواشاعت، دعوت وتبلیغ،ردقادیانیت ،تردیدباطل، احقاق حق اورانگریزواستعماری طاقتوں کے خلاف جدوجہدمیں گزاری ،آپ برصغیرکے عظیم خطیب ،شعلہ بیان مقرر،تحریک تحفظ ختم نبوت کے عظیم مجاہداورراہ نماتھے۔آپ کی شخصیت کے کئی عنوان اوربے شمارگوشے ہیں،جن پراس مختصرکالم میں بات نہیں کی جاسکتی ،البتہ ان کی حیات عاشقانہ کے چنداہم گوشوں سے قارئین کرام کوروشناس کرنے کی ہم کوشش ضرورکریں گے۔
سیدعطاء اللہ شاہ بخاری ایک بہترین خطیب تھے ،آپ نے خطابت کے وہ جوہردکھائے کہ آج تک کوئی اس کی نظیرپیش نہیں کرسکا،شاہ جی ایک عوامی خطیب تھے،ان کاطرزخطابت علمی وادبی چاشنی سے بھرپورہونے کے باوجودعوام میں اس قدرمقبول تھاکہ نمازِعشاکی ادائیگی کے بعدمجمع شاہ جی کی تقریرکے سحرمیں جوکھوجاتاتھا،تواذان ِفجرتک مجمع یوں ہمہ تن گوش رہتاتھاکہ کسی چہرے پرتھکن کااحساس ہوتاتھااورنہ ہی کسی زبان پرکوئی شکوہ،بلکہ مجمع چاہتاتھاکہ شاہ جی یوں ہی بولتے ،بلکہ موتی رولتے رہیں اور وہ ان سے یوں ہی عشق رسالت صلی الله علیہ وسلم حب ِصحابہ واہل ِبیت رضی اللہ عنہم کی دولت سے اپنادامن بھرتارہے۔غیرمنقسم ہندوستان اورپاکستان کاشایدہی ایساکوئی شہریاقصبہ ہو،جہاں آپ نے اپنی سحرآفرین خطابت ،شیریں بیانی اورہنگامہ خیزانقلابی تقریروں سے لوگوں کے سوتے ہوئے جذبات اورغافل دلوں کونہ گرمایاہو۔آپ نے ہندوستان وپاکستان کے کونے کونے میں اسلام کاعلم بلندکیا،انگریزسامراج کے خلاف آپ کی زبان سے الفاظ نہیں،بلکہ آگ کے شعلے نکلتے تھے ،جس نے انگریزسامراج کی نیندیں حرام کررکھی تھیں ،آپ کالہجہ اورموقف انگریز سامراج کے خلاف بہت ہی سخت تھااورآپ کاہرہرجملہ انگریزسامراج کے محلات کی درودیوارکوصاعقہ آسمانی بن کرلرزادیتاتھا۔آپ کااندازخطابت نہایت نرالااوردل نشین تھا،آپ کی زبان سے نکلنے والے الفاظ لوگوں کے دلوں پراس قدر اثر انداز ہوتے تھے کہ لاکھوں کامجمع آپ کی ایک آوازپردینِ اسلام اورتحفظ ِختم نبوت کے لیے جان کی بازی لگانے تک کے لیے تیارہوجاتاتھا۔جس کی ایک واضح مثال غازی علم دین نا می گاڑی بان کاراج پال جیسے بااثرگستاخ رسول( صلی اللہ علیہ وسلم )کوواصل ِجہنم کرنابھی ہے۔ان کی خطابت بلا مبالغہ ”از دل خیزد بر دل ریزد“ کامصداق اتم تھی اوریہ شعر ان کی خطابت پرمکمل صادق آتاتھا #
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ سمجھا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں تھا
شاہ جی کی شخصیت کاایک حوالہ ان کی روحانی عظیم نسبت بھی تھی،وہ ایک سچے عاشق ِرسول صلی الله علیہ وسلم اورایک عالمِ ربانی توتھے ہی،ساتھ ہی وہ ایک عارفِ ربانی بھی تھے،آپ حصول ِعلوم ِظاہری سے فارغ ہونے کے بعدتزکیہ باطن کی طرف متوجہ ہوئے،چناں چہ سب سے پہلے ولی کامل، حضرت مولاناپیرسیّدمہرعلی شاہ گولڑوی سے اصلاحی تعلق قائم کیااورآپ کی خدمت اقدس میں تصوف وسلوک کی منازل طے کیں ۔ حضرت مولانا پیرسیّدمہرعلی شاہ گولڑوی انتہائی نیک ،عابداورمتقی وپرہیزگارانسان تھے،آپ جب حضرت مولاناپیرسیّدمہرعلی شاہ گولڑوی کے مرض الوفات میں حاضرخدمت ہوئے اورعرض کی :
” حضرت! کوئی نصیحت فرمائیے۔“
اس وقت پیرکامل حضرت مولاناسیّدمہرعلی شاہ گولڑوی عالم جذب میں تھے ،صرف اتنافرمایا:
”اتباع شریعت رکھیے“ ۔پیرومرشد کی اس نصیحت پراس قدرعمل کیاکہ خودآپ کو”امیرشریعت “کالقب دیاگیااورآج تک دنیاآپ کو”امیرشریعت“کے نام سے جانتی اور یاد کرتی ہے ۔حضرت مولانا پیر سیّد مہر علی شاہ گولڑوی کی وفات کے بعدآپ نے حضرت مولاناشاہ عبدالقادررائے پوری سے تجدیدِبیعت کی اورخلافت سے سرفرازہوئے، پیرکامل حضرت مولاناشاہ عبدالقادررائے پو ری آپ سے بہت ہی زیادہ محبت کرتے تھے۔
آپ تقسیم ہندکے حق میں نہیں تھے ،جس کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی تھی کہ ان کاکہناتھاجس انگریزکوثالث مقررکیاجارہاہے ،وہ قابل ِاعتماد نہیں، اس لیے وہ ایسی ڈنڈی مارے گاکہ دونوں ملک مسلسل لڑتے بھی رہیں اوراندرونی وبیرونی عدم ِاستحکام کاشکارہوکرنتیجتاًاسی انگریزسامراج کے دست نگرہوجائیں۔ان کی اس رائے سے اختلاف بھی کیاگیااورنتیجہ بھی اس کے خلاف نکلااوردوملک بن گئے ،لیکن اب جوں جوں ماہ وسال گزرتے جارہے ہیں مبصرین ان کی سیاسی بصیرت کااعتراف کرتے ہوئے تسلیم کرتے ہیں کہ واقعی !شاہ جی سیاسی بصیرت میں اعلیٰ درجے پرفائزتھے،چناں چہ اس وقت آپ نے جن جن خدشات کااظہارکیاتھا،قیام پاکستان کے بعد وہ تمام خدشات ایک ایک کرکے درست ثابت ہوئے۔اس مردِقلندرنے اس وقت فرمایاتھا: انگریزتمہارے درمیان فسادبرپاکرکے جائے گا۔آج ہم اگراپنے اردگردنظرڈال کردیکھیں توہم باوجودایک آزادوخودمختاراورایٹمی طاقت کا حامل ملک ہونے کے باوجودگورے انگریزکے محتاج ہیں،اس کی ڈکٹیشن، قرض اورایڈہماری ضرورت بن چکی ہے اورہمارابال بال قرضوں میں جکڑا ہواہے،جس کی ایک نقدقیمت ہم یہ بھی چکارہے ہیں کہ ہمارے فیصلے اب بھی ان کے اشارہ آبروپرہوتے ہیں ،دوسری طرف شاطرثالث نے تقسیم ہندکے وقت جومسئلہ اورمعاملہ مسئلہ کشمیرکی صورت میں لاینحل چھوڑاہے وہ آج تک حل نہیں ہوسکا،یہ ایک خونی لکیرہے جس کوعبورکرنے کی خاطرلاکھوں جانوں،عصمتوں کی قربانیاں دی جاچکی ہیں اورجانے اس شب ِتاریک کی سحرہم سے اورکتنی قربانیاں مانگتی ہے۔
آپ کی شخصیت کاایک اورعنوان تبلیغی مساعی کابھی ہے،آپ کی مساعی جمیلہ سے ہزاروں ہندو،بدھ مت کے پیروکار اورعیسائی حلقہ بگوش اسلام ہوئے ۔اس حوالے سے ہم آپ کی زندگی کے صرف ایک واقعے کے ذکرپراکتفاکرتے ہیں،جس سے آپ کواندازہ ہوگاکہ وہ حسنِ اخلاق اورعجزوانکساری کے کس اعلیٰ مقام پرفائزتھے:
یہ 1939ء کاواقعہ ہے ، آپ مجلس ”احراراسلام “لاہورکے دفترمیں تشریف لائے، جب آپ نیچے سے اوپرجانے لگے تواس وقت بھنگی گندگی لے کراوپردفترسے نیچے کی طرف آرہاتھا۔سیڑھیوں کے درمیان شاہ جی سے سامناہوا،سیڑھیاں تنگ تھیں اس لیے بھنگی سمٹ کردیوارکے ساتھ لگ گیا تاکہ آپ آسانی سے گزرسکیں۔جب اللہ کے ولی کی نظراس بھنگی پرپڑی تواس سے کہا: یہ ٹوکری نیچے رکھ لواوراوپرآجاؤاورمیری ایک بات سن جاؤ۔
بھنگی ٹوکری نیچے رکھ کراُوپرچلاآیااورآپ سے کہاکہ میرے لیے کیاحکم ہے؟
آپ نے کہا: یہ صابن لواورمنہ ہاتھ دھوکرمیرے پاس آجاؤ، چناں چہ اس نے ایساہی کیا، آپ نے اسے اپنے پاس بیٹھایا، کھانا منگوایا اورایک لقمہ توڑکرسالن میں ڈبویااوراس کے منہ میں ڈال دیا۔پھراس سے کہا:میاں ایک لقمہ توڑکرسالن لگاؤاورمیرے منہ میں ڈالو۔بھنگی بڑی حیرانی سے آپ کی طرف دیکھنے لگا،آپ نے اس سے کہا: بھائی! انسان ہونے کے ناتے آپ میں اورمجھ میں کوئی فرق نہیں ، گندگی اُٹھاناتمھاراکام ہے،سو تم اس مکان کی گندگی صاف کررہے ہو،جب کہ میں پوری قوم کی گندگی صاف کررہاہوں۔یہ پیاربھرے جملے سنے تواس کی ہمت بڑھی اوراس نے لقمہ اُٹھایااورآپ کے منہ میں ڈال دیااورآپ سے کہا: شاہ جی !یہیں بیٹھے رہیں،میں تھوڑی دیربعدحاضرہوتاہوں۔
اس کے بعدوہ اپنے گھرگیااوربیوی بچوں کوساتھ لے کرشاہ جی کی خدمت ِاقدس میں آیااورکہنے لگا: شاہ جی! اگریہی اسلام ہے توپھرہم سب کومسلمان کردو،چناں چہ آپ نے ان کوکلمہ پڑھایااورمسلمان کیا،جب وہ مراتواس کاجنازہ بھی دفترسے اُٹھایاگیا۔یہ تھے ہمارے اکابرجنھوں نے اپنے قول وفعل کے ذریعے نہ صرف مسلمانوں کی راہ نمائی کی، بلکہ ان کے اعلیٰ اخلاق کودیکھ کرغیرمسلم خودبخوددائرہ اسلام میں داخل ہوجاتے تھے۔
کیاتھے آباء وہ تمھارے اور تم کیا ہو
افسوس ! اس جدیداورروشن خیال دورمیں، جب کہ اکابرکاسایہ ہم سے اُٹھ چکاہے،ایسے واقعات تودرکناربلکہ ہمارے اقوال اوراخلاق وکردار کو دیکھ کرہمارے اپنے مسلمان ہی ہم سے نہ صرف بدظن ہورہے ہیں، بلکہ وہ ہم سے روزبروزدورہوتے جارہے ہیں۔بقول شاعرہماراتویہ عالم ہے
وضع میں تم ہونصاریٰ توتمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنھیں دیکھ کرشرمائیں یہود
ہمیں چاہیے کہ ہم جن اکابرکواپناامام پیشوااورمقتداتسلیم کرتے ہیں، ان کے نقش قدم پرچل کرنہ صرف مسلمانوں کی راہ نمائی کاحق اداکریں، بلکہ اپنے اخلاق وکردارکے ذریعے غیرمسلموں کوبھی متاثرکریں، تاکہ وہ بھی آغوش اسلام میں داخل ہوجائیں ،اخلاق حقیقتاً بڑاہتھیارہے، جس سے دلوں کوفتح کیاجاسکتاہے۔
آپ کی زندگی کاایک اوردرخشاں عنوان ردقادیانیت ومرزائیت اورتحفظ ختم نبوت ہے،اس سلسلے میں حضرت شاہ جی کی خدمات محتاج بیان نہیں، اب تک دشمن شاہ جی کی للکاراوران کی فکری یلغارسے لرزاں وترساں ہے،ہم ان کی خدمات کواس ایک جملے میں سموناچاہتے ہیں:
شاہ جی نے بلاشبہ قایانیت ومرزائیت کاناطقہ بندکردیاتھا۔
آپ نے ساری زندگی دین اسلام کی خدمت میں گزاری اور بالآخرآپ 21اگست 1961ء بمطابق 9ربیع الاول 1318ھ کواس دارفانی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے اوریوں ہم دنیائے خطابت کے اس مہرمنیر،امت مسلمہ کے عظیم مجاہداورراہ ِطریقت کے عظیم راہ نماسے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محروم ہوگئے ۔