Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق محرم الحرام 1437ھ

ہ رسالہ

4 - 15
طلب حدیث کے لیے اکابر کے اسفار

مولانا محمد صہیب
	
الله رب العزت نے جس طرح قرآن پاک کی حفاظت کی ذمے داری خود لی ہے ، اسی طرح قرآن پاک کی تفسیر کی صورت میں جو احادیث مبارکہ ہیں، ان کی حفاظت کی ذمے داری بھی الله تعالیٰ نے لی ہے، یہ دین الله کا ہے اور قیامت تک اس کو قائم رکھنا ہے، اس کے لیے ہر دور میں ایسے رجالِ کار پیدا فرمائے ہیں، جنہوں نے طلبِ علم کے واسطے دور دراز کے سفر کیے، مشقتیں برداشت کیں، اس علم کو حاصل کیا اور ہم تک پہنچایا، زیرِ نظر مضمون میں انہی میں سے چند کے بعض رحلاتِ علمیہ ذکر کیے جائیں گے۔

ان حضرات کا علم حدیث کی خاطر دور دراز کا سفرکرنا ایک منفرد مقام رکھتا ہے، ان طویل اور مشقت انگیز اسفار کی داستاں صرف دل چسپ ہی نہیں، بلکہ تاریخ کا ایک اہم باب ہے، تذکرہٴ محدثین میں اسے اہتمام کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے ۔

محدثین کے تراجم میں رحال( بہت سفر کرنے والا) جوال (بہت گھومنے والا) اکثر الجوال، مکحولا الیہ، رحلة ( منتہائے سفر) جیسے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں، چناں چہ ابن العماد الحنبلی متوفی1089ھ نے ابن مندہ متوفی395ھ کے بارے میں لکھا ہے:
”طوَّف الدُّنیا وجمع وکتب مالا ینحصر․“ ( شذرات الذھب281/3، ط:دارالکتب العلمیة، الطبعة الاولی:1419ھ)
یعنی ساری دنیا میں پھرے ہیں او راتنا کچھ لکھا اور جمع کیا جس کا شمار نہیں۔ اسی طرح امام ابوالحسین محمد الجرجانی کے بارے میں ”رخال، جوال“ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں ۔ ( تذکرة الحافظ128/3، ط: ایضا الطبعة الثانیہ:1428ھ)

اور حافظ ابن حجر عسقلانی متوفی852ھ کے بارے میں ”العلامة الرحلة“ کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ (نزھة النظر،ق:1/ب، مخطوط)

علامہ تاج الدینسبکی متوفی771ھ نے ”ابو نعیم اصبہانی“ کے بارے میں لکھا ہے: کان مکحولا الیہ فی وقتہ․“ (طبقات الشافعیة الکبریٰ255/2،ط:دارالکتب العلمیة، الطبعة الاولیٰ:1420ھ)

ان حضرات نے طلب حدیث کے لیے مشرق ومغرب،شمال وجنوب کے علاقے چھان مارے، اس قسم کے الفاظ اور عبارتیں تذکرہٴ محدثین میں عام ہیں۔

حضرت جابر بن عبدالله رضی الله عنہما فرماتے ہیں کہ ایک صحابی جو ملک شام میں رہتے تھے، مجھے اُن کے بارے میں معلوم ہوا کہ انہوں نے آپ صلی الله علیہ وسلم سے ایک ایسی حدیث سنی ہے، جو میں نے نہیں سنی، تو میں نے اسی وقت اونٹ خریدا اور اس کا کجاوہ کس کر ایک ماہ تک چلتا رہا، شام میں حضرت عبدالله بن انیس رضی الله عنہ کے مکان پر پہنچا، دربان سے کہا: اندر بتاؤ جابر دروازہ پر کھڑا ہے۔ دربان نے جب اندر خبر دی ، تو انہوں پوچھا: جابر بن عبدالله؟ اُس نے عرض کیا: جی ہاں! یہ سنتے ہیں وہ باہر تشریف لائے اورمعانقہ کیا، میں نے پوچھا: آپ کے واسطے سے ایک حدیث پہنچی ہے، میں ڈرا کہ مباداموت آجائے اور میں اس کو سننے سے محروم ہو جاؤں، یہ سن کر انہوں نے وہ حدیث سنائی، جو قصاص کے متعلق تھی۔ (مسند احمد، الادب المفرد، بحوالہ فتح الباری، 174/1، ط: دارالفکر)

اسی طرح ایک دل چسپ واقعہ حضرت ابوا یوب انصاریؓ کے متعلق ہے، انہوں نے ایک حدیث براہ راست آپ صلى الله عليه وسلم سے سنی تھی ،مگر…اس میں کچھ تردد پیدا ہوا، جب انہوں نے آپ صلى الله عليه وسلم سے سنی تھی اس وقت دربارِ رسالت میں حضرت عقبہ بن عامر رضی الله عنہ بھی موجود تھے، اب وہ مصر میں مقیم تھے، انہوں نے سفر شروع کیا، حضرت عقبہ بن عامر کے پاس پہنچے اور فرمایا: مجھ سے وہ حدیث بیان کرو، جو تم نے آپ صلى الله عليه وسلم ا سے مسلمان کی پردہ پوشی کے متعلق سنی تھی، اس وقت میرے اور تمہارے علاوہ اس حدیث کو سننے والا کوئی باقی نہیں رہا۔

حضرت عقبہ بن عامر رضی الله عنہ حدیث دہراتے ہیں، وہ حدیث سنتے ہیں فوراً واپس روانہ ہو جاتے ہیں، حدیث یہ تھی :”من ستر مسلما فی الدنیا علی خزیة ستر الله یوم القیامة․“ جو کسی مسلمان کی برائی کی دنیا میں پردہ پوشی کرتا ہے، قیامت کے دن الله رب العزت اس کی پردہ پوشی فرمائیں گے۔ (مصنف عبدالرزاق228/10ط: دارالقرآن، الطبعة الاولیٰ:1416ھ)

یہ تو صحابہ کرام کے واقعات کا ایک نمونہ تھا، اس کے بعد دور تابعین اور بعد والوں کے اِن اسفار میں اور ترقی ہوئی، طلب حدیث کے لیے پیادہ پاچلنا، سمندروں اور براعظموں کو پار کر لینا اُن کے نزدیک معمولی بات تھی، حضرت سعید بن مسیب رحمہ الله متوفی 94ھ فرماتے ہیں کہ میں ایک حدیث کے لیے کئی دن اور راتیں پیدل سفر کرتا تھا۔ ( فتح الباری1/145، ط: دارالفکر)

حضرت ابراہیم بن ادہم رحمہ الله متوفی162ھ فرماتے ہیں کہ الله رب العزت اس امت سے بہت سے عذابوں کو اصحاب حدیث کے رحلات کی وجہ سے ٹال دیتے ہیں۔ ( الرحلة فی طلب الحدیث، ص:155)

حضرت زکریا بن عدی رحمہ الله متوفی 212ھ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبدالله بن مبارک رحمہ الله کو خواب میں دیکھا اور پوچھا کہ الله تعالیٰ نے کیا فرمایا؟ انہوں نے جواب د یا کہ طلب حدیث کے اسفار کی وجہ سے الله تعالیٰ نے مغفرت فرما دی۔ (مرجع سابق، ص:156)

حضرت عبدالرحمن بن مندہ متوفی395ھ ایک طویل سفر پر نکلے، مختلف شہرں و، ملکوں میں گھومے، وہاں سے علمِ حدیث حاصل کیا ، تیس سال اس سفر میں گزار دیے، جب واپس لوٹے تو چالیس اونٹوں پر ان کی کتابیں لدی ہوئی تھیں۔ ( البدایة والنہایة 272/12، ط: دارابنِ کثیر، الطبعة الاولیٰ:1428ھ)

حضرت عامر بن شرحبیل رحمہ الله تعالیٰ متوفی105ھ فرماتے ہیں: اگر کوئی شخص شام کے ایک کنارہ سے یمن کے دوسرے کنارہ تک صرف ایک کلمہ ( بات) جو اس کو بعد میں نفع دے، سیکھنے کے لیے سفر کرے، تو میرے خیال میں اُس کا یہ سفر ضائع نہیں ہو گا۔ ( الرحلة، مرجع سابق،ص:157)

مشہور تابعی حضرت مکحول ھذلی رحمہ الله متوفی113ھ فرماتے ہیں:”طفت الأرض کلھا فی طلب العلم…“ میں طلب علم کے لیے ساری دنیا پھرا ہوں او رجو میں یاد کرتا ہوں، وہ میرے سینے میں محفوظ ہو جاتا ہے، جب چاہتا ہوں نکال لیتا ہوں۔ ( صفحات من صبر العلماء، ص:50،ط: المکتبة الغفوریہ، الطبعة الثالثة)

حضرت بقی بن مخلد رحمہ الله متوفی 276ھ نے طلب حدیث کی خاطر دو پیدل سفر کیے، ایک سفر مصر وشام کا اور دوسرا حجاز وبغداد کا۔ پہلا سفر چودہ سال پر اور دوسرا سفر بیس سال پر مشتمل تھا۔ (مرجع سابق،ص:60)

ابن الجوزی رحمہ الله متوفی597ھ نے ”صید الخاطر“ میں لکھا ہے کہ : امام احمد بن حنبل رحمہ الله نے دومرتبہ دنیا کا چکر کاٹا، پھر جاکر ”مسند“ تیار کی۔ (مرجع سابق، ص:54)

ابن ابی حاتم رازی نے اپنی کتاب ”الجرح والتعدیل“میں اپنے والد ابو حاتم رازی متوفی277ھ کے بارے میں لکھا ہے کہ: پہلی مرتبہ جب سفر پر روانہ ہوئے تو سات سال سفر میں گزار دیے اور یہ سارا سفر پیدل طے کیا، وہ فرماتے: میں مسلسل چلتا رہتا اور فرسخ شمارکرتا رہتا تھا، جب ہزار فرسخ مکمل ہو جاتے تو ٹھہرجاتا، ( ایک فرسخ تقریباً پانچ کلومیٹر ہوتا ہے ) بغداد کوفہ کا تو کئی مرتبہ سفر کیا، مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ بھی بار ہا سفر کیا، اقصیٰ کی مغربی جانب ”سلا“ شہر کی طرف پیدل چلا، وہاں سے رملہ اور رملہ سے بیت المقدس، اسی طرح رملہ سے عسقلان، رملہ سے طبریہ ،وہاں سے دمشق، دمشق سے حمص اوروہاں سے انطاکیہ، انطاکیہ سے طرسوس اور یہاں سے پھر حمص لوٹا، حضرت ابوالیمان سے حدیث کے متعلق کچھ پوچھنا تھا، پھر حمص سے بیسان اور بیسان سے رقہ کا سفر کیا، یہ سارا سفر پیدل تھا، پھر رقہ سے کشتی پر سوار ہوا، اسی طرح واسط سے نیل اور نیل سے بغداد کا سفر بھی کیا، یہ میرا پہلا سفر تھا، 213ھ میں گھر سے نکلا تھا اور 221ھ واپس لوٹا ، دوسرا سفر تین سال کا تھا…۔ (مرجع سابق،ص:60)

ابن المقری محمد بن ابراہیم متوفی381ھ فرماتے ہیں کہ : میں نے مفضل بن فضالہ مصری کے نسخے کے حصول کے لیے ستر مرتبہ سفر کیا۔ (تذکرة الحفاظ، مرجع سابق:973/3)

حضرت ابوالعالیہ تابعی رحمہ الله متوفی93ھ فرماتے ہیں: میں طلب حدیث کے واسطے ایک آدمی کی طرف سارا دن سفر کرتا اور سب سے پہلے اُن کی نماز دیکھتا، اگر ٹھیک ٹھیک نماز پڑھنے والے ہوتے، تو وہاں قیام کرتا اور ان سے حدیث سنتا، ورنہ واپس آجاتا اور یہ خیال کرتا کہ وہ باقی کاموں کو نماز سے زیادہ خراب کرنے والا ہو گا۔( الرحلة فی طلب الحدیث ،ص:162)

حضرات محدثین ان رحلات کے ساتھ ” آداب طلب الحدیث“ بھی ذکر کرتے ہیں، تاکہ طلب حدیث کے یہ رحلات قیمتی بنیں اور کماحقہ استفادہ کیا جائے، یہ نہ ہو کہ ایک صاحب دُور دراز کا سفر کریں، آداب سے عاری ہوں اور خالی ہاتھ واپس لوٹیں، لہٰذا اختصار کے ساتھ چند آداب ذکر کیے جاتے ہیں:

اپنی نیت صاف رکھے، صرف الله کی رضا مقصود ہو، اس کے علاوہ کوئی غرض ولالچ نہ ہو۔

پہلے علاقہ کے مشائخ سے علم حدیث حاصل کرے، پھر باہر کا سفر کرے۔

اچھے اخلاق کا اپنانا ضروری ہے، کیوں کہ جو اس سے محروم کیا گیا، وہ بہت بڑی خیر سے محروم کیا گیا، حضرت سفیان بن عینیہ فرماتے ہیں کہ : اصحابِ حدیث میں وہی شخص داخل ہو سکتا ہے، جس کا چہرہ کھلا رہتا ہو۔ (شرف اصحاب الحدیث ،ص:19،ط: داراحیاء السنة النبویة)

عبادات، آداب اور فضائلِ اعمال کے بارے میں جو احادیث حاصل ہوتی جائیں، اُن پر عمل کرتا جائے؛ تاکہ محفوظ رہیں اور اُن کی زکوة بھی ادا ہوتی رہے، حضرت بشر الحافی فرماتے تھے، اے اصحاب حدیث ! حدیث کی زکوٰة ادا کرتے رہا کرو، انہوں نے پوچھا: کس طرح حدیث کی زکوٰة ادا کریں؟ انہوں نے جواب دیا: ہر دو سواحادیث میں سے پانچ پرعمل کر لو۔ (الجامع لاخلاق الراوی وآداب السامع، ص:144/14،ط: مکتبة المعارف، الطبعة الاولیٰ:1428ھ)

حضرت ابراہیم بن اسماعیل فرماتے ہیں: ہم حدیث کو یاد رکھنے کے لیے، اس پر عمل کرنے سے مدد حاصل کرتے تھے۔ ( مرجع سابق،ص:259/2)

جن سے حدیث حاصل کریں ان کی عظمت دل میں ہو، تاکہ اُن سے مکمل استفادہ کر سکے اور ان کی راحت وآرام کا خیال رکھے، زیادہ دیر ان کے پاس نہ ٹھہرے، جو وہ پڑھائیں، اسی پر قناعت کرے، زیادہ ہوشیاری مت دکھائے۔ ابن الصلاح رحمہ الله متوفی643ھ نے لکھا ہے کہ : جو یہ کام نہیں کرتا مجھے خوف ہے کہ کہیں وہ علم سے محروم نہ ہو جائے۔ ( معرفة انواع علم الحدیث ص:255،ط: دارالکتب العلمیة، الطبعة الاولیٰ:1423ھ)

جو سُنے اس کو مکمل لکھے، اس میں اختصار نہ کرے، اگر کچھ چھوٹ جائے، تو دوسرے ساتھیوں سے معلوم کر لے، کسی قسم کی شرم نہ کرے ، ورنہ بعد میں ندامت ہو گی ، ابن مبارک رحمہ الله فرماتے تھے کہ: میں نے جب کسی شیخ کی باتیں لکھنے میں اختصار کیا تو مجھے بعد میں ندامت اٹھانی پڑی۔ (الجامع الاخلاق الراوی وآداب السامع، مرجع سابق، ص:187/2)

تکبر سے اپنے آپ کو پاک رکھے اور الله تعالیٰ سے دعا بھی کرتا رہے۔

یہ چند آداب ذکر کیے ہیں، موضوع تو بہت طویل ہے، مزید تفصیل کے لیے مندرجہ ذیل کتابیں ملاحظہ فرماسکتے ہیں: الرحلة فی طلب الحدیث للخطیب بغداد متوفی 463، الجامع لأخلاق الراوی وآداب السامع للخطیب بغدادی، تذکرة السامع والمتکلم فی ادب العالم والمتعلم لابن جماعة، جامع بیان العلم وفضلہ لابن عبدالبر متوفی463، معرفة انواع علم الحدیث، لابن الصلاح متوفی643، صفحات من صبر العلماء لعبد الفتاح ابوغدة متوفی1417ھ، العلماء العراب الذین اتزو العلم علی الزواج لعبد الفتاح ابوغدة، ابن ماجہ اور علم حدیث مولانا عبدالرشید نعمانی1420ھ، ان کے علاوہ کتب تراجم سے بھی استفادہ کیا جاسکتا ہے۔

ابو الفضل عباس بن محمد خراسانی متوفی271ھ نے کیا ہی خوب کہا ہے #
        رَحلتُ اطلُبُ الْعِلْمِ مُجتھدًا
        وَزِینةُ الْمَرْء فِی الدُّنْیا الأحَادِیْثُ
        لایَطْلُبُ الْعِلْمَ إِلَّا بَاذِل ذِکْرٍ
        وَلَیس یَبْغضہ إِلَّا الْمَخَانِیْث
        لا تَعْجَبَنَّ بِمَالِ سَوْفَ تَتْرُکُہ
        فَانَّمَا ھذِہ الدُّنْیَا مَوَارِیْثُ
میں نے اصل علم کو حاصل کرنے میں مشقیں جھیلی ہیں، کیوں کہ دنیا میں آدمی کی زینت تو احادیث ہیں اور اس کو پختہ کار لوگ ہی حاصل کر سکتے ہیں، کمزور اور نامرد قسم کے لوگ تو اس سے نفرت کرتے ہیں اور ایسے مال ودولت سے محبت کرنا فضول ہے، جسے تم جلد ہی چھوڑ دو گے؛ کیوں کہ یہ تو بغیر محنت کے میراث میں بھی مل جاتا ہے۔

Flag Counter