Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق محرم الحرام 1437ھ

ہ رسالہ

6 - 15
اسلام میں عورت کا مقام او ر حقوق

استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ
	
ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہلسنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے او رحضرت کا سایہ تادیر ہم پر قائم رکھے۔ آمین۔ (ادارہ)

﴿لِّلَّذِیْنَ یُؤْلُونَ مِن نِّسَآئِہِمْ تَرَبُّصُ أَرْبَعَةِ أَشْہُرٍ فَإِنْ فَآؤُوا فَإِنَّ اللّہَ غَفُورٌ رَّحِیْم، وَإِنْ عَزَمُواْ الطَّلاَقَ فَإِنَّ اللّہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ﴾․ (سورہ بقرہ، آیت:226-225)
جو لوگ قسم کھا لیتے ہیں اپنی عورتوں کے پاس جانے سے ان کے لیے مہلت ہے چار مہینے کی، پھر اگر باہم مل گئے تو الله بخشنے والا ،مہربان ہے اوراگر ٹھہرا لیا ہے چھوڑ دینے کو تو بے شک الله سننے والا، جاننے والا ہے

تفسیر:بیوی کے پاس نہ آنے کی قسم کھانے کا حکم
اہل عرب میں یہ ظالمانہ دستور تھا کہ لوگ اپنی بیویوں کے پاس نہ آنے کی قسم کھا کر انہیں مستقل اذیت میں مبتلا کر دیتے ، نہ طلاق ملتی کہ دوسری شادی کر لیں، نہ بیوی جیسے حقوق ملتے۔ ایسی قسم اٹھانے کو اصطلاح شریعت میں ”ایلاء“ کہتے ہیں ۔ ایلاء کا معنی بھی قسم اٹھانا ہے ۔ (احکام القرآن للجصّاص: البقرہ تحت آیة رقم:226)

الله تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں واضح کر دیا ہے کہ ایسے لوگوں کو صرف چار مہینے کی مہلت ہے ،اگر وہ ازدواجی تعلقات برقرار رکھنا چاہتے ہیں ،تو قسم توڑ کر ازدواجی تعلقات بحال کریں اور قسم کا کفارہ دیں او راگر چار مہینے تک ازدواجی تعلقات بحال نہیں کیے تو بیوی کو خود بخود طلاق بائن پڑ جائے گی۔

إیلاء کے متعلق فقہی مسائل
1..اگر قسم نہیں کھائی، لیکن بیوی سے صحبت کرنے سے چار مہینے تک رکا رہا توإیلاء نہ ہو گا۔
2..خدا کی قسم نہیں کھائی، بلکہ یوں کہا کہ” تجھ سے صحبت کروں تو تجھ کو طلاق“ اس سے بھی إیلاء ہو جائے گا۔ (تبیین الحقائق:3/177)
3..کسی مدّت متعینہ کو ذکر کیے بغیر اگر یوں کہہ دیا کہ ”خداکی قسم! تجھ سے صحبت نہیں کروں گا“ اگر اسی طرح چار مہینے بغیر رجوع کیے گزر گئے تو إیلاء ہو جائے گااور بیوی کو طلاق بائن پڑ جائے گی۔ (ایضاً)
4..اگر قسم میں چار مہینے کی مدّت متعین کر دے ،تب بھی إیلاء ہو جائے گا۔
5..اگر چار مہینے سے زائد عرصے کی مدت ذکر کر دے تو بھی ایلاء ہو جائے گا۔ ( تبیین الحقائق:3/175)
6..اگر چار مہینے سے کم کی مدت متعین کر دے تو إیلاء نہ ہو گا، البتہ قسم ہو جائے گی، اگر اس عرصے میں بیوی سے صحبت کر لی تو قسم کا کفارہ دینا ہو گا اگر قسم پوری کر لی تو گناہ بھی نہ ہو گا، نہ کفارہ واجب ہو گا، نہ نکاح پر کوئی اثر پڑے گا۔

﴿وَالْمُطَلَّقَاتُ یَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِہِنَّ ثَلاَثَةَ قُرُوَء ٍ وَلاَ یَحِلُّ لَہُنَّ أَن یَکْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللّہُ فِیْ أَرْحَامِہِنَّ إِن کُنَّ یُؤْمِنَّ بِاللّہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ وَبُعُولَتُہُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّہِنَّ فِیْ ذَلِکَ إِنْ أَرَادُواْ إِصْلاَحاً وَلَہُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْْہِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَیْْہِنَّ دَرَجَةٌ وَاللّہُ عَزِیْزٌ حَکُیْم﴾․ (سورہ بقرہ، آیت:228)
اور طلاق والی عورتیں انتظار میں رکھیں اپنے آپ کو تین حیض تک او ران کو حلال نہیں کہ چھپا رکھیں جو پیدا کیا الله نے ان کے پیٹ میں اگر وہ ایمان رکھتی ہیں الله پر او رپچھلے دن پر اور ان کے خاوند حق رکھتے ہیں ان کے لوٹا لینے کا اس مدت میں اگر چاہیں سلوک سے رہنا اور عورتوں کا بھی حق ہے جیسا کہ مردوں کا ان پر حق ہے دستور کے موافق او رمردوں کو عورت پر فضیلت ہے اور الله زبردست ہے، تدبیر والا

ربط آیات: چوں کہ گزشتہ آیات میں زندگی کے انفرادی اور اجتماعی احکام بیان کیے جار ہے ہیں ،اب میاں بیوی کے معاشرتی احکام بیان کیے جارہے ہیں۔

تفسیر: میاں بیوی کے باہمی حقوق
مذکورہ آیت میں ایک حق تو بتایا جارہا ہے کہ اگر مزاج میں عدم موافقت کی وجہ سے میاں بیوی میں جدائی ہو گئی ہے تو عورت کو چاہیے عدت گزارتے ہوئے اگر اس کے پیٹ میں حمل ہے تو ظاہر کر دے۔ چوں کہ حمل کی وجہ سے عدت کی مدت بڑھ جاتی ہے۔ اور عدت سے گزرنے اور جلدی دوسری جگہ شادی کرنے کے شوق میں حمل کو چھپا کر نہ بیٹھے اور عدت میں بھی پہلے شوہر کو زیادہ حق حاصل ہے، اگر وہ حسن معاشرت کے ساتھ بیوی رکھنے پر آمادہ ہے تو وہ رجوع کر لے، کیوں کہ عورتوں کے بھی کچھ حقوق ہیں، آگے ان حقوق پر روشنی ڈالتے ہیں۔

یورپ کی تحریک آزادی نسواں کا سرسری جائزہ
اسلام نے عورت کو انفرادی او رمعاشرتی طور پر کیا مقام دیا ہے ؟ اس پر تفصیلی گفتگو کرنے سے پہلے مناسب ہے کہ ایک نظر یورپ کی تحریک آزادی نسواں پر ڈال لیں ،کیوں کہ ہمارے ارد گرد اٹھنے والی حقوق نسواں کی علم بردار تحریکوں کا فکر ی ماخذ یہی تحریک ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ زمانہ قدیم میں عورتوں کا کوئی معاشرتی مقام نہ تھا ، روم ویونان کے فلاسفہ اسے نحوست کی علامت قراردیتے تھے ، بلکہ یورپی مفکرین ایک عرصے تک اس موضوع پر سر کھپاتے رہے کہ عورت میں روح ہوتی ہے یا نہیں؟ اگر ہوتی ہے تو حیوانی ہے یا انسانی؟ اگر انسانی ہے تو مرد کے مقابلے میں اس کا معاشرتی مقام کیا ہے ؟ وہ مرد کی پیدائشی غلام ہے یا اس کا مرتبہ غلاموں سے ابتر ہے؟ اگر کسی عورت کو مقام ومرتبہ ملتا تو فقط اس لیے کہ وہ ان کی معاشرتی تقریبات کی روح رواں بن کر عیاش طبقے کے لیے سامان تفریح پیدا کرتی ہے،اس کی عزت کا سارا انحصار اسی پر تھا،کہ وہ مرد کے لیے کہاں تک سامان عیش مہیاکر سکتی ہے ، یورپ میں جب تک جاگیرداری نظام قائم تھا ،عورت کی حیثیت زرعی غلام کی سی تھی، تاہم اس کی کفالت اور نان ونفقہ کی ذمے داری مرد ہی اٹھاتا تھا۔ لیکن عورتیں گھریلو صنعتوں میں کام کرکے مرد کی کفالت کا معاوضہ بھی چکا دیتی تھیں، جب جاگیرداری نظام کی جگہ صنعتی انقلاب نے لی، تو لوگ دیہاتوں کو چھوڑ کر شہروں میں آبسے، پھر یورپ کا مزاج بخل اور سنگ دلی اور خود غرضی سے مرکب ہے ، ہر شخص کی زندگی کا محور اس کی ذات ہے ، کوئی کسی کا بوجھ اٹھانے کے لیے تیار نہیں ، مرد نے عورت کا مالی سہارا بننے سے انکار کر دیا، خواہ ماں ہو یا بیوی۔ جس نے بے راہ روی کو جنم دیا۔ جنسی جذبات کی تسکین کے لیے اخلاق ومذہب کے تمام بندھن ٹوٹ گئے ، اب عورت کی عزت وعصمت بھی گئی اور مزید یہ کہ معاشی ذمے داری بھی خو دانہیں کے کمزور کندھوں پر آپڑی، خاندانی نظام بگڑ گیا اور عورت کو نفسیاتی اور مالی تحفظ ملنے والے سارے ذرائع ختم ہو گئے ، رہی سہی کسر پہلی جنگ عظیم نے نکال دی، جس میں یورپ کے لاکھوں آدمی مر گئے ، کئی مستقل معذور ہو گئے ، اپنے پیچھے لاکھوں عورتیں اور بچے بے سہارا چھوڑ گئے، مردوں کی تعداد کم ہو گئی ، تعدد ازدواج ناجائز تھا، کارخانوں میں عورتوں سے مزدوری کے علاوہ جنسی تسکین بھی حاصل کی جاتی ، انہیں معاوضہ بھی مردوں کی بنسبت کم دیا جاتا ، ان حالات میں عورتوں کو اپنے حقوق اور تحفظ کے لیے تحریک چلانا پڑی ، ہڑتالیں ہوئیں، جلسے ہوئے ، ملکی قانون سازی میں حق رائے دہی کا مطالبہ کیا گیا، تاکہ وہاں جاکر عورتوں کے حقوق وضع کیے جائیں، پھر پارلیمنٹ سے پاس کرا کر ملکی قوانین بناکر ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیے جائیں، اس پوری جدوجہد میں کئی کھٹن راستے آئے ، جہاں عورتوں کو اپنی جانوں سے بھی ہاتھ دھونے پڑے ، بہرحال مطالبے منظور ہوئے، ملکی قوانین بن گئے ، عورت پارلیمنٹ میں پہنچ گئی، لیکن نتیجہ کیا نکلا؟
1..اب بھی عورت کو بحیثیت عورت کوئی مقام نہیں ملا، بلکہ جس قدر مرد کا دل لبھانے کے فن سے واقف ہو گی اسی قدر عزت ملے گی۔
2..اب بھی اس کے نازک کندھوں پر معاشی ذمے داری کا فریضہ قائم ہے، شوہر مالی سہارا بننے کے لیے تیار نہیں ۔
3..اب بھی اسے ذاتی تشخص اور آزادی نصیب نہیں ہوئی، اپنے تعارف کے لیے باپ اور شوہر کا سہارا لینا پڑتا ہے ، اپنی جائیداد پر تصرف کے لیے باپ یا شوہر کا واسطہ ضرور ی ہے۔
4..اب بھی اس کی ذات تجارتی مارکیٹنگ کے لیے” ایک وسیلہ“ ہے۔ (مُلخص شبہات حول الاسلام، ص:171)

اسلام میں عورت کا مقام
اسلام نے عورت کو چودہ سو سال پہلے سے ایسے حقوق دیے ہیں جن سے یورپ کی عورت آج بھی محروم ہے اور بغیر کسی مطالبے کے دیے۔
1..شرفِ انسانیت:اسلام نے عورت کو شرف انسانیت سے نواز کر اسے کائنات کی اشرف المخلوقات کا جز قرار دیا:﴿یَا أَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالاً کَثِیْراً وَنِسَاء ﴾․ ( النساء:1) ( اے لوگو! ڈرتے رہو اپنے رب سے جس نے پیدا کیا تم کو ایک جان سے اور اسی سے پیداکیا اس کا جوڑا اورپھیلائے ان دونوں سے بہت مرداور عورتیں۔
2..عزت نفس کا احترام:اسلام مرد وعورت کی عزت وناموس اور مقام ومرتبہ میں کوئی تفریق روا نہیں رکھتا:﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا لَا یَسْخَرْ قَومٌ مِّن قَوْمٍ عَسَی أَن یَکُونُوا خَیْْراً مِّنْہُمْ وَلَا نِسَاء مِّن نِّسَاء عَسَی أَن یَکُنَّ خَیْْراً مِّنْہُن﴾․(الحجرات:11)(اے ایمان والو! ٹھٹھا نہ کریں ایک لوگ دوسروں سے، شاید وہ بہتر ہوں ان سے اور نہ عورتیں دوسری عورتوں سے، شاید وہ بہتر ہوں ان سے)
3..مساوی اجر وثواب:اسی طرح آخرت میں اجر وثواب کے لحاظ سے مرد وعورت دونوں کو مساوی قرار دیا ہے:﴿أَنِّیْ لاَ أُضِیْعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنکُم مِّن ذَکَرٍ أَوْ أُنثَی﴾․ (آل عمران:195) ( میں ضائع نہیں کرتا محنت کسی محنت کرنے والے کی تم میں سے، مرد ہو یا عورت)
4..حصول علم:اسلام نے عورت کے لیے دینی تعلیم کا حصول لازمی قرار دیا ہے، جس کے ذریعے وہ اپنے حقوق ، شوہر کے حقوق ، علاوہ معاشرتی حقوق اور حلال وحرام کا امتیاز کر سکے ، دنیاوی علوم، جو مباح ہیں، شرعی حدود میں رہتے ہوئے ان کے سیکھنے پر بھی کوئی رکاوٹ نہیں۔
5..خود مختاری:عورت اپنے معاملات میں جو شرعی حدود سے باہر نہ ہوں، مکمل خود مختار ہے، بلکہ نکاح جیسے اہم اور بنیادی مسائل اس کی رضا مندی کے بغیر منعقد ہی نہیں ہو سکتے اور اپنی جائیداد کے تصرف میں کسی واسطے کی محتاج نہیں، اس کا شوہر اس کے مہر میں سے بھی کچھ واپس نہیں لے سکتا۔
6..علیحدگی کا حق:اگر شوہر ظالم ہے او راس کے ساتھ رہنا مشکل ہے تو حق خلع استعمال کرکے علیحدگی اختیار کر سکتی ہے۔
7..معاشی کفالت:شادی سے پہلے تعلیم وتربیت، نان نفقہ کا انتظام، بلوغت کے بعد اچھے رشتے کی تلاش اور پھر باعزت رخصتی کرانا والدین کا شرعی فریضہ ہے ، شادی کے بعد نان ونفقہ کی تمام تر ذمے داری شوہر پر عائد ہو جاتی ہے۔یوں اس کے نازک کندھوں پر کوئی بوجھ نہیں ہوتا۔
8..حق وراثت:عزیز واقارب کے فوت ہونے کے بعد ان کے ترکہ میں عورتوں کا حصہ بھی مقرر ہے اور وہ پنے مال میں مکمل خود مختار ہوتی ہیں، جہاں چاہیں صرف کریں۔
یہاں پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ عورتوں کا حصہ مردوں کے حصے کے مقابلے میں آدھا کیوں ہوتا ہے؟ یاد رہے مرد پر معاشی بوجھ زیادہ ہوتا ہے، والدین کا نفقہ، بیوی کا نفقہ، اولاد کا نفقہ، بعض اوقات ”ولی“ ہونے کی حیثیت سے بہنوں اور قریبی اعزہ کا نفقہ بھی لازم ہو جاتا ہے، اس کے مقابلے میں عورت پر کوئی معاشی بوجھ نہیں ہوتا، بیٹی کی حیثیت سے اس کا نفقہ باپ پر ہے ، بیوی کی حیثیت سے اس کا نفقہ شوہر پر ہے، ماں ہونے کی حیثیت سے اس کا نفقہ اولاد پر ہے ۔ اس کی وجہ سے عورت کا حصہ مرد کے مقابلے میں آدھارکھا گیا ہے، جو اس کا جیب خرچ ہے، مرد کا دگنا حصہ اس کے افضل ہونے کی وجہ سے نہیں، اگر افضل ہونے کی وجہ سے حصہ دگنا ہوتا تو پھر نیک، صالح، عالم کا حصہ، جاہل کے حصے سے زیادہ ہوتا، لیکن ایسا نہیں ہے۔
9..قرآن کریم مردوں کو عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین کرتا ہے ۔ ﴿وَعَاشِرُوْہُنَّ بِالَمْعُرْوْفِ﴾اور گزران کرو عورتوں کے ساتھ اچھی طرح) اسی طرح آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے سب سے اچھا وہ ہے جو اپنے گھرو الوں کے ساتھ اچھا ہو ۔(جامع الترمذی، المناقب، رقم الحدیث:3895)
10..دوسرے نکاح پر کڑی شرط:اگر شوہر دوسری شادی کرنا چاہتا ہے تو اسے پہلے یہ سوچنا ہو گا کہ وہ دونوں بیویوں میں عدل، انصاف کے وہ تمام تقاضے پورے کر سکے گا جو شریعت مطہرہ نے شوہر پر عائد کیے ہیں؟ مثلاً نان ونفقہ میں برابری، ساتھ رہنے میں برابری ، اگر وہ اس انصاف پر قادر ہے توفبہا، بصورت دیگراسے دوسری شادی کی اجازت نہیں، تاکہ پہلی بیوی کے حقوق ضائع نہ ہوں، اسی طرح بیوی پر بھی کچھ حقوق ہیں، اطاعت شعار ہو ، نیکی میں رغبت رکھنے والی ہو، قناعت پسند ہو ، شوہر کی غیر موجودگی میں اس کی عزت ومال کی محافظ ہو ، جب شوہر بستر پر بلائے تو بلاعذر شرعی انکار نہ کرے۔

اسلام نے عورت کو جو مقام دیا ہے اسے دیکھ کر سمجھ میں نہیں آتا کہ حقوق نسواں کی تنظیموں نے مسلمان خواتین کو کیوں ہدف بنا رکھا ہے؟ ان کے طریقہ واردات اورچیخ وپکار سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا اصل مقصد پردہ نشین اور باحیا خواتین کو گھروں او رپردوں سے نکال کر بے حیائی کو فروغ دینا ہے، یہی وجہ ہے کہ یہ تنظیمیں مسلمان ممالک میں کام کرنے کے باوجود عورتوں کو دیے گئے اسلامی حقوق کا مطالبہ اسلام ( مذہب) کا حوالہ دے کر نہیں کرتیں، کیوں کہ اس سے ان کے مقاصد پر زد پڑتی ہے، مثلاً :بے حیائی کو فروغ دینا ،خاندانی نظام کو تباہ کرنا ، اگر ان کا واقعی یہی مقصد ہے تو معاف کیجیے اسلام اس چھچھورے پن کی اجازت نہیں دیتا ،بلکہ ایسی سرگرمیوں کو عزت وشرف کے منافی سمجھتا ہے ، ان تنظیموں کو واپس یورپ لوٹ جانا چاہیے، جہاں کی مظلوم عورت اس ”آزادی“ سے تنگ آکر اسلام کے سایہ عاطفت میں پناہ لے رہی ہے۔ ( مُلخص: شبہات حول الاسلام: الاسلام والمرأة:171)

اسلام اور طلاق
عفت کی زندگی گزارنے کے لیے نکاح سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں اور انسانی نسل کی بقا کے لیے نکاح ہی جائز ذریعہ ہے ، عفت اور اولاد نکاح کے بنیادی مقاصد ہیں ، یہ مقاصد اپنے درست نتائج کے ساتھ اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتے جب تک میاں بیوی میں محبت ، برداشت ، جذبہ ایثار کوٹ کوٹ کر نہ بھر اہو اور دونوں اختلاف مزاج وعادت کے باوجود ایک دوسرے کی رعایت نہ رکھتے ہوں ، اگر مزاج میں ہم آہنگی نہ ہو اورتحمل کا مادہ مفقود ہو ، شب ورز کا ہر لمحہ تلخیوں سے پر ہو ، مصالحت کی ہر تدبیر ناکامی کا شکار ہو رہی ہو تو میاں بیوی کے لیے دو ہی راستے رہ جاتے ہیں، ایک تو یہ کہ وہ اپنی زندگیوں کو ان تلخیوں کی نذر کر دیں ، جس کا نتیجہ دنیا وآخرت میں سوائے بربادی کے کچھ نہیں ، دوسرا راستہ یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے سے جدا ہو جائیں ، اسلام اسی دوسرے راستے کی طرف راہ نمائی کرتا ہے ، طلاق اگرچہ الله تعالیٰ کی جائز ٹھہرائی چیزوں میں سب سے زیادہ ناپسند یدہ چیز ہے، لیکن جب میاں بیوی ایک دوسرے کے حقوق میں کوتاہی کرنے لگیں تو صرف ضرورت اور آخری تدبیر کے طور پراسے اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں ، اسلام دینِ فطرت ہے، وہ انسانی فطرت کی تمام کمزوریوں سے مکمل آگاہ ہے ، اس کے ہر فیصلے میں ان کمزوریوں کی مکمل رعایت ہوتی ہے۔

اسلام سے قبل دنیا طلاق کے متعلق افراط وتفریط کا شکار تھی ، آسمانی مذہب رکھنے کا دعویٰ کرنے والے یہودیوں میں کس قدر افراط تھا اس کا اندازہ تورات کی اس عبارت سے لگائیں۔

یہودیّت اورطلاق
تورات میں ہے:”اگر کوئی مرد کوئی عورت لے کے اس سے بیاہ کرے اور بعد اس کے ایسا ہو کہ وہ اس کی نگاہ میں عزیز نہ ہو اس سبب سے کہ اس نے اس میں سے کوئی پلید بات پائی تو وہ اس کا طلاق نامہ لکھ کے اس کے ہاتھ میں دے اور اسے اپنے گھر سے باہر کرے اور جب وہ اس گھر سے نکل گئی تو جاکے دوسرے مرد کی ہو وے۔ “ (استثناء:24:1)

یعنی طلاق دینے میں کوئی توقف نہیں ، بات بات پر طلاق دی جاسکتی ہے ، اس کے بالمقابل مسیحیوں میں کس قدر سختی او رتنگی ہے اس کا اندازہ انجیل کے اس حکم سے لگائیں۔

مسیحیت اور ہندومت میں طلاق کا تصور
”جسے خدا نے جوڑا اسے آدمی جدانہ کرے، جوکوئی اپنی بیوی کو چھوڑ دے اور دوسری سے بیاہ کرے وہ اس پہلی کے خلاف زنا کرتا ہے اور اگر عورت اپنے شوہر کو چھوڑ دے اور دوسرے سے بیاہ کرے تو زنا کرتی ہے۔“ ( مرقس:1:127)

اس وقت مسیحی آبادی کا بڑا حصہ کیتھولک فرقے سے منسلک ہے ، ظہور اسلام کے وقت مسیحیت کی ڈور باگ اسی فرقے کے ہاتھ میں تھی، ان کے ہاں طلاق اب بھی مطلقاً ناجائز ہے، پندرہویں صدی کے آواخر میں اس فرقے کے ظالمانہ طور طریقوں کے خلاف مزاحمت ہوئی، جس کے نتیجے میں دوسرا بڑا فرقہ پروٹسٹنٹ وجود میں آیا ،جس نے پوپ کے مذہبی اقتدار کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا ، اس وقت یورپ کے اکثر ممالک کا سرکاری مذہب پروٹسٹنٹ ہے۔ انہوں نے عورت کو طلاق کی اجازت صرف اس صورت میں دی ہے کہ فریقین میں سے کوئی عدالت میں گواہوں سے دوسرے کے متعلق زنا یا ظلم ثابت کر دے، یہ تو ان مذاہب کا حال ہے جو اپنے ہر قانون کو آسمانی قرار دیتے ہیں۔

دوسری طرف ہندومت میں طلاق کا کوئی تصور ہی نہیں ہے، بلکہ شوہر کے مرنے سے بھی طلاق نہیں ہوتی۔ کیوں کہ ہندؤوں کا نظریہ ہے کہ

” خاوند کی حیثیت پر میشور یعنی خدا کی سی ہے اور پرمیشور ایک ہی ہے، لہٰذا شوہر بھی ایک ہونا چاہیے ۔“ ( تحفة الہند:ص:194)

شوہر کی لاش کے ساتھ بیوی کو ستی ( زندہ جلانے) کا عمل اسی نظریہ کی پیداوار ہے ، شوہر مالک ہے ، عورت مملوک ہے لہٰذا مالک کے ساتھ مملوک کا فنا ہو جانا وفا کی علامت سمجھی جاتی ہے ،اس انسانیت سوز ظلم کے خلاف کئی تحریکیں اٹھیں اور کام یاب بھی ہوئیں، لیکن عورت کو طلاق ملنے کا حق نہیں ملا،البتہ جمہوری نظام حکومت نے ہندومذہب کو معاشرتی اور عائلی قوانین سے بے دخل کرکے مذہبی رسموں تک محدود کر دیا ہے ۔ اسمبلیوں میں طلاق کے جواز پر بل پاس ہو چکے ہیں ۔ دوسری طرف الحاد پرست معاشروں میں طلاق کااختیار ہی عورت کو دے دیا گیا ہے، اس افراط وتفریط میں اسلام کا نظام طلاق کس قدر منصفانہ ہے۔

اسلام میں طلاق دینے کے طریقے
جس بیوی سے صحبت یا خلوتِ صحیحہ ہو چکی ہو اسے طلاق دینے کے تین طریقے ہیں۔
1..پہلا طریقہ جو سب سے اچھا ہے:سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ شوہر صرف ایک طلاق دے اور اس وقت دے جب بیوی حیض وغیرہ سے پاک ہو اور ان پاکی کے دنوں میں صحبت بھی نہ ہو ئی ہو۔ عدت گزرتے ہی خود بخود جدائی ہو جائے گی۔ دوسری اور تیسری طلاق کی ضرورت ہی نہیں۔ اسے طلاق احسن بھی کہتے ہیں۔ (تبیین الحقائق:3/21)
2..دوسرا طریقہ جو صرف اچھا ہے:شوہر تین طلاقیں دے، لیکن اکٹھی نہ دے، بلکہ ہر پاکی کے زمانے میں ایک طلاق دے ، تین پاکیاں گزرنے کے ساتھ تین طلاق بھی پوری ہو جائیں گی ۔ لیکن ان پاکی کے ایام میں صحبت بھی نہ ہوئی ہو ۔ اسے طلاق حسن اور طلاق سنت کہتے ہیں۔(تبیین الحقائق:3/23)
3..تیسرا طریقہ جو بدعت اور حرام ہے:طلاق دینے کا بدعت اورحرام طریقہ وہ ہے جو مذکورہ بالا دونوں صورتوں کے خلاف ہو ۔ مثلاً یک بارگی تین طلاقیں دینا، یا حالت حیض میں طلاق دینا، یاجس پاکی میں صحبت کی ہو اس میں طلاق دینا ،ان تمام صورتوں میں طلاق ہونے کے ساتھ ساتھ گناہ بھی ہوتا ہے ۔ (تبیین الحقائق:3/24)

جس عورت سے نکاح ہو چکا ہو لیکن خلوت صحیحہ (تنہائی) کی نوبت نہیں آئی تو ایسی عورت کو پاکی اور حیض کے دنوں میں بھی طلاق دینا درست ہے ،مگر ایک طلاق دے ۔ (تبیین الحقائق:3/7)

الفاظ کے اعتبار سے طلاق کی اقسام
اس کی دو قسمیں ہیں: طلاق صریح: یعنی ایسے الفاظ سے طلاق دینا جس سے عام طور پر طلاق ہی کا معنی سمجھا جاتا ہو، اس کے علاوہ کوئی اور معنی نہ نکلتا ہو، مثلاً تجھے طلاق ہے ، میں نے تجھے چھوڑ دیا، میں نے تجھے آزاد کیا، طلاق صریح میں شوہر کی نیت کی ضرورت نہیں ۔ بلانیت طلاق واقع ہو جاتی ہے، البتہ عدت میں رجوع کر لے تو دوبارہ اس کی بیوی ہو جائے گی ۔ ( تبیین الحقائق:3/39) عدت گزرنے کے بعد حق رجوع ختم ہو جاتا ہے ۔ البتہ نیا مہر باندھ کر نیا نکاح کر سکتا ہے ۔

رجوع کا طریقہ یہ ہے کہ زبان سے رجوع کر لے ( یعنی میں اپنی بیوی کو دوباہ اپنے نکاح میں رکھتا ہوں ) یا عمل سے رجوع کر لے، مثلاً بیوی سے بوس وکنار یا صحبت کر لے ۔ ( تبیین الحقائق:3/149) چوں کہ عدت میں رجوع کرنے کا حق ہوتا ہے ،اس لیے اسے طلاق رجعی بھی کہتے ہیں۔ یاد رہے یہ حق رجوع دو طلاقوں تک رہتا ہے، تیسری طلاق میں یہ حق ختم ہو جاتا ہے۔(ایضاً)

طلاق بائن
یعنی ایسے الفاظ سے طلاق دینا جس سے طلاق کا مطلب بھی نکلتا ہو ،اس کے علاوہ دوسرا معنی بھی نکلتا ہو، مثلاً شوہر نے غصے میں کہا ”نکل جا“ اس سے طلاق کا مطلب بھی نکلتا ہے کہ ”تجھے طلاق ہے، نکل جا“ دوسرا مطلب یہ بھی نکلتا ہے کہ اپنے ماں باپ کے گھر چلی جا۔ اگر نیت طلاق کی ہے تو طلاق بائن پڑ جائے گی ۔ (تبیین الحقائق:3/78)

طلاق بائن کب ہوتی ہے او رکب نہیں؟ کہاں نیت کااعتبار ہے اورکہاں نہیں ؟ یہ سب فقہی کتابوں میں تفصیل سے موجود ہے ۔ البتہ طلاق بائن کا حکم یہ ہے کہ اس سے میاں بیوی میں جدائی ہو جاتی ہے ۔ اس میں حق رجوع نہیں ، البتہ نیا مہر باندھ کر نیا نکاح کیا جاسکتا ہے۔

تفسیر:مطلقہ عورت کی عدت کا بیان
﴿وَالْمُطَلَّقَاتُ یَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِہِنَّ ثَلاَثَةَ قُرُوء﴾ (اور طلاق والی عورتیں انتظار میں رکھیں اپنے آپ کو تین حیض تک) جب زوجین میں باہمی رنجش ہو جائے، ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی میں مسلسل کوتاہی ہونے لگے اور اصلاح احوال کی تمام تدبیریں ناکام ہو جائیں، تو پھر عقد نکاح ختم کر دیناچاہیے، عقد نکاح ختم کرنے کا نام طلاق ہے ، طلاق کے بعد عورت فوراً دوسرا نکاح نہیں کر سکتی ، بلکہ کچھ مدت گزارنے کے بعد دوسرے نکاح کی اجازت ہے ، اس مدت کو عدّت کہتے ہیں ۔ عدّت گزارنے کا ایک فائدہ تو یہ ہے کہ اگر پہلے شوہر کے نطفے سے کوئی بچہ رحم مادر میں پرورش پا رہا ہے، تو اس کا نسب محفوظ ہو جائے گا، دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اس سے معاشرے میں نکاح کی اہمیت اور احترا م میں اضافہ ہو جاتا ہے کہ عقد نکاح کوئی خرید فروخت کا معاملہ نہیں، جو ایک جگہ سے ختم ہوا تو فوراً دوسری جگہ جڑ گیا۔ اس کا تیسرا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ جس طرح نکاح میں ایک اجنبی مرد اور اجنبی عورت کی ازدواجی زندگی کا شہرہ ہو جاتا ہے ، اسی طرح جب یہ عقد ختم ہو جاتا ہے تو مدتِ عدت گزارنے سے ان کی جدائی کی بھی شہرت ہو جاتی ہے ، یہی شہرت ان کے نئے نکاح کے پیغام کا ذریعہ بن جاتی ہے ۔

اس آیت میں مطلقہ کی عدت کا تذکرہ ہے، اگر مطلقہ آزاد خاتون ہے او راس کا شوہر اس سے صحبت یا خلوت صحیحہ کر چکا ہو تو اس کی عدت تین حیض ہیں، تین حیض گزرنے سے پہلے وہ دوسرا نکاح نہیں کر سکتی، اگرعورت کو حمل ٹھہر چکا ہے تو اس کا اظہار کر دے، کیوں کہ حاملہ کی عدت تین حیض نہیں، بلکہ وضع حمل ہے ۔ بچہ کی پیدائش کے بعد ہی وہ دوسرا نکاح کر سکتی ہے، حمل چھپانے سے عدت کے حساب میں خلل آجائے گا، اس لیے الله تعالیٰ نے ”الله اور آخرت“ پر ایمان لانے کا شعوری احساس دلا کر تاکید فرمائی ہے کہ عورتیں اپنے حمل کی حالت نہ چھپائیں۔

عدّت کی مختلف اقسام
عدّت لغت میں اس چیز کو کہتے ہیں جسے شمار کیا جائے ۔ اور اصطلاحِ شریعت میں اس مدت کوکہتے ہیں جس میں عورت ایک نکاح ختم ہونے کے بعد وسرا نکاح نہیں کر سکتی،۔ (ردالمحتار، باب العدة:3/503) چوں کہ نکاح ختم ہونے کی نوعیتیں مختلف ہوتی ہیں، اس لیے عدت کے ایام مختلف ہوتے ہیں۔

1.. اگر شوہر فوت ہو جائے تو اس کی عدت چار ماہ دس دن ہے ۔ ﴿وَیَذَرُونَ أَزْوَاجاً یَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِہِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْہُرٍ وَعَشْراً﴾․ (البقرة:234)
2..اگر شوہر نے طلاق دی ہے تو دیکھیں گے عورت کو حیض آتا ہے یا نہیں ؟ اگر حیض آتا ہے تو اس کی عدت تین حیض ہے:﴿وَالْمُطَلَّقَاتُ یَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِہِنَّ ثَلاَثَةَ قُرُوَء ٍ﴾․(البقرة:228)
اگر حیض نہیں آتا تو اس کی عدت تین ماہ ہے:﴿وَاللَّائِیْ یَئِسْنَ مِنَ الْمَحِیْضِ مِن نِّسَائِکُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُہُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْہُرٍ وَاللَّائِیْ لَمْ یَحِضْن﴾․(الطلاق:4)
3..اگر خاتون حاملہ ہو تو اس کی عدت بہر صورت وضع حمل ہے ، یعنی بچہ پیدا ہونے تک وہ عدّت میں ہو گی ، حاملہ کو خواہ طلاق ملی ہو یا شوہر فوت ہوا ہو:﴿ وَأُوْلَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُہُنَّ أَن یَضَعْنَ حَمْلَہُنّ﴾․ (الطلاق:4) یہ سب آزاد عورتوں کی عدت ہے ، پاکستان کے عائلی قوانین میں ہر خاتون کی عدت نوے(90) دن رکھی گئی ہے ۔ یہ قرآن وسنت سے صریح بغاوت ہے، کسی بھی مسلمان کے لیے اس پر عمل پیرا ہونے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

طلاق رجعی میں مرد کو حق رجوع حاصل ہے
﴿وَبُعُولَتُہُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّہِنّ﴾: جن عورتوں کو طلا ق رجعی ملی ہو۔ ان کے شوہر انہیں دوبارہ بغیر نکاح کے اپنے پاس رکھ سکتے ہیں ، لیکن یہ حق رجوع اس وقت تک رہے گا جب تک عورت عدت میں ہو گی اور یہ عدت بھی تیسری طلاق کی نہ ہو۔ مدت عدت گزرتے ہی حق رجوع ختم ہو جاتا ہے، البتہ چاہیں تو نیا نکاح نیا مہر باندھ کر، کر سکتے ہیں، بشرطیکہ تین طلاقیں نہ دی ہوں۔ اگر عدّت میں رجوع کرنا ہو تو اس کا مقصد گھر بسانا ہو، نہ کہ بیوی کو ستانا۔

عورتوں کے بھی حقوق ہیں
﴿وَلَہُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْْہِنَّ بِالْمَعْرُوفِ﴾زمانہ جاہلیت میں عورتوں کا کوئی خاص معاشرتی مقام نہ تھا، نہ ہی انہیں کوئی انفرادی حقوق حاصل تھے ، اس آیت میں بتایا گیا کہ میاں اور بیوی حقوق اور ان کی ادائیگی میں برابر ہیں، ہاں! یہ ضرور ہے کہ مرد کو زندگی کے سفر کا نگران بنایا گیا ہے، اس لحاظ سے اس پر ذمے داریاں بھی عورت کی بنسبت زیادہ ہیں او راسی لحاظ سے یک گونہ اسے فضیلت بھی حاصل ہے۔ عورتوں کے حقوق پر تفصیلی بحث گذشتہ صفحات میں گزر چکی ہے۔

عدّت سے متعلقہ فقہی مسائل
1..طلاق کی عدت اس عورت پر ہے جس سے شوہر صحبت یا خلوت صحیحہ کر چکا ہو ، جس سے صحبت نہ ہوئی ہو اور خلوت صحیحہ بھی میسر نہ آئی ہو اس پر کوئی عدت نہیں۔ (فتاوی عالمگیری:2/543)
2..طلاق بائنہ کی عدّت میں عورت اپنے سابقہ شوہر سے دوبارہ نکاح کر سکتی ہے۔ ( الفقہ الاسلامی وادلّتہ:9/6964)
3..شوہر کے طلاق دیتے وقت یا انتقال کے وقت بیوی جس مکان میں رہائش پذیر تھی ،وہیں عدت کے ایّام گزارے گی ۔ ( تبیین الحقائق :3/270) البتہ اگر مکان گرنے کا اندیشہ ہو یا عورت کو اس میں اپنی عزت وناموس کا خوف ہو تو مکان تبدیل کر سکتی ہے۔ ( تبیین الحقائق:3/270)
4..طلاق رجعی کی عدت میں شوہر سے کوئی پردہ نہیں ، البتہ طلاق بائنہ کی عدت میں او رتین طلاقوں کی عدت میں شوہر سے مکمل پردہ کرنا ضروری ہے۔ (فتاوی عالمگیری:2/551)
5..جس عورت کو تین طلاقیں مل چکی ہوں یا طلاقِ بائنہ ملی ہو ، یا شوہر کا انتقال ہوا ہو، ان کو ان تمام صورتوں میں عدت کے اندر بننا سنورنا جائز نہیں، البتہ طلاق رجعی کی عدت میں بننا سنورنا جائز ہے۔ (تبیین الحقائق:3/366)
6..اگر معتدہ بیمار ہو تو اس کے لیے طبیب کو گھر پر بلا لیا جائے یا زبانی مرض بتا کر دوا منگالی جائے ،اگر یہ مشکل ہو تو ہسپتال لے جانا جائز ہے۔ ( تبیین الحقائق:3/270)
7..طلاق کی عدّت میں نان ونفقہ شوہر کے ذمہ واجب ہے ۔ (ہدایة:2/423) اور عدّتِ وفات میں نان ونفقہ کا خرچ خود اٹھائے کیوں کہ شوہر کے ترکہ سے بیوی کا حصہ مقرر ہوتا ہے۔(تبیین الحقائق: 3/271) اگر عدت وفات میں نان ونفقہ کا مناسب انتظام نہیں ہو سکتا تو ملازمت کے لیے گھر سے باہر جاسکتی ہے، لیکن رات اسی مکان میں آکر گزارے۔ ( ایضاً)
8..اگر عورت کو طلاق اپنی معصیت کی وجہ سے ہوئی ، مثلاً سوتیلے بیٹے سے غلط تعلق بنا لیا یا نعوذ بالله مرتدہ ہو گئی تو نان ونفقہ نہیں ملے گا۔ (ہدایہ:2/434) (جاری)

Flag Counter