Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الثانیہ 1435ھ

ہ رسالہ

8 - 16
سفر بنگلہ دیش (دارالعلوم سحبانیہ، ڈھاکہ اصلاحی جوڑ(شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم الله خان مدظلہ


ضبط وترتیب: مفتی معاذ خالد، استاد جامعہ فاروقیہ کراچی

الحمدلله نحمدہ، ونستعینہ، ونستغفرہ، ونؤمن بہ، ونتوکل علیہ، ونعوذ بالله من شرور انفسنا ومن سیئاٰت اعمالنا، من یھد الله فلا مضل لہ، ومن یضلل فلا ھادی لہ، ونشھد ان لا الہ الا الله وحدہ لا شریک لہ، ونشھد ان سیدنا وشفیعنا وحبیبنا ومولانا محمداً صلی الله علیہ وسلم عبدالله ورسول الله․ اما بعد فاعوذ بالله من الشیطان الرجیم، بسم الله الرحمن الرحیم، ﴿یاایھا الذین أمنوا اتقوالله وقولوا قولا سدیداً یصلح لکم اعمالکم ویغفرلکم ذنوبکم ومن یطع الله ورسولہ فقد فاز فوزاً عظیما﴾․ صدق الله مولانا العظیم․

آپ کی خدمت میں چند گزارشات اورمعروضات پیش کرنی ہیں، اغلب ہے کہ میری گفتگو مرتب نہیں ہو گی، ایک تو میرے اپنے عوارض اور امراض کی وجہ سے، دوسرے کمزوری اور ضعف کی بنا پر اور تیسرے طویل سفر سے آنے کی وجہ سے ۔ آپ دعا فرمائیں کہ جو کچھ میں گزارش پیش کروں الله وتبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں وہ قبول ہوجائے، آپ کو بھی اس سے فائدہ ہو اورمجھے بھی اس سے فائدہ ہو۔

پہلی بات میں آپ سے یہ عرض کروں گا کہ الله تبارک وتعالیٰ نے جو زندگی اور جو جان ہمیں عطا فرمائی ہے یہ ہماری اپنی نہیں ہے ،الله کی ہے ۔ نہ زندگی اپنی ہے اور نہ ذات اور شان اپنی ہے۔ یہ سب الله کی عطا، اس کی عنایت او راس کی مہربانی ہے ۔ ہمیں اپنی جان کی بھی حفاظت کرنیہے او راپنی زندگی کی بھی حفاظت کرنی ہے ۔ قرآن کریم نے ﴿لا تقتلوا انفسکم﴾ کا حکم دیا ہے۔ کہ تم اپنے آپ کو قتل نہ کرنا اور ﴿ولا تلقوا بأیدیکم الی التھلکة﴾ اپنے آپ کو ہلاکت کے اند رنہ ڈالنا۔ اور نبی اکرم نے فرمایا ہے ”ان لنفسک علیک حقا “تیری ذات کا بھی تیرے اوپر حق ہے ”وان لعینک علیک حقا“ اور تیری آنکھ کا بھی تیرے اوپر حق ہے اور یہ بھی آپ جانتے ہیں، یہ بات بھی بالکل واضح ہے کہ دنیا کی کوئی خوبی، دنیا کا کوئی کمال، آخرت کی کوئی خوبی، آخرت کا کوئی کمال، وہ زندگی پر ہی موقوف ہے۔ آدمی زندہ ہوتا ہے تو دنیا کے اندر بہت سے کام کرتا ہے ، بہت سی ترقی کرتا ہے، بہت سے مقاصد اور مطالب حاصل کرتا ہے ، اسی طرح آخرت کی تیاری کے لیے بھی آدمی کو اپنی زندگی ہی سے کام لینا ہے، یہ اگر زندگی نہ ہو، یہ جان نہ ہو تو آپ دنیا کا کون سا کام کر سکتے ہیں؟ یا آخرت کے لیے آپ کون سی تیاری اور کونسی کوشش اور سعی کر سکتے ہیں؟ تو اس لیے یہ ضروری ہے کہ اپنی جان کی بھی حفاظت کی جائے اور اپنی زندگی کی بھی حفاظت کی جائے او راس کا صحیح استعمال کیا جائے۔ ایک تو مقصود ہوتا ہے، اس کے لیے آدمی کوشش کرتا ہے اورایک مقصود کے ذرائع ہوتے ہیں، مقصود کو حاصل کرنے کے لیے وسائل ہوتے ہیں تو جس طرح مقصود کی حفاظت ضروری ہے، اسی طریقہ سے وہ ذرائع اور وہ وسائل جو ہوتے ہیں وہ بھی مرغوب قرار دیے جاتے ہیں او ران کا بھی اہتمام ضروری ہوتا ہے۔ حضرت جنید بغدادی کو کسی نے تسبیح پڑھتے ہوئے دیکھا تو اس نے کہا حضرت یہ تو مبتدیوں کے لیے ضروری ہوتا ہے، آپ کو اس کی حاجت کیا ہے؟ تو حضرت نے فرمایا کہ یہ ہماری محسن ہے، اس کے ذریعہ سے الله تبارک وتعالیٰ نے ہمیں مقصود تک رسائی عطا کی ہے ،تو ہم اس محسن کو کیسے چھوڑ دیں؟ ہم تو اس کو اپنا رفیق اورمحسن سمجھتے ہیں۔ تو بہرحال میرے عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ مقصود تو مقصود ہوتا ہے، لیکن جو ذرائع ہوتے ہیں او رجو وسائل ہوتے ہیں ان کی بھی رعایت کی جاتی ہے اور ان کا بھی خیال رکھا جاتا ہے۔ ایک بات ہو گئی۔

دوسری بات مجھے آپ سے یہ عرض کرنی ہے کہ آپ نے سناہوگا ”من کان للہ کان الله لہ“ جو الله کا ہوجاتا ہے الله اس کے ہو جاتے ہیں ، کیا سمجھے؟ جو الله کا ہوجاتا ہے الله اس کے ہو جاتے ہیں اور جس کے الله ہو جاتے ہیں اس سے زیادہ خوش نصیب اور اس سے زیادہبہرہ ور اور اس سے زیادہ قیمتی کون آدمی ہو سکتا ہے؟! قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے﴿بشر الصابرین اذا اصابتھم مصیبة قالوا انا لله وانا الیہ راجعون اولئک علیھم صلوات من ربھم ورحمة واٰولئک ھم المھتدون﴾․

آپ خوش خبری سنا دیجیے ،آپ بشارت دیجیے ان لوگوں کو کہ جب ان کے پاس کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ مصیبت کے آنے پر کہتے ہیں”انالله وانا الیہ راجعون“ ہم الله کے ہیں اور الله ہی کی طرف ہمیں لوٹ کر جانا ہے۔ الله نے ہمیں پیدا کیا ہے، الله ہمارا خالق ہے، ہمارا مالک ہے، ہمارا آقا ہے۔ ہم نے ابھی عرض کیا کہ ہماری زندگی اپنی نہیں ہے ،یہ الله کی دی ہوئی ہے، یہ الله تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے، ہمیں اس نعمت کی قدر کرنی چاہیے اور جو آدمی مصیبت میں گرفتار ہونے کے بعد ”انا لله وانا الیہ راجعون“ پڑھتا ہے تو اس کو بشارت مل گئی ہے۔ دو باتیں قابل غور ہیں، ایک تو یہ کہ ہم الله کے ہیں، جو ہمارا مالک ہے ،وہ ہمارے اندر جس طرح کا کوئی تصرف کرنا چاہیے تو کرسکتا ہے ،مالک کو اپنی ملک کے اندر ہر طرح کا اختیار ہوتا ہے تو الله تبارک وتعالیٰ کو ہمارے اندر ہر طرح کا اختیار ہے، اگر ہم نے اپنے آپ کو الله کے حوالہ کر دیا ہے تو الله کے حوالہ کردینے کے بعد پھر پریشانی نہیں ہوتی، پھر گلہ نہیں ہوتا، پھر شکوہ نہیں ہوتا۔ حضرت بہلول دانا سے کسی نے پوچھا کہ حضرت کیا حال ہے؟ تو فرمایا کہ اس آدمی کا کیا حال پوچھتے ہو جس کی مرضی کے مطابق پوری کائنات کا نظام چل رہا ہے؟ سائل نے کہا بات سمجھ میں نہیں آئی۔ آپ کا کیا مطلب ہے؟ تو انہوں نے کہا میرا مطلب یہ ہے کہ میں نے اپنی رائے کو، اپنی پسند کو، اپنے اختیار کو الله کے حوالہ کر دیا ہے۔ میں نے یہ طے کر لیا ہے کہ الله کی جو مرضی ہے میں اس پر راضی ہوں۔ الله کی جو مرضی ہے وہی میری بھی مرضی ہے اور یہ آپ جانتے ہیں کہ اس کائنات کا جو نظام چل رہا ہے وہ الله کی مرضی کے مطابق چل رہا ہے اورمیری مرضی الله کی مرضی میں شامل ہو گئی ہے لہٰذا یہ سارا نظام میری مرضی کے مطابق چل رہا ہے۔ ابراہیم بن ا دھم نے فرمایا کہ میں نے اپنا اختیار الله کے حوالہ کر دیا ہے لہٰذا اب میں آرام سے اور راحت سے ہوں۔ میں آپ کو ایک بات ضروری بتاتا ہوں، کوئی بھی حالت ہو، کوئی بھی صورت ہو، اچھی ہو یابری، راحت کی ہو یا تکلیف کی ، آپ یہ فیصلہ کر لیں کہ الله جس پر راضی میں اس پر راضی، جب آپ یہ فیصلہ کر لیں گے کہ جس پر الله راضی ہے اس پر میں راضی ہوں تو آپ کو پریشانی نہیں ہوگی ،آپ کو بے قراری نہیں ہو گی۔ آپ کو سکون او راطمینان ہو جائے گا۔

قرآن مجید میں کہا کہ ان لوگوں کو بشارت سناؤ جو مصیبت پیدا ہونے کے بعد ”انا للہ وانا الیہ راجعون“ پڑھتے ہیں۔ ”انالله واناالیہ راجعون“میں الله تبارک وتعالی کا ذکر ہے اور ﴿الابذکرالله تطمئن القلوب﴾ الله کے ذکر سے دل کو اطمینان ملتا ہے، ہم عادت ڈالیں ،الله کے ذکر کو اپنا معمول بنائیں الله کی یاد کے اندر اپنے آپ کو مشغول رکھیں، جب ہم الله کی یاد میں اپنے آپ کو مشغول رکھیں گے تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ دل کو اطمینان نصیب ہو گا ۔

یہاں دو باتیں ہیں ایک بات تو یہ کہہم الله کی ملک ہیں، وہ مالک ہے، وہ جو تصرف کرے، جو معاملہ ہمارے ساتھ کرے؟ اس میں کسی کو دخل دینے کا حق ہی نہیں ہے کون ہے، دخل دینے والا؟ کوئی اور مالک ہے، کوئی اور خالق ہے ؟کسی اور نے ہمیں پیدا کیا ہے؟ یہ سینکڑوں ہزاروں نعمتیں ہیں، رات دن میسر ہیں، یہ الله کے علاوہ کوئی اور دے سکتا ہے؟ یہ الله دے رہا ہے، تو الله ہمارا مالک ایک بات ۔

دوسری بات یہ کہ ہم الله کے پاس واپس بھی جائیں گے۔ سمجھے یا نہیں ؟کیا مطلب: مطلب یہ کہ یہاں الله کی مرضی کے مطابق اگر ہم زندگی گزاریں گے تو الله کے پاس جانے کے بعد الله ہمیں ثواب عطا فرمائیں گے، الله ہمیں نعمتوں سے سر فراز فرمائیں گے، الله ہمیں جنتوں کے اندر داخل فرمائیں گے ،آپ نہیں د یکھتے دنیا کے اندر آدمی کتنی محنت کر رہا ہے؟ آپ یہاں سے باہر نکل کر دیکھیے دنیا کے اندر آدمی کتنی محنت کر رہا ہے ؟آپ یہاں سے باہر نکل کر سیکھیے ایک نہیں ،دو نہیں، دس نہیں ،سو نہیں، ہزار نہیں ،لاکھوں آدمی جو دنیا کے فائدے حاصل کرنے کے لیے اپنی جان کھپا رہے ہیں ۔ ایک آدمی نوکری کرتا ہے ،کیوں کرتا ہے، نوکری اسی لیے کرتا ہیکہ مہینہ کے بعد تنخواہ ملے گی، ایک آدمی ہے ،دکان میں بیٹھا ہوا تجارت کر رہا ہے ،صبح سے لے کر شام تک وہ وہاں مشغول رہتا ہے ،کیوں؟ چار پیسوں ں کا نفع ہو گا ۔آپ نے دیکھا ائیرپورٹ پر جائیے، ریلوے اسٹیشن پر جائیے، وہاں جانے کے بعد قلی آپ کو گھیر لے گا ،آپ کا سامان اٹھا کر لے جانے کی کوشش کہ ے گا، کیوں؟ اس لیے کہ دو پیسے ملیں گے۔ اسی طریقہ سے بازار میں جو مزدور کام کرتیہیں ،وہ کتنی محنت کرتے ہیں؟ کتنی مشقت اٹھاتے ہیں ؟ چار پیسے حاصل کرنے کے لیے۔ تو میرے دو ستو میرے بزرگو! آپ یہ سوچیے کہ دنیا کے فائدے کے لیے آدمی اپنی جان کو ہلکان کرتا ہے اور وہ چندٹکوں کا فائدہ اور بالکل عارضی فائدہ ہے۔ آخرت کے اندر جو فائدے حاصلہوں گے ان کی کوئی حد ہے؟ ان کی کوئی انتہا ہے؟ اس میں ہمیں رغبت کیوں نہیں ہے؟ ہمیں اس کے لیے رغبت ہونی چاہیے، ہمیں اس کے لیے سعی او رکوشش کرنی چاہیے اور یہ جبھی ہو گا جب کہ ہم الله کے احکام کی پابندی کریں گے ۔ شیطان راستہ مارتا ہے او ربہکانے کی کوشش کرتا ہے اور کسی قیمت پر وہ اپنی اس حرکت سے باز نہیں آتا، لیکن جو الله کے خاص بندے ہوتے ہیں، جن کو الله سے مضبوط اور پختہ اور قوی تعلق ہوتا ہے ،شیطان ان کو بھی بہکانے کی کوشش کرتا ہے، مگر ان پر اس کا بس نہیں چلتا۔

مولانا روم نے ایک واقعہ لکھا ہے کہ حضرت معاویہ رضی الله عنہ سو رہے تھے تو ابلیس آیا اور آنے کے بعد اس نے ان کو کہا کہ حضرت! تہجد کا وقت ختم ہونے جارہا ہے ،آپ اٹھ جائیں نماز پڑھیں۔ تو حضرت معاویہ نے فرمایا کہ یہ مہربان کون ہے جو مجھے تہجد کے لیے اٹھانے کے واسطے آگیا ؟تو آپ نے فرمایا تم کون ہو ؟اس نے کہا میں ابلیس ہوں ۔حضرت نے فرمایا کہ تم مجھے تہجد کی نماز کے لیے جگانے کے واسطے آئے، تمہارا تو یہ کام نہیں ہے ؟اس نے کہا خدا نہ کرے کہ میرے یہ کام ہوں، میرے یہ کام نہیں ہیں، میں نے آپ کو اس لیے اٹھایا کہ ایک زمانہ میں میں بھی عبادت کیا کرتا تھاتو عبادت کا ذوق حاصل تھا، آپ بھی چوں کہ عبادت کرتے ہیں تو اس لیے میں نے سوچا کہ آپ کو اٹھا دوں حضرت معاویہ صحابی تھے ۔رسول پاک صلی الله علیہ وسلم کی صحبت اٹھائے ہوئے تھے۔ وہ اس کے دھوکے میں نہیں آسکتے تھے تو انہوں نے فرمایا کہ سچ سچ بتا کہ وجہ کیا ہے ؟کیوں اٹھایا تو نے مجھے؟ وہ کہنے لگا کہ اصل میں بات یہ ہے کہ ایک روزآپ کی تہجد قضا ہو گئی تھی تو آپ کو بہت قلق ہوا تھا، بہت دکھ ہوا تھا، آپ نے الله سے بہت معافی مانگی تھی، بہت معذرت کی تھی ،اس دکھ کی وجہ سے، اس معافی کی وجہ سے الله نے آپ کا اتنا مرتبہ بڑھا دیا تھا کہ اگر آپ تہجد پڑھتے تب بھی اتنا مرتبہ نہ بڑھا ہوتا تو اس لیے مجھے خیال آیا کہ اگر آج بھی آپ کی تہجد رہ گئی تو آپ پھر وہی معافی تلافی کریں گے، آپ کا درجہ بلند ہو گا او رمجھے یہ کسی قیمت پر منظور نہیں ہے کہ آپ کا درجہ بلند ہو…۔ تو اس لیے دوستو! شیطان دھوکہ دیتا ہے اور دھوکہ دینے میں وہ کوئی کسر نہیں چھوڑتا ،لیکن وہ یہ بھی اقرار کرتا ہے، یہ بھی اعتراف کرتا ہے کہ اے الله !جو آپ کے خاص بندے ہوں گے ان پر میرا بس نہیں چلے گا ۔یہ جانتا ہے، لیکن ان کے لیے بھی پھر کوشش کرتا ہے تو ہمیں الله کا خاص بندہ بننا چاہیے، الله تبارک وتعالیٰ سے اپنے تعلق کو مضبوط کرنا چاہیے ،یہ کائنات ہے ،یہ دنیا آپ دیکھ رہے ہیں ،لوگ جارہے ہیں، ہمارے والد صاحب چلے گئے، ہماری والدہ صاحبہ چلی گئیں ،ہمارے خالو چلے گئے ،ہماری خالہ چلی گئیں، ہمارے ماموں چلے گئے ،ہماری ممانی چلی گئیں،روز دیکھتے ہیں ۔نہیں دیکھ رہے؟ اس کے باوجود ہماری غفلت کا عالم یہ ہے کہ ہم دنیا کے اندر ایسے پھنسے ہوئے ہیں ،ایسے مبتلا ہیں کہ کبھی آخرت کی فکر نہیں ہوتی ہمیں آخرت کا خیال رکھنا چاہیے، الله تبارک وتعالی سے اپنا تعلق مضبوط کرنا چاہیے ،کتنی عجیب بات ہے !غلط لوگ غلط بات پر ڈٹے ہوئے ہیں ،کسی قیمت پر وہ اپنی غلطی کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں، ہم ایمان والے اچھی بات کو کیوں اس طرح مضبوط نہیں پکڑتے ؟دیکھنا چاہیے دنیا کے اندر لوگ ہیں، غلط طریقوں پر چل رہے ہیں ،کسی قیمت پر ان کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں، وہ غلط بات کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں او رہم صحیح بات کو اختیار کرنے کے لیے مستعد اور چوکس نہیں ہیں ۔یہ بڑی کمزوری کی بات ہے ،ہمیں اس بات کا اہتمام ہونا چاہیے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر بہت خوشی ہوئی ،آپ کی زیارت ہوئی، الله تبارک وتعالیٰ قبول فرمائے۔

وآخردعوانا ان الحمدلله رب العالمین

Flag Counter