Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الثانیہ 1435ھ

ہ رسالہ

11 - 16
کیا فرماتے ہیں علمائے دین؟

دار الافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
	
بدگمانی،حسداور غبیت کیاہے؟
سوال… 1..حضرت تھانوی رحمة الله علیہ کا فرمان ہے کہ کسی سے توقع نہ لگاؤ، دنیا میں صرف الله سے لو لگاؤ، تو حضرت میں کسی دوست یا اپنے بھائی یا رشتہ دار سے توقع نہ لگاؤں کہ میرے مشکل وقت میں میرا ساتھ دے گا کیا یہ بدگمانی ہو گی؟ اگر نہیں تو پھر بدگمانی کیا ہے؟
2.. حضرت! میں یونی ورسٹی میں پڑھتا ہوں، ساتھ والے لڑکوں کے نمبر اگر زیادہ آجائیں تو دل میں حسد ہوتا ہے کہ ہم نے ساتھ پڑھا پھر بھی میرے نمبر کم آئے اور اگر دوست کے نمبر کم آئیں تو دل خوش ہوتا ہے اور غرور پیدا ہوتا ہے ،اس چیز کا علاج کیا ہے؟ یہ تو حسد ہے، اور ساتھ والوں کے نمبر اگر زیادہ آئیں تو دکھ بھی ہوتا ہے تو کیا یہ دکھ بھی حسد میں شمار ہو گا؟
3.. حضرت! جو لڑکے بری صحبت میں مبتلا ہیں ان کی دوستی چھوڑ کر ان کی بُرائی مجلس میں بیان کرنا کہ وہ شرابی ہے، وہ فلاں فلاں گناہ کرتا ہے تو یہ بھی غیبت ہو گی ؟ جب کہ کسی کو بُری صحبت سے بچانے کی نیت نہ ہو، بلکہ کسی کو ان کی دوستی چھوڑنے کی وجہ بتانا مقصود ہو۔

جواب… 1..  واضح رہے کہ کسی ساتھی ، اپنے بھائی اور رشتہ دار وغیرہ سے اسباب کے درجہ میں خیر کی امید اور توقع رکھنے میں قباحت نہیں اور نہ یہ بد گمانی ہے، بد گمانی تو وہ ہے: جو دل میں کسی بھائی کے بارے میں پیدا ہوکر شک میں مبتلا کر دے۔

2.. جب آپ کے ساتھیوں میں سے کسی کے نمبرزیادہ آنے پر آپ دکھ او رتکلیف ،اور کم آنے پر آپ خوش او رمغرور ہوتے ہوں تو یہ حسد شمار ہو گا۔

اور اس کا علاج یہ ہے کہ جب آپ حسد میں مبتلا ہو جائیں تو استغفار کریں، اور حسد جس چیز پر آپ کو مجبور کررہا ہو، اس کے خلاف اپنے نفس کو مجبور کریں، او راپنے لیے او راپنے ساتھیوں کے لیے بھی دعا کا معمول بنالیں، کہ الله تعالیٰ سنت کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے اور دنیا وآخرت کی کامیابیاں نصیب کرے۔

3.. اس غرض سے کسی ساتھی کی بُرائیاں مجلس میں بیان کرنا غیبت کے زمرے میں آتا ہے، البتہ اگر کسی کو کسی کے ضرر سے بچانا مقصود ہو تو دوسرے کو اس کی صحبت سے مناسب طریقے سے روک سکتے ہیں ، لیکن بغیر کسی شرعی عذر کے کسی کے عیوب بیان کرنا جائز نہیں۔

سُنار کا زیور بنانے کے بعد کچھ سونا اپنے لیے رکھنا
سوال… کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ میں کہ: میرا سونے کا کاروبا ر ہے اگر کوئی گاہک ایک تولہ سونے کا زیور بنواتا ہے تو ہم اس میں ایک تولہ سونا لگاتے ہیں، پھر اس میں زیبائش کے لیے کچھ پتھر وغیرہ کے موتی بھی لگتے ہیں جو ہم زر گر کی دکان سے لگواتے ہیں، جب زرگر موتی لگاتا ہے تو سوراخ کرنے کی وجہ سے کچھ سونا بچ جاتا ہے جس سے زر گر 400 ملی گرام سونا لیتا ہے، او راگر زیادہ بچ جائے تو وہ زر گر ہم کو واپس دیتا ہے اور موتیوں کی الگ رقم بھی لیتا ہے ۔ جب ہم گاہک کو تیار شدہ زیور دیتے ہیں تو ایک تولہ سونے کے حساب سے قیمت لیتے ہیں ، کیوں کہ ہمارے 400 ملی گرام تو جاتے ہیں ۔ کیا اس طرح کرنا جائز ہے ؟ کیا اس گاہک سے ایک تولہ سونا کی قیمت وصول کرنا جائز ہے ؟ اگر جائز نہیں تو ہمارے نقصان کا ازالہ کیسے ہو گا؟

نیز زر گر”400“ ملی گرام سونے کے علاوہ اپنے کام کی اجرت بھی لیتا ہے، نیز گاہک کو عموماً یہ بات معلوم نہیں ہوتی کہ یہ سونا ایک تولہ سے کم ہے، بلکہ وہ یہی سمجھتا ہے کہ یہ پورا ایک تولہ ہے ، البتہ بعض لوگوں کو معلوم بھی ہوتا ہے کہ زر گرنے اس سے کچھ کم کیا ہے۔

جواب…صورت مسئولہ میں زر گر کے لیے آپ سے اپنی اجرت کے علاوہ ”400“ ملی گرام تک سونا لینا شرعاً ناجائز ہے، بلکہ اس پر لازم ہے کہ اس کے پاس آپ کا جتنا سونا بچ جائے، چاہے تھوڑا ہو یا زیادہ، وہ آپ کو واپس کر دے البتہ زر گر کو راضی کرنے کے لیے اجرت کی مقدار میں اضافہ کیا جائے۔

اسی طرح آپ کے ذمے بھی لازم ہے کہ گاہک کے ساتھ جتنی مقدار سونے پر معاملہ ہو جائے، اس کو اتنا ہی دے دیں، اس مقدار سے کم دینا جائز نہیں ، إلایہ کہ کوئی گاہک اپنی خوشی سے کم مقدار لینے پر راضی ہو ، تب جائز ہے۔

نیز آپ گاہک سے زیبائش وغیرہ کی اجرت بھی لے سکتے ہیں، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ اس کو پہلے ہی سے طے کیا جائے۔

دولہا کے لیے مروجہ دو رکعت نفل پڑھنے کا حکم
سوال…کیا فرماتے ہیں حضرات مفتیانِ کرام مسئلہ ہذا کے بارے میں کہ ہمارے علاقہ میں رواج ہے کہ جب دولہا رخصتی کے لیے دُلہن کے گھر جاتا ہے تو قبل اس سے وہ دو رکعت نفل نماز مسجد میں ادا کرتا ہے، اور ان دو رکعتوں کا اس قدر اہتمام کیا جاتا ہے کہ گویا ان کے نزدیک ضروری ہیں، حتی کہ ان دو رکعتوں سے متصل اگر ظہر کا وقت آجائے تو دُلہا فقط دو رکعت نفل پر اکتفا کرتا ہے ظہر کی نماز ادا نہیں کرتا، یعنی یہ جو دو رکعت ہیں محض رسمی طور پر ادا کی جاتی ہیں ،کیا یہ درست ہے یا نہیں؟

جواب… دن رات میں سوائے پانچ اوقات ( صبح صادق طلوع ہونے کے بعد، سورج کے طلوع، غروب، زوال اور نماز عصر کے بعد) کے ہر وقت نفل پڑھنا جائز ہے۔

لیکن صورت مسئولہ میں صرف رسم ورواج سمجھ کر نفل کا اس قدر اہتمام کرنا اور اس کو لازمی سمجھنا، شرعاً درست نہیں ہے، بلکہ اس سے اجتناب لازم ہے۔

دولہا کو ”سلامی“ دینے کی شرعی حیثیت
سوال…کیا فرماتے ہیں حضرات مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ جب دُولہا تیار ہو جاتا ہے تو دُولہا کومخصوص جگہ پر بٹھا کر اُسے تمام عورتیں سلامی یعنی سو، پچاس روپے دیتی ہیں، کیا یہ درست ہے یا نہیں؟

جواب…واضح رہے کہ ” سلامی“ غیر مسلموں کی ایک رسم ہے جو کہ شرعاً ممنوع ہے، اور اس میں غیر مسلموں کی مشابہت بھی لازم آتی ہے جس کی احادیث میں سخت ممانعت وارد ہوئی ہے ، لہٰذا ”سلامی“ کا لینا اور دینا دونوں ناجائز ہیں، لیکن اگر کوئی شخص دولہا کو خلوصِ نیت سے بطور ہدیہ کچھ دے دے تو اس کا استعما ل کرنا درست ہے۔

دولہا کی آنکھوں میں سرمہ ڈالنا
سوال… کیا فرماتے ہیں حضرات مفتیانِ کرام مسئلہ ہذا کے بارے میں، مسئلہ یہ ہے کہ دُولہا جب تیار ہوجاتا ہے تو دولہا کی بھابھی دُولہا کی آنکھوں میں سرمہ ڈالتی ہے اور پیسے مانگتی ہے، اور یہ فعل رسمی طور پر ہوتا ہے، کیا یہ جائز ہے؟

جواب… یہ ایک رسم ہے اس سے اجتناب کرنا چاہیے، خاص کر جب اس میں ایک ناجائز کام”بھابھی کا اپنے دیور کی آنکھوں میں سرمہ ڈالنا“ کا ارتکاب بھی لازم آرہا ہو، حالاں کہ بھابھی دیور کے لیے غیر محرم ہے، اور غیر محرم اور اجنبیات سے میل ملاپ، بات چیت کرنا اور ان کو دیکھنا حرام ہے ، او ربھابھی کو ان سے پردہ کرنا شرعاً واجب ہے، تو ا ن کی آنکھوں میں سرمہ ڈالنا کیسے جائز ہو سکتا ہے؟ بلکہ حدیث شریف میں تو دیور کو بھابھی کے لیے موت قرار دیا گیا ہے۔

لہٰذا ایسی غلط او رناجائز رسومات سے خود بھی بچیں ،اور دوسروں کو بھی منع کریں۔

دودھ پلائی کی رسم اور دولہا سے پیسے لینا
سوال… کیا فرماتے ہیں حضرات مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ دولہا کو دلہن کے گھر پر عورتیں دودھ پلاتی ہیں، اور بطورِ آزمائش دولہا سے پچاس ہزار یا لاکھ روپے مانگتی ہیں ،اگر دولہا کے پاس اتنی رقم نہ ہو تو اسے عار دلائی جاتی ہے ،اور اگر مانگی گئی رقم دولہا ادا کر دے تو یہ عورتیں اس رقم میں سے پانچ یا دس ہزار روپے رکھ لیتی ہیں اور باقی رقم دولہا کوواپس کر دی جاتی ہے، تو کیا یہ شرعی طور پر جائز ہے ؟

جواب… واضح رہے کہ ” دودھ پلائی“ ہندوؤں اور غیر مسلموں کی ایک رسم ہے جو بہت سارے گناہوں کا مجموعہ ہے، او رمسلمانوں کے معاشرے میں رواج پاگئی ہے، اس رسم کا قرآن وسنت او راسلام سے کوئی تعلق نہیں ، اس رسم کی ادائیگی میں کفار سے مشابہت بھی لازم آتی ہے جس کی احادیث مبارکہ میں سخت ممانعت وارد ہوئی ہے ، نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے ”جو شخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا کل قیامت کے دن انہی میں سے ہو گا۔“

دودھ پلانے والی عورتیں عموماً دولہا کی غیر محرم ہوتی ہیں (اگر محرم ہوں تب بھی غیر مسلموں سے مشابہت کی وجہ سے ناجائز اور حرام ہے)، ان کا دولہا کے سامنے بے پردہ آنا، دودھ پیش کرنا، دولہا سے پیسوں کا مطالبہ کرنا، اور نہ ہونے یا نہ دینے پر عار دلانا سب ناجائز اور حرام ہے، او راگر دولہا پیسے دے دے تو چوں کہ عار دلا کر بلاطیبِ خاطر یہ پیسے وصول کیے جاتے ہیں ، لہٰذ اس سے مکمل اجتناب لازم اور ضروری ہے، الله تعالیٰ ان رسموں سے ہماری حفاظت فرمائے ،اور نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی کامل اتباع نصیب فرمائے۔ آمین

موبائل کو دوسرے موبائل کے بدلے میں فروخت کرنا
سوال… کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ فقہ حنفی میں ربوا کی ممانعت جنس کے ساتھ اس کی علت قدر ہے، جس کی تعریف کیل اور وزن کے ساتھ کرتے ہیں، میرا سوال عددی اشیاء کے بارے میں ہے، کیا درج ذیل صورتوں میں ربوا عائد ہو گا، مثلاً:
1... نوکیا1200 ماڈل کے ایک موبائل سیٹ کو نوکیا1200 ماڈل کے دو موبائل سیٹ سے خریدنا یا فروخت کرنا جائز ہے یا نہیں؟
2... نوکیا کے مختلف ماڈل مختلف جنس تصور کیے جائیں گے یا نہیں؟ جیسا کہ نوکیا1200 ماڈل بمقابلہ نوکیا1600 کا غیر برابر مقدار کے ساتھ تبادلہ یا خرید و فروخت کرنا۔
3... نیز اس طرح خرید وفروخت کرنا فی الحال ہو گا یا یہ معاملہ بطورِ ادھار بھی کیا جاسکتا ہے؟

جواب… واضح رہے کہ اشیائے معدودہ یعنی وہ چیزیں جنہیں عرفاً گِن کر فروخت کیا جاتا ہے، خواہ متقاربہ ہوں یا غیر متقاربہ، یعنی ان اشیاء کا آپس میں خلقتاً فرق معمولی ہو یا زیادہ، از قبیل مطعومات ہوں یا غیر مطعومات، یعنی کھانے والی اشیاء ہوں یا غیر کھانے والی، سب کا آپس میں کمی بیشی کے ساتھ تبادلہ اور خرید وفروخت کرنا شرعاً جائز ہے۔

البتہ اشیاء کے متحد الجنس ہونے کی صورت میں صرف نقد معاملہ کرنا جائز ہے، ادھار معاملہ کرنا ناجائز اور سود ہو گا، او رمختلف الجنس اشیاء میں نقد اور ادھار دونوں طرح سے خرید وفروخت کرنا جائز ہے، چناں چہ صورتِ مسئولہ میں ہر کمپنی کا موبائل فون سیٹ الگ جنس تصور کیا جائے گا ،اور ایک ہی کمپنی کے مختلف ماڈلز کے موبائل فون سیٹ بھی آپس میں الگ الگ جنس متصور ہوں گے، اس لیے کہ ان میں سے ہر ماڈل اپنی نوعیت، منافع اور اوصاف واغراض میں دوسرے ماڈل سے مختلف اور منفرد حیثیت رکھتا ہے ، اسی وجہ سے مختلف ماڈل مختلف اور علیحدہ جنس کہلائیں گے۔

لہٰذا موبائل فون سیٹ ایک ہی کمپنی کے ہوں یا مختلف کمپنیوں کے، ایک ہی طرح کے ماڈل ہوں یا مختلف طرز کے ماڈلز، سب کا آپس میں کمی بیشی کے ساتھ تبادلہ کرنا شرعاً جائز ہے، البتہ کمپنی اور ماڈل ایک ہونے کی صورت میں صرف نقد معاملہ جائز ہو گا ا دھار نہیں، او رمختلف کمپنیوں کے مختلف ماڈلز یا ایک ہی کمپنی کے مختلف ماڈلز کا آپس میں تبادلہ نقد اور ادھار دونوں طرح سے جائز ہے، پس نوکیا1200 ماڈل کے ایک موبائل فون سیٹ کا تبادلہ نوکیا1200 ماڈل کے دو موبائل فون سیٹ کے ساتھ نقد کرنا جائز ہے، ادھار جائز نہیں، اور اسی سیٹ کا دیگر ماڈلز کے ساتھ تبادلہ کمی، زیادتی، نقد اور ادھار ہر طرح سے جائز ہے۔

بیٹوں اور پوتے کے درمیان جائیداد کی تقسیم
سوال… کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیانِ عظام درجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں :
میرے والد صاحب میرے دادا کی زندگی میں وفات پا گئے تھے، اور میرے والد صاحب کے دو بھائی اور بھی ہیں ( یعنی میرے دو سگے چاچے) میرے دادا صاحب اپنی جائیداد اپنے بیٹوں کے برابر مجھے بھی دینے لگے، کچھ لوگوں نے اس پر دادا محترم کو کہا کہ بیٹوں کے برابر پوتے کا حصہ نہیں بنتا، اس کے باوجود میرے دادا نے اپنے بیٹوں کے برابر مجھے بھی حصہ دیا، جس پر میرے دونوں چچا بھی راضی تھے اور کچھ ایسی زمین تھی جس کو دریا کے خطرے کی وجہ سے ہم نے تقسیم نہیں کیا تھا، اب میرے دونوں چچے اس زمین میں سے مجھے حصہ نہیں دینا چاہتے ہیں۔اور سابقہ تقسیم شدہ زمین میں سے بھی کچھ زمین واپس لینا چاہتے ہیں، برائے مہربانی درج ذیل سوالوں کی وضاحت فرمائیں:
1... دادا نے جو حصہ چچاؤں کی رضامندی سے مجھے دیا وہ میرے لیے حلال ہے یا حرام؟
2... چچا صاحبان ابھی جس زمین میں سے مجھے حصہ نہیں دینا چاہتے ہیں، کیا ان دونوں کا یہ اقدام درست وجائز ہے؟
3... دادا نے جو زمین مجھے دی اور میرے قبضے میں بھی ہے کیا اس زمین کا کچھ حصہ یا ساری جائیداد وہ واپس لے سکتے ہیں؟ اور میری رضا مندی کے بغیر اگر زمین واپس لے لیں تو وہ زمین ان کے لیے حلال ہو گی یا حرام؟

جواب…1..  زندگی میں جائیداد تقسیم کرنا ہبہ کہلاتا ہے، اور ہبہ میں مالک کو اختیار ہے کہ جس کو جتنا چاہے، دے، لہٰذا آپ کے دادا نے اگر آپ کو کچھ دیا ہے اور آپ کا اس پر مکمل قبضہ ہو چکا ہے تو وہ آپ کی ملکیت ہے، اور آپ کے لیے حلال ہے۔
2... جس زمین کو دریا کے خطرے کی وجہ سے تقسیم نہیں کیا گیا، اس میں ہبہ تام نہیں ہوا، لہٰذا وہ زمین دادا کی میراث میں داخل ہے، اس کو ان کے ورثاء میں شریعت کے مطابق تقسیم کیا جائے گا۔
3... تقسیم شدہ زمین پر اگر آپ کامکمل قبضہ ہو چکا ہے تو آپ کے چچاؤں کا وہ زمین آپ سے زبردستی لینا جائز نہیں۔

Flag Counter