داڑھی ۔۔۔ سنت ہے یا واجب؟
مفتی محمد راشد ڈسکوی
رفیق شعبہ تصنیف وتالیف واستاذجامعہ فاروقیہ کراچی
(آخری قسط)
داڑھی کے بارے میں مولانا مودودی صاحب کے نظریہ کی شرعی حیثیت
داڑھی کی مقدار شرعی کے بارے میں مولانا مودودی صاحب کا ایک خاص نظریہ تھا، جس کی وجہ سے امت کا ایک بہت بڑا طبقہ داڑھی ایک مشت سے کم کروانے کے فعلِ حرام میں مبتلا ہوا اور ہو رہا ہے، نفس کے ہاتھوں مجبور اور کج رو کے لیے کسی کے بھی فعل یا قول سے اشارہ ملنا ،اس کے ترکِ عمل کے لیے کافی ہو جاتا ہے اور ایسے افراد کو وہ اشارات ،بلکہ واضح مسلک ومذہب مولانا مودودی صاحب کی صورت میں میسر ہو جاتا ہے، بات صرف اتنی ہی ہوتی کہ عملاً داڑھی کم کروائی جا رہی ہوتی تو بھی شاید کبھی معافی تلافی ہو جاتی، لیکن یہاں تو مسئلہ عقیدہ ونظریہ کا ہے، وإلیٰ اللہ المشتکیٰ والمستعان
مولانامودودی صاحب کے نظریہ داڑھی اور ان کے نقطہٴ نظر کی حقیقت وحیثیت کے بارے میں اپنے دو اکابر علما کرام کی تحریر بلفظہ پیش ِ خدمت ہے، جو کہ اس موضوع پر اور مذکورہ نظریہ کی شرعی وضاحت کے لیے نہایت ہی کافی ووافی ہیں۔ اور ان دونوں حضرات میں ایک حضرت مولانا محمد یوسف صاحب لدھیانوی شہید رحمہ اللہ اور دوسرے حضرت مولانا مفتی رشید احمد لدھیانوی صاحب رحمہ اللہ ہیں، ملاحظہ ہو:
حضرت مولانا محمد یوسف صاحب لدھیانوی شہید رحمہ اللہ کی تحریر
”مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی مدظلہ العالی نے داڑھی کی مقدار کے مسئلے پر جو کچھ لکھا ہے، اس کو اظہار ِ خیال کی سہولت کے لیے نکاتِ ذیل میں یک جا کر رہاہوں۔
1... ”داڑھی کے متعلق نبی صلی الله علیہ وسلم نے کوئی مقدار مقرر نہیں کی ہے“۔(ص:140)
2...” آپ صلی الله علیہ وسلم نے کم سے کم یہ بھی نہیں فرمایا کہ داڑھی اور مونچھ کی ٹھیک ٹھیک وہی وضع رکھو جو میری ہے، جس طرح نماز کے متعلق حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرما دیا کہ اسی طرح پڑھو جس طرح میں پڑھتا ہوں“۔ (ص:247)
3...” مجمل حکم دینے پر اکتفا کرنا اور تعین سے اجتناب کرنا خود اس بات کی دلیل ہے کہ شریعت اس معاملے میں لوگوں کو آزادی دینا چاہتی ہے کہ وہ اعفائے لحیہ اور قصِ شارب کی، جو صورت اپنے مذاق اور صورتوں کے تناسب کے لحاظ سے مناسب سمجھیں، اختیار کریں“۔ (ص: 248)
4...… ” نبی صلی الله علیہ وسلم جتنی بڑی داڑھی رکھتے تھے، اس کا تعلق ”عادتِ رسول “سے ہے“۔ (ص: 242)
اسی کی توضیح کے لیے ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں:
” رہا یہ سوال کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے داڑھی رکھنے کا حکم دیا اور اس حکم پر خود ایک خاص طرز کی داڑھی رکھ کر اس کی عملی صورت بتا دی ، لہٰذاحدیث میں حضور صلی الله علیہ وسلم کی جتنی داڑھی مذکور ہے، اتنی ہی اور ویسی ہی داڑھی رکھنا سنت ہے، تو یہ ویسا ہی استدلال ہے، جیسے کوئی شخص یہ کہے کہ حضور صلی الله علیہ وسلم نے ستر چھپانے کے لیے ایک خاص طرز کا لباس استعمال کر کے بتا دیا ، لہٰذا اسی طرز کے لباس سے تن پوشی کرنا سنت ہے“۔ (ص:249)
5... ” صرف یہ ہدایت فرمائی ہے کہ رکھی جائے“۔ (ص: 140)
6... ”داڑھی کی حدود ومقدار ، بہرحال علماء کی ایک استنباطی چیز ہے“۔ (ص:145)
یہ تمام حوالے میں نے ” رسائل ومسائل“ حصہ اول سے لیے ہیں، جسے مرکزی مکتبہ جماعت اسلامی ہند نے شائع کیا ہے۔ اب میں نمبر وار ان پر اظہارِ خیال کرتا ہوں۔
1... یہ بات کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے داڑھی کی کوئی مقدار متعین نہیں کی ہے، مولانا مدظلہ نے اپنی تحریروں میں اس طرح بار بار دُہرائی ہے کہ پڑھنے والا یہ محسوس کرنے لگتا ہے کہ کسی شے کی مقدار نبی صلی الله علیہ وسلم کے قول کے بغیر شرعاًمتعین ہو ہی نہیں سکتی ، حالاں کہ یہ اصول کسی اختلاف کے بغیر مُسلّم ْہے کہ مقدارکی تعیین اور اجمال کی تبیین جس طرح نبی صلی الله علیہ وسلم کے قول سے ہوتی ہے، اسی طرح آپ صلی الله علیہ وسلم کے فعل سے بھی ہوتی ہے اور بیسیوں مجمل اَحکام کے بیان اور متعدد مقادیر کے تعین کے لیے نبی صلی الله علیہ وسلم کے صرف افعال کو دلیل وحجت بنایا گیا ہے اور بعض کے لیے تو آپ صلی الله علیہ وسلم کے فعل کے سوا کوئی قول سرے سے موجود ہی نہیں ہے، مثال کے طور پر حدِّ خمر کے لیے کوئی نصِّ شرعی موجود نہیں ہے، چور کا ہاتھ کس جگہ سے کاٹا جائے گا؟ اس کے لیے کوئی قولِ رسول موجود نہیں ہے، تراویح میں کتنی رکعتیں ہوں؟ اس کے لیے کوئی نص موجود نہیں، تو کیا داڑھی کی مقدار کی طرح ان اَحکام میں بھی اب مسلمانوں کو یہ اختیار حاصل ہو گا کہ وہ اپنی پسند کے مطابق جو چاہیں اختیار کر لیں؟ اگر ان تمام حدود ومقادیر میں حضور صلی الله علیہ وسلم کا فعل واجب العمل ہے، تو پھر مقدارِ لحیہ کیوں اس سے خارج ہو جائے گی…؟
2...نمبر: 2 میں جو بات کہی گئی ہے، وہ نمبر : 1 کی توضیح ہے۔ اور واقعہ یہ ہے کہ مولانا کی توضیح پڑھ کر حیران رہ گیا ،اس لیے کہ انہوں نے نبی صلی الله علیہ وسلم کے ارشاد : ”صلوا کما رأیتموني أصلي“ کو صرف نماز تک محدود کر دیا ہے، یعنی: اس قول سے کوئی ایسا قاعدہ نہیں نکلتا ، جسے کسی دوسرے حکم میں راہ نما بنایا جا سکے، حالاں کہ تمام علمائے اُصول نے بالاتفاق حضور صلی الله علیہ وسلم کے اس ارشاد سے، نیز عبادتِ حج کے راہ نما ارشاد: ”خذوا عني مناسککم “ سے یہ قاعدہ اخذ کیا ہے کہ حضور صلی الله علیہ وسلم کا فعل تمام مجمل اَحکام کی تبیین کے لیے برہان کی حیثیت رکھتا ہے اور اُمت کے لیے وہی کچھ واجب العمل ہے جو آپ صلی الله علیہ وسلم کے فعل سے ثابت ہو۔
اس کے علاوہ سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ ”علیکم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدین“ (تم پر میری اور خلفائے راشدین کی سنت پر عمل کرنا لازم ہے) کا ارشاد ِ نبوی صلی الله علیہ وسلم بھی کیا سننِ ہدیٰ کی کسی خاص سنت کے ساتھ مخصوص ومحدود ہے…؟
3... اس نمبر کی عبارت پڑھ کر بھی اُصول ِ فقہ کا طالبِ علم بھی حیران ہوتا ہے، اس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید نبی صلی الله علیہ وسلم کا فعل، کسی حکمِ مجمل کا بیان بھی نہیں ہو سکتا اور اس سے کسی ابہام کی تعیین بھی نہیں ہو سکتی، سوال پیدا ہوتا ہے کہ مولانا مودودی جیسے وسیع المطالعہ اوردیدہ ور عالِمِ دِین کے قلم سے ایسی بات کیوں نکلی؟ اس سوال کا جواب نمبر:4 میں آرہا ہے۔
4... یہ ہے وہ اصل اشتباہ جس کی وجہ سے مقدارِ لحیہ کے مسئلے میں فعلِ رسول کی شرعی حیثیت مولانا مدظلہ کی نگاہوں سے اوجھل ہو گئی۔ راقم الحروف کا خیال ہے کہ مقدارِ لحیہ کے مسئلے کو سترِ عورت کے مسئلے پر قیاس کرنا قیاس مع الفارق کی ایک مثال ہے۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ سترِ عورت کا تعلق لباس سے ہے اور استعمالِ لباس میں حضور صلی الله علیہ وسلم کے فعل کو کسی نے بھی سنتِ واجب الاطاعت قرار نہیں دیا۔ تمام علماء اسے عادت وجبلت سے متعلق مانتے ہیں ، نہ کہ اس فعل سے جس کا تعلق سننِ ہدیٰ اور قربت وعبادت سے ہے۔ کیا داڑھی اور اس کی مقدار کا معاملہ بھی یہی ہے؟ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہے، کسی اِمام ِفقہ نے بھی مقدارِ لحیہ کے مسئلے میں حضور صلی الله علیہ وسلم کے فعل کو محض عادت وجبلت سے متعلق نہیں مانا، اس لیے اس مسئلے کو مسئلہ لباس پر قیاس کرنا صحیح نہیں ہے۔ اس کے علاوہ دوسرا بڑا فرق یہ ہے کہ حدود ومقدار کے لحاظ سے سترِ عورت کا حکم سِرے سے مجمل حکم ہے ہی نہیں، جس کے لیے کسی بیان کی ضرورت ہو، مثال کے طور پر جس عضو کو ڈھانکنا شرعاً واجب ہے، وہاں یہ سوال پیدا ہی نہیں ہوتا کہ اس کے کتنے حصے کو چھپایا جائے اور کتنے حصے کو کھلا چھوڑا جائے؟ اور ”واعفوا اللحیٰ“ کے حکم کو حد ومقدار کے لحاظ سے مولانا خود مجمل تسلیم کرتے ہیں، پھر اس مسئلے کو سترِ عورت کے مسئلے پر قیاس کرنا کیوں کر صحیح ہو گا …؟
5... اعفائے لحیہ کے حکم کی یہ تعبیر کہ حضور صلی الله علیہ وسلم نے صرف یہ ہدایت فرمائی ہے کہ ”داڑھی رکھی جائے“، اس حکم کو بہت ہلکا کر دیتی ہے۔ احادیث میں اس کے لیے جو الفاظ آئے ہیں، ان کا کوئی لفظ اس تعبیر کا ساتھ نہیں دیتا، بلکہ تمام الفاظ سے حضور صلی الله علیہ وسلم کی یہ ہدایت نکلتی ہے کہ داڑھی بڑھائی جائے، لمبی کی جائے اور مجوس کی مخالفت کی جائے۔ اعفائے لحیہ کے جو معنی محدثین نے بیان کیے ہیں، اس کا ذکر اُوپر آ چکا ہے، میں یہاں لغت کی چند تصریحات نقل کرتا ہوں۔
ابنِ دردیر کی ”جمھرة اللغة“ میں ہے:
”عفا شعرَہ: إذا کثُر، عفَی النبَتُ والشَّعرُ وغیرَہ: کثُر وطال، وفيالحدیث: أنہ صلی الله علیہ وسلم أمَر بإعفاء اللحیٰ وھو أن یُوَفِّرَ شعرَھا، ویُکَثِّرَ، ولا یقُصُّ کالشوارب․ العافي طویلُ الشعرِ، ویُقال للشعر إذا طال ووَفیٰ․ عفاء ً “․
قاموس میں ہے:”عفیٰ شعر البعیر: کثر وطال، فغطیٰ دبرہ، أعفیٰ اللحیة: وفرھا“․
ان تصریحات سے بھی معلوم ہوا کہ عفی اور اعفیٰ کے صیغے جب بالوں کے لیے استعمال ہوتے ہیں، تو ان کا کثیر ہونا، وافر اور طویل ہونا، ان صیغوں کی لغوی حیثیت میں داخل ہے، اس لیے ”اعفوا اللحیٰ“ کے ارشادِ نبوی سے یہ سمجھنا کہ اس میں صرف داڑھی رکھ لینے کی ہدایت ہے، لغوی معنی کے اعتبار سے بھی صحیح نہیں ہے۔
6... اُوپر جو کچھ لکھا گیا ہے، اس کو سامنے رکھ کر اگر کوئی شخص مولانا کا یہ ارشاد پڑھے گا کہ مقدارِ لحیہ محض علماء کی ایک استنباطی چیز ہے ، تو اس بات پر یقین کرنے میں سخت دشواریاں پیش آئیں گی۔ جو چیز نبی صلی الله علیہ وسلم کے قول وفعل، نیز خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عمل سے ثابت ہو، آخر کس طرح کوئی شخص اس کو محض علماء کا استنباط سمجھ لے؟ ایک مشت سے اوپر داڑھی کے بال کٹوانے کو جو علماء ناجائز کہتے ہیں، تو اس کی وجہ محض استنباط نہیں ہے، بلکہ یہ ہے کہ اس کے لیے کوئی دلیل ِ شرعی موجود نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ائمہ فقہ کے استنباطی احکام کے بارے میں عموم واطلاق کے ساتھ یہ کہنا کہ ان کی حیثیت منصوص اَحکام کی نہیں، صحیح نہیں ہے۔ ایسے استنباطی اَحکام کی متعدد مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں، جن کی حیثیت منصوص اَحکام سے کم نہیں ہے۔“(اختلاف امت اور صراطِ مستقیم،ضمیمہ:3، داڑھی کی مقدار کا مسئلہ:1/256-252، مکتبہ لدھیانوی)
حضرت مولانا مفتی رشید احمد لدھیانوی صاحب رحمہ اللہ کی تحریر
” … گذشتہ صفحات میں ہم امت کا اجماعی موٴقف دلائل کے ساتھ پیش کر چکے ہیں کہ کم ازکم مشت بھر ڈاڑھی رکھنا واجب ہے، لیکن بانیٴ جماعت اسلامی سید ابوالاعلیٰ مودودی کا مسلک اس کے بالکل مختلف ہے، وہ یہ کہ :
” ڈاڑھی کے متعلق نبی صلی الله علیہ وسلم نے کوئی مقدار مقرر نہیں کی ہے، صرف یہ ہدایت فرمائی ہے کہ رکھی جائے“۔(رسائل ومسائل:1/147)
” میرے نزدیک کسی کی ڈاڑھی کے چھوٹے یا بڑے ہونے سے کوئی خاص فرق واقع نہیں ہوتا“۔ (ایضاً:1/153)
اگر کسی حدیث میں ڈاڑھی کے متعلق صرف اتنی ہدایت ہوتی کہ رکھی جائے تو یہ کہنا کسی حد تک درست ہوتا کہ مقدارِ قبضہ (مشت بھر)حدیث کا مدلول نہیں، فقہاء کا استنباط ہے، مگر یہ بات پوری ذمہ داری سے کہی جا سکتی ہے کہ کسی حدیث میں کوئی لفظ ایسا نہیں پایا جاتا ، جس کا ترجمہ”ڈاڑھی رکھنا“ ہو ، ہم شارح مسلم امام محی الدین ابو زکریا نووی رحمہ اللہ تعالیٰ کے حوالے سے پیچھے یہ نقل کر آئے ہیں کہ ڈاڑھی کے متعلق احادیث میں کل پانچ الفاظ وارد ہوئے ہیں: اعفوا، اوفوا، اترکوا، ارجوا، وفروا․
ان تمام الفاظ کا ترجمہ عربی کی کسی بھی لغت میں دیکھ لیجیے، چھوڑ دینا، بڑھانا، دراز کرنا اور لٹکا دینا ملے گا۔ اگر مقدارِ قبضہ سے زائد کٹوا دینا بعض صحابہ کے عمل سے ثابت نہ ہوتا تو ان احادیث کی رو سے ڈاڑھی کا بے نہایت چھوڑ دینااور آخری حد تک بڑھانا واجب تھا، لیکن مرفوع احادیث اور تعاملِ صحابہ کو سامنے رکھ کر جمہور ِ امت نے یہ مسلک اختیار کیا ہے کہ کم ازکم مشت بھر ڈاڑھی واجب ہے۔ چناں چہ! مذاہبِ اربعہ سے تعلق رکھنے والے تمام علماء کی تصریحات ہم پیچھے نقل کر چکے ہیں۔ان تصریحات کا ہم یہاں اعادہ نہیں کرتے ، نمونہ کے لیے صرف ایک عبارت نقل کر دیتے ہیں۔ امت کے مسلّم ترین فقیہ وامام علامہ کمال الدین ابن الہمام رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں:”وأما الأخذ منھا\ وھي دون ذلک کما یفعلہ بعض المغاربة ومخنثة الرجال، فلم یبحہ أحد“․(فتح القدیر: 2/270)
” باقی رہا مقدارِ مشت سے چھوٹی ڈاڑھی کو کاٹنا\ جیسا کہ بعض مغربی باشندوں اور مخنث بننے والے مردوں کی عادت ہے تو (پوری امت میں) کوئی ایک عالم بھی اس کے جواز کا قائل نہیں“۔
یہ عبارت کسی آج کے عالم یامفتی کی ہوتی تو کہا جا سکتا تھا کہ مسلکی تعصب یا تنگ نظری کی بنیاد پر لکھی گئی ہے، مگر صاحب ِ عبارت تقریباً ساڑھے سات سو برس پیشتر کے بزرگ ہیں، 681 ء میں ان کی وفات ہوئی ، پھر اس عبارت میں وہ اپنا مسلک نہیں، بلکہ پوری امت کا اجماعی مسلک بیان کررہے ہیں۔
بالفرض مشت سے کم مقدار” خشخشی ڈاڑھی“ کو شرعاً درست تسلیم کر لیا جائے تو بھی یہ آپ کے نزدیک فرض، واجب یا سنت تو نہیں، صرف جائز ہی ہے، جب کہ جمہور امت کے نزدیک یہ ناجائز ہے، لیکن مشت بھر ڈاڑھی رکھناجمہور کے نزدیک واجب اور آپ حضرات کے نزدیک واجب نہ سہی، جائز تو ہے۔بانیٴ جماعت ودیگر بزرگانِ جماعت کا عمل اسی کے مطابق ہے۔ یہ دونوں صورتیں آپ کے سامنے ہیں سوچ کر خود ہی فیصلہ کیجیے کہ احتیاط اور سلامت روی کون سی صورت اختیار کرنے میں ہے؟ مشت بھر ڈاڑھی رکھنے میں یا خشخشی ڈاڑھی رکھنے میں؟ خود تومنصف باش۔ فیصلہ کرنے میں اس ارشادِ نبوت کو بھی مدنظر رکھیے: ”دع ما یریبک إلی ما لا یریبک“․(احمد، ترمذی، نسائی)
”جو کام تمہیں شک وتردد میں ڈالے،ا سے چھوڑ کر وہ کام اختیار کرو، جو شک وشبہ سے بالاتر ہو“۔
نیز! اختلافی مواقع پر یہ حدیث بھی ہر مسلمان کو سامنے رکھنی چاہیئے:”اتبعوا السودا الأعظم“․(حاکم)
ترجمہ: ”مسلمانوں کی بڑی جماعت کا اتباع کرو“۔
اگر خشخشی ڈاڑھی آپ کے نزدیک جائز ہو تو بھی مشت بھر ڈاڑھی رکھنے کی صورت میں عند اللہ کسی قسم کی جواب دہی کا خطرہ تو نہیں، لیکن اس کے برعکس سوچیے کہ اگر مشت بھر ڈاڑھی رکھنا واجب اور خشخشی ڈاڑھی ناجائز ہے تو انصاف سے کہیے، ایک ناجائز کام کا ارتکاب کر کے (اور وہ بھی ایک بار نہیں، تسلسل کے ساتھ سینکڑوں بار) آپ اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا خطرہ مول نہیں لے رہے؟
اگر کوئی شخص اس غلط فہمی میں ہے کہ چھوٹی ڈاڑھی چھوٹا گناہ ہے، علماء نے خوامخواہ اسے ہوّا بنا رکھا ہے، یہ سوچ کر اسے خاطر میں نہیں لاتا، تو اسے سمجھ لینا چاہیے کہ صغیرہ گناہ اس وقت تک صغیرہ ہے جب تک اسے ہلکا نہ سمجھا جائے اور اس پر اصرار نہ کیا جائے۔
”لاصغیرة مع الإصرارولا کبیرة مع الاستغفار“․(رواہ البیہقی في شعب الإیمان عن ابن عباس موقوفاً)․ (المقاصد الحسنة،ص:467)
” کوئی صغیرہ اصرار کے ساتھ صغیرہ نہیں رہتا اور نہ ہی کوئی کبیرہ استغفار کے ساتھ کبیرہ رہتا ہے“۔
نیز! رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ِ گرامی ہے: ”یا عائشة! إیاک ومحقرات الذنوب، فإن لھا من اللہ طالباً“․ (ابن ماجہ، دارمی، بیہقی)
”عائشہ! صغیرہ گناہوں سے دور رہو کہ ان پر بھی اللہ کی طرف سے موٴاخذہ ہو گا“۔
یہ وعیدیں بھی اس صورت میں ہیں کہ گناہ کو گناہ سمجھ کر کیا جائے، گناہ کو گناہ نہ سمجھنا تو اس سے بھی شدید تر اور خطرناک چیز ہے۔
ڈاڑھی کی مقدارِ واجب کیا ہے؟ اور اس مسئلہ میں کس کا کیا مسلک ہے؟ کون سا فریق حق پر ہے اور کون سا فریق غلطی پر؟ اس سے قطع نظر ایک صاف اور سیدھی سی بات یہ ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ کھلی کتاب کی طرح آپ کے سامنے موجود ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی ریش مبارک گھنی اور دراز تھی، اس قدر دراز جس نے سینہ مبارک کو بھر دیا تھا، کیوں نہ ہر قسم کے اختلاف سے آنکھیں بند کر کے آپ صلی الله علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کا اتباع کیا جائے؟ سچی محبت اور اسلامی دوستی کا تقاضا بھی یہی ہے۔
چناں چہ! بانیٴ جماعت ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:
” ڈاڑھی کے متعلق جو آپ نے سوال مجھ سے کیا ہے، اس پر ایک انگریز نو مسلم کا واقعہ یاد آ گیا، جس نے اسلام کا اچھا مطالعہ کرنے کے بعداس کو قبول کیا تھا۔ قبولِ اسلام کے بعد ہی اس نے ڈاڑھی مونڈنی چھوڑ دی، کہنے لگے کہ ڈاڑھی رکھنا اسلام میں کچھ ایسا ضروری کام تو ہے نہیں، پھر کیوں خوامخواہ آپ نے ڈاڑھی مونڈنی چھوڑ دی؟ اس نے جواب دیا: ”میں ضروری اور غیر ضروری کی تقسیم نہیں جانتا، میں بس یہ جانتا ہوں کہ پیغمبر نے اس کا حکم دیا ہے، جب میں نے پیغمبر کی اطاعت قبول کر لی تو حکم بجا لانا میرا فرض ہے۔ کسی ماتحت کا یہ کام نہیں ہے کہ افسر بالا کے احکام میں سے کسی کو ضروری اور کسی کو غیر ضروری قرار دے“۔(رسائل ومسائل:1/148) (اسلام میں ڈاڑھی کا مقام، ص:44 تا 47، کتاب گھر، کراچی)
ڈاڑھی کٹوانے کے مجموعی مفاسد ایک نظر میں
شیخ التفسیر حضرت مولانا محمد حسین شاہ نیلوی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ”مستورات کا بال کٹوانا اور اس کا شرعی حکم“ میں داڑھی منڈوانے کی انتالیس خرابیاں تحریر فرمائی ہیں، جن کو یہاں بعینہ نقل کیا جاتا ہے:
(1) داڑھی منڈانے میں عورتوں کے ساتھ مشابہت ہے۔
(2) داڑھی منڈانے میں ہندووٴں کے مذہب کے ساتھ مشابہت ہے، کیوں کہ ہندؤوں کے مذہب میں داڑھی منڈانا فرض ہے، جیسا کہ مولانا عبید اللہ نومسلم ولد کوٹے مل نے اپنی کتاب ”تحفة الہند“ میں ہندووٴں کا عقیدہ بیان فرمایا ہے۔
(3) داڑھی منڈانے میں قومِ نصاریٰ کی مشابہت ہے۔
(4) داڑھی منڈانے میں قومِ لوط کے غنڈوں کے ساتھ مشابہت ہے، داڑھی منڈانے کی عادت اسی قوم سے شروع ہوئی ، اس سے پہلے مسلم وغیر مسلم سب کے سب لوگ داڑھیاں رکھتے تھے۔
(5) حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت نبینا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک تمام انبیاء کی عملی طور پر مخالفت ہے۔
(6) تمام اولیاء اللہ کی داڑھیاں تھیں اور داڑھی منڈانے میں تمام اولیاء اللہ کی عملاً مخالفت ہے۔
(7) تمام صالحین وشہداء کی داڑھیاں تھیں اور داڑھی منڈانے میں ان تمام شہداء وصالحین کی عملاً مخالفت ہے۔
(8) نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے حکم دیا ہے:
”احفوا الشوارب، واعفوا اللحیٰ“․ یعنی: مونچھیں چھوٹی کرو اور داڑھیاں بڑھاوٴ۔ اب جب داڑھی منڈائی تو حضور صلی الله علیہ وسلم کے حکم کی خلاف ورزی اور نافرمانی ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول﴾․ یعنی: اللہ تعالی کی مانو اور اللہ تعالیٰ کے رسول کی مانو۔ اور فرمایا ہے:﴿ومن یعص اللہ ورسولہ، فإن لہ نار جھنم﴾ یعنی: جو شخص اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی نافرمانی کرے گا، تو اس کی خاطر جہنم کی آگ تیار ہے۔
(9) داڑھی منڈانے والے داڑھی کے بالوں کو عموماًیونہی پھینک دیتے ہیں، حالاں کہ انسان سے جد ا شدہ اعضاء، بال ، ناخن وغیرہ کو دفن کرنے کا حکم ہے، تو اس طرح حکم کی خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ انسانی شرافت کی بھی توہین ہے۔
(10) ان بالوں کی (جو سنتِ نبوی صلی الله علیہ وسلم تھے) اب توہین ہونے لگی ہے کہ پاوٴں کے نیچے آرہے ہیں اور اُڑ کر گندی جگہوں میں گر رہے ہیں۔
(11) داڑھی منڈانے والا نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی بتائی ہوئی سنتوں سے محروم رہتا ہے، مثلاً: وضو کرتے وقت داڑھی کا خلال کرنا سنت ہے، داڑھی منڈانے والا اس سنت سے محروم رہا۔
(12) داڑھی میں کنگھی کرنا سنت ہے، داڑھی منڈانے والا اس سنت سے محروم رہا۔
(13) داڑھی سفید ہو تو اس کو مہندی لگانا مستحب ہے، داڑھی منڈانے والا اس سے بھی محروم رہا۔
(14) داڑھی منڈانے والا فاسق ہے، جو داڑھی منڈاتا ہے وہ لوگوں کو اپنے فسق پر گواہ بناتا ہے کہ لوگوں ! قیامت کے دن گواہ رہنا کہ میں فاسق ہوں۔
(15) داڑھی منڈا کر اپنے فسق، یعنی: اپنے گناہ کا اظہار کرنا بھی گناہ ہے۔
(16) اگر کسی نائی کو کہے کہ آکر میری داڑھی مونڈ، تو اس کو بھی گویا فسق کے کام کا حکم دیا۔
(17) اور اس حرام کام پر اس نائی کو اجرت دی اور حرام کام پر اس کا تعاون کیا، حالاں کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ﴿وتعاونوا علی البر والتقویٰ ولا تعاونوا علی الإثم والعدوان واتقوا اللہ﴾ یعنی: ایک دوسرے کا نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں تو ضرور تعاون کرو، مگر ظلم و زیادتی کے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون نہ کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو۔
(18) اس کو حرام مال کھانے کی ترغیب دی کہ حرام کما اور حرام کھا۔
(19) تبذیر کی، یعنی: اپنا پیسہ فضول کام میں لگا کر شیطان کا بھائی بن گیا، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿ولا تبذر تبذیرا إن المبذرین کانوا اخوان الشیاطین وکان الشیطان لربہ کفورا﴾یعنی: فضول خرچی مت کرو، کیوں کہ فضو ل خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان تو اپنے رب کی نعمتوں کی قدر نہیں کرتا۔ اور داڑھی منڈانے والے نے بھی اپنے رب کی دی ہوئی نعمت؛ مال کی قدر نہ کرتے ہوئے حرام کام میں ضائع کر دیا، تو شیطان کا بھائی بنا۔
(20) داڑھی منڈانے والے نے جس طرح اپنا مال ضائع کیا، ایسے ہی اس نے داڑھی منڈانے پر جتنا وقت لگایا ہے، اتنا وقت اس نے حرام کام میں ضائع کیا۔
(21) نیکی کے کام سے اتنے وقت میں محروم رہا۔
(22) جس طرح اپنا وقت برباد کیا اسی طرح نائی کا وقت بھی حرام کام میں ضائع کر دیا۔
(23) اور نیکی کے کام سے نائی کو بھی روک دیا۔
(24) داڑھی منڈا کر اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی زینت کو قباحت میں تبدیل کر دیا اور ﴿فلیغیرن خلق اللہ﴾ کے تحت اللہ تعالیٰ کو ناراض کیا، یہ گناہ الگ اپنے سر چڑھایا۔
(25) شیطان کو خوش کیا، یہ گناہ بھی اپنے سر لیا۔
(26) داڑھی منڈا کے شیشہ دیکھتا ہے اور قبیح شرعی کو اپنے زعم میں حسین سمجھتا ہے، یہ بھی گناہ ہے۔
(27) داڑھی منڈانے والے عموماً داڑھی والوں کو برا سمجھتے ہیں۔
(28) داڑھی والوں کے بارے میں کہانیاں اور کہاوتیں بناتے ہیں۔
(29) بکرے اور چھیلے اور سکھوں کے ساتھ تشبیہ دیتے ہیں اور مختلف پیراوٴں میں اشارے کرتے ہیں۔
(30) سنتِ رسول کا استہزا لازم آتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ تمام پیغمبروں، اولیاء، صوفیاء اور نیک لوگوں کی توہین اور استہزا لازم آتا ہے۔
(31) داڑھی منڈانے والے زبان سے بھی کہہ دیتے ہیں کہ ہم داڑھی والوں کی طرح داڑھی کی آڑ میں شکار نہیں کرتے۔
(32) غیر قومیں داڑھی منڈانے سے خوش ہوتی ہیں اور داڑھی والوں پر پھبتیاں اڑاتی ہیں۔
(33) داڑھی منڈانے سے شرم وحیا نہیں رہتا اور داڑھی منڈانے والا ہر گناہ بغیر جھجک کے کر گذرتا ہے اور داڑھی والا کچھ تو اپنی داڑھی کی لاج رکھے گا کہ اگر کوئی غلط کام اس سے ہو جائے تو طعنہ دینے والے اس کو طعنہ دیں گے اور شرمندہ ہو گا۔
(34) داڑھی منڈانے کے بارے میں کسی نے سوال کیا تو کہنا پڑتا ہے کہ ”فلاں! جو داڑھی منڈاتا ہے، وہ …؟“ تو غیبت کا ارتکاب ہوا اور اس غیبت کا سبب داڑھی منڈانے والاہو جائے گا۔
(35) داڑھی منڈوانے والے کی شہادت ناقابلِ اعتبار ہے، جیسا کہ تمام فقہاء نے لکھا ہے۔
(36) نائی نے کسی کی داڑھی مونڈی اور اتفاق سے ایسا ہو گیا کہ جس کی داڑھی مونڈی تھی ، اس کی داڑھی اگنے سے رُک گئی، یعنی: وہ آدمی کھوجا ہو گیا، تو فقہاء نے لکھا ہے کہ اس نائی پر دیت لازم آئے گی، یعنی: اس کو جس کی داڑھی نہیں اُگی، سو اونٹ دینے (نائی کے ذمے)لازم ہوں گے۔
(37) داڑھی منڈانے والا اذان واقامت سے محروم ہو گیا، اس کی اذان واقامت مکروہ ہے۔
(38) داڑھی منڈانے والا امام نہیں بن سکتا، اس کی امامت مکروہ ہے۔
(39) داڑھی منڈانے والا نہ جمعہ پڑھ سکتا ہے، نہ عید پڑھ سکتا ہے، کیوں کہ داڑھی منڈانے والا فاسق ہے اور فقہاء ِ کرام نے قاعدہ لکھا ہے: ”کل صلاة أدیت مع الکراھة وجبت إعادتھا“ جو نماز کراہت کے ساتھ ادا کی جائے، اس کا دُہرانا ضروری ہوتا ہے، تا کہ بغیر کراہت کے نماز صحیح ہو سکے اور عیدین وجمعہ کی نماز کا اعادہ نہیں ہوتا، اس سے معلوم ہوا کہ یہ جُرم اس قدر بڑا ہے کہ اس کا تدارک مشکل ہے۔(ص: 41 تا 48)
شیخ التفسیر حضرت مولانا محمد حسین شاہ نیلوی رحمہ اللہ کا کلام ختم ہوا، اس کے آخری مسئلہ کے بارے میں جمہور علمائے کرام کا موٴقف یہ ہے کہ فاسق کی نماز میں کراہت دو طرح کی ہوسکتی ہے ، ایک: وہ کراہت جو صُلبِ نماز میں پائی جائے اور دوسری وہ کراہت جو اس فاسق نمازی کی ذات میں پائی جائے، پہلی قسم کی کراہت پائے جانے کی صورت میں اس نماز کا اعادہ واجب ہے اور دوسری قسم کی کراہت پائے جانے کی صورت میں گناہ تو ضرور ہو گا، لیکن اس نماز کا اعادہ واجب نہیں ہے، نماز کراہتِ تحریمی کے ساتھ ذمہ سے ساقط ہو جائے گی۔ اور مذکور الذکر مسئلہ میں داڑھی کٹوانے یا منڈانے کی وجہ سے کراہت صُلبِ نماز میں نہیں ،بلکہ اس نمازی میں پیدا ہو گی، جس کی وجہ سے نماز بالکراہت ذمہ سے اتر جائے گی اور اعادہ کا حکم نہیں ہو گا۔