قناعت کے راہ نما اصول
مفتی ثناء الله ڈیروی
استاد ورفیق شعبہ تصنیف وتالیف، جامعہ فاروقیہ کراچی
فہرست
زہد فی الدنیا کا مطلب
آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”الزھادة في الدنیا لیست بتحریم الحلال ولا إضاعة المال، ولکن الزھادة فی الدنیا أن لا تکون بما في یدیک أوثق مما فی ید الله، وأن تکون في ثواب المصیبة إذا أنت أصبت بھا أرغب فیھا لو أنھا أبقیت لک“․( سنن الترمذی، ابواب الزھد، باب ما جاء فی الزھادة فی الدنیا، رقم الحدیث:2333)
دنیا کی بے رغبتی حلال کو حرام کرنا نہیں ہے اور نہ مال کو ضائع کرنا ہے، بلکہ دنیا کی بے رغبتی یہ ہے کہ آپ اس چیز پر جو آپ کے ہاتھ میں ہے ، زیادہ بھروسہ کرنے والے نہ ہوں، اس سے جو الله کے ہاتھ میں ہے، یعنی جو کچھ آپ کے پاس ہے ، آپ کا اس سے زیادہ بھروسہ اس چیز پر ہونا چاہیے جو الله کے پا س ہے، اور یہ کہ آپ اس مصیبت کے ثواب میں جب کہ وہ مصیبت آپ کو پہنچائی جائے، زیادہ رغبت کرنے والے ہوں، اس سے کہ وہ مصیبت آپ کے لیے باقی رکھی جاتی، یعنی نہ پہنچائی جاتی، یعنی جب آپ کو کوئی تکلیف او رناخوش گوار حالت پیش آئے، تو اس کے اخروی ثواب کی رغبت آپ کے دل میں زیادہ ہونی چاہیے، اس خواہش سے کہ وہ تکلیف اور ناخوش گوار بات آپ کو نہ پہنچائی جاتی۔
مال لوگوں کے قائم رہنے کا ذریعہ
قرآن کریم نے صرف دو چیزوں کو لوگوں کا سہارا قرار دیا ہے، ایک بیت الله کو، دوسرے مال کو۔
چناں چہ سورة المائدہ آیت:97 میں کعبہ شریف کے تعلق سے ارشاد پاک ہے:﴿جَعَلَ اللّہُ الْکَعْبَةَ الْبَیْْتَ الْحَرَامَ قِیَاماً لِّلنَّاسِ﴾․
یعنی الله تعالیٰ نے کعبہ کو، جو کہ ادب کی جگہ ہے، لوگوں کے قائم رہنے کا سبب قرار دیا ہے، یعنی اس کی بقا تک عالم کی بقا مقدر ہے۔
چناں چہ جب تک دنیا کا ہر ملک ہر خطہ اور ہر سمت کے لوگ اس بیت الله کی طرف متوجہ ہو کر نماز ادا کرتے رہیں گے او ربیت الله کا حج ہوتا رہے گا، یعنی جن پر حج فرض ہو وہ حج ادا کرتے رہیں ، اس وقت تک یہ دنیا قائم اور محفوظ رہے گی اور اگر ایک سال بھی ایسا ہو جائے کہ کوئی حج نہ کرے ، یا کوئی شخص بیت الله کی طرف متوجہ ہو کر نماز ادا نہ کرے تو پوری دنیا پر عذاب عام آجائے گا۔
اور دوسری چیز ،جس کو سہارا قرار دیا گیا ہے ، وہ مال ہے ۔
چناں چہ سورہ نساء، آیت :5 میں ہے:﴿وَلاَ تُؤْتُواْ السُّفَہَاء أَمْوَالَکُمُ الَّتِیْ جَعَلَ اللّہُ لَکُمْ قِیَاماً﴾․
یعنی تم کم عقلوں ( یتیموں) کو ان کے وہ مال مت دو، جن کو الله تعالیٰ نے تمہارے لیے مایہ زندگی بنایا ہے، یعنی زندگی مال کے سہارے قائم رہتی ہے۔
مال کو فضول خرچ کرنے کی ممانعت
الله تعالیٰ نے مال کو بے جا خرچ کرنے سے منع فرمایا:
چناں چہ قرآن کریم کی آیت ہے:﴿وَلاَ تُبَذِّرْ تَبْذِیْراً، إِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُواْ إِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِ ﴾․(سورہ بنی اسرائیل)
او رمت اڑا مال بے جا، بے شک (مال) اڑانے والے بھائی ہیں شیطانوں کے۔
تبذیر اور اسراف کا مطلب
فضول خرچی کے معنی کو قرآن حکیم نے دو لفظوں سے تعبیر فرمایا ہے، ایک تبذیر اور دوسرے اسراف، تبذیر کی ممانعت تواسی آیت مذکورہ میں واضح ہے، اسراف کی ممانعت والی آیت:﴿وَلاَ تُسْرِفُواْ إِنَّہُ لاَ یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْن﴾․ (سورہ انعام:141)
اور اسراف مت کرو، بے شک وہ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ اس آیت سے اسراف کی ممانعت ثابت ہے۔
بعض حضرات نے فرمایا کہ دونوں لفظ ہم معنی ہیں، کسی معصیت میں یا بے موقع بے محل خرچ کرنے کو تبذیر واسراف کہا جاتا ہے۔
او ربعض حضرات نے یہ تفصیل کی ہے کہ کسی گناہ میں یا بالکل بے موقع، بے محل خرچ کرنے کو تبذیر کہتے ہیں او رجہاں خرچ کرنے کا جائز موقع تو ہو، مگر ضرورت سے زائد خرچ کیا جائے، اس کو اسراف کہتے ہیں ، اس لیے تبذیر بہ نسبت اسراف کے اشد ہے۔ (تفسیر روح المعانی، سورہ بنی اسرائیل:26،15/82، داراحیاء التراث العربی)
امام تفسیر حضرت مجاہد رحمہ الله نے فرمایا کہ اگر کوئی اپنا سارا مال حق کے لیے خرچ کر دے ، تو وہ تبذیر نہیں او راگر باطل کے لیے ایک مدّ (آدھ سیر) بھی خرچ کرے، تو وہ تبذیر ہے۔
امام مالک رحمہ الله نے فرمایا کہ تبذیر یہ ہے کہ انسان مال کو حاصل تو حق کے مطابق کرے، مگر خلاف حق خرچ کر ڈالے او راس کا نام اسراف بھی ہے او ریہ حرام ہے ۔ (الجامع لأحکام القرآن للقرطبی، سورہ بنی اسرائیل:26،10/247، دارالفکر)
امام قرطبی رحمہ الله نے فرمایا کہ حرام وناجائز کام میں توایک درھم خرچ کرنا بھی تبذیر ہے او رجائر مباح خواہشات میں حد سے زیادہ خرچ کرنا جس سے آئندہ محتاج فقیر ہو جانے کا خطرہ ہو جائے، یہ بھی تبذیر میں داخل ہے۔ ہاں! اگر کوئی شخص اصل رأس المال کو محفوظ رکھتے ہوئے اس کے منافع کو اپنی جائز خواہشات میں وسعت کے ساتھ خرچ کرتا ہے ، تو وہ تبذیر میں داخل نہیں۔(تفسیر قرطبی10/248، دارالفکر)
واقعہ
حضرت خواجہ عبیدالله احرار رحمہ الله بڑے دولت مند تھے، ان کی خدمت میں بہت دور سے ایک مرید آیا، وہ خواجہ صاحب کا ٹھاٹھ دیکھ کر دنگ رہ گیا، اس کے دل میں وسوسہ آیا کہ یہ کیسے بزرگ ہیں؟ اس نے خانقاہ کے دروازے پر لکھ دیا #
نہ مرد است آنکہ دنیا دوست دارد
یعنی جو دنیا سے محبت رکھتا ہے، وہ بزرگ نہیں ہو سکتا۔
کسی نے خواجہ صاحب سے اس کاتذکرہ کیا، تو فرمایا کہ اس کے نیچے لکھ دو #
وگر دارد برائے دوست دارد
یعنی اگر دنیا الله کے لیے رکھتا ہے تو اس میں کچھ مضائقہ نہیں ۔ وہ شخص بزرگ ہو سکتا ہے۔
بنی سرائیل کے تین آدمیوں کا قصہ
”مسلم شریف“ میں آپ صلی الله علیہ وسلم کا بیان فرمایا ہوا ایک قصہ مذکور ہے کہ بنی اسرائیل میں تین آدمی تھے، ایک کوڑھی، دوسرا گنجا، تیسرا نابینا تھا، الله تعالیٰ نے ان تینوں کی آزمائش کا ارادہ فرمایا، چناں چہ ان کی طرف ایک فرشتہ بھیجا، وہ فرشتہ کوڑھی کے پاس آیا او را س سے کہا کہ تجھے کون سی چیز پسند ہے؟ کوڑھی کہنے لگا، خوب صورت رنگ ہو اور خوب صورت جلد ہو، اور یہ جو مجھے بیماری لگی ہوئی ہے، جس کو لوگ ناپسند کرتے ہیں، یہ مجھ سے دور ہوجائے۔ تو اس فرشتے نے اس پر ہاتھ پھیرا تو اس سے وہ بیماری ختم ہو گئی اور خوب صورت رنگ اور جلد عطا کی گئی ، پھر فرشتے نے اس سے پوچھا کہ کون سا مال آپ کو پسند ہے؟وہ بولا، اونٹ۔ تو اس کو دس مہینے کی حاملہ اونٹنی عطا کر دی اور اس میں برکت کی دعا دی پھر وہ فرشتہ گنجے آدمی کے پاس آیا اور اس سے پوچھا کہ آپ کو کیا پسند ہے؟ تو اس نے کہا کہ خوب صورت بال اور یہ کہ گنجاپن، جس کو لوگ ناپسند کرتے ہیں، یہ ختم ہو جائے، تو اس فرشتے نے اس کے سر پر ہاتھپھیرا، جس سے اس کا گنجا پن ختم ہو گیا او راسے خوب صورت بال عطا کر دیے گئے، پھر مال کے بارے میں پوچھا کہ کون سا مال پسند ہے؟اس نے کہا، گائے، لہٰذا فرشتے نے اس کو حاملہ گائے عطا کردی اور برکت کی دعا دی، پھر نابینا کے پاس آئے او راس سے پوچھا کہ آپ کو کیا پسند ہے ، اس نے کہا کہ الله تعالیٰ میری بینائی لوٹا دیں، تاکہ میں لوگوں کو دیکھوں۔ چناں چہ فرشتے نے اس کی آنکھوں پر ہاتھ پھیراتو الله تعالیٰ نے اس کیبینائی لوٹا دی، پھر پوچھا کہ کون سا مال پسند ہے؟ تو اس نے بکریوں کا کہا، لہٰذا اسے گابھن بکری دے دی گئی۔
ان اونٹنیوں او رگائے او ربکریوں نے بچے جنیں او رکوڑھی آدمی کے پاس اونٹوں سے جنگل بھر گیا ، گنجے آدمی کی گائیوں سے ایک وادی بھر گئی اور اندھے آدمی کا بکریوں کا ریوڑ ہو گیا۔
آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ کچھ عرصہ کے بعد وہی فرشتہ اپنی پہلی شکل وصورت میں کوڑھی آدمی کے پاس گیا اور اسے کہا کہ میں ایک مسکین آدمی ہوں اور سفر میں میرا سارا زاد راہ ختم ہو گیا ہے جس کی وجہ سے میں آج اپنی منزل مقصود پر سوائے الله تعالیٰ کی مدد کے نہیں پہنچ سکتا، تو میں تجھ سے اسی کے نام پر سوال کرتا ہوں کہ جس نے تجھے خوب صورت رنگ اور جلد او راونٹ کا مال عطا فرمایا، مجھے صرف ایک اونٹ دے دے، جو میرے سفر میں کام آئے، وہ کوڑھی کہنے لگا، میرے اوپر بہت زیادہ حقوق ہیں، فرشتے نے کہا کہ میں تجھے پہچانتا ہوں، کیا تو کوڑھی اور محتاج نہیں تھا؟ تجھ سے لوگ نفرت کرتے تھے، پھر الله تعالیٰ نے تجھے یہ مال عطا فرمایا، وہ کوڑھی کہنے لگا یہ مال تو مجھے میرے باپ دادا کی میراث میں ملا ہے۔ فرشتے نے کہا کہ اگر تو جھوٹ کہہ رہا ہے تو پھر الله تعالیٰ تجھے اسی طرح کر دے جس طرح کہ تو پہلے تھا۔
آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر فرشتہ اپنی اسی شکل وصورت میں گنجے کے پاس آیا اور اس سے بھی وہی کہا جو کچھ کوڑھی سے کہا تھا، پھر اس گنجے نے بھی وہی جواب دیا، جو کوڑھی نے دیا تھا، فرشتے نے اس سے بھی وہی کہا کہ اگر تو جھوٹا ہے، تو الله تعالیٰ تجھے اسی طرح کردے، جس طرح کہ تو پہلے تھا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: پھر فرشتہ اپنی اسی شکل وصورت میں اندھے کے پاس آیا او رکہا میں ایک مسکین اور مسافر آدمی ہوں اور میرے سفر کے تمام اسباب وغیرہ ختم ہو گئے ہیں اور میں آج سوائے الله تعالیٰ کی مدد کے اپنی منزل مقصود پر نہیں پہنچ سکتا، میں تجھ سے اسی الله کے نام پہ کہ جس نے تجھے بینائی عطاکی، ایک بکری کا سوال کرتا ہوں، جو کہ مجھے میرے سفر میں کام آئے، وہ اندھا کہنے لگا ، کہ میں بلاشبہ اندھا تھا، پھر الله تعالیٰ نے مجھے میری بینائی واپس لوٹا دی، الله کی قسم! میں آج تمہارے ہاتھ نہیں روکونگا، تم جو چاہو میرے مال سے لے لو اور جو چاہو چھوڑ دو، تو فرشتے نے اندھے سے کہا، تم اپنا مال رہنے دو، کیوں کہ تم تینوں کو آزمایا گیا ہے تو الله تعالیٰ تجھ سے راضی ہو گیا ہے اور تیرے دونوں ساتھیوں سے ناراض ہو گیا ہے۔ (الجامع للمسلم، کتاب الزھد،408/2،قدیمی)
حصول دنیا میں نیت اچھی ہونی چاہیے
آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
”انما الدنیا لأربعة نفر: عبد رزقہ الله مالا وعلما، فھو یتقی ربہ فیہ، ویصل بہ رحمہ، ویعلم لله فیہ حقا، فہذا بأفضل المنازل، وعبد رزقہ الله علما، ولم یرزقہ مالا، فھو صادق النیة، یقول: لو أن لی مالا لعملت فیہ بعمل فلان، فھو بنیتہ، فأجرھما سواء وعبد رزقہ الله مالا، ولم یرزقہ علما، فھو یخبط فی مالہ بغیر علم، لا یتقی فیہ ربہ، ولا یصل فیہ رحمہ، ولا یعلم لله فیہ حقا، فھذا بأخبث المنازل، وعبد لم یرزقہ الله مالا ولا علما، فھو یقول: لو أن لی مالا لعملت فیہ بعمل فلان فھو بنیتہ، فوزرھما سواء“․ (سنن الترمذی، کتاب الزھد، با ب ماجاء مثَل الدنیا مثَل اربعة نفر، رقم الحدیث:2325)
دنیا چار قسم کے آدمیوں کے لیے ہے ، یعنی دنیا میں چار طرح کے لوگ ہیں:
ایک وہ بندہ جس کو الله تعالیٰ نے مال اور علم دیا ہے ، پس وہ اس مال کے خرچ کرنے میں الله سے ڈرتا ہے، وہ اس کے ذریعے رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کرتا ہے اور اس مال میں جو الله تعالیٰ کا حق ہے ، اسے پہچانتا ہے، پس یہ بندہ سب سے اعلیٰ مرتبہ پر فائز ہو گا۔
دوسرا وہ بندہ ہے جس کو الله تعالیٰ نے علم عطافرمایا ہے، مگر اس کو مال نہیں دیا، پس اس کی پکی نیت ہے اور وہ دل میں سوچتا ہے ، اگر مجھے مال ملتا تو میں بھی فلاں ( پہلی قسم کے آدمی) کی طرح اس کو کام میں لاتا، یعنی الله کی ہدایت کے مطابق اس کو مصارف خیر میں خرچ کرتا، پس ان دونوں کا اجر برابر ہے، یعنی یہ دوسرا بندہ حسن نیت کی وجہ سے ثواب میں پہلے بندے کے برابر ہے۔
تیسرا وہ بندہ ہے، جس کوالله تعالیٰ نے مال دیا ہے ، مگر اس کو علم نہیں دیا، پس وہ اپنے مال میں علم کے بغیر اس مال کو اندھا دھند غلط راہوں میں خرچ کرتا ہے، وہ اس مال میں اپنے پروردگار سے نہیں ڈرتا او رنہ اس کے ذریعے صلہ رحمی کرتا ہے اور وہ اس مال میں الله کا حق نہیں پہچانتا، پس یہ بندہ نہایت برے مقام میں ہو گا۔
چوتھا وہ بندہ ہے، جس کو الله تعالیٰ نے نہ مال دیا ہے، نہ علم، وہ (دل میں سوچتا ہے ) اگر مجھے مال ملتا، تو میں بھی فلاں ( عیاش اور فضول خرچ بندے) کی طرح اس کو اڑاتا، پس وہ اپنی نیت کے مطابق ہے اور دونوں کا گناہ برابر ہے، یعنی یہ چوتھا بندہ اپنی بری نیت کی وجہ سے تیسرے بندے کی طرح گناہ گار ہے۔
جو نعمتیں ملی ہیں او رجو نہیں ملیں، ان کے بارے میں بہترین دعا
آپ صلی الله علیہ وسلم دعا فرماتے تھے:”اللھم ارزقنی حبک، وحب من ینفعنی حبہ عندک، اللھم مارزقتنی مما أحب فاجعلہ قوة لی فیما تحب، اللھم مازویت عنی مما أحب فاجعلہ فراغا لی فیما تحبّ“․(سنن الترمذی، ابواب الدعوات، رقم الحدیث:3513)
اے الله !مجھے اپنی محبت نصیب فرما او راس کی محبت نصیب فرما، جس کی محبت آپ کینزدیک سود مند ہے، اے الله !جو چیزیں آپ نے مجھے میری پسند کی چیزوں میں سے نصیب فرمائی ہیں ان کو میرے لیے ان کاموں میں قوت کا ذریعہ بنا ، جو آپ کو پسند ہیں۔ اے الله! آپ نے میری پسند کی چیزوں میں سے جو کچھ مجھ سے دور رکھا ہے، یعنی عنایت نہیں فرمایا، اس کو میرے لیے فراغ بالی کا ذریعہ بنا، ان کاموں میں مشغول ہونے کے لیے جو آپ کو پسند ہیں۔
لہٰذا مومن کو الله تعالیٰ کی بخشی ہوئی نعمتیں طاعات میں استعمال کرنی چاہییں او راس کے لیے دعا بھی کرنی چاہیے ،کیوں کہ الله کی توفیق کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا اور جو نعمتیں الله نے اپنی حکمت بالغہ سے روک لی ہیں ان پررال نہیں ٹپکانی چاہیے، بلکہ اس کو طاعات کے لیے فراغ بالی کا ذریعہ سمجھنا چاہیے، کیوں کہ دنیا کاجھمیلا کبھی عبادتوں میں مشغولیت کے لیے مانع بن جاتا ہے، پس ان نعمتوں کا نہ ملنا ہی بہتر ہے۔