Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الثانیہ 1435ھ

ہ رسالہ

5 - 16
نسخ کی حقیقت

استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ
	
ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہلسنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے او رحضرت کا سایہ تادیر ہم پر قائم رکھے۔ آمین۔ (ادارہ)

﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَقُولُواْ رَاعِنَا وَقُولُواْ انظُرْنَا وَاسْمَعُوا ْوَلِلکَافِرِیْنَ عَذَابٌ أَلِیْمٌ،مَّا یَوَدُّ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ مِنْ أَہْلِ الْکِتَابِ وَلاَ الْمُشْرِکِیْنَ أَن یُنَزَّلَ عَلَیْْکُم مِّنْ خَیْْرٍ مِّن رَّبِّکُمْ وَاللّہُ یَخْتَصُّ بِرَحْمَتِہِ مَن یَشَاءُ وَاللّہُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ ﴾․ ( البقرة، آیت:105-104)
”اے ایمان والو! تم نہ کہو ”راعنا“ اورکہو ”انظرنا“ اور سنتے رہو اور کافروں کو عذاب ہے درد ناک ،دل نہیں چاہتا ان لوگوں کا جو کافر ہیں اہل کتاب میں اور نہ مشرکوں میں اس بات کو کہ اترے تم پر کوئی نیک بات، تمہارے رب کی طرف سے اور الله خاص کر لیتا ہے اپنی رحمت کے ساتھ جس کو چاہے اور الله بڑے فضل والا ہے“۔

یہودی جب آپ صلی الله علیہ وسلم کی کسی مجلس میں آتے تو آپ علیہ السلام کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے کے لیے ”راعنا“ کا لفظ استعمال فرماتے۔

”راعنا“ یہودیوں کی عبرانی زبان میں بد دعائیہ جملہ ہے، یہودی اسی بدنیتی سے آپ کو مخاطب ہوتے، عربی زبان میں اس کا مطلب ہے ”ہماری مصلحت کی رعایت فرمائیے“ صحابہ کرام رضی الله عنہم بھی بعض اوقات یہودیوں کی شرارت سے بے خبر اور خالی الذہن ہونے کی وجہ سے آپ صلی الله علیہ وسلم کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے کے لیے یہی کلمہ استعمال کر لیتے، جس پر یہودی بڑے خوش ہوتے کہ اب تک تو ہم خفیہ مذاق اڑاتے رہے، لیکن اب اعلانیہ مذاق اڑانے کی ایسی تدبیر ہاتھ آگئی ہے کہ مسلمان بھی ہمارے ساتھ شریک ہونے لگے ہیں۔ الله تعالیٰ نے آیت نازل فرماکر اہل ایمان کو ”راعنا“ کے تخاطب سے روک دیا، اس کے متبادل جملے”انظرنا“ (ہماری طرف نظرکرم فرمائیے)سے تخاطب کا حکم دیا، تاکہ یہودیوں کو اپنی شرارت پھیلانے کا موقع نہ مل سکے۔ (اخرج ابو نعیم فی الدلائل عن ابن عباس رضی الله عنہ أن یھود کان یقولون ذلک سراً لرسول الله صلی الله علیہ وسلم، وھو سب قبیح بلسانھم، فلما سمعوا اصحابہ علیہ الصلاة والسلام یقولون، اعلنوا بھا، فکانوا یقولون ذلک، ویضحکون فیما بینھم، فأنزل الله تعالیٰ ھذہ الاٰیة․ روح المعانی، البقرة، تحت آیہ رقم:104)

اسی آیت سے فقہاء نے استدلال کیا ہے کہ ایسے الفاظ جن سے مدح وذم کے دونوں پہلو نکلتے ہوں انہیں انبیاء علیہم السلام کے حق میں استعمال کرنے سے مطلقاً احتیاط کرنی چاہیے۔ (وھذا یدل علی أن کل لفظ احتمل الخیر والشر فغیر جائز اطلاقہ، حتی یقید بما یفید الخیر، احکام القرآن للجصاص، البقرة، تحت آیة رقم:104)

نیز اسی آیت سے فقہاء نے سدّذرائع کا قاعدہ اخذ کیا ہے۔ یعنی اگر جائز فعل سے کسی ناجائز فعل کو شہ ملتی ہو تو جائز فعل بھی ترک کر دینا چاہیے، بشرطِ کہ وہ فعل شرعاً ضروری اور مقاصد شریعت میں سے نہ ہو۔( الدلیل الثانی: التمسک بسد الذرائع… وقد دل علی ھذا الأصل الکتاب والسنة․ الذریعة عبارة عن أمر غیر ممنوع لنفسہ یخاف من ارتکابہ الوقوع فی ممنوع، الجامع لاحکام القرآن للقرطبی، البقرة تحت آیہ رقم:104)

احادیث وآثار میں اس کی بہت ساری مثالیں ہیں۔ مثلاً حضرت عائشہ رضی الله عہا فرماتی ہیں، میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے دریافت کیا! کیا حطیم بیت الله کا حصہ ہے ؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں ! پھر لوگوں نے اسے بیت الله میں داخل کیوں نہیں کیا؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہاری قوم کے پاس خرچہ کم پڑ گیا تھا ( اس لیے یہ حصہ بیت الله میں داخل ہونے سے رہ گیا) میں نے پوچھا کہ اس کا دروازہ کیوں اونچا ہے؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری قوم نے اس کا دروازہ اونچا رکھا،تاکہ جسے چاہیں جانے دیں جسے چاہیں روک دیں۔ اگر تمہاری قوم زمانہ جاہلیت کے قریب نہ ہوتی اور مجھے ان کے دلوں کی ناگواری کا خوف نہ ہوتا تو حطیم کو بیت الله میں داخل کر دیتا اور اس کا دروازہ زمین سے ملا دیتا۔ چوں کہ یہ فعل شرعاً واجب تھا نہ مستحب اور نہ ہی مقاصد شریعت سے کوئی تعلق رکھتا تھا، اس لیے آپ نے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔( الصحیح للبخاری، باب فضل مکة، رقم الحدیث:1584)

﴿مایود الذین کفروا من اھل الکتب…﴾

گزشتہ آیت میں یہودیوں کا آنحضرت صلی الله علیہ وسلم سے برتاؤ کا ذکر تھا، اس آیت میں مسلمانوں سے ان کے برتاؤ اورر ویے کا تذکرہ ہے۔

یہودی دو دعوے کرتے تھے، ایک یہ کہ یہودیت اسلام سے بہتر ہے۔ دوم یہ کہ ہم تمہارے دل وجان سے خیر خواہ ہیں، پہلا دعوی تو نرا دعوی ہی ہے، اس لیے اس کی تردید پر کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے، جہاں تک ان کی خیر خواہی کا تعلق ہے ،اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہودی ہوں یا مشرک انہیں یہ کسی طرح گوارا نہیں کہ خیر ورحمت کا نزول مسلمانوں پر ہو ۔ یہودی اس حسد میں مبتلا تھے کہ نبی آخر الزمان بنی اسرائیل کے بجائے بنی اسماعیل میں کیوں پیدا ہوئے؟ سرداران مشرکین اس غم میں مبتلا تھے کہ ہمارا اقتدار خطرے میں ہے، یہ منصب ہمیں کیوں نہیں ملا؟ مگر انہیں معلوم نہیں کہ نبوّت کسی فرد یا قوم کے کسبی عمل کا نتیجہ نہیں ہوتا ،بلکہ یہ خالص الله کا فضل ہے، وہ جسے چاہے اس سے نواز دے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ اہل کتاب یعنی یہود ونصاری مسلمانوں سے کبھی بھی خیر خواہ اور وفادار نہیں ہو سکتے۔ ان کے رفاہی کاموں اور دعوؤں میں بھی دین دشمنی اور کفر والحاد کے ترویجی مقاصد پنہاں ہوتے ہیں۔

﴿ مَا نَنسَخْ مِنْ آیَةٍ أَوْ نُنسِہَا نَأْتِ بِخَیْْرٍ مِّنْہَا أَوْ مِثْلِہَا أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللّہَ عَلَیَ کُلِّ شَیْْء ٍ قَدِیْرٌ ،أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللّہَ لَہُ مُلْکُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَمَا لَکُم مِّن دُونِ اللّہِ مِن وَلِیٍّ وَلاَ نَصِیْرٍِ﴾․ (البقرة، آیہ رقم:107-106)
ترجمہ:” جو منسوخ کرتے ہم کوئی آیت یا بھلا دیتے ہیں تو بھیج دیتے ہیں اس سے بہتر یا اس کے برابر ۔کیا تجھ کو معلوم نہیں کہ الله ہر چیز پر قادر ہے؟ کیا تجھ کو معلوم نہیں کہ الله ہی کے لیے ہے سلطنت آسمان اور زمین کی؟ اور نہیں تمہارے واسطے الله کے سوا کوئی حمایتی اور نہ مدد گار“۔

تفسیر: شان نزول
یہود او رمشرکین کو قرآن کریم کے متعلق کلام الہٰی ہونے پر شبہ تھا، ان کے بقول قرآن کریم کبھی سابقہ شریعت کو منسوخ کرکے نئی شریعت کا اعلان کرتا ہے او رکبھی اپنے ہی احکام بدل کر نئے احکام کی تعلیم دیتا ہے۔ احکام کی تبدیلی دو وجہوں سے ہو سکتی ہے۔ پہلا حکم غلط ہو، اس لیے دوسرا حکم صادر کرنا پڑے۔ پہلا حکم حالات زمانہ سے مناسبت نہ رکھے، اس لیے بدلتے حالات کے ساتھ حکم تبدیل کرنا پڑے۔

یہ دونوں صورتیں اس ذات سے صادر ہو ں گی جس کا علم ناقص ہو گا، الله تعالیٰ کی ذات علیم وخبیرذات ہے ، اس کے ہر فیصلے کی بنیاد علم کامل ہے، وہ کبھی غلط نہیں ہو سکتا کہ اسے اپنا حکم منسوخ کرنا پڑے ،چناں چہ یہودی از راہ تعجب ایک دوسرے کو بتاتے کہ دیکھو محمد( صلی الله علیہ وسلم) اپنے صحابہ کو جس چیز کا آج حکم دیتے ہیں، کل اسی چیز سے روک کر کوئی نیا حکم جاری کر دیتے ہیں ، قرآن کریم ان کا اپنا گھڑا ہوا کلام ہے ، اگر واقعی کلام الہٰی ہوتا تو اس قدر متعارض نہ ہوتا۔ (نزلت مما قال المشرکون، أوالیھود: ألاترون إلی محمد، یأمر أصحابہ بأمر، ثم ینھاھم عنہ․ یأمرھم بخلافہ… ما ھذا القرآن إلا کلام یقولہ من تلقاء نفسہ، وھو کلام یناقض بعضہ بعضاً․ روح المعانی، البقرة تحت آیہ رقم:106)

نسخ کی تعریف
نسخ لغت میں کسی چیز کو مٹانا، تبدیل کرنا، ایک مقام سے دوسرے مکان کی طرف نقل کرنے کا نام ہے۔ (الجامع لاحکام القرآن القرطبی،البقرہ تحت اٰیہ رقم:106) کتاب وسنت کی اصطلاح میں کسی حکم کی انتہائے مدت بیان کرکے اس کی جگہ دوسرا حکم جاری کر دینے کا نام نسخ ہے ۔یہ دوسرا حکم خواہ سابقہ حکم کے اختتام کے متعلق ہو ،یا کسی نئے حکم کے جاری کرنے کی اطلاع کے متعلق ہو ۔ (روح المعانی، البقرة تحت آیہ رقم:106) یہی تعریف کسی قدر الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ علامہ رازی، علامہ سرخسی، ابن حاجب مالکی، ابوبکر باقلانی، امام غزالی اور آمدی سے منقول ہے ۔ ( المحصول فی علم اصول الفقہ:3/283، کشف الاسرار للبخاری3/299)

احکام الہیہ میں نسخ کی حقیقت
دنیا کا ہر فرماں روا اور آقا اپنے احکامات میں تبدیلی لاتار ہتا ہے، لیکن اس تبدیلی کی بنیاد جہالت اور بے خبری ہوتی ہے ،یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات اس کا پہلا فیصلہ ہی حرف غلط بن کر سامنے آتا ہے، جس میں تغیّر وتبدیلی کیے بغیر کوئی چارہ نہیں رہتا۔ بعض اوقات وہ فیصلہ ہر لحاظ سے موزوں اور مناسب حال ہوتا ہے ،لیکن مرور ایام کے ساتھ ساتھ اس کی افادیت بھی ختم ہوتی چلی جاتی ہے اور زمانہ حال کی مناسبت سے اس میں تبدیلی ناگزیر ضرورت بن جاتی ہے۔ احکام خداوندی میں یہ دونوں صورتیں مفقود ہیں، کیوں کہ اس کا مبدأ جہالت ہے اور الله تعالیٰ اس عیب سے پاک ہے۔

تیسری صورت یہ ہے کہ حکم دینے والا پہلے سے یہ فیصلہ کر چکا ہو کہ یہ حکم فلاں مدت تک ہے اور اسے یہ بھی معلوم ہو کہ فلاں مدت میں حالات کا رخ یہ ہو گا، اس وقت میرا دوسرا حکم جاری ہو گا، جب مدّت ختم ہوئی ،یا وہ حالات آئے ،تو اس نے اپنے سابقہ فیصلے اور علم کی وجہ سے نیا حکم جاری کیا، اس صورت میں جہالت وغیرہ کاکوئی شبہ پیدا نہیں ہوتا، بلکہ یہ الله تعالیٰ کی حکمت کاملہ کو ظاہر کرتا ہے۔ ( اہل ذوق مزید تفصیل کے لیے اصول السرخسی اور فواتح الرحموت کا مطالعہ فرمائیں) احکام الہیہ میں نسخ کی یہی صورت ہوتی ہے ،اس کی بنا جہالت نہیں، حکمت ہوتی ہے، الله تعالیٰ اپنے بندوں پر بہت شفیق ہیں؛ اس لیے مختلف قوموں او رمختلف حالات کے پیش نظر اپنے احکام میں ترمیم کرتے رہے ۔اس کی مثال اس ڈاکٹر اورحکیم کی سی ہے جو مریض کی حالت بدلنے کے ساتھ ساتھ دوا بھی بدلتا رہتا ہے ،کوئی بھی عقل مند انسان دوا کے ردّ وبدل کو ڈاکٹر کی جہالت اور بے وقوفی سے تعبیر نہیں کرتا، بلکہ ایسے معالج کو اپنے فن کا ماہر شمار کیا جاتا ہے ،جو مریض کی بدلتی کیفیت پر پوری نظر رکھتا ہو، اگر ڈاکٹر پورے علاج کا نظام اور دوا ایک ہی دن بتا دے کہ فلاں دوائی فلاں چیز کے ساتھ فلاں وقت کھاؤاور دو دن بعد فلاں دوائی استعمال کرو ،اس سے مریض پر خواہ مخواہ کا بوجھ پڑتا، بلکہ غلط فہمی سے عملی خلل کا بھی اندیشہ رہتا، اس لیے کوئی معالج اپنے مریض کو علاج کی تفصیلات سے قبل از وقت آگاہ نہیں کرتا۔

منکرین نسخ اور ان کی غلط فہمی
یہود ونصاریٰ احکا م الہیہ میں نسخ کے قائل نہیں ہیں۔ ان کے بقول نسخ کے تصور سے خدا کی جہالت مترشح ہوتی ہے۔ اس نظریے کی تردید خود تورات سے ہوتی ہے؛ کیوں کہ تورات میں مذکور ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کو حکم دیا گیا کہ اپنی بیٹیوں کا اپنے بیٹوں سے نکاح کر دیں، بہن بھائی کے مابین نکاح کی یہ صورت بالاتفاق حرام قرار دی گئی، بعد میں اس سے معلوم ہوا کہ نسخ کا تصور تمام شرائع میں رہا ہے۔(وانکرتہ ایضاً طوائف من الیھود، وھم محجوجون بما جاء فی توراتھم بزعمھم أنہ تعالیٰ قال لنوح علیہ السلام عند خروجہ من السفینة: انی قد جعلت کل دابة مأکلا لک ولذریتک…، ثم قد حرم علی موسی وعلی بنی اسرائیل کثیرا من الحیوان…، وبما کان آدم علیہ السلام یزوج الأخ من الأخت، وقد حرم الله ذلک علی موسی علیہ السلام وغیرہ․ ( الجامع لاحکام للقرآن للقرطبی، البقرہ، تحت آیہ رقم:106، وایضاً التفسیر الکبیر، البقرہ، تحت آیہ رقم:106) امت مسلمہ میں سب سے پہلا شخص جس نے وقوع نسخ کا انکار کیا ہے، وہ ابو مسلم الاصفہانی معتزلی تھا ۔ (وقال ابو مسلم الأصفھانی المفسر: لم یقع شیء من ذلک فی القرآن، وقولہ ضعیف مردود مرذول، ابن کثیر، البقرہ، تحت آیہ رقم:106) اس کی اتباع میں قادیانیوں(تیرہ سو سال کے تیرہ مجددین اس بات کے قائل ہیں کہ قرآن کریم کی آیت منسوخ ہوسکتی ہے اور یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہی کا عظیم الشّان کارنامہ ہے کہ آپ نے دنیا کو آکر بتایا کہ قرآن کریم کا کوئی حرف اور کوئی لفظ منسوخ نہیں ، الفضل، ص:6,4، جنوری1952) اور منکرین احادیث نے بھی وقوع نسخ کا انکار کیا ہے، یہ سب یہود اور مستشرقین کی پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں کا شکار ہیں کہ اس نظریے سے خدا کی جہالت مترشح ہوئی ہے ۔

جواز نسخ کے دلائل اور اس کی مثالیں
الله تعالیٰ نے صراحتاً بیان فرما دیا ہے۔ ﴿ما ننسخ من اٰیة أو ننسھا نأت بخیر منھا اومثلھا﴾․ ( البقرة:106)(جو منسوخ کرتے ہیں ہم کوئی آیت یا بھلا دیتے ہیں تو بھیج دیتے ہیں اس سے بہتر یا اس کے برابر)

فرمان الہٰی ہے :﴿وَإِذَا بَدَّلْنَا آیَةً مَّکَانَ آیَةٍ وَاللّہُ أَعْلَمُ بِمَا یُنَزِّلُ قَالُواْ إِنَّمَا أَنتَ مُفْتَرٍ بَلْ أَکْثَرُہُمْ لاَ یَعْلَمُونَ، قُلْ نَزَّلَہُ رُوحُ الْقُدُسِ مِن رَّبِّکَ بِالْحَقِّ لِیُثَبِّتَ الَّذِیْنَ آمَنُواْ وَہُدًی وَبُشْرَی لِلْمُسْلِمِیْن﴾․ ( النحل:102,101)
ترجمہ:” اور جب ہم بدلتے ہیں ایک آیت کی جگہ دوسری آیت اور الله خوب جانتا ہے جو اتارتا ہے تو کہتے ہیں تو تو بنالاتا ہے ، یہ بات نہیں پر اکثروں کو ان کی خبر نہیں…“۔

ابتدا میں مسلمانوں کا قبلہ بیت المقدس تھا، پھر یہ منسوخ ہو گیا اور حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم اور صحابہ کرام کو بیت عتیق کو قبلہ بنانے کا حکم ہوا جو مکہ مکرمہ میں ہے۔

﴿قَدْ نَرَی تَقَلُّبَ وَجْہِکَ فِیْ السَّمَاء فَلَنُوَلِّیَنَّکَ قِبْلَةً تَرْضَاہَا فَوَلِّ وَجْہَکَ شَطْر المسجد الحرام…﴾․(البقرہ:144)
ترجمہ:”بے شک ہم دیکھتے ہیں بار بار اٹھناتیرے منھ کا آسمان کی طرف ،سو البتہ پھیریں گے ہم تجھ کو جس قبلہ کی طرف توراضی ہے، اب پھیر منھ اپنا طرف مسجد الحرام کے اور جس جگہ تم ہوا کرو پھیرو منھ اس کی طرف“۔

منافقین اور اہل کتاب نے مسلمانوں کے اس طرز عمل پر شدید طعن کیا کہ بیت المقدس کو چھوڑ کر بیت الحرام کو قبلہ بنانے کا فیصلہ کیوں کیا گیا؟ چناں چہ قرآن کریم میں ان کے طعن کا بھی ذکر ہے﴿سَیَقُولُ السُّفَہَاء مِنَ النَّاسِ مَا وَلاَّہُمْ عَن قِبْلَتِہِمُ الَّتِیْ کَانُواْ عَلَیْْہَا قُل لِّلّہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ یَہْدِیْ مَن یَشَاء ُ إِلَی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْم﴾․ (البقرہ:143)
ترجمہ:” اب کہیں گے بے وقوف لوگ کہ کس چیز نے پھیر دیا مسلمانوں کو ان کے قبلہ سے جس پر وہ تھے؟ تو کہہ الله ہی کا ہے مشرق ومغرب، چلائے جس کو چاہیے سیدھی راہ“۔

جس خاتون کا شوہر فوت ہو جائے اس کی عدت کی مدت ایک سال تھی، چناں چہ قرآن کریم میں ہے﴿وَالَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنکُمْ وَیَذَرُونَ أَزْوَاجاً وَصِیَّةً لِّأَزْوَاجِہِم مَّتَاعاً إِلَی الْحَوْلِ غَیْْرَ إِخْرَاج﴾․( البقرہ:140)
ترجمہ:” اور جو لوگ تم میں سے مرجاویں اور چھوڑ جاویں اپنی عورتیں تو وہ وصیت کر دیں اپنی عورتوں کے واسطے خرچ دینا ایک برس تک، بغیر نکالنے کے گھر سے ۔“

آیت میراث نازل ہونے کے بعد جب ان کا حصّہ مقرر ہو گیاتو عورت کی عدت چار مہینے دس دن ٹھہرا دی گئی۔ تب سے اس آیت کا حکم منسوخ ہو گیا، چناں چہ ارشاد الہٰی ہے ﴿وَالَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنکُمْ وَیَذَرُونَ أَزْوَاجاً یَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِہِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْہُرٍ وَعَشْرا﴾․ (البقرہ:234)
ترجمہ:” اور جو لوگ مر جاویں تم میں سے اور چھوڑ جاویں اپنی عورتیں تو چاہیے کہ وہ عورتیں انتظار میں رکھیں اپنے آپ کو چار مہینے اور دس دن۔“

حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنہ آپ  سے روایت کرتے ہیں، آپ   نے فرمایا: ”میری احادیث ایک دوسرے کو منسوخ کرتی ہیں۔“ علامہ حازمی نے متعدد آثار اس پر نقل فرمائے ہیں۔ ( کتاب الاعتبار للحازمی ص:۳۲)

منکرین نسخ کے بارے میں علمائے امّت کی رائے
شیخ ابو جعفر النحاس فرماتے ہیں:
متاخرین میں سے جس نے بھی کتاب الله میں ناسخ ومنسوخ کا انکار کیا ہے، وہ اکابر علمائے امت کے موقف سے رو گردانی کرکے مسلمانوں کے طریقے اور راستے سے پھر چکا ہے ۔ (فمن المتاخرین من قال: لیس فی کتاب الله عزوجل ناسخ ولا منسوخ، وکابر الاعیان، واتبع غیر المؤمنین․ کتاب الناسخ والمنسوخ لابی جعفر النحاس، ص:3)

علامہ جصاص کی نظر میں ایسا شخص دین کی سمجھ سے عاری ہے ۔ ( احکام القرآن للجصاص، البقرة، تحت آیہ رقم:106)

علامہ ابن کثیر رحمہ الله فرماتے ہیں ابو مسلم اصفہانی (اور اس کے پیروکاروں) نے وقوع نسخ کا انکار کیا ہے۔ ان کا قول ضعیف اور مردود ہے۔ (قال ابو مسلم الاصفہانی المفسر: لم یقع شيء من ذلک فی القرآن، وقولہ ضعیف مردود… ، تفسیر ابن کثیر، البقرة، تحت آیہ رقم:106)

شیخ ابن خزیمہ فارسی رحمہ الله تعالیٰ اپنی تصنیف ”الموجز فی الناسخ والمنسوخ“ میں منکرین نسخ کے بارے میں لکھتے ہیں:

ملحدین نے قرآن کریم میں ناسخ ومنسوخ کا انکار کیا ہے۔ یہ لوگ یہودیوں کی موافقت کر رہے ہیں، یہ جس حق اور سچ کے انکار کرنے پر تلے ہوئے ہیں اس کے اثبات پر خود قرآن شاہد اور ناطق ہے۔ (قالت الملاحدة، لیس فی القرآن ناسخ ولا منسوخ، ھولاء قوم وافقوا الیھود وجمیعاً عن الحق صدوا، بإفکھم علی الله ردّوا، والکتاب ناطق بإثبات ماجحدوا․ الموجز فی الناسخ والمنسوخ، ص:263)

علامہ قرطبی رحمہ الله تعالیٰ فرماتے ہیں:ناسخ ومنسوخ کا منکر جاہل اور بے قوف ہی ہو سکتا ہے۔ (ولا ینکرہ إلاّ الجھلة الأغبیاء․ احکام القرآن للقرطبی، البقرة، تحت آیہ رقم:106)

علمائے امت کی ان آرا سے معلوم ہواکہ قادیانیوں و منکرین حدیث کا نظریہ” انکار نسخ“ اہل اسلام کے نظریہ نسخ سے بالکل جدا ہے ۔

نسخ کن چیزوں میں ہوتا ہے؟ اور شرائط نسخ
نسخ کا تعلق صرف اور صرف عملی اور فروعی احکام سے ہوتا ہے، عقائد وایمانیات، اخلاق وصفات، واقعات وحقائق سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ نیز کسی حکم کے منسوخ ہونے کا علم شرع سے معلوم ہوتا ہو، محض عقل پر مبنی نہ ہو ۔ ( الإحکام للآمدی3/126، اصول فقہ للزحیلی:2/58) اس سے ان عقل پرست متجددین کا رد ہوتا ہے جو محض عقلی بل بوتے پر بعض احکام شریعت کو حضور علیہ السلام کے ساتھ خاص کرتے ہیں، جیسے قرآن کریم میں قتال کا حکم، کافروں سے جزیہ لینے کا حکم، اقدامی جہاد کا حکم وغیرہ اور بعض احکام شریعت کو عقلی بل بوتے پر عرب کے رسم رواج کے ساتھ خاص کر دیتے ہیں، جیسے داڑھی رکھنا، خواتین کا برقعہ پہننا، چور کا ہاتھ کاٹنا وغیرہ۔

متجددین کے نظریہ نسخ کی حقیقت
بعض لوگ تو نسخ کے سرے سے منکرہیں، جن کا ذکر گزشتہ صفحات میں آیا، بعض متجددین کا نقطہ نظر یہ ہے کہ شریعت کے تمام احکام حالات کے تابع ہیں، جو احکام منسوخ ہوئے، وہ حالات کی تبدیلی کے زیر اثر ہوئے ،اگر وہی حالات دوبارہ پلٹ آئیں تو یہی منسوخ شدہ احکام از سر نوبحال ہو جائیں گے؛ لہٰذا جو احکام منسوخ کہلاتے ہیں ،وہ درحقیقت منسوخ نہیں، بلکہ اپنے مخصوص حالات میں بدستور قائم ہیں؛ اس لحاظ سے کلام الہی میں کوئی ناسخ منسوخ نہیں ہے۔

اولاً تو یہ دعوی ہے، جس کی کوئی بنیاد نہیں، نسخ کے اس تصوّر کا ثبوت نہ احادیث مبارکہ سے ملتا ہے، نہ خلفائے راشدین کے طرز عمل سے ۔

ثانیا: اگر اس نظریے کو تسلیم کر لیا جائے تو ہوی پرست لوگوں کے لیے احکام شریعت کی پابندیوں سے آزاد ہونے کا راستہ مل جائے گا او راس دلیل کے سہارے نماز، روزہ، زکوٰة ، جہاد ، حرمت شراب اور حد زنا کے بارے میں ایسے ایسے اجتہاد شروع ہو جائیں گے کہ دین کا اصل رخ ہی مسخ ہو جائے گا، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس زمانے کے متجددین نے نت نئے اجتہادات کے ذریعے دین اسلام کا حلیہ بگاڑنے میں کوئی کسر بھی نہیں چھوڑی۔

نسخ کے مفہوم میں متقدمین ومتاخرین کی اصطلاحوں کا فرق
چوں کہ نسخ کے اصطلاحی معنی ”تبدیلی حکم“ کے ہیں اور یہ تبدیلی کئی طریقوں سے ہوتی ہے۔ مثلاً بعض اوقات ایک حکم با لکلیہ منسوخ کرکے اس کی جگہ نیا حکم لایا جاتا ہے، جیسے بیت المقدس کی جگہ بیت الله کو قبلہ بنانے کا حکم ملا۔ اسی طرح بعض اوقات سابقہ حکم برقرار رکھ کر اس میں کسی شرط اور قید کا اضافہ کر دیا جاتا ہے ، علامہ شاطبی رحمہ الله نے اس پر تفصیل سے کلام فرمایا ہے۔ (الموافقات للشاطبی،73/3) متقدمین نے نسخ کو اسی عام معنی میں استعمال فرمایا ہے ۔ جس میں بالکلیہ تبدیلی اور شرط وقید کی وجہ سے حاصل ہونے والی تبدیلی سب داخل نسخ ہیں ،اسی بنا پر متقدمین نے منسوخہ آیات کی تعداد پانچ سو تک شمار کی ہیں۔ بلکہ امام شاہ ولی الله محدث دہلوی فرماتے ہیں ، نسخ کے مذکورہ مفہوم کو سامنے رکھ قرآن کریم میں غور وفکر سے کام لیا جائے تو ایسے نسخ کی تعداد بے شمار ہو سکتی ہے۔ (الفوز الکبیر، ص:19)

جب کہ متاخرین کے ہاں نسخ فقط اس حکم کا نام ہے جو اپنے سے پہلے والے حکم سے اس قدرمتضاد ہو کہ دونوں میں تطبیق کی کوئی صورت نہ بن سکے ۔ ظاہر ہے کہ اس اصطلاح سے منسوخہ آیات کی تعداد انتہائی محدود ہو کر رہ جاتی ہے، چناں چہ علامہ سیوطی رحمہ الله تعالی نے اس اصطلاح کی بنا پر منسوخہ آیات کی تعداد بیس عدد قرار دیں۔ (الإتقان فی علوم القرآن:2/23) علامہ شاہ ولی الله محدث دھلوی رحمہ الله نے ان میں سے بعض آیات میں تطبیق پیدا کرکے منسوخہ آیات کی تعداد پانچ قرار دی ہیں۔

حضرت مولانا محمد مفتی شفیع صاحب رحمہ الله نے متاخرین کی اصطلاح پر پسندیدگی کا اظہا ر فرمایا ہے، کیوں کہ اس سے منسوخہ آیات کی تعداد قدرے کم ہو جاتی ہے، چناں چہ وہ لکھتے ہیں:

” احکام میں اصل بقائے حکم ہے، نسخ خلاف اصل ہے ،اس لیے جہاں آیت کے معمول بہا ہونے کی کوئی توجیہ ہوسکتی ہے اس میں بلا ضرورت نسخ ماننا درست نہیں“۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ متقدمین ومتاخرین میں منسوخہ آیات کی تعداد کا اختلاف نسخ کے اصطلاحی مفہوم میں فرق آنے کی وجہ سے ہوا، وقوع نسخ کے سب قائل رہے“۔( معارف القرآن، مفتی محمد شفیع رحمہ الله: البقرة، تفسیر آیت نمبر107)

متقّدمین ومتاخرّین کی اصطلاحات اس لیے ذکر کی گئی ہیں کہ بعض منکرین نسخ ان کے اختلاف کو اپنے نظریے کی سچائی کے طور پر پیش کرتے ہیں۔

Flag Counter