تفریح اور کھیل کود شرعی ضابطے
مفتی محمد خالد حسین قاسمی
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ، وَالصَّلوٰةُ وَالسَّلامُ عَلیٰ سیدِ المُرسلین محمدٍ، وَعَلیٰ آلہ وَصحبِْہ أجمعین․
اسلام کامل ومکمل شریعت اور اعتدال پسند مذہب ہے ، ہر چیز میں میانہ روی کو پسند کرتا ہے ، اسلامی نظام کوئی خشک نظام نہیں ؛ جس میں تفریحِ طبع اور زندہ دلی کی کوئی گنجائش نہ ہو ؛ بلکہ وہ فطرتِ انسانی سے ہم آہنگ اور فطری مقاصدکو بروئے کار لانے والا مذہب ہے۔ اس میں نہ تو خود ساختہ ”رہبانیت“ کی گنجائش ہے ، نہ ہی بے ہنگم تقشف اور جوگ کی اجاز ت ہے۔ آسانی فراہم کرنا اور سختیوں سے بچانا شریعت کے مقاصد میں داخل ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿یُرِیْدُ اللّہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلاَ یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْر﴾․ البقرة:185)
ترجمہ:” الله تعالیٰ تمہارے لیے آسانی فراہم کرچاہتا ہے ، دشواری پیدا کرنا نہیں چاہتا ہے۔“
اسلام آخرت کی کام یابی کو اساسی حیثیت دیتے ہوئے ، تمام دنیاوی مصالح کی بھی رعایت کرتا ہے، اس کی پاکیزہ تعلیمات میں جہاں ایک طرف عقائد، عبادات، معاشرت ومعاملات اور اخلاقیات وآداب کے اہم مسائل پر توجہ مرکوز کی گئی ہے، وہیں زندگی کے لطیف اور نازک پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے ۔ اقوام یورپ کی طرح پوری زندگی کوکھیل کود بنا دینا اور ”زندگی برائے کھیل“ کا نظریہ اسلام کے نقطہٴ نظر سے درست نہیں ہے؛ بلکہ آداب کی رعایت کرتے ہوئے، اخلاقی حدود میں رہ کر کھیل کود، زندہ دلی، خواش مزاجی اور تفریح کی نہ صرف یہ کہ اجازت ہے ؛ بلکہ بعض اوقات بعض مفید کھیلوں کی حوصلہ افزائی بھی کی گئی ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ اسلام سستی اور کاہلی کو پسند نہیں کرتا ؛ بلکہ چستی اور خوش طبعی کو پسند کرتا ہے ۔ شریعت کی تعلیمات اس امر کا تقاضا کرتی ہیں کہ مسلمان شریعت کے تمام احکام پر خوشی خوشی عمل کرے۔ یہ عمل انقباض اور تنگ دلی کے ساتھ نہ ہو؛ کیوں کہ سستی اور تنگ دلی کے ساتھ عبادات کو انجام دینا نفاق کی علامت ہے ۔ ارشاد باری ہے: ﴿وَإِذَا قَامُواْ إِلَی الصَّلاَةِ قَامُواْ کُسَالَی﴾․ (النساء:142)
کہ منافقین جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو سستی کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں ۔ سستی اور کاہلی بے جا فکر مندی اتنی ناپسندیدہ چیز ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ان امور سے پناہ مانگی ہے ۔
اسلام کی اعتدال پسندی ہی کا یہ اثر ہے کہ حضرت رسول الله صلی الله علیہ وسلم اور اسلافِ امّت کی زندگیاں، جہاں خوف وخشیت او رزہد وتقویٰ کا نمونہ ہیں ؛ وہیں تفریح ، خوش دلی او رکھیل کود کے پہلوؤں پر بھی بہترین اُسوہ ہیں۔ ان امور کو پیش نظر رکھتے ہوئے تفریح او را س کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ پیش کیا جارہا ہے۔
کیا شریعت میں تفریح اور مزاح جائز ہے؟
تفریح عربی زبان کا لفظ ہے ،جو ” فرح“ سے مشتق ہے ۔ فرح کے بارے میں علامہ قرطبی رحمة الله علیہ تحریر فرماتے ہیں : ”الفرح لذة فی القلب لإدراک المحبوب“ ․( تفسیر قرطبی) کہ محبوبچیز کے پالینے سے جو لذت حاصل ہوتی ہے، اسی کو فرحت اور خوشی کہتے ہیں ۔ اگر یہ فرحت محض قلبی خوشی ہو اور الله کی نعمتوں کے احساس اور اس کے فضل وکرم کے استحضار پر مبنی ہو؛ تو وہ شرعاً مطلوب، مستحسن او رپسندیدہ ہے ۔ الله تعالیٰ کاارشاد ہے :﴿قُلْ بِفَضْلِ اللّہِ وَبِرَحْمَتِہِ فَبِذَلِکَ فَلْیَفْرَحُواْ﴾ (یونس:58) کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کہہ دیجیے کہ یہ الله تعالیٰ کے فضل او رمہربانی سے ہے ، تو چاہیے کہ وہ لوگ خوش ہوں ۔
دوسری جگہ ارشاد ہے : ﴿فَرِحِیْنَ بِمَا آتَاہُمُ اللّہُ مِن فَضْلِہِ﴾․ (آل عمران:170) کہجنتی لوگ خوش ہوں گے ؛ ان نعمتوں پر جو الله نے انہیں اپنے فضل سے عطا کیا ہے ۔ ایک حدیث میں الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: روحوا القلوب ساعة کہ دلوں کو وقتاً فوقتاً خوش کرتے رہا کرو ۔ (الجامع الصغیر للسیوطی بحوالہ احکام القرآن للمفتی محمد شفیع ،ج3 ص:195)
ایک روایت میں ہے : ”القلب ممل کما تمل الابدان، فاطلبوا بھا طرائق الحکمة“․ یعنی دل اسی طرح اکتانے لگتا ہے ، جیسے بدن تھک جاتے ہیں ؛ لہٰذا اس کی تفریح کے لیے حکیمانہ طریقے تلاش کیا کرو ۔ ( احکام القرآن للمفتی محمد شفیع،ج3،ص:195)
یہ قلبی خوشی اگر انسان کو غرور وتکبر پر آمادہ کر دے تو اس طرح کی فرحت شرعی نقطہٴ نظر سے ممنوع ہے۔ ارشاد خداوندی:﴿لَا تَفْرَحْ إِنَّ اللَّہَ لَا یُحِبُّ الْفَرِحِیْن﴾․ (القصص:76)
کہ مت اتراؤ۔ بلاشبہ الله تعالیٰ اترانے والوں کو پسند نہیں فرماتے ہیں ۔ قرآن کریم میں دوسری جگہ ارشاد ہے :﴿إِنَّہُ لَفَرِحٌ فَخُور﴾․ (ھود:10) کہ بلاشبہ وہ اترانے والا اور شیخی بگھارنے والا بن جاتا ہے ۔
اسی طرح ” مزاح“ مزح سے بنا ہے، مزاح کے بارے میں ملا علی قاری فرماتے ہیں:”المزاح انبساط مع الغیر من غیر ایذاء، فإن بلغ الإیذاء یکون سخریة“․ (حاشیہ مشکوٰة المصابیح، ص:416) کہ مزاح ایسے عمل کوکہتے ہیں، جس کے ذریعہ دوسرے کے ساتھ مل کر خوش طبعی حاصل ہو سکے ۔ اس طور پر کہ اس عمل سے دوسرے کو تکلیف نہ پہنچے۔ اور اگر وہ خوش طبعی کسی کے لیے باعثِ تکلیف ہو جائے، تو اسے مزاح نہیں ؛ بلکہ ” سخریہ“ یعنی مذاق اڑانا کہیں گے۔
مزاح اور زندہ دلی وخوش طبعی انسانی زندگی کا ایکخوش کن عنصر ہے اور جس طرح اس کا حد سے متجاوز ہو جانا نازیبا او رمضر ہے ، اسی طرح اس لطیف احساس سے آدمی کا بالکل خالی ہونا بھی ایک نقص ہے ۔ جو بسا اوقات انسان کو خشک محض بنا دیتی ہے ۔ بسا اوقات ہم جولیوں اور ہم نشینوں اورماتحتوں کے ساتھ لطیف ظرافت ومزاح کا برتاؤ ان کے لیے بے پناہ مسرت کے حصول کا ذریعہ اور بعض اوقات عزت افزائی کا باعث بھی ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے رسول الله صلی الله علیہ وسلم اپنی تمام تر عظمت ورفعت اور شان وشوکت کے باوجود ، بسا اوقات اپنے جاں نثاروں او رنیاز مندوں سے مزاح فرماتے تھے۔ ذیل کی احادیث سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آپ کا پر شفقت مزاح کس طرح ہوا کرتا تھا۔
عن ابی ھریرة قال: قالوا: یا رسول الله، انک لتداعبنا؟ قال: إنی لا أقول إلا حقا․ ( ترمذی:20/2)
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ بعض صحابہ نے حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول الله ! آپ ہم سے مزاح فرماتے ہیں ؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ میں مزاح میں بھی حق بات ہی کہتا ہوں ( یعنی اس میں کوئی بات غلط اور باطل نہیں ہوتی)۔
عن انس قال إن کان النبی صلی الله علیہ وسلم لیخالطنا، حتی یقول لأخ لی صغیر: یا أبا عمیر! ما فعل النغیر․ کان لہ نغیر یلعب بہ فمات․ متفق علیہ ( مشکوٰة المصابیح416، ترمذی19/2)
ترجمہ:( آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے اخلاق اتنے بلند تھے کہ) حضرت انس رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم ہم لوگوں سے مکمل اختلاط رکھتے تھے ؛ یہاں تک کہ ازراہِ شفقت ومزاح ہمارے چھوٹے بھائی سے کہتے تھے: اے ابو عمیر ! نغیر بلبل کا کیا ہوا ؟ ان کے چھوٹے بھائی کے پاس ایک بلبل تھا؛ جس سے وہ کھیلا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ وہ مر گیا۔
عن انس ان النبی صلی الله علیہ وسلم قال لامراة عجوز: إنہ لا تدخل الجنة عجوز․ فقالت: ومالھن، وکانت تقرأ، القرآن؟ فقال لھا: اما تقرئین القرآن:﴿إنا أنشأناھن إنشاء فجعلناھن أبکار﴾․ (مسندر زین ،بہ حوالہ مشکوٰة،ص:416)
ترجمہ:” حضرت انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ : رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ایک بوڑھی عورت سے فرمایا کہ بڑھیا جنت میں نہیں جائے گی ؛ ان بے چاری نے عرض کیا ان بوڑھیوں میں کیا ایسی بات ہے ؛ جس کی وجہ سے وہ جنت میں نہیں جاسکیں گی۔ وہ بوڑھی قرآن خواں تھی، رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم نے قرآن میں یہ آیت نہیں پڑھی ؟﴿انا انشاناھن إنشاء ا فجعلناھن ابکارا﴾ کہ جنت کی عورتوں کی ہم نئے سرے سے نشوونما کریں گے اور ان کو نو خیز دوشیزائیں بنا دیں گے۔
عن انس ان رجلا استحمل رسول الله صلی الله علیہ وسلم، فقال: إنی حاملک علی ولد ناقة، فقال: ما أصنع بولد الناقة؟ فقال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: وھل تلد الإبل إلا النوق“․ ( ترمذی:20/2، ابوداؤد،ص:682)
ترجمہ:” حضرت انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ : ایک شخص نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سواری کے لیے اونٹ مانگا؛ تو آپ نے ارشاد فرمایا: ہاں ! میں تم کو سواری کے لیے اونٹ کا بچہ دوں گا ، اس شخص نے عرض کیا کہ میں اونٹنی کے بچہ کا کیا کروں گا ؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا: اونٹ بھی تو اونٹنی کے بچے ہوتے ہیں ۔ ( یعنی ہر اونٹ کسی اونٹنی کا بچہ ہی تو ہے جو اونٹ بھی دیا جائے گا ، وہ اونٹنی کا بچہ ہو گا )
عن انس بن مالک ان النبی صلی الله علیہ وسلم قال لہ: یاذا الاذنین! ( ترمذی :20/2)
ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے انہیں ( از راہِ مزاح وشفقت )یاذا الاذنین․ اے دو کان والے کہہ کر مخاطب کیا ( حالاں کہ ہر شخص دو کان والا ہوتا ہے ؛ لیکن حدیث کے ظاہر سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ شاید یہ انفرادی صفت انہیں کی خصوصیت ہے ۔ دوسرے میں نہیں پائی جاتی)۔
حضرت نعمان بن بشیر سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق نے ایک مرتبہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے گھر میں داخل ہونے کی اجازت چاہی ۔ اسی درمیان آپ کو گھر یلو معاملات میں حضرت عائشہ کی آواز بلند محسوس ہوئی ۔ جب آپ گھر میں داخل ہوئے تو حضرت عائشہ کی طرف مارنے کے لیے لپکے اور اپنی بچی حضرت عائشہ کو تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا: کیا میں تمہیں رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے اونچی آواز میں گفت گو کرتے ہوئے نہیں دیکھ رہاہوں ؟! یہ دیکھ کر حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم حضرت عائشہ کو ان کے والد کی مار سے بچانے کی کوشش کرنے لگے ۔ اسی دوران حضرت ابوبکر غصہ کی حالت میں گھر سے نکل گئے ۔ حضرت ابوبکر کو نکلتے دیکھ کر آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے حضرت عائشہ سے فرمایا: کیا خیال ہے ؟ میں نے تمہیں ”اس شخص“ سے بچایا کہ نہیں ؟ راوی کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر کچھ دنوں تک ناراض رہے ، پھر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے یہاں حاضر ہو کر اندر آنے کی اجازت چاہی ، گھر جاکر محسوس کیا کہ آں حضرت اور حضرت عائشہ کے مابین صلح ہوچکی ہے ۔ تو آپ نے فرمایا کہ : آپ دونوں مجھے اپنی صلح میں شامل کر لیجیے ؛ جس طرح آپ دونوں نے مجھے اپنے جھگڑے میں شامل کیا تھا، تو آں حضرت نے فرمایا کہ : جی ہاں آپ کو صلح میں شامل کر لیا۔ (ابوداؤد:282) اس حدیث میں ابوّت کے رشتہ کے حامل بزرگ حضرت ابوبکر کو محض ”الرجل“ کہنے سے جومزاح پیدا ہوتا ہے ، اسے کوئی بھی شخص محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔
عن عوف بن مالک الاشجعی قال اتیت رسول الله صلی الله علیہ وسلم فی غزوہ تبوک، وھو فی قبة من ادم، فسلمت، فرد، وقال: ادخل فقلت: اکلی یا رسول الله؟ قال: کلک․ فدخلتُ․ (ابوداؤد:683)
ترجمہ:” حضرت عوف بن مالک اشجعی کہتے ہیں کہ : میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں غزوہٴ تبوک میں حاضر ہوا جب کہ آپ چمڑے سے بنے سائبان میں قیام پذیر تھے۔ میں نے سلام کیا، تو انہوں نے سلام کا جواب دیا اور کہا آجاؤ۔ میں نے عرض کیا : پورا کا پورا آجاؤں؟ آپ نے فرمایا: ہاں پورے کے پورے آجاؤ۔ ( جگہ کی قلت کی طر ف اشارہ کرتے ہوئے ان صحابی نے جس محبت کے ساتھ مزاح کیا، آں حضرت نے کمال ِ اخلاق مندی سے انہیں کے مزاحیانہ اسلوب میں جواب دیا۔ )
حضرت انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص دیہات کے رہنے والے تھے ، ان کا نام زاہر تھا، وہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں دیہات سے ہدیہ وتحفہ بھیجا کرتے تھے ، تو آں حضرت بھی بازار سے ان کی ضرورت کی چیزیں انہیں دیا کرتے تھے ۔ ایک دن جب وہ اپنا سامان بازار میں فروخت کر رہے تھے کہ ان کی نظر سے بچ کر آں حضرت نے ان کو پیچھے سے دونوں ہاتھوں سے پکڑ لیا۔ زاہر نے کہا کوئی ہے جو مجھے ان سے چھڑائے؟ ذرا پیچھے دیکھا تو آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کو پہچان لیا، جوں ہی پہچانا، پوری طاقت سے اپنی پشت کو حضور صلی الله علیہ وسلم کے سینے سے چمٹانے لگے اور حضورِ اکرم صلی الله علیہ وسلم فرمانے لگے کہ اس غلام کو کون خریدے گا ؟ زاہر نے کہا: یا رسول الله !مجھے آپ فروخت کرتے وقت کھوٹا پائیں گے۔ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: مگر الله کی بارگاہ میں تو کھوٹا نہیں ہے۔
مزاح کے جواز کے حدود
مذکورہ احادیث سے معلوم ہوا کہ : آداب کی رعایت کرتے ہوئے کبھی کبھی مزاح کی نہ صرف گنجائش ہے ؛ بلکہ مستحسن ہے او راسوہٴ نبوی کی ابتاع ہے ؛ لیکن اگر مزاح دوسرے آدمی کے لیے ناگواری اور اذیت کا باعث بن جائے ، یا حد سے زیادہ ہنسی کا ذریعہ بن جائے یا مزاح کا عمل کبھی کبھار کے بجائے کثرت سے ہونے لگے ، تو ایسے مزاح کی ممانعت ہو گی اور اس کی حوصلہ شکنی کی جائے گی۔
آپس میں مذاق کرنا اگر دوسرے کے لیے باعث تکلیف نہ ہو ، معاملہ برابر کا ہو ؛ تو اس کی گنجائش نکلتی ہے ۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں: ایک دن حضورِ اکرم صلی الله علیہ وسلم میرے گھر تشریف فرما تھے اور حضرت سودہ بھی تھیں ، میں نے سالن پکایا اور حضرت سودہ سے کہا: آؤ! کھانا کھائیں؛ انہو ں نے انکار کیا۔ نشست اس طرح واقع ہوئی تھی کہ ایک طرف وہ تھیں ، دوسری طرف میں اور بیچ میں سرورِ کائنات صلی الله علیہ وسلم ۔ جب حضرت سودہ نے انکار کیاتو میں نے کہا کہ : کھاتی ہو تو کھاؤ؛ نہیں تو منھ پر مل دوں گی ۔ انہوں نے نہ کھایا ، میں نے ان کے منھ پر مل دیا۔ حضور صلی الله علیہ وسلم نے اپنے پاؤں بیچ میں سے ہٹا دیے ؛ تاکہ حضرت سودہ اپنا بدلہ مجھ سے لے سکیں ؛ چناں چہ انہوں نے بھی ایسا کیا اور آپ صلی الله علیہ وسلم مسکراتے رہے ۔ ( نسائی، ابن ماجہ)
مسلمانوں کو تکلیف دینے ، ان کا مذاق اڑانے، ان کی تحقیر کے سلسلے میں سخت ممانعت احادیث میں وارد ہوئی ہے ۔ ارشاد نبوی : ”المسلم اخو المسلم، لا یظلمہ، ولا یخذلہ، ولا یحقرہ“․ (صحیح مسلم) ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے ، اس پر کوئی ظلم وزیادتی نہ کرے۔ اس کوبے مدد نہ چھوڑے اور اس کو حقیر نہ جانے اور نہ اس کے ساتھ حقارت کا برتاؤ کرے ۔ پھر آپ نے فرمایا: آدمی کے برا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے ، کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے اور اس کے ساتھ حقارت سے پیش آئے ، معلوم ہوا کہ ایسے امور انجام دینا ؛ جن سے چہروں پر مسکراہٹ بکھر جائے، لوگ ہنسنے پر آمادہ ہو جائیں، کچھ دیر کے لیے دل سے ہموم وغموم اور غبار نکل جائیں ، فکر آخرت برقرار رہے اور کسی کی تکلیف کا سبب نہ بنے، اس کی نہ صرف یہ کہ ا جازت ہے ؛ بلکہ اسے مستحسن بھی کہا جاسکتا ہے۔
حضرت مولانا احمد علی محدث سہارن پوری تحریرفرماتے ہیں: کثرت سے مستقل مزاح اور خوش طبعی میں لگے رہنا ممنوع ہے؛ اس لیے کہ وہ بہت زیادہ ہنسنے کا داعیہ پیدا کرتا ہے ، قلب میں فساد پیدا کرتا ہے ، ذکر الله سے غافل کرتا ہے اور ہیبت کو ختم کرتا ہے ۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا معمول یہ تھا کہ کبھی کبھار آپ کسی مصلحت یا مخاطب کو مانوس کرنے کے لیے مزاح فرمایا کرتے تھے او راس طرح کا مزاح پسندیدہ سنت ہے ۔ ( حاشیہ ترمذی)
تکلیف دہ مزاح کی ممانعت کی دلیل مندرجہ ذیل حدیث ہے : حضرت عبدالله بن عباس سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اپنے بھائی سے جھگڑا نہ کر واو راس سے مذاق نہ کر واور اس سے تم ایسا وعدہ نہ کرو جس کی وعدہ خلافی کرو۔ ( ترمذی :20/2) اس حدیث میں دیگر تکلیف دہ اعمال ( جھگڑا ، وعدہ خلافی) کے ساتھ اس مزاح کی بھی ممانعت کی گئی ہے ؛ جو اذیت ناک او رناگواری کا باعث ہو ۔ مذکورہ احادیث سے یہ بھی معلوم ہواکہ مزاح کے طو رپر جو گفت گو کی جائے ، ظرافت ولطافت کے باوصف فی نفسہ صحیح اور درست ہو خوش طبعی کے لیے جھوٹ کا سہارا لینا بھی مذموم ہے۔ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے:”ویل للذی یحدث فیکذب، لیضحک بہ القوم، ویل لہ، ویل لہ․ (ابوداؤد:681) کہ اس شخص کے لیے ہلاکت ہو ، جو دورانِ گفت گو جھوٹی باتیں کرتا ہے ، محض اس لیے کہ وہ لوگوں کو ان باتوں سے ہنسائے۔ اس کے لیے ہلاکت ہو ، اس کے لیے ہلاکت ہو۔
معلوم ہوا کہ مزاح میں اگر جھوٹ یا تمسخر واستہزا کا پہلو ہو تو وہ موجب ہلاکت ہے ۔ تمسخر واستہزا کفار کا شیوہ ہے، جو وہ اہل ایمان ؛ بلکہ انبیائے کرام علیہم السلام سے کرتے تھے۔ اہل ایمان کے لیے اس کی قطعاً گنجائش نہیں ۔ مزاح سے ایک درجہ آگے مذاق کا معاملہ ہے ۔ حضرت علی فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم جب اپنے کسی صحابی کو مغموم دیکھتے تو دل لگی کے ذریعہ اسے خوش فرماتے ۔ (مرقاة المفاتیح شرح مشکوٰة المصابیح:268) ایک مرتبہ حضرت ابوبکر نے حضورِ اکرم صلی الله علیہ وسلم کو غمگین دیکھا تو اپنا ایک واقعہ سنا کر خوش کیا۔ (تکملہ فتح المہلم ج:1،ص:178)
مزاحیہ پروگرام او رمزاحیہ مشاعرہ
مذکورہ تفصیلات سے معلوم ہوا کہ مزاح فی نفسہ اگر آداب واخلاق کے دائرہ میں ہو تو درست ہے۔ یہی حال مزاح پر مشتمل اشعار او رمزاحیہ شعر گوئی کا بھی ہے۔ وزن اور قافیہ کی رعایت کرتے ہوئے بالا رادہ کہے گئے کلام کو شعر کہتے ہیں ۔ ( فتح الباری:628/10) اصل لغت میں شعر ہر اس کلام کو کہا جاتا ہے ، جس میں محض خیالی اور غیر تحقیقی مضامین بیان کیے گئے ہوں۔ فن منطق میں بھی ایے ہی مضامین کو ”قضایا شعریہ “ یا ادلہٴ شعر یہ کہا جاتا ہے۔
چوں کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی شانِ نبوت سے شعر گوئی میل نہیں کھاتی تھی ؛ اس لیے مشیت الہٰی نے خاص حکمت کے تحت آپ کو اس سے بالکل محفوظ رکھا ۔ ( یسٰین:69)
حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول الله ا کے سامنے شعر کے بارے میں ذکر آیاتو آپ نے فرمایا کہ شعر بھی کلام ہے ، اس میں جو اچھا ہے ، وہ اچھا ہے اور جو برا ہے ، وہ برا ہے۔ (رواہ الدار قطنی، مشکوٰة:410/11)
شرائط وآداب کے ساتھ فی نفسہ مزاح کا درست ہونا ( چاہے وہ نظم میں ہو یانثر میں) الگ چیز ہے اور باضابطہ مزاحیہ پروگرام منعقد کرنا یا مزاحیہ مشاعرہ منعقد کرنا الگ چیز ہے۔ ایک کو دوسرے پر قیاس نہیں کیا جاسکتا ہے ؛ اس لیے کہ پروگرام کا انعقاد اہتمام زائد کی علامت ہے۔ اور مباح چیزوں کا ضرورت سے زائد اہتمام کرنا، اسے زمرہٴ کراہت میں داخل کر دیتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ اہتمام مزاح او رتفریح کے لیے ہو رہا ہے اور تفریح جب حداعتدال سے بڑھے گی تو وہ لہو ولعب میں داخل ہو جائے گی اور لہب ولعب سے قرآن کریم میں ممانعت کی گئی ہے۔
اس کے علاوہ یہ امر بھی قابل غور ہے کہ ایسی مجلسوں میں اس قدر انہماک ہوتا ہے کہ عام طور پر نماز ودیگر فرائض کا پاس وخیال بھی نہیں رہتا ۔ شور وشغب ہوتا ہے ، تالیاں پیٹی جاتی ہیں ۔ مرووزن کا بے محابا اختلاط ہوتا ہے۔ ہنسانے کے لیے جھوٹی باتوں کا سہارا لیا جاتا ہے ۔ لہٰذا ایسی مجالس کاانعقاد کراہت سے خالی نہیں او راگر عملی طو رپر ایسی مجالس میں محرمات وناجائز امور کا ارتکاب ہو تو ان کے ناجائز ہونے میں کوئی شبہ نہیں رہ جاتا ہے ۔ حضرت حسن سے روایت ہے کہ حضرت عثمان بن ابی العاص کسی ختنہ میں بلائے گئے، آپ نے انکار فرما دیا، کسی نے وجہ دریافت کی تو آپ نے فرمایا کہ پیغمبر خدا صلی الله علیہ وسلم کے زمانہٴ مبارک میں ہم لوگ ختنہ میں نہیں جاتے تھے او رنہ اس کے لیے بلائے جاتے تھے ۔ ( احمد ، اصلاح الرسوم: 110)
معلوم ہوا کہ جس کام کا اہتمام سلف صالحین سے ثابت نہیں اس کے لیے اہتمام کرنا اور بلانا پسندیدہ نہیں ہے۔ اتفاقیہ طور پر حسبِ موقع مزاحیہ گفت گو کر لینا اور تفریحی اشعار کہہ سن لینا اگرچہ جائز ہے؛ لیکن اس کے لیے اہتمام سے اجتماع کرنا اور اس میں گھنٹوں لگانا کسی طرح بھی درست نہیں ۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: من حسن اسلام المرء ترکہ مالایعنیہ․ (ترمذی) یعنی آدمی کے اچھے اسلام کی علامت یہ ہے کہ وہ لا یعنی امور کو ترک کر دے ۔ حضرت مولانا احمد علی سہارن پوری کے حوالہ سے یہ بات آچکی ہے کہ مستقل طور پر مزاح میں لگا رہنا ممنوع ہے ؛ اس لیے کہ وہ زیادہ ہنسنے کا سبب، قلب کے بگاڑ کا ذریعہ اور ذکر الله سے اعراض کا موجب ہے ۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کبھی کبھار ہی مزاح فرماتے تھے ، وہ بھی کسی خاص مصلحت کے لیے یا مخاطب کو مانوس کرنے کے لیے۔ ( حاشیہ ترمذی:20/2)
مزاحیہ کہانی کا شرعی حکم
مزاحیہ کہانیاں جو پند ونصیحت پر مشتمل ہوں اور مزاح اس میں ضمنی طور پر ہو ، یا مزاح کے پہلو بہ پہلو حکمت وموعظت اور سبق آموز باتیں بھی ہوں تو ایسی کہانیاں لکھنے کی گنجائش ہے ۔ جب لکھنے کی گنجائش ہے تو پڑھنے ، شائع کرنے ، خریدوفروخت کرنے کی بھی گنجائش ہو گی ؛ لیکن شرط یہ ہے کہ تمام امور فرائض وواجبات، سنن وغیرہ سے غفلت کا سبب نہ بنیں۔ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے : حکمت ودانائی کی باتیں مومن کے لیے متاعِ گم شدہ ہے، وہ جہاں مل جائے تو وہ اس کا زیادہ حق دار ہے ۔ (جاری)