Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الثانیہ 1435ھ

ہ رسالہ

13 - 16
لباس مسائل اور احکام

محترم سعد بن اسد
	
وہ شخص کام یاب وکامراں ہو گیا جس نے اپنی دنیاوی زندگی کو اسلام کے سانچے میں مکمل ڈھال لیا اور الله اور رسول صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت کا خود کو خوگر بنا لیا: ﴿وَمَن یُطِعْ اللَّہَ وَرَسُولَہُ فَقَدْ فَازَ فَوْزاً عَظِیْماً﴾․ (الاحزاب:71)

لیکن آج ہم نافرمانیوں پر نافرمانیاں کرتے جاتے ہیں اور دل ہے کہ احساس کرتا ہی نہیں اور احساس بھی ہو تو کیوں کر! جب کہ سیاہ کاریاں سطح احساس پردبیز تہیں جماچکی ہیں، انہیں سیاہ کارناموں میں سے ایک یہ ہے، کہ آج ہم لباس جیسی الله کی عظیم نعمت اور سامان زینت میں بے راہ روی کا شکار ہوچکے ہیں ، موجودہ وقت کے لباس کی تمام خرابیوں کونظر انداز کرتے ہوئے، اگر آپ صرف اسبال ( پائجامہ، پینٹ اور لنگی وغیرہ ٹخنوں سے نیچے پہننے) پر غور کریں تو امت کی ایک بڑی تعداد ملوث پائی جائے گی ، پائجامے، لنگی، پینٹ ، و،غیرہ کاٹخنوں سے نیچے پہننا ایک عام بات سمجھ لی گئی ہے، بے نمازیوں کا تو ذکر ہی کیا! نمازیوں پر اگر آپ نظر ڈالیں تو اکثریت اس جرم عظیم میں لت پت نظر آئے گی اور اس کے چند اسباب ہیں، ان میں سے کچھ یہ ہیں۔1..  یہود ونصاریٰ کے چلن کو باعثِ فخر سمجھنا. 2.. فیشن میں دیوانہ ہونا. 3.. معاشرے کی ملامت کا خیال کرنا.  4.. حدیثوں کی باطل تاویل: یعنی بلاتکبر ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

انہیں اسباب کی بنا پر ضروری ہے کہ ہم اس موضوع پر کچھ تفصیل سے روشنی ڈالیں ، تاکہ اس گناہ عظیم کی حقیقت سامنے آئے اور ہم اپنے آپ کو اس کے ارتکاب سے محفوظ کر سکیں۔

لباس کی مستحب اور آخری حد: ذیل میں سب سے پہلے وہ حدیثیں پیش کی جاتی ہیں جن میں لباس، لنگی وغیرہ کی پسندیدہ ( مستحب) اور اس کی آخری حد بیان کی گئی ہے:

حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنہما کا بیان ہے کہ میں رسول الله صلى الله عليه وسلم کے پاس سے گزرا، میری تہہ بند ( ضرورت سے زیادہ ) نیچی تھی، تو آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: (یا عبدالله! ارفع ازارک) اے عبدالله! اپنی لنگی اونچی کرو، میں نے ( کچھ) اوپر کر لی ، پھر آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: اور زیادہ اونچی کرو، چناں چہ میں اس کا ہمیشہ خیال کرتا رہا، یہاں تک کہ بعض لوگوں نے کہا کہ کہاں تک؟ فرمایا: نصف پنڈلیوں تک۔(مسلم، اللباس والزینة:5462)

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پائجامے اور لنگی وغیرہ کا آدھی پنڈلیوں تک پہننا الله کے رسول صلى الله عليه وسلم کو زیادہ محبوب تھا۔ اور حذیفہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: لنگی ( وغیرہ) کی پسندیدہ حد نصف پنڈلیوں تک ہے ، اگرتمہیں یہ گوارانہ ہو تو تھوڑی اور نیچی کرلو، او راس پر بھی بس نہ ہو تو پنڈلیوں کی آخری حد تک رکھو، لیکن لنگی (وغیرہ) کا کوئی حصہ ٹخنوں پر یازیر ٹخنہ رکھنا درست نہیں ہے۔

امام نسائی:5331 اور امام حاکم نے اسے صحیح کہا ہے۔

اس حدیث پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ پائجامہ، لنگی وغیرہ کا پسندیدہ مقام آدھی پنڈلی ہے۔ دوسرا درجہ اس کے کچھ نیچے کا ہے او رپھر تیسرا درجہ ٹخنے سے اوپر کا ہے، لیکن اس سے نیچے لٹکانا کسی طرح درست نہیں، بلکہ حرام ہے ۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ : مسلمان کے لیے ازار کی حدیں بیان کی گئی ہیں: ایک حد مستحب ہے اور وہ یہ ہے مومن ازار آدھی پنڈلی تک پہننے پر اکتفا کرے اور دوسری حد جواز کی ہے اور وہ یہ ہے کہ ازار کی آخری حد ٹخنوں تک ہے، یعنی ٹخنے کے اوپر تک۔ (فتح الباری:220/10)

ٹخنوں سے نیچے لباس پہننے کی مذمت
اس سلسلے میں مختلف قسم کی حدیثیں وارد ہوئی ہیں:
الله کی نظر محبت سے محرومی: لباس کو ٹخنوں سے نیچے پہننے والے کی طرف الله تعالیٰ اپنی نظر رحمت سے نہیں دیکھے گا۔ رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا الله تعالیٰ اس کی طرف نظر نہیں فرمائے گا جو ازار ( لنگی، پائجامہ، پینٹ وغیرہ) کو ٹخنوں سے نیچے تک لٹکاتا ہے ۔( سنن النسائی، الزینة باب اسبال الازار )

الله تعالیٰ کی نظر رحمت ، ہم کلامی اور گناہوں کی صفائی سے محرومی ، نیز درد ناک: عذاب رسول الله اکا ارشاد گرامی ہے : تین قسم کے لوگوں سے الله قیامت کے دن نہ ہم کلام ہو گا ، نہ ان کی طرف نظر ( رحمت ) فرماے گا اورنہ ہی ان کو گناہوں سے پاک وصاف کرے گا او ران کے لیے درد ناک عذاب ہو گا، ایک وہ شخص جو لباس کو ٹخنوں سے نیچے لٹکاتا ہے، دوسرا احسان جتلانے والا، تیسرا جھوٹی قسم کھا کر اپنا سامان بیچنے والا۔ (رواہ مسلم، الایمان، باب بیان غلظ تحریم الاسبال:293)

تو پھر ایک مومن بندے کو یہ کیسے گوارا ہونا چاہیے کہ وہ کوئی ایسا عمل کرے جس سے اس کا پیار کرنے والا رب اس سے روٹھ جائے، اس سے ہم کلامی بند کردے اور گناہوں سے بوجھل اس کے کاندھوں کو آزادنہ کرے، بلکہ اب رحمت کی جگہ غضب او رپیار کی جگہ نفرت اور عفوودرگزر کی جگہ بیزاری آجائے اور خلاصی کی بجائے سزا سنائی جائے۔

غرور اور گھمنڈ سے لباس ٹخنے سے نیچے پہننا: یہ جرم اس وقت عندالله اور زیادہ باعثِ نفرت اور سببِ غضب ہو جاتا ہے جب ایسا کرنے والا شخص تکبر اور فخر کے طور پر کرے، کیوں کہ الله کو تکبر اور فخر کرنے والے ناپسند ہیں اور جو شخص اپنے لباس کو ٹخنے سے نیچے پہنتا ہے اس کے دل کے کسی نہ کسی گوشے میں کبر ضرور چھپا ہوتا ہے ۔ الا ماشاء الله۔ اس لیے کبر ونخوت میں مست لوگوں کو غور وفکر کرنا چاہیے۔ صحیح بخاری میں عبدالله بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے : الله کے رسول صلى الله عليه وسلم کا ارشادگرامی ہے:” جس نے بھی شیخی اورتکبر کے طور پر اپنے کپڑے کو زمین پر گھسیٹا ،الله قیامت میں اس کی طرف نہیں دیکھے گا “ ابو بکر رضی الله عنہ نیعرض کیا: اگر میں بار بار خیال نہ کروں تو میرے کپڑے کا ایک کونا گھسٹتا رہتا ہے؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا:” اے ابوبکر! تم ایسا غرور کے طور پر نہیں کرتے“ (رواہ البخاری، کتاب فضائل النبی صلى الله عليه وسلم ، بعد باب قول النبی صلى الله عليه وسلم: لوکنت:3665)

ایک باطل تاویل کا جواب اور ایک شبہ کا ازالہ
یہی وہ حدیث ہے جس کی غلط تاویل کرکے امت کا ایک طبقہ یہ کہتا ہے ” کہ بلا کبر وغرور کے ٹخنے سے نیچے لباس لٹکالینے میں کوئی حرج نہیں، کیوں کہ حدیث میں تو کبر وغرور کی قید لگی ہے اور ہمارے اندر تکبر نہیں ہے، بلکہ ایک عام چلن کے طور پر ہم ایسا کرتے ہیں ، اس لیے حدیث میں مذکور وعید ہم پر عائد نہیں ہوتی “ ۔اس کے مختلف جوابات ہو سکتے ہیں۔

پہلا جواب یہ کہ اس حدیث میں او راس معنی کی دوسری احادیث میں مذکور وعیدوں کو الگ الگ حالتوں پر محمول کرناچاہیے۔ جیسا کہ بعض حالات کا بیان پیچھے گزر چکا ہے ۔

دوسرا جواب یہ ہے کہ ابوبکر رضی الله عنہ کو نبی صلى الله عليه وسلم نے خیلاء ( تکبر او رگھمنڈ ) سے بری قرارا دیا تھا تو کیا آپ کے لیے بھی کوئی ایسی ضمانت ہے جس کی بنیاد پر آپ اپنے آپ کو خیلاء ( تکبر اور گھمنڈ ) سے پاک قرار دے رہے ہیں؟ بلکہ حدیث رسول صلى الله عليه وسلم کے سامنے سر تسلیم خم نہ کرنا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ دل میں کچھ مرض ہے، جس کی وجہ سے حدیث کی تاویل کی جارہی ہے ۔ اس سلسلے میں مسلمانوں کی ایک جماعت بڑی دیدہ دلیری سے احادیث میں آئی ہوئی تمام تر وعیدوں کو یہ کہہ کر نظر انداز کرتی اور مذاق اڑاتی ہے کہ ہم ان چھوٹی چھوٹی سنتوں کے چکر میں نہیں پڑتے۔ ( نعوذ بالله من ذلک) ہمیں تو حکومت الہیٰہ کے قیام کی جان توڑ کوشش کرنی ہے اور عملی طور پربھی اس جماعت کے بڑے بڑے ذمے دار اس کا نمونہ بھی پیش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، یعنی داڑھیاں کافی حد تک کٹی اور چھٹی ہوئیں اور لباس ٹخنوں سے نیچے لٹکے ہوئے۔

تیسرا جواب یہ ہے کہ مذکورہ تاویل باطل کی تردید اور اس شبہہ کا ازالہ خود حدیث رسول صلی الله علیہ وسلم نے کر دیا ہے : ”ایاک والاسبال فانہ من المخیلة“ یعنی لباس کو ٹخنے سے نیچے پہننے سے بچو، کیوں کہ وہ تکبر کی علامت ہے ۔ ( سنن ابی داؤد، اللباس اور حاکم نے اس کو صحیح کہا ہے ، دیکھیے فتح الباری:316/10)

اس حدیث نے بات بالکل واضح کر دی ، چناں چہ اب ہر قسم کا شبہہ ختم اور کبر نخوت کے سرِ پُر غرور کو خم ہو جانا چاہیے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے بلاشبہہ مومنوں کا یہ شیوہ ہونا چاہیے کہ جب انہیں الله اور رسول صلى الله عليه وسلم کی طرف فیصلے کے لیے بلایا جائے تو انہیں ”سمعنا“ اور” اطعنا“ کہنا چاہیے۔ (المؤمنون:51)

چوتھا جواب یہ ہے کہ کیا سلف رحمہم الله نے بھی وہی معنی سمجھا جو آج کے عقلی گھوڑے دوڑانے والے سمجھ رہے ہیں ؟ آپ کو نفی میں جواب ملے گا، چناں چہ عبدالله بن عمر رضی الله عنہما ہر حال میں زمین پر ازارگھسیٹنے کو ناپسند فرماتے تھے۔ ( ابن ابی شیبہ، فتح الباری:314/10)

حافظ ابن حجر رحمہ الله نے فتح الباری میں ابوبکر ابن العربی رحمہ الله کا قول نقل کیا ہے، وہ فرماتے ہیں کسی شخص کے لیے یہ جائز نہیں کہ اپنے کپڑے کو ٹخنے سے نیچے پہنے او راس کی یہ تاویل کرے کہ میرے اندر کبر نہیں ہے ۔ (فتح الباری:325/10)

غرور وگھمنڈ سے لباس ٹخنے سے نیچے پہننے والا آدمی زمین میں دھنسا دیا گیا۔

مذکورہ وعیدیں تو قیامت کے دن سے متعلق ہیں ، البتہ حدیث میں ایسے نمونے بھی ملتے ہیں کہ کبر کے ساتھ لباس کو گھسیٹ کر چلنے والے کو زمین میں دہنسا دیا گیا، چناں چہ امام بخاری رحمہ الله نے اپنی صحیح میں یہ حدیث نقل کی ہے : سالم بن عبدالله اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا ایک شخص ازار گھیسٹتے ہوئے کبر کے ساتھ چل رہا تھاکہ زمین میں دھنسادیا گیا اور وہ یوم قیامت تک زمین میں دھنستاہی جائے گا۔ (رواہ البخاری، اللباس، باب من جرثوبہ خیلاء:5790)

ذرا غور فرمائیں کہ دنیا ہی میں اس گناہ کا یہ انجام ہوا، یہ واقعہ تا قیامت لوگوں کے لیے عبرت اور سبق لیے ہوئے ۔ جب کہ الله کی رحمت یہ ہے کہ وہ اپنے بندوں کو گناہوں کی سزا فوراً نہیں دیتا، لیکن کبھی کبھی عبرت کے لیے کسی کو فوراً سزا بھی دی جاتی ہے، تاکہ لوگ اس سے نصیحت حاصل کریں۔

الله تعالیٰ اسبال کرنے والے کو پسند نہیں فرماتا
مغیرہ بن شعبہ رضی الله عنہ فرماتے کہ: رسول صلى الله عليه وسلم نے سفیان بن سہل کی چادر پکڑ کر فرمایا: ” اے سفیان! اسبال نہ کرو، کیوں کہ الله اسبال کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا“۔ ذرا غور فرمائیں کہ رسول صلى الله عليه وسلم نے صحابی کو الله تعالیٰ کی محبت کا واسطہ دیا کہ تمہارا یہ عمل تمہارے معبود حقیقی اور پیار کرنے والے رب کو پسند نہیں ، کیا ہمیں الله کی محبت وچاہت کی ضرورت نہیں؟ ہمیں چاہیے کہ ان تمام اعمال سے کنارہ کش ہو جائیں جو الله کوناپسند ہو، بالخصوص اسبال سے۔ الله تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

کیا آج ہم ایک شفیق باپ ہونے کی حیثیت سے اپنے بیٹوں کو، ایک بڑا بھائی ہونے کی حیثیت سے اپنے چھوٹے بھائیوں کو، ایک خیر خواہ دوست کی حیثیت سے اپنے دوستوں کو ،ایک اچھاپڑوسی ہونے کی حیثیت سے اپنے پڑوسی کو، ایک اچھا رشتہ دار ہونے کی حیثیت سے اپنے رشتہ داروں کو اور ایک ناصح ہم سفر ہونے کی حیثیت سے اپنے شریک سفر کوپیار محبت اور نصیحت سے لبریز یہ جملہ سناتے ہیں؟

ٹخنوں سے نیچے لباس سے ڈھکا رہنے والا حصہ آگ میں جلے گا!!!
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ٹخنوں کا جو حصہ ازار سے ڈھکا ہوگا وہ آگ میں داخل ہو گا۔ (البخاری، اللباس:5787)

اے مومن بندے! ایک طرف اہل دنیا کی ملامت ہے ، لوگوں کی طعنہ زنی ہے، دوستوں سے عار ہے ، معاشرہ کا پاس ولحاظ ہے ،فیشن اور نئی تہذیب کی چمک دمک ہے اور یہود ونصاریٰ کی اطاعت گزاری ہے اور دوسری طرف الله کی ناراضگی ہے ، درد ناک عذاب ہے ، نظر رحمت سے محرومی، نار جہنم کی دھمکی اور رسول الله صلى الله عليه وسلم کی نافرمانی!! دیکھو آخر آپ کو کیا پسند ہے ؟ عارضی دنیا کی بہاریں او راہل دنیا اور دوستوں واجباب کی خوش نودی یا رب کا غضب اور آخرت کی ہول ناکی وعذاب؟؟؟

نمازی اور ٹخنوں سے نیچے لباس
یوں تو لباس کو ٹخنوں سے نیچے پہننا ایک عظیم جرم ہے، لیکن یہ جرم اس وقت اوربھیانک ہو جاتا ہے جب حالتِ نماز میں بھی اس پر اصرار رہے، جب کہ الله تعالیٰ نے قرآن کریم میں صلاة کی صفت یہ بتلائی ہے ﴿إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْہَی عَنِ الْفَحْشَاء وَالْمُنکَر﴾․( العنکبوت:45)

کہ صلاة فحش او ربری باتوں سے روک دیتی ہے، ایسے لوگوں کو الله سے ڈرنا چاہیے او راپنی نگاہوں کے سامنے رسول الله صلى الله عليه وسلم کی وعید شدید پر مشتمل یہ حدیث رکھنی چاہیے:”المسبل فی الصلاة لیس من الله فی حل ولا حرام“ یعنی: حالتِ نماز میں لباس کو ٹخنے سے نیچے لٹکانے والا الله تعالیٰ کے حرام وحلال پر ایمان نہیں رکھتا اور الله کے دین میں اس کا کچھ حصہ نہیں ہوتا۔ (ابوداؤد: اللباس، والطبرانی بسند حسن، کما قال الحافظ فی الفتح:317/10)

ہم نمازیوں کو اس سخت وعید پر غور کرتے ہوئے اس گناہ کے ارتکاب سے باز آجانا چاہیے۔ حاصل کلام یہ کہ ٹخنے سے نیچے لباس پہننا گناہ کبیرہ ہے اور دنیا وآخرت دونوں میں الله کے غضب وعتاب کا باعث بھی ہے۔ لہٰذا ہمیں دنیا کی ملامت کا خوف نہیں کرنا چاہیے، نہ معاشرہ کے عار کی فکر دامن گیر ہو، نہ ہی غیروں کی تقلید کے ہم دیوانے بنیں نہ ہی فیشن کی لہروں میں بہیں اور نہ ہی دوست واحباب کی طعنہ زنی اور استہزا کی پرواہ کریں، بلکہ پہلی فرصت میں ہمیں اس گناہ سے توبہ کرلینی چاہیے۔ الله تعالیٰ ہمیں اور تمام مسلمان بھائیوں کو اس جرم عظیم کو ترک کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین !

Flag Counter