Deobandi Books

قافلہ جنت کی علامت

ہم نوٹ :

21 - 26
میرے بندوں میں سے جو علماء ہیں وہی مجھ سے ڈرتے ہیں لہٰذا اگر تم عالم ہو تو کیوں نہیں ڈرتے؟ یہی دلیل ہے کہ تم عالم نہیں ہو۔ اور کہیں اللہ تعالیٰ نے خشیت کے بجائے خوف کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ مثلاً: یَخَافُوۡنَ یَوۡمًا تَتَقَلَّبُ فِیۡہِ الۡقُلُوۡبُ وَ الۡاَبۡصَارُ8؎  اور جیسے اس آیت میں فرمایا: مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ تو خوف اور خشیت کا فرق علامہ آلوسی السید محمود بغدادی رحمۃ اللہ علیہ  تفسیر روح المعانی میں لکھتے ہیں کہ خوف اور خشیت کا عام مفہوم تو ڈر ہی ہے مگر خوف کہتے ہیں اُس ڈر کو جس میں عظمت ضروری نہیں ہے، بلاعظمت کے بھی خوف ہوتا ہے۔ جیسے تھانیدار کا ڈر، پولیس کا ڈر کہ عظمت نہیں ہوتی مگر ڈر ہے۔ اب ایک اور مثال سنیے جو اس سے زیادہ قریب الفہم اور آسان تر ہے کہ سانپ نکلا تو اُس کا ڈر ہوتا ہے، مگر کیا دل میں اُس کی عظمت ہوتی ہے؟ اگر عظمت ہوتی تو جوتے سے پٹائی کیوں کررہے ہو؟ ڈنڈے کیوں لگارہے ہو؟ معلوم ہوا کہ خوف کا استعمال عظمت پر بھی ہوتا ہے اور بغیر عظمت پر بھی ہوتا ہے، مگر خشیت کا استعمال صرف وہیں ہوگا جہاں خوف کے ساتھ عظمت لازم ہو۔ اس لیے یہ نہیں کہہ سکتے کہ مجھے سانپ سے خشیت ہے، پولیس والوں سے خشیت ہے، بھیڑیے یا پاگل کُتّے سے خشیت ہورہی ہے۔ عربی لغت کے اعتبار سے یہاں لفظ خوف کا استعمال جائز ہے، خشیت کا جائز نہیں۔ خشیت کا استعمال خاص ہے جہاں خوف کے ساتھ عظمت شامل ہو۔ تو             اللہ تعالیٰ نے کہیں خشیت اور کہیں مطلق خوف استعمال فرمایا اور قرآن پاک کی تفسیر کا اصول ہے کہ جب ایک جگہ معنیٰ مقید ہوجائیں تو ہر جگہ مقید ہوں گے لہٰذا جہاں جہاں لفظ خوف مطلق آیا ہے وہ خشیت کے معنیٰ سے مقید ہوگا، اس لیے خوف کا ترجمہ خشیت ہی ہوگا کیوں کہ اللہ کے خوف کے ساتھ عظمتِ الٰہیہ ضروری ہے جبکہ مخلوق سے خوف کے لیے عظمت کا ہونا ضروری نہیں۔ یہ فرق ہے خشیت اور خوف کا۔
تو وَ اَمَّا مَنۡ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ  کا مطلب ہے کہ جو اپنے رَب کی عظمت کی وجہ سے اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرے کہ اللہ کو منہ دکھانا ہے اور اُن کو حساب دینا ہے اور اللہ مجھ کو آسمان سے دیکھ رہا ہے کہ میری نظر کہاں جارہی ہے اور میری نظر پر اُن کی
_____________________________________________
8؎    النور :37
Flag Counter