بچتے ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ اُن کے قلب کو حسّاس کردیتے ہیں کیوں کہ اللہ لطیف ہے، لطیف نام ہے اُن کا، تو اپنے عاشقوں کے مزاج میں بھی وہ لطافت پیدا کردیتے ہیں اور کثافت سے پاک کردیتے ہیں۔ گناہوں میں کثافت ہے، اللہ کی عبادت میں لطافت ہے تو جب شیطان و نفس اُن کو عبادت سے انحراف کراکے کثافت کا ایک ذرّہ داخل کرنا چاہتے ہیں تو اُن کے قلب کی ترازو میں رعشہ اور لرزہ پیدا ہوجاتا ہے اور وہ سمجھ جاتے ہیں کہ ہمارا دُشمن کوئی گڑ بڑ قسم کی لذتِ حرام قلب میں امپورٹ کررہا ہے تو فوراً اپنے قلب کی نگرانی کرتے ہیں۔
بابِ تقویٰ کی حفاظت میں اہل اللہ کا نورِ بصیرت
مثلاً اگر نفس اُن کو کبھی دھوکا دینے کی کوشش کرے کہ یہ لڑکا پڑھنے میں بہت اوّل نمبر ہے یا یہ لڑکی جو قرآن شریف یاد کررہی ہے بہت ہی تیز ہے، اس کے لیے خاص دعا کرو اور اس پر دَم کردو اُس وقت اپنے عاشقوں کو اللہ تعالیٰ فوراً سمجھ اور فہمِ سلیم اور عقلِ سلیم دیتے ہیں کہ یہ نفس ہے جو کبھی دین کے راستے سے دھوکا دیتا ہے،اور اُن کو اپنے قلب کی استقامت کے ترازو کو قائم رکھنے کے لیے ہمتِ عالیہ عطا کرتا ہے۔ اُس وقت وہ اس شعر پر عمل کرتے ہیں۔ میرا شعر ہے، سنیے ؎
ہمارے نفس امارہ نے جب دامِ بتاں بدلا
تو ہم نے بابِ تقویٰ پر بھی فوراً پاسباں بدلا
بتوں کو یعنی حسینوں کو پھنسانے کے لیے نفس نے جب نیا جال نکالا تاکہ صوفی کو پتا بھی نہ چلے کہ میں کیا کررہا ہوں، وہ یہ سمجھے کہ میں تو خالی حسینوں پر پھونک مار رہا ہوں۔
پھونک پر یاد آیا کہ برطانیہ میں ایک میمن آیا، بہت موٹا تھا۔ سب تو پھونک مانگ رہے تھے لیکن اُس نے کہا مولانا! ہم کو ایک پھونکا دے دو۔ زندگی میں کبھی میں نے یہ لفظ نہیں سنا تھا، مجھے بھی گدگدی لگی اور ہنسی آگئی تو میں نے پورا مزہ لینے کے لیے منبر سے اعلان کردیا کہ جس جس کو پھونکا لینا ہو، جلدی آجاؤ۔ آج یہ فقیر کسی کو اپنے پھونکا سے محروم نہیں کرے گا، میں نے وہی لفظ استعمال کیا جس سے مجھے مزہ آیا۔ میں حلال مزہ ایک بھی نہیں