Deobandi Books

ماہنامہ الحق اکتوبر 2016ء

امعہ دا

45 - 65
یا ان ممالک کا جغرافیہ جوسیاسی یا اقتصادی اعتبار سے کوئی افادیت  نہیں رکھتا ہے، رہے اخلاقی اور دینی پہلو ، اسی طرح انسانی آداب و امیتازی صفات مغربی نصابِ تعلیم کے تیارکرنے والوں اور تعلیمی نظام وضع کرنے والوں کی نظروں سے اوجھل ہی رہتے ہیں۔
آج سے ایک صدی قبل جزیرةالعرب کے جغرافیہ کی کوئی اہمیت نہ تھی، مواد تلاش کیا جاتا تو جس قدر مواد دوسرے جغرافیوں کا ملتا جزیرة العرب پرنہ ملتا، لیکن جب خدا نے جزیرة العرب میں سیال سونے بہادیئے تو اب اس کا جغرافیہ بھی تیار کیا جانے لگا۔
ادب و تنقید کے موضوع پر توکچھ کہئے ہی نہیں، ان موضوعات پر کتابیں اٹھائیے، سب کچھ ملے گا، اگر نہ ملے گا تو اسلام، کیونکہ ان پر ان لوگوں کا تسلط رہا جو اخلاق و مذہب سے بے گانہ تھے، بلکہ وہ تھے جنہیں فرائیڈ، سارٹر کے افکار و نظریا ت پر ناز تھا۔ 
علم النفس اورعلم تربیت تو فرائیڈ اور ڈارون کے نظریات میں رنگے ہوئے ہیں، یہی حال ثقافت و تمدن کا ہے۔
یورپ کی تعلیم گاہوں اور مراکز تعلیم کا جب یہ حال ہے تو وہاں چھڑنے والی سیاسی و سماجی معرکہ آرائیاں دین و حکومت کی آویزش اور اخلاقی انار کی کا انجام معلوم تھا،لیکن مشرق جو فضائل زندگی کی دولت سے فیضیاب تھا اسے یورپ کی اندھا دھند تعلیم کی ضرورت نہ تھی، اسلام نے اس کے ہر شعبۂ زندگی کے لیے تعلیمات اور ضوابط عطا کر رکھے تھے، ایسی بنیادیں اس کو فراہم کردی گئی تھیں جن پر انسانی زندگی کی عظیم الشان عمارتیں تعمیر کی جاسکتی ہیں۔
لیکن یہ نظریات جو مغرب سے بہہ کر مشرق میں آتے رہے ہیں اور انسانی علوم کی شک ہمارے ادارے اور تعلیم گاہیں بڑے فخر و اعزاز کے ساتھ انہیں قبول کرلیتی ہیں اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص سنگریزوں اور ریت کو ملاکر کوئی دیوار اٹھا رہاہو، ظاہر ہے یہ دیوار کب تک کھڑی رہ سکتی ہے۔
سب سے بڑی ذمہ داری اس سلسلہ میں ہماری تعلیم گاہوں کی ہے جنہوں نے اب تک اس حقیقت کو نہیں اپنایا کہ انہیں اپنے نصاب اور نظام تعلیم میں تبدیلی کی ضرورت ہے، فاسد اور انسانی حسن و کمال سے خالی نصاب کو چھوڑ کر ٹھوس اور صالح نصاب تیار کرنے کی ضرورت ہے۔
___________________________
Flag Counter