حقوق الرجال (شوہر کے حقوق) |
ہم نوٹ : |
|
وَ لَا تَبَرَّجۡنَ تَبَرُّجَ الۡجَاہِلِیَّۃِ الۡاُوۡلٰی 8؎تم قدیم زمانۂ جاہلیت کے دستور کے موافق مت پھر و ،جیسے جاہلیت میں بے پردہ عورتوں کا شعار تھا،لہٰذا تم جاہلوں کی طرح اپنے کو بنا سجا کے باہر مت نکلو، شادی بیاہ میں سادے کپڑے پہن کے جاؤ۔ زیادہ سے زیادہ جو پرانے استعمال کے رکھے ہوئے ہیں اُن کو پہن کر جاؤ، نیانیا جوڑا غیر مَردوں میں پہن کر نکلنا حرام ہے، گناہِ کبیرہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دس دس جوڑے دیےہیں ، پورا بکس بھرا ہوا ہے، لیکن جہاں شادی میں جانا ہوا اب شوہر کی ٹانگ کھینچ رہی ہیں کہ لاؤ نیا جوڑا ، ہم نیا جوڑا پہن کر جائیں گے تاکہ عورتوں میں ہماری ایک شان معلوم ہو۔ ارے!شان کپڑوں سے نہیں ہے اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے میں ہے۔ عزت والا بندہ وہ ہے جس سے خدا راضی ہو، عزت والی بندی وہ ہے جس سے اللہ تعالیٰ راضی ہوں۔ دیکھو!علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا شعر مجھے یاد آگیا ، اتنے بڑے بزرگ فرماتے ہیں ؎ہم ایسے رہے یا کہ ویسے رہے وہاں دیکھنا ہے کہ کیسے رہے میری ماؤں، بہنواور بیٹیو! سن لو! اِ س کو سوچو کہ قیامت کے دن ہماری کیا قیمت لگے گی؟ ذرا اچھے کپڑے پہن لیے، چلو چند عورتوں نے تمہاری تعریف بھی کردی کہ اری بہن! بڑے اچھے کپڑے پہن کر آئی ہو ،بس آپ پھول کر کُپَّا ہوگئیں۔ بندیوں کی تعریف سے تمہیں خوشی ہوجائے اور اس کی فکر نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں میں کیسی ہوں، جبکہ شان دکھانے کے لیے لباس پہننا اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہے۔ دیکھو! ایک لڑکی جس کی شادی ہونے والی تھی، اُس کی سہیلیوں نے سجایا، پھر سب لڑکیوں نے کہا کہ اے بہن !آج تم بڑی حسین معلوم ہوتی ہو ،تو وہ لڑکی رونے لگی کہ تمہاری تعریف سے کیا ہوگا؟ جب میں بیاہ کے جاؤں گی اور میرا شوہر مجھے دیکھ کر خوش ہوجائے گا تب خوشی مناؤں گی۔ اس واقعے کو سن کر اللہ کے ایک ولی رونے لگے کہ اے دنیا والو! تم میری کتنی تعریف کرو لیکن اِ س _____________________________________________ 8؎الاحزاب:33