Deobandi Books

ماہنامہ الحق جولائی 2014ء

امعہ دا

46 - 65
منوی استعمال کیا جاتا ہے، جس سے عورت رشتۂ ازدواج میں منسلک نہیں ہوتی۔ لیکن پھر آہستہ آہستہ اس رجحان میں تبدیلی آنے لگی۔ ۱۹۶۴ء میں جارجیا پہلی ایسی امریکی ریاست ٹھہری جہاں مصنوعی تلقیح سے ہونے والی پیدائش کو قانونی حیثیت دی گئی، اس شرط کے ساتھ کہ اس کے لیے شوہر اور بیوی دونوں نے تحریری طور پر اجازت دی ہو۔ ۱۹۷۳ء میں کمشنرس آف یونی فارم اسٹیٹ لاز نے اور ایک سال کے بعد امریکن بار ایسوسی ایشن نے Uniform Parentago Act منظور کیا۔ اس کے مطابق اگر کسی عورت کی کسی اجنبی مرد کے حیوانِ منوی سے مصنوعی تلقیح اس کے شوہر کی اجازت سے ہوتی ہے تو حیوانِ منوی کا عطیہ دینے والے کو قانونی حقوق حاصل نہیں ہوںگے اور شوہر ہی کو اس بچے کا باپ سمجھا جائے گا۔ 
	مصنوعی تلقیح تازہ اسپرم کے ذریعے بھی ممکن ہے اور منجمد اسپرم کو دوبارہ طبعی حالت پر لاکر بھی۔ منجمد اسپرم کے ذریعے مصنوعی تلقیح کا تصور سب سے پہلے اٹلی کے مشہور ڈاکٹر Montegazza نے ۱۸۶۶ء میں پیش کیا۔ اس نے مشورہ دیا کہ جو شخص میدانِ جنگ میں اپنی خدمات پیش کرنے کے لیے جارہا ہو اسے چاہیے کہ گھر پر اپنا اسپرم منجمد اورمحفوظ کرکے جائے، تاکہ اگر وہ جنگ میں کام آجائے یا وہاں سے معذور ہوکر واپس لوٹے تو حسبِ ضرورت اس کا قانونی وارث جنم لے سکے۔ لیکن یہ تصور نصف صدی کے بعد عملی جامہ پہن سکا۔ 
اسپرم بینک کا آغاز و ارتقاء
۱۹۳۸ء اور ۱۹۴۵ء کے درمیانی عرصے میں سائنس دانوں نے دیکھا کہ اسپرم منجمد اور محفوظ کیے جانے کے دوران منفی ۳۲۱ ڈگری فارن ہائٹ تک کا درجۂ حرارت برداشت کرسکتے ہیں۔ ۱۹۴۹ء میں امریکی سائنس داں پارکس (A.S. Parkes) نے دوبرطانوی سائنس دانوں کے ساتھ مل کر ایک اہم دریافت کی ۔ انھوں نے گلیسرول نامی رقیق محلول تیار کیا، جو اسپرم کو منجمد کرنے کے دوران اسے جراحت سے بچاتا تھا۔ ۱۹۵۳ء میں امریکن سائنس داں ڈاکٹر جیروم شیرمن (Dr.Jerome K. Sherman) نے اس میں مزید بہتری پیدا کی اور پہلی مرتبہ منجمد اسپرم کے ذریعے عورت کے بیضہ کی بار آوری کا کامیاب تجربہ کیا۔ اس کا باقاعدہ اعلان دس سال کے بعد ۱۹۶۳ء میں 11th International Congress of Genetics میں کیا گیا۔ اس طرح اسپرم بینک کے امکانات میں دل چسپی لی جانے لگی۔ اس کے تقریباً ایک دہائی کے بعد۱۹۷۱ء میں پہلا کمرشیل اسپرم بینک  (Roseville) Minnesota میں قائم ہوا۔ 

Flag Counter