Deobandi Books

ماہنامہ الحق جولائی 2014ء

امعہ دا

30 - 65
عداوتیں اپنے عروج پر تھیں، اخلاق و مروت کا نام و نشان تک نہ تھا، انسانی حقوق اور تکریم کاتصور بھی نہ تھا یہاں تک کہ خواتیں کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کیا جاتا اور بیٹیوں کو زندہ درگور کر دیا جاتا تھا، معاشرے میں سچائی و رحم دلی اور علم کا نام و نشان بھی نہیں تھا، قوت حافظہ پر فخر کیا جاتا تھا، صرف خاندانی تفاخر اور نسلی تعصب کو ترجیح دی جاتی تھی۔ بے حیائی اس قدر عام تھی کہ خانہ کعبہ کا طواف بھی عریاں حالت میں کیا جاتا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب دیگر تمام ترقی یافتہ تہذیبیں دم توڑ چکی تھیں، جیسے مصری تہذیب اپنی تمام تر ترقی کے باوجود روبہ زوال تھی اسی طرح یونانی، ایرانی اور ہندی تہذیبیں تھیں جو معاشرے میں اثر و رسوخ نہیں رکھتی تھیں۔
	بنابریں رب کائنات نے بنی نوع انسان پر احسان فرمایا اور اپنے حبیب مکرم نبی آخر الزماں ا کو رحمۃ اللعالمین ا بناکر بھیجا۔
تعلیمات نبوی کا اجتماعی خاکہ:
	چنانچہ آپ ا نے دنیا کو برابری،عدل وانصاف، قومی یکجہتی، تہذیب و تمدن، اخلاق حسنہ معاشی، سیاسی، معاشرتی، آزادی، سخاوت اور تحمل و رواداری کا درس دیا۔ آپ ا نے تعلیمی انقلاب کی داغ بیل ڈالی اور معاشرتی مساوات بھائی چارگی اور انسانی تکریم کے زیور سے مزین کیا تصور کیجیے جس معاشرے میں تین سو ساٹھ بتوں کی پوجا کی جاتی تھی۔ آپ ا نے دنیا کو پہلی وحی سے ہی ایک رب کی پرستش کی تعلیم دی اور انہیں علم کی طرف راغب کیا۔لوگوں کو لکھنے کی تعلیم دی اور انہیں Embryologyسے متعلقہ مضامین سکھائے۔ گویا آپ ا کا پہلا پیغام علم دیکرنوع انسانی کو شعور عطا فرمایا گیا اور اُسے تکریم انسانیت کی تعلیم دیکرفہم و شعور، غور تفکر، عقل و توزن کے انمول جواہر سے سرفراز فرمایا۔    
’’اور بے شک ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی‘‘۔  (بنی اسرائیل،۱۷:۷۰)
پھر آپ ا نے مساوات اور اخوت و بھائی چارے کی فضا قائم کی، جسے قرآن یوں بیان کرتا ہے:
’’اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا فرمایا‘‘۔ (الحجرات، ۴۹:۱۳)
’’اے لوگو!اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہاری پیدائش کی ابتدا ایک جان سے کی‘‘۔ (النسا،۴:۱)
آپ ا نے معاشرتی و سماجی انصاف کا درس دیا:
’’فرمادیجئے: میرے رب نے انصاف کا حکم دیا ہے‘‘  (الاعراف، ۷:۲۹)

Flag Counter