Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ذوالحجہ 1433ھ

ہ رسالہ

9 - 14
سیا سی، معاشی اوراخلا قی ابتر ی کے اسبا ب
مولانا محمد حذیفہ وستانوی

اللہ رب العز ت نے یہ حیرت انگیز دنیا بے سو د اور اور بے کا ر پیدا نہیں کی خو د ارشا د الٰہی ہے ﴿مَا خَلَقْنَا السَّمَا ءَ وَاْلاَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَا بَاطِلاً ﴾”ہم نے آ سما ن و زمین اور جو کچھ اس کے در میان ہے اسے بے کا ر پید ا نہیں کیا “اللہ نے ہر چیز کا ظا ہر اور با طن بنا یااور اللہ نے خیر اور بھلا ئی کے سا تھ سا تھ شر اور بر ائی کو بھی وجو د بخشا ، صحت کے سا تھ مر ض اور اس کے علا ج کو پید ا فر ما یا، پس جس طرح ظا ہر ی امر اض اسباب کے سا تھ وجو د میں آ تے ہیں، با لکل اسی طر ح با طنی بگاڑ اور امر ا ض بھی اسباب کی وجہ سے وجو دمیں آتے ہیں جیسے ظا ہر ا ًکسی چیزکے کھا نے اور کر نے سے انسا ن کا ظا ہر ی وجو د متاثر ہو جا تا ہے اسی طر ح با طن کوبھی کسی چیز کے کر نے سے با طنی بیماری لا حق ہو جا تی ہے اور جیسے ظا ہر ی مر ض کا علاج ہو تا ہے اسی طر ح با طنی مر ض کا بھی علا ج ہو تا ہے، تا ہم فر ق صر ف اتنا ہے کہ ظا ہر ی بیما ری کا احسا س جلد ہو جا تا ہے ،اسی لیے انسا ن اس کے ازالہ کی فکر یں اور تدبیر یں کر تا ہے، لیکن با طنی مرض کا احسا س کبھی کسی کو ہو تا نہیں یا کسی کو دیر سے ہو تا ہے، جب کہ ظا ہر کے مقابلہ میں باطنی مر ض کے علاج کی فکر زیا دہ ضر ور ی ہے کیوں کہ ظا ہر ی مرض سے صرف دنیاوی نقصا ن ہو تا ہے، جب کہ با طنی مرض سے دنیا وآخر ت دونوں تبا ہ وبر با د ہو جا تے ہیں ﴿یَا لَیْتَ قَوْمِیْ یَعْلَمُوْ نَ﴾۔دنیا میں اس وقت ہر طبقہ پر یشان ہے اور زندگی کے ہر شعبہ میں گہما گہمی کا عالم ہے، کو ئی شخص اطمینان سے زند گی نہیں گزا ررہا ہے ، کیا فقیر ، کیا مال دار، کیا سیا سی لیڈر اور کیا مذہبی پیشو ا ، کیا مر د اور کیا عو ر ت ، ہر ایک اپنی بے چینی کا رونا رو رہا ہے تو ایسے حالات میں قر آ ن کر یم کی یہ آ یت کریمہ ذہن و دماغ کے پر دہ پر رونما ہوئی جو ہما رے حالا ت کی بہتر ین منظر کشی کر تی ہے :﴿ظَہَرَ الْفَسَا دُ فِیْ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّا سِ لِیُذِیْقَہُمْ بَعْضَ الذَِّیْ عَمِلُوْا لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْ نَ ﴾”خشکی اور تر ی میں فسا د بر پا ہو گیا، لو گو ں کے اعما ل کے سبب، تا کہ (اللہ )ان کے کیے ہو ئے بعض اعما ل کا مزہ ان کو چکھا ئے، تا کہ و ہ لو گ (اللہ کی طر ف)لو ٹ آئیں “۔

اس آ یت کریمہ میں زمین پر بگا ڑ کا بنیا دی سبب لو گو ں کے بر ے اعمال اور ا س کی سز ا کے طورپر بگاڑاور حکمت احساس معصیت کے بعد رجو ع الی اللہ ہے ۔

اب ہم خو د حالا ت کا بغو ر جا ئز ہ لیں اور پھر اس آ یت کے آ ئینہ میں حالا ت کو دیکھیں، ہمیں ضر و ر احساس ہو گا کہ اصل سبب ”اللہ کی نافرمانی“ ہے، جو ان حالا ت کے پید اہونے کا ”بنیا دی سبب “ہے ۔قر آن کریم نے اس کو اجمالا ً بیا ن کیا اور رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف گنا ہوں کو اس کی تاثیر کے ساتھ بیا ن کیا ہے ۔

حضر ت عبد اللہ بن مسعو درضی اللہ عنہ سے مر وی ہے کہ نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر ما یا کہ جب کسی بستی میں سو د خو ری عام ہو جا تی ہے تو اللہ اس کی بر با دی کا فیصلہ کردیتے ہیں ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مر وی ہے کہ پا نچ بر ی خصلتوں سے میں تمہارے لیے پنا ہ کی دعا کرتاہوں کہ تم اس میں مبتلا نہ ہو نے پاؤ ، پھر فرما یا اے میر ے مہا جر ین! جب کسی قو م میں فو ا حشا ت کھلے عام ہو نے لگتے ہیں تو وہ قو م اور معاشرہ ایسی بد ترین بیما ریوں سے دو چا ر ہوگا کہ اس جیسی بیما ری پہلے کبھی نہ پھیلی ہو گی اور جب کسی معا شر ے میں ناپ تو ل میں کمی ہو گی تو وہ رزق کی تنگی ، ظا لموں کی حکم را نی اور قحط سا لی سے ضر و ر دو چا ر ہو گا اور جب کوئی قو م زکو ة دینے سے باز رہے گی ، تو با رش کی کمی سے دو چا ر ہوگی ، اگر گونگے جا نو ر نہ ہوتے تو ایک قطر ہ بھی با ر ش کا نازل نہ ہو ۔اورجب کو ئی قوم عہد وپیما ن کا لحاظ نہ کرے گی تو اللہ ان پر ایسے دشمن مسلط کریں گے جو ان کے پاس موجودہ تمام مال ودولت ہڑپ کر جا ئیں گے اور جب کسی کے حکم را ن شریعت اسلامیہ کو نا فذ نہیں کر یں گے تو اللہ ان میں آپس میں اختلاف اور نا چا قی ڈال دیں گے ۔ (سنن بن ماجہ)

حضرت مولانا محمد زکریا #صاحب فرماتے ہیں :
اللہ پاک نے اور اس کے سچے رسول نے دین ودنیا کی کوئی بڑی سے بڑی یا چھوٹی سے چھوٹی ضرورت اور کوئی با ت ایسی نہ چھوڑی جس کے متعلق صاف اور کھلے ہوئے الفاظ میں احکام نہ بیان فرما ئے ہوں اور پھر سب کچھ زبانی تلقین یا کتا بی تعلیم نہیں، بلکہ اللہ کے سچے رسول اور رسو ل کی فریفتہ جما عت نے ان کو عملی جامہ پہنا کر، ان پر عمل کر کے اس کا تجر بہ بھی کرا دیا ہے ۔الغرض دین ودنیا کی بہبودی رسول کی اتبا ع ہی میں مضمر ومنحصر ہے، مگر جب ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کو دقیا نوسیت اور سنتوں پر عمل کرنے کو تنگ نظر ی سمجھیں تو آخرت کا جو حشر ہو نے والا ہے وہ ظا ہر ہے اور دنیا کا جو ہو رہا ہے وہ آ نکھوں کے سا منے ہے ۔نبی اکر م صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ایک حرکت وسکونت صحابہ کرام اورمحدثین عظام رضی اللہ عنہم اجمعین کے طفیل آ ج کتا بو ں میں محفوظ ہے، ایک طرف اس کو سا منے رکھو، دوسری طر ف امت کے حالا ت کو سامنے رکھو ۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ایک سنت دید ہ ودانستہ دلیری اور جرات کے ساتھ چھوڑ ی جا رہی ہے اور صر ف یہی نہیں بلکہ اس کا مقا بلہ کیا جارہا ہے، اس کی طر ف متو جہ کرنے والو ں کو احمق اور دین کا ناسمجھ بتا یا جا رہا ہے ،کیا اس ظلم عظیم کی کوئی حد ہے اورایسی صورت میں مسلمانوں کو پر یشا نی کی شکا یت کرنے کا کیا منھ ہے اور تقریروں میں اس کا شور مچا نے کا کیا حق ہے کہ مسلما ن تبا ہ ہوگیا #
        آنچہ بر ما ست از ما ست
        خود کردہ را علاجے نیست

اللہ جل شا نہ نے صاف اور کھلے الفا ظ میں ارشا د فر ما یا :﴿وَمَا اَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِ یْکُمْ وَیَعْفُوْ عَنْ کَثِیْر ﴾․
ترجمہ:”اور جوکچھ مصیبت تم کو پہنچتی ہے وہ تمہارے ہی اعما ل کی بدو لت ہے (اور ہر گنا ہ پر نہیں پہنچتی بلکہ )بہت سے گنا ہ تو اللہ معاف فرما دیتے ہیں “۔

اس قسم کے مضا مین کلام پا ک میں دو چار جگہ نہیں ، سینکڑ و ں جگہ وارد ہیں ۔

اس آ یت کے متعلق حضرت علی  فر ما تے ہیں کہ مجھ سے نبی اکر م صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشا د فر ما یا کہ اس آیت کی تفسیر تجھے بتا تا ہوں ۔

”اے علی! جو کچھ بھی تجھے پہنچے ، مر ض ہو یا کسی قسم کا عذاب ہو یا دنیا کی کو ئی مصیبت ہو ، وہ اپنے ہی ہاتھوں کی کما ئی ہے“۔حضرت حسن  فرماتے ہیں کہ جب یہ آ یت نا ز ل ہو ئی تو حضو ر اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر ما یا کہ اس ذا ت کی قسم جس کے قبضہ میں میر ی جا ن ہے! کسی لکڑی کی خر ا ش یا کسی رگ کا حر کت کرنا ، یا قدم کی لغز ش (ٹھو کر کھاجا نا )یا پتھر کہیں سے آ کر لگ جا نا جو کچھ بھی ہو تا ہے کسی گنا ہ کی وجہ سے ہو تا ہے ۔

حضر ت ابو مو سی  فرما تے ہیں کہ نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر ما یا کہ کسی بندہ کو کوئی زخم پہنچتا ہے یا اس سے بھی کم در جہ کی کو ئی چیز جو پہنچتی ہے وہ کسی اپنی ہی کی ہو ئی حر کت سے پہو نچتی ہے۔حضرت عمرا ن بن حصین  کے بدن میں کوئی تکلیف تھی لو گ عیا دت کے لیے آ ئے اور افسو س کرنے لگے ۔فر ما یا افسو س کی کیا با ت ہے ، کسی گنا ہ کی وجہ سے یہ با ت ہوتی ہے ۔ حضر ت ضحا ک  فر ماتے ہیں کہ جو شخص قر آ ن پا ک پڑ ھ کر بھو ل جا تا ہے وہ کسی گنا ہ کی بدو لت ہو تا ہے ۔پھر یہی آ یت تلاو ت فر ما ئی ۔حضر ت اسما ء بنت صدیق  کے سر میں در د ہوا تو سر پر ہاتھ رکھ کر فرما نے لگیں کہ میر ے گناہوں کی وجہ سے ہے ۔(در منثور، وابن کثیر )

تبا ہی عام کر نے والے اعمال
اگر نبی اکر م صلی اللہ علیہ وسلم کو مسلمان سچا نبی سمجھتے ہیں تو ان کو یہ بات اچھی طر ح سمجھ لینی چا ہئے کہ حضو ر صلی اللہ علیہ وسلم نے جس قسم کے اعمال پر جس قسم کے عذا ب اور پر یشا نیو ں کا مر تب ہونا ار شا د فرما یا ہے وہ ہو کر رہیں گے ۔اگر ہم ان سے بچنا چا ہتے ہیں تو ان اعما ل کو چھو ڑ دیں ۔ہم لوگ آ گ میں کو د جا ئیں اور شو ر مچا ئیں کہ جل گئے تواس سے کیا فا ئد ہ ، ان احادیث کا غور سے مطا لعہ کر و او ر کثرت سے دیکھا کر و ۔

”نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشا د فر ما یا ہے کہ جب میر ی امت یہ پندر ہ کام کر نے لگے گی تو اس پر بلا ئیں نا زل ہو نے لگیں گی۔

(1)غنیمت کا مال ذاتی ما ل بن جا ئے (2)اما نت ایسی ہو جا ئے جیسے ذاتی مال (3)زکو ة کا اداکر نا تاوان سمجھا جائے (یعنی جس طر ح تاوان کی ادائیگی طبیعت پر مشکل ہو تی ہے ایسے ہی زکو ة کی ادائیگی مشکل ہوجا ئے گی)(4) بیو یوں کی فر ما نبر دا ری او ر ما ں کی نا فر ما نی (5)دو ستو ں سے نیک بر تا ؤ اور با پ کے سا تھ ظلم کا برتا ؤ کیا جا ئے (6)مسجدو ں میں شو ر وشغب ہو نے لگے ۔(7)رذیل اور گھٹیا لوگ قو م کے ذمہ دار سمجھے جا ئیں (8)آ دمی کا اکرام اس کے شر سے بچنے کے واسطے کیا جا وے ، یعنی وہ اکر ام کے قا بل نہیں، مگر اس کا اعزا ز کیا جاوے گاکہ وہ کسی مصیبت میں مبتلا نہ کر ے (9)شرا ب علی الاعلا ن پی جا ئے (10)مر دریشمی لبا س پہنیں گے (11)گانے والیاں مہیا کی جا ئیں (12)با جے بجائے جا ئیں (13)امت کے پہلے لو گو ں کو (صحابہ تابعین اور ائمہ مجتہدین کو)بر ا بھلا کہا جا ئے ، تو امت کے لو گ اس وقت سر خ آ ندھی اور زمین میں دھنس جانے اور صورتیں مسخ ہوجانے اس قسم کے عذابوں کا انتظا رکریں ۔“

دوسر ی حدیث میں ہے کہ جب بیت المال کا ما ل ذاتی دو لت بن جا وے اور اما نت کو مال غنیمت سمجھا جاوے اور ز کو ة تا وا ن بن جا ئے اور علم کو دین کے و اسطے نہ سیکھا جائے، بلکہ دنیو ی اغر ا ض مال ودولت وجا ہت کے لیے سیکھا جا وے ، بیو ی کی اطا عت ہو او ر ما ں کی نا فر ما نی ، یا رو ں سے قر ب ہو اور با پ سے دوری ، مسجد میں شو ر و شغب ہو نے لگے ، فا سق لوگ سر دار بن جائیں ، رذیل لو گ قو م کے ذمہ دار بن جائیں ، برائی کے ذریعہ آ دمی کا اعز از کیا جا وے ، گا نے والیاں اور با جے کھلم کھلا استعمال کیے جا ئیں ، شر ابیں پی جائیں اور امت کے پہلے لوگوں کو بر ا بھلا کہاجا ئے تو اس وقت سر خ آندھی اور زلزلہ اورزمین میں دھنس جانے اور صورت مسخ ہو جانے اور آ سما ن سے پتھر بر سنے کا انتظا ر کر یں ۔

تیسر ی حدیث میں ان دو نوں کے قر یب قریب مضمون ہے اور یہ بھی ہے کہ کم عمر بچے ممبر وں پر وعظ کہنے لگیں ۔نبی اکر م صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے جو قوم بد عہدی کر تی ہے اس میں آ پس میں خوں ریز ی ہوتی ہے اور جس قو م میں فحش (زنا وغیر ہ ) کی کثر ت ہو تی ہے اس میں امو ا ت کی کثر ت ہو تی ہے اور جو جماعت زکو ة رو ک دیتی ہے اس سے با رش رو ک لی جا تی ہے۔

ایک حدیث میں ہے کہ جن لوگوں میں رشوت کی کثرت ہوتی ہے ان کے دلوں پر رعب کا غلبہ ہوتا ہے، وہ ہر شخص سے مرعوب رہتے ہیں۔ حضرت کعب بن مالک فرماتے ہیں کہ اس امت کی ہلاکت بدعہدی سے ہوگی۔ (درمنثور )

ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اس امت میں ایک جماعت رات کوکھانے پینے اور لہوولعب میں مشغول ہوگی اور صبح کو بندر اور سور کی صورتوں میں تبدیل ہوجائے گی اور بعض لوگوں کو زمین میں دھنسا دیا جائے گا ،لوگ کہیں گے کہ آج رات فلاں خاندان دھنس گیا اور فلاں گھر دھنس گیااور بعض لوگوں پر آسمان سے پتھر برسائے جائیں گے ،جیسے کہ قوم لوط پر برسائے گئے اور بعض لوگ آندھی سے تباہ ہوں گے اور یہ سب کیوں ہوگا!!!ان کی حرکتوں کی وجہ سے ،شراب پینے کی وجہ سے، ریشمی لباس پہنے کی وجہ سے ، گانے والیاں رکھنے کی وجہ سے، سود خوری کی وجہ سے اورقطع رحمی کی وجہ سے۔(صححہ الحاکم/در منثور)

ایک حدیث میں ہے کہ جس طاعت کا ثواب سب سے زیادہ جلدی ملتا ہے وہ صلہ رحمی ہے ، حتی کہ بعض گھرانے و الے گنہگار ہوتے ہیں ، لیکن صلہ رحمی کی وجہ سے ان کے مال بھی بڑھ جاتے ہیں اور اولاد کی بھی کثرت ہوجاتی ہے۔ اور سب سے زیادہ جلد عذاب لانے والا گناہ ظلم ہے۔ اور جھوٹی قسم ہے کہ یہ مال کوبھی ضائع کرتی ہے اور عورتوں کو بانجھ کردیتی ہے اور آبادیوں کو خالی کر دیتی ہے۔(درمنثور) یعنی اموات کی کثرت ہوتی ہے۔

ایک حدیث میں آیا ہے کہ ہر گناہ کا عذاب حق تعالیٰ جب تک چاہتے ہیں موٴخر فرماتے ہیں، لیکن والدین کی نافرمانی کا وبال بہت جلد ہوتا ہے۔ زندگی ہی میں مرنے سے پہلے اس کا وبال بھگتنا پڑتا ہے۔(درمنثور)

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشا دگرامی ہے کہ تم عفیف رہو ،تمہاری عورتیں بھی عفیف رہیں گی، تم اپنے والدین کے ساتھ نیکی کا برتاوٴ کرو ،تمہاری اولاد بھی تمہارے ساتھ نیکی کا برتاوٴ کرے گی۔ (در منثور)

مضمون کے سابقہ حصہ سے قا رئین بخو بی محسو س کر چکے ہوں گے کہ معصیت تمام ہلا کتوں(خواہ دنیو ی ہو یا اخر و ی) کا اصل سبب ہے ، جس طر ح بدن انسا نی کو زہر تبا ہ کر تا ہے اسی طر ح معصیت روحا نیت کو تبا ہ کردیتی ہے ، بلکہ دنیا و آخر ت کی کوئی بیما ر ی اور ہلا کت ایسی نہیں جس کا سبب معصیت نہ ہو ، ذرا غو ر کیجیے کہ ابلیس کو ملا ئکہ جیسی نو را نی مخلوق کی معلمیت سے ڈھکیل کر ملعو نیت کے غار میں کس چیز نے پھینک دیا؟ کو نسی چیز تھی جس نے اس کے قا بل رشک ظا ہر وبا طن کو قا بل نفر ت بنا دیا؟ قر ب الٰہی کے عو ض بُعد الٰہی ، رحمت کے بدلے لعنت ، جنت کے بدلے جہنم، خوب صور تی کے بدلے بد صور تی ، ایما ن کی بجا ئے کفر وفسق ، خدا ئے بر تر کی محبت و دوستی کی بجائے اس کی عداوت و دشمنی اس کا دائمی مقدر بن گئی ۔

اور غور کیجیے کہ امم سا بقہ کو طو فا نو ں ، زلزلوں ، تیز آندھیوں ، بجلیو ں کی کڑ ک ، پتھر و ں کی بر سا ت ،ظا لم حکم را نوں کا تسلط اور مہیب آواز و ں کے ذریعہ کس چیز نے نشا نِ عبر ت بنا چھو ڑا ؟جو اب صر ف اور صر ف یہی ہے کہ ”معصیت الٰہی “ ہی وہ بد ترین عنصر ہے جس نے دنیا کو کئی مر تبہ ہلا کتوں اورتباہیوں کا سا منا کر وا یا ۔

اسبا ب ہی سب کچھ نہیں
اگرخدائے قادرمطلق دنیا کو محض اسبا ب کے حو ا لے فرمادیتے ،یا اسبا ب کو تا ثیر ِ حقیقی مل جا تی ، تو آ ج پور ی دنیا اپنے تا ریخی چین و سکو ن میں ہوتی ، اس لیے کہ جس دو ر سے ہمار ا گز ر ہو رہا ہے بلا شبہ تا ریخ عالم کا یہ و ہ دور ہے جس میں اسبا ب کو عر و ج حا صل ہو چکا ہے ، اس کے با وجود ذرا عالم پر نظر دوڑائیے ، حالا ت کا طا ئر ا نہ جائزہ لیجیے اور ما ضی وحال کا تقا بل کیجیے ، تو یہ با ت عیاں ہو گی کہ آج عالم انسا نیت جس بے اطمینا نی اور بے سکو نی میں ہے اس کی نظیر بھی صفحا ت تا ریخ میں ڈھونڈ نے سے نہیں ملتی ۔

رضا ئے الٰہی اصل ہے
ایسی صور ت حال میں اگر کو ئی ذوقِ سلیم لے کر غیر جا نب دار انہ نظر یہ سے غور کر ے تو بالیقین وہ اسی نتیجہ پر پہنچے گا کہ آج سب کچھ ہوکر بھی کچھ نہیں !اور ما ضی میں کچھ نہ ہو کر بھی سب کچھ میسر تھا، یو ں محسو س ہو تا ہے کہ خداوند عالم نے اس ما دہ پر ست دنیا کو ما دیت کے حوالے کرکے یہ چیلنج کر دیا کہ جاؤ! میر ی رضا کے بغیر آ خر ت تو درکنا ر، صر ف دنیا کا سکو ن حاصل کر کے بتا دواور پو ر ا عالم اس چیلنج کو پور ا کر نے پر بضد ہے ،لیکن اس حقیقت کے مشاہدے میں بینا ونا بینا یکسا ں ہیں کہ اسبا ب کی بہتا ت کے با وجو د آ ج دنیا ،آ خرت کو تو تبا ہ کر ہی چکی ،دنیا بھی ہاتھوں سے لٹا چکی ہے ۔

ایسے موقع پر جب ہر طر ف زبو ں حالی ، بے چینی و بے سکو نی پھیلی ہو ئی ہے ، ہم نے قر آ ن سے پو چھا کہ یہ مصا ئب کیو ں ر و نما ہوئے اور ان کا کیا حل ہے ؟ توقر آن کر یم نے مرض کی تشخیص بھی کی اور منا سب علا ج بھی بتایا کہ : ﴿وَمَا اَصَا بَکُمْ مِّنْ مُصِیْبَةٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیْکُمْ ﴾یعنی ”جو کچھ تم پر مصا ئب وآلا م کے پہاڑ ٹو ٹتے ہیں وہ تمہا ری معصیتوں ہی کا نتیجہ ہیں“ یہ تو مر ض ہوا، رہا علا ج! تو قر آ ن کہتا ہے : ﴿اَلاَ بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ﴾”سنو ! اس مر ض کاعلا ج اللہ کو یا د کرنے میں ہے ۔“

خلا صہ کلا م یہ کہ آج جو بھی مصا ئب و آلا م ، بے چینی و بے اطمینانی، ظلم و تشدد کی فضا گرم ہے اس کا سبب انسا نی بد اعمالیاں ہیں ،قر آ ن و حدیث پر ایک طالب علما نہ نظر دوڑانے کے بعد ہمیں گناہوں کی بعض ایسی نحوستوں کا علم ہوا کہ جن کا مر تکب ہو کر ایک مو من اپنی آ خر ت تو آخرت ،دنیا بھی خر اب کر بیٹھتا ہے ، جس کی فہر ست بالترتیب حسب ذیل ہے :

٭ …گنا ہ کی نحو ست سے خو ن ریز ی ،ظلم اور فسا د ر ونما ہو تے ہیں:
فر ما نِ با ری تعالیٰ ہے : ﴿ظَہَرَ الْفَسَادُ فِيْ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ لِیُذِیْقَہُمْ بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ﴾ آج ہر انسا ن آیتِ کر یمہ کے آئینہ میں حالات کا چہر ہ دیکھے ، تو یقینا یہ بات عیاں ہو گی کہ تما م تباہیاں انسا نی بد عملیوں کے سبب ہیں۔

٭ …گنا ہ، خسف دھنسنا اور زلز لوں کا اہم تر ین سبب ہے :
چناں چہ امم سا بقہ کے واقعا ت اس کے عینی شا ہد ہیں ۔

٭ …گنا ہ کی تا ثیر انسا نی بدن پربھی ظا ہر ہو تی ہے:
٭ … گنا ہ انسا نی غیر ت وحمیت کو مٹا دیتا ہے:
”غیر ت “جو قلب کے لیے بمنزلہ آ گ ہے ،جو انسا ن کو ہر طرح کی خبا ثتوں اور مذمو م صفات سے ایسے ہی پا ک کر تی ہے جس طر ح دھو نکنی کے ذریعہ سو نے چا ند ی اور لو ہے کا میل کچیل صاف کیا جا تا ہے ، اتنا بڑ ا جو ہر گنا ہو ں کی پا داش میں سلب ہو جا تا ہے ۔

٭ … گنا ہ شر م و حیا کو کھا جا تا ہے:
حدیث پا ک میں ہے کہ ”حیا ہر قسم کی بھلا ئیوں کا مر کز و مبدا ہے اور جب یہ ختم ہو جا ئے تو انسا ن، انسان نہیں رہ جا تا، بلکہ بصور ت انسا ن خالص جنگلی جا نور ہوجا تا ہے ‘ ‘ عر بی زبا ن میں با رش کو بھی حیا کہا جا تا ہے، کیوں کہ زمین، نبا تا ت اور تمام خلق کا مدا ر بار ش پر ہے۔ کہ بار ش نہ ہو تو تمام خلق خدا وجو د کھو بیٹھے ، بس اسی طر ح جب کسی دل میں حیا ء نہ ہو تو وہ بھی مُردہ ہے، حتی کہ بے حیا ء شخص کو دیکھ کر شیطا ن بھی شر ما جا تا ہے اور کہتا ہے کہ قربان جا ؤں ایسے شخص پر جس کی صلا ح و فلا ح نا ممکن ہے ،اما م ابن قیم جو ز ی رحمہ اللہ فر ما تے ہیں کہ گنا ہ، بے غیر تی اور بے حیا ئی آپس میں ملے ہو ئے ہیں، چناں چہ جس کے پا س غیر ت ہو تی ہے وہ گنا ہ سے بچ جاتا ہے، جب کہ بے حیا وبے غیر ت بڑ ی ڈھٹائی سے جر م کر گز ر تا ہے ، چناں چہ حدیث پا ک میں ہے کہ:((اِذَا فَاتَکَ الْحَیَاءُ فَافْعَلْ مَا شِئْتَ)) یعنی جب حیا مر جا ئے تو اب جو جی میں آ ئے وہ کر نا آ سا ن ہے ، حیا کی اس سے بڑ ی فضیلت اورکیا ہو سکتی ہے کہ رسول اللہ ا نے فر ما یا” با حیا بندے کو خو د اللہ تعالیٰ عذاب دینے سے حیا فرمائیں گے۔“

٭ … گنا ہ کی و جہ سے اللہ کی عظمت دل سے نکل جا تی ہے :
گنا ہ کر نے والا چا ہے یا نہ چا ہے،بہر حال اللہ کی عظمت اس کے قلب سے نکل جا تی ہے اور اس پر دلیل یہ ہے کہ اگر عا صی کے قلب میں اللہ کی عظمت ہو تی تو وہ اللہ کی نافرمانی ہی نہ کر تا ۔

٭ …رحمت الہٰی سے محر و می کا سبب :
اللہ تعالیٰ عاصی کو اپنی رحمت سے دور فر ما دیتے ہیں اور ایسا شخص نفس اما رہ اور شیطا ن کے درمیا ن، جال میں پھنسے پر ندے کی طر ح پھڑ پھڑ اتا ہے، حتی کہ ہلا کت اس کو اپنی گر فت میں لے لیتی ہے ، ادھر اللہ تعالیٰ اسے اپنی ذا ت سے بھلا دیتے ہیں، فر ما نِ با ری ہے : ﴿وَلَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ نَسُوْا اللّٰہَ فَاَنْسَاہُمْ اَنفُسَہُمْ ، اُولٓئِکَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ﴾ ”مو منو ! ان لوگوں کی طرح مت ہو جا ؤ جنہوں نے اللہ کو بھلا دیا ، تو اللہ نے انہیں اپنی ذا ت سے بھلا دیا ، یہی لو گ نا فر ما ن ہیں ۔“

٭ … گنا ہ کر نے سے” کیفیت احسان“ فر و ہو جا تی ہے :
ایما ن کا اعلیٰ تر ین درجہ ”کیفیت احسا ن“ کا حاصل ہوجاناہے، جس کا خلا صہ یہ ہے کہ انسا ن بوقت عبادت ذاتِ باری تعالیٰ کو اپنے سا منے پائے اور اس کیفیت کے حصو ل کے بعد انسا ن ہر حالت میں ذاتِ بار ی کو اپنے سا منے محسو س کر تا ہے ، ظا ہر ہے ایسی حالت میں ارادہٴ معصیت بھی محال ہو گا، چہ جائے کہ ارتکا بِ معصیت ۔

٭ …گنا ہ مایوسی، نا امید ی پید ا کر تا ہے:
”امید“ اور ”یا س“ نام ہے قلبی قوت کا ، جب کسی انسا ن کو ار تکا ب معصیت کا مر ض لا حق ہو جا تا ہے ، تو قلب ان قو تو ں سے محر و م ہو جا تا ہے اور اس کی جگہ نا امیدی اور ما یوسی جیسے بدتر ین عناصر لے لیتے ہیں اور یہ بات محقق ہے کہ بدن انسا نی میں قوتِ متصر فہ صر ف قلب کو حاصل ہے ، پس جب قلب مریض ہو جا ئے تو وہ کچھ کرنے کے قا بل ہی نہیں ر ہتا ، نتیجتاً انسان ناامید ی اور ما یوسی سے دو چار ہو جا تا ہے ۔

٭ … گنا ہ گا ر ہر وقت دہشت زدہ اور مر عو ب ر ہتا ہے :
ظا ہر ہے کہ کسی کی حاکم وقت سے دوستی ہو تو پور ی رعایا اس کا احترام کر نا اپنا فر ض خیا ل کر تی ہے اور جو حا کم وقت کا با غی ہو جائے تو وہ ہمیشہ خوف زدہ اور چھپتا پھر تا ہے، یہ تودنیا کے چند علاقوں پر حکم رانی کرنے والوں کاحال ہوا ،اندازہ لگائیے اس نافرمان کا جوقادر مطلق حکم ران کی نافرمانی میں ملوث ہو،اسے خوشیاں کیسے مل سکتی ہیں؟ اسی لیے کسی عر بی شا عر نے کہا: #
        قضی اللہ بین الناس مذ خلقوا
        ان المخاوف والأجرام في قرنٍ

٭ …گنا ہ سے نور بصیر ت ،فر است ایمانی ختم ہو جا تے ہیں:
اللہ تعالیٰ نے ہر مو من کو دو ر اندیشی ، قو ت فیصلہ اوراچھی سمجھ بو جھ ودیعت فر ما ئی ،جو اللہ تعالیٰ ہی کے نو ر کا حصہ ہے ۔ چناں چہ فر مایا رسو ل اللہ ا نے: ((اِتَّقُوْا فِرَاسَةَ الْمُوٴمِنِ فَاِنَّہُ یَنْظُرُ بِنُوْرِ اللّٰہِ))یعنی مو من کی فراست سے ڈرو،کیو ں کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے ، چناں چہ حضرت اما م مالک رحمہ اللہ نے اپنے شا گر د حضر ت اما م شافعی رحمہ اللہ سے فر ما یا تھا کہ: ” اِنِّي اَرَی اللّٰہَ تَعَالیٰ قَدْ اَلْقیٰ عَلَیْکَ نُوْرًا فَلاَ تُطْفِئْہُ بِظُلْمَةِ الْمَعْصِیَةِ “یعنی ”اے طالب علم! میں دیکھ رہا ہو ں کہ اللہ نے تجھ پر اپنا نو ر ودیعت فرمایا ہے تو، تو اس کو معصیت کی تاریکی سے مت مٹا ۔“

٭ …گنا ہ انسا ن کو مذمو م بنا دیتا ہے:
معصیت کی وجہ سے ایک صا لح آ دمی مو من، مخلص، متقی،ولی ، عابد، اوّاب جیسے بیش قیمت القا ب سے ہٹ کر فاجر ،بد کا ر ، فسا دی ، خبیث ، چور ، قاتل اور کذا ب وغیرہ بر ے القا ب سے ملقب ہو جا تا ہے اور اس کی بنیادی وجہ معصیت ہے ،ظا ہر ہے اللہ کو نا را ض کر کے عز تو ں کا حصول ممکن بھی کیوں کر ہو؟ چناں چہ ارشا د بار ی تعالیٰ ہے :﴿وَمَنْ یُّہِنِ اللّٰہُ فَمَا لَہ مِنْ مُکْرِمٍ﴾ یعنی ”جس کو اللہ ذلیل کر دے اسے کون عزت دے سکتا ہے ؟“

٭ …گنا ہ انسا نی عقل کو ماؤف کر دیتا ہے :
جس ذات پر آ سما ن وزمین کی کوئی شے مخفی نہ ہو ، جس نے آسما ن وزمین کو بغیر کسی سہا رے کے قائم فرمایا، ایسے طاقت و قو ت والے پر ور دگا ر کا نافر ما ن بے وقوف نہیں تو اور کیا ہے ؟

٭ …گنا ہ بے بر کتی کا با عث ہے:
گنا ہ کا بڑ ا نقصا ن یہ بھی ہے کہ وہ طاعت ،علم وعمل ، رز ق اور عمر کی بر کتوں کو ختم کر دیتا ہے ، چناں چہ آ ج ہر طر ف بڑ ے بڑ ے ادار وں، تحر یکوں اورکمپنیوں کی کثرت ہے ،لیکن جو افر ا داور جو رزق ملنا چا ہیے اس کا دسو اں حصہ بھی نہیں، جو اسلا ف کے پا س تھا ، چناں چہ مسند احمد میں ہے کہ بنی امیہ کے زمانے میں کچھ گیہوں کے دانے پا ئے گئے جن میں ایک ایک دانہ کھجور کی گٹھلی کے بر ا بر تھا اور یہ دانے ایک تھیلی میں بند تھے ، تھیلی پر لکھا تھا : ”ھذا کان ینبت في زمن العدل “ یعنی یہ وہ غلہ ہے جو صالحین کے زمانے میں اُگا کر تا تھا۔نیز فرما ن باری بھی ہے :﴿وَلَوْ اَنَّ اَہْلَ الْقُرَیٓ اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْہِمْ بَرَکَاتٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ﴾ یعنی ”اگر اہل بستی ایما ن اور تقویٰ اختیار کر لیں تو ہم ان پر آ سما ن و زمین کی بر کا ت کے در وا زے کھول دیں گے۔“

یہ با ت بھی ذہن نشین رہنی چا ہیے کہ رزق و عمل کی و سعت ظا ہر ی بھیڑ بھاڑ یا کثر ت کا نا م نہیں ہے اور نہ ہی درا زیٴ عمر، سا لو ں اور مہینوں کی کثرت کا نام ہے ، چناں چہ ہمار ے اسلا ف و اکا بر ین کی زندگی اور مد ت عمر بھی اتنی ہی تھی جتنی آ ج ہما ری ہے ، لیکن ہم اُن کے کا ر نا موں کا دسو ا ں حصہ بھی حاصل نہ کر پا ئے با وجو دیکہ ہمار ے پاس اسبا ب و سائل کی بہتا ت ہے۔

٭ …گنا ہ دشمن کو جر ی اور گنا ہ گا ر کو بز دل بنا دیتا ہے:
گنا ہ کا ایک نقصا ن یہ بھی ہے کہ جس میں اس کو نقصا ن پہنچانے کی جرات نہ تھی وہ بھی اس پر حملہ آ ور ہوجا تا ہے ، چنا ں چہ شیا طین تکلیف پہنچا نے ،دل میں وسا وس اور غم ڈالنے ، اہم مصلحتوں کو بھلا دینے اور اللہ تعالیٰ کی یا د سے غافل کر دینے پر جر ی ہو جا تے ہیں، حتی کہ گنا ہ گار کے بیوی، بچے، خدام،پڑوسی اور سو ار ی وغیرہ تک نا فرمانی پر اُتر آ تے ہیں ،کسی عا رف کا قو ل ہے کہ: ”اني لاعصي اللہ فأعرف ذلک في امرأتي ودابّتي“ یعنی ”مجھ سے جب بھی کو ئی معصیت سر زد ہو تی ہے تو اس کا ظہو ر سب سے پہلے میر ی بیو ی اور میر ی سو اری میں ہو جا تا ہے کہ وہ میری نافرمانی پر اترآتے ہیں۔“

یہ تو معصیتوں کے عمو می نقصا نا ت ہیں، البتہ بعض احا دیث میں چند ایسے خاص گنا ہو ں کا بھی تذکر ہ ہے کہ جن کا مر تکب ہو کر انسا ن چند دنیاوی پر یشا نیوں میں مبتلا ہو جا تا ہے ،ذیل میں بشکل خا نہ قا رئین کی نذر ہے :
نقصان 	گناہ
محلے ، بستی ، شہر اور ملک ایسے امر اض میں مبتلا ہو جاتے ہیں جو پہلے کبھی نہ دیکھے گئے ۔ 	زنا
عقل پر خبط (پا گل پن )سوار ہو جا تا ہے ۔ 	سو د خو ری
رزق کی تنگی ، ظالم حکم ر ا نوں کا تسلط اور قحط سالی کا ظہور ہوتا ہے ۔ 	نا پ تو ل میں کمی بیشی
بار ش نہیں ہو تی ۔ 	زکو ة نہ دینا
ایسے دشمنو ں کا تسلط ہو تا ہے جو ڈا کو اور لٹیر ے ہوتے ہیں ۔ 	وعد ہ پور انہ کر نا
حکم رانوں میں آپسی عنا د ، بغض وکینہ اور با ہمی خون ر یز ی جا ری ہو جا تی ہے ۔ 	مسلم حکم ر ا نوں کا اسلامی نظا م کو نا فذ نہ کرنا
حاسد ہمیشہ غمگین اور ٹینشن میں رہتا ہے ، حتی کہ وہ خطرناک قلبی امر اض میں مبتلا ہوکر ہلا ک ہو جا تا ہے ۔ 	حسد

ایک غلط فہمی کا ازالہ
کہاوت مشہو ر ہے کہ ”خد اکے یہا ں دیر ہے اندھیر نہیں “چنا ں چہ جب کوئی بند ہ گنا ہ میں مبتلا ہو تا ہے تو اُس کی یا تو فور ا ً گر فت ہو جا تی ہے، یا اُسے مہلت دی جا تی ہے، عارفین فر ما تے ہیں کہ” فور ا ً گر فت کا ہو جا نا یہ اچھا اور با عث نجات ہے “کہ یہ” اِس ہاتھ دے اُس ہا تھ لے“ کا مصدا ق ہے ، لیکن مہلت اور ڈھیل کا ملنا، حتی کہ انسا ن گنا ہو ں کا عا دی ہو جائے، بڑ ی ہلاکت خیز شے ہے ، بعض مر تبہ یہ غلط فہمی ہو تی ہے کہ کسی جر م کے کر نے پر فور اً سزا مل بھی جا تی ہے ، لیکن انسا ن لا پر وا ہی ، غفلت یا شیطا نی غر و ر (دھوکہ) میں مبتلا ہو کر اسی طرح سز ا کو کسی دنیا وی سبب کی طرف منسوب کر کے ”کہ یہ چیز فلا ں کا م کر نے کی وجہ سے ہوئی ،یا فلا ں دو ا وقت پر نہ لینے کی وجہ سے ہوئی“ مطمئن ہوجا تا ہے اور گنا ہ کر تا رہتا ہے ، حتی کہ ہلا کت اس کا شکا ر کر لیتی ہے۔ اللہم احفظنا منہ !

لو ٹ پیچھے کی طرف اے گر دش ایام تو !
حضر ت اما م ما لک رحمہ اللہ سے کسی نے دریا فت کیا کہ جب مسلمان دنیا وی مصائب و آلا م میں مبتلا ہوں اور دشمن اُن پر ہر طر ف سے یلغار کر رہا ہو ، تو ایسی صور ت حال میں مسلمانوں کو کیا کر نا چا ہیے؟ اور ان مصائب وآلا م کا کیا حل ہو گا ؟ تو حضر ت امام ما لک رحمہ اللہ نے فر ما یا : ”لن یصلح آخر ہذہ الأمة إلا بما صلح بہا أولہا “یعنی مسلما ن خوا ہ کسی زما ن ومکا ن اور کسی بھی تہذیب وثقا فت میں پر وا ن چڑھا ہو اگر وہ خستہ حالی میں مبتلا ہے ، تو اس کا مداویٰ اور علا ج یہی ہے کہ اپنے کو انہی اصو لو ں اور تعلیما ت کی ڈگر پر لا کھڑ ا کر ے جن پر چل کر ماضی میں ہما رے اسلا ف و اکا بر ین نے اپنی دنیا و آخر ت کو سنوارا ۔

اس وقت عالمی منظر نا مے پر مسلما ن جس زبو ں حالی کا شکا ر ہیں، وہ تو قا بل افسو س ہیں ہی، لیکن اس سے بڑ ی ہلا کت خیز با ت یہ ہے کہ جب کبھی ان مصا ئب وآلا م کا تذکر ہ کیا جا تا ہے، تو ہم ہی میں سے بعض لو گ یہ کہہ کر با ت ٹا ل دیتے ہیں کہ” یہ تو اس بستی اور ملک وا لو ں کا کیا دھر ا ہے “اور ایسے بھی کچھ مادہ پرست لوگ ہیں جواِن عبر ت نا ک واقعا ت کو اسبا ب کی طرف منسو ب کر کے اور یہ کہہ کرکہ ” آ ج مسلما نو ں کے پاس ایٹمی ہتھیا ر نہیں، اچھے افر اد نہیں“ وغیر ہ وغیر ہ، ٹا ل دیتے ہیں ، لیکن یا د رکھنا چا ہیے کہ خدائے قادر مطلق نے ہمیشہ اپنے ما ننے والو ں کو اپنی ذا ت سے لو لگا نے کے لیے بے سر و سا ما نی میں رکھا ، ذرا تا ریخ کے ان اور ا ق کو بھی الٹیے کہ اصحا بِ بدر کے پا س اس وقت کے مطا بق کیا ہتھیا ر تھے؟جب کہ سا منے لشکر طاغو ت پو ری طر ح ہتھیا ر و ں سے لیس تھا، پھر و ہ کیا چیز تھی کہ جس نے اس مختصر اور تھو ڑی سی جماعت کو اپنی تمام تر بے سر و سا ما نیوں کے با وجو د اس وقت کی سپرپاور طاقت پر تا ر یخی فتح عطا کی؟

خلا صہ کلا م یہ کہ اپنے آپ کو اللہ کے حو الے کر دیجیے اور اللہ کی طرف رجو ع ہو جا ئیے ، معصیت الہٰی کے خیا لا ت تک دل سے نکا ل پھینکیے، اور پھر دیکھیے کہ کس طر ح دنیا اور سا ری قو مو ں کو اللہ رب العز ت آ پ کے سامنے سر نگوں فر ما تے ہیں ۔ 
Flag Counter