Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ذوالحجہ 1433ھ

ہ رسالہ

5 - 14
ہدایت اور گمراہی کا سامان
استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ

ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہلسنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے او رحضرت کا سایہ تادیر ہم پر قائم رکھے۔ آمین۔ (ادارہ)

﴿إِنَّ اللَّہَ لاَ یَسْتَحْیِیْ أَن یَضْرِبَ مَثَلاً مَّا بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَہَا فَأَمَّا الَّذِیْنَ آمَنُواْ فَیَعْلَمُونَ أَنَّہُ الْحَقُّ مِن رَّبِّہِمْ وَأَمَّا الَّذِیْنَ کَفَرُواْ فَیَقُولُونَ مَاذَا أَرَادَ اللَّہُ بِہَذَا مَثَلاً یُضِلُّ بِہِ کَثِیْراً وَیَہْدِیْ بِہِ کَثِیْراً وَمَا یُضِلُّ بِہِ إِلاَّ الْفَاسِقِیْن﴾․(البقرہ:26)
ترجمہ:” بے شک الله شرماتا نہیں اس بات سے کہ بیان کرے کوئی مثال مچھر کی یا اس چیز کی جو ا س سیبڑھکر ہے، سو جو لوگ مومن ہیں وہ یقینا جانتے ہیں کہ مثال ٹھیک ہے ،جو نازل ہوئی ہے ان کے رب کی طرف سے اور جو کافرہیں سو کہتے ہیں کیا مطلب تھا الله کی اس مثال سے ؟گم راہ کرتا ہے خدائے تعالیٰ اس مثال سے بہتیروں کو اور ہدایت کرتا ہے اس سے بہتیروں کو اور گم راہ نہیں کرتا اس مثال سے مگر بد کاروں کو۔“

ربط
گزشتہ آیات میں کفار کو چیلنج دیا گیا تھا کہ اگر تمہیں قرآن کریم کے کلامِ الہی ہونے میں شک وشبہ ہے تو اس جیسی ایک سورت ہی بنا کر لاؤ، جب مشرکین کو اس کا کوئی جواب نہ بن پایا تو اعتراض برائے اعتراض کرکے نفس کو جھوٹی تسلیاں دینے لگ گئے، اس آیت میں انہیں کے ایک اعتراض کا ذکر ہے۔

تفسیر
صورت واقعہ کو صورت واقعہ سے تشبیہ دینے کا نام مثال ہے، مثال سے غرض یہ ہوتی ہے کہ ممثل لہ ( جس کی مثال دی جارہی ہے) کی حقیقت واضح اورر وشن ہو کر سامنے آجائے ، جس مثال سے یہ غرض پوری ہو جائے وہ مثال اعلیٰ اور خوب سے خوب ترشمار ہو گی ،اگرچہ اس میں مکھی اور مکڑی کا ذکر ہو ، چناں چہ قرآن کریم میں معبودان باطلہ کی بے بسی کی مثال دیتے ہوئے کہا گیا: ﴿یَا أَیُّہَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوا لَہُ إِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّہِ لَن یَخْلُقُوا ذُبَاباً وَلَوِ اجْتَمَعُوا لَہُ وَإِن یَسْلُبْہُمُ الذُّبَابُ شَیْْئاً لَّا یَسْتَنقِذُوہُ مِنْہُ﴾․ (الحج:73)
ترجمہ:” اے لوگو! ایک مثال کہی گئی ہے، سو اس پر کان رکھو، جن کو تم پوچتے ہو الله کے سوائے ہر گز نہ بنا سکیں گے ایک مکھی اگرچہ اس کے لیے وہ سب جمع ہو جائیں او راگر کچھ چھین لے ان سے مکھی چھڑا نہ سکیں ( نہیں سکتے) وہ اس سے۔“

اس مثال سے معبودان باطلہ کی بے بسی کی حقیقت واضح ہو رہی ہے لیکن کفار اس مثال کی حقیقت، غرض ، سے بے پروا ہو کر اعتراض کرنے کی ٹوہ میں لگ گئے کہ یہ کیسا کلام الہی ہے جس میں مکھی او راس طرح کی حقیر اور بے حقیقت چیزوں کا تذکرہ ہے ، یعنی حقیقت قبول کرنے کے بجائے اس میں دھول جھونکنے میں مصروف ہو گئے ۔ یہ لوگ منافق تھے، یا یہودی۔ ( روح المعانی، البقرة:تحت آیہ رقم:26)

عجب نہیں کہ منافقین، یہود اور مشرکین سبھی ہوں۔ (التفسیر الکبیر، البقرة، تحت آیہ رقم:26)

ان معترضین کی حماقت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ کسی چیز کا چھوٹا یا بڑا ہونا انسان کی نسبت سے ہے، الله تعالیٰ کی نظر میں تو سب یکساں ہیں ۔

علامہ رازی رحمہ الله اس مقام پر لکھتے ہیں کہ جو چیز جس قدر حقیر ہو گی ( انسان کی نسبت سے ) اس کا بیان اسی قدر الله تعالیٰ کے کمالِ علم، کمال اطلاع اور کمال حکمت پر دلالت کرے گا۔ ( التفسیر الکبیر، البقرة، تحت رقم آیة:26)
﴿ یُضِلُّ بِہِ کَثِیْراً وَیَہْدِیْ بِہِ کَثِیْراً﴾․
چوں کہ کفار کا اعتراض محض شرارت کی بنا پر تھا اس لیے جواب میں وہی طرز اختیار کیا گیا کہ ایسی مثالوں کے بیان کرنے کا مقصد تحقیق گم راہی کی طرف دھکیلنا ہے اور مسلمان ان مثالوں سے گرمی ایمان حاصل کرتے ہیں۔
﴿ وَمَا یُضِلُّ بِہِ إِلاَّ الْفَاسِقِیْن﴾

فسق کا مطلب
فسق کے اصل معنی خروج (نکلنے) کے ہیں اور اصطلاحِ شریعت میں اطاعت الہی سے نافرمانی کی طرف نکل جانے کو کہتے ہیں، جیسے ابلیس کے متعلق قرآن کریم میں ہے ،﴿ ففسق عن أمر ربہ﴾․

قرآن کریم میں یہ لفظ جس طرح عام منکرات کے لیے استعمال ہو ا ہے، اسی طرح بڑے منکر کفر کے لیے بھی استعمال ہوا ہے، بلکہ زیادہ تر کفر ہی کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ (مفردات القرآن للراغب، باب فسق!)

او راس آیت میں بھی فاسقین سے کفار مراد ہیں۔

مسئلہ سلوک:
قولہ تعالیٰ: ﴿إن الله لا یستحیی﴾ اس میں اصل ہے عادت صوفیہ کی کہ مثال لانے میں حیا عرفی کی پروا نہیں کرتے۔ ( بیان القرآن، البقر:تحت رقم آیہ:26)

﴿الَّذِیْنَ یَنقُضُونَ عَہْدَ اللَّہِ مِن بَعْدِ مِیْثَاقِہِ وَیَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّہُ بِہِ أَن یُوصَلَ وَیُفْسِدُونَ فِیْ الأَرْضِ أُولَئِکَ ہُمُ الْخَاسِرُون﴾․ (البقرة:27)
ترجمہ: ”جو توڑتے ہیں خدا کے معاہدے کو مضبوط کرنے کے بعد اور قطع کرتے ہیں اس چیز کو جس کو الله نے فرمایا ملانے کو اور فساد کرتے ہیں ملک میں وہی ہیں ٹوٹے والے۔،،

ربط آیات
گزشتہ آیات میں ان فساق کا تذکرہ تھا جنہوں نے قرآن کریم کے دیے گئے چیلنج سے عاجز ہو کر قرآنی مثالوں پراعتراض برائے اعتراض کا مشغلہ اپنا لیا تھا، اس آیت سے ان کے بعض اوصاف بیان کیے جارہے ہیں۔

تفسیر: کافروں کی بعض خصلتیں
پہلی خصلت: عہد الہٰی سے بغاوت:
میثاق معاہدے کو کہتے ہیں، آیت کریمہ میں وہ عہد اور میثاق مراد ہے جو الله نے عالم ارواح میں تمام انسانوں سے لیا تھا، تا قیامت آنے والے تمام انسانوں کو حضرت آدم علیہ السلام کی پشت مبارک سے نکال کر ان کو فہم اور گویائی کی طاقت عنایت فرمائی ، پھر ان سے سوال کیا الست بربکم؟ ( کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں؟) تو سب نے بیک زبان ہو کر جواب دیا بلی کیوں نہیں، آپ ہی ہمارے پرورد گار ہیں ۔ اس معاہدے کا فوری تقاضا تو یہ ہے کہ کفار توحید کے اقرار اور الله تعالیٰ کے بھیجے گئے رسول پر ایمان لانے میں ذرہ برابر بھی پس وپیش سے کام نہ لیں، لیکن یہ اپنے شرک وکفر کے باطل عقیدے کو سچا جان کر نہ صرف ان پر ڈٹے ہوئے ہیں، بلکہ حق شناسی کی دعوت سے اعراض اور مسلسل تکذیب ومخالفت کرکے عہد الہی سے کھلی بغاوت کر رہے ہیں۔

دوسری خصلت: حقوق الله اور حقوق العباد سے غفلت
ان کافروں کی دوسری خصلت یہ ہے کہ جن باہمی تعلقات کو الله تعالیٰ نے برقرار رکھنے اور جوڑے رکھنے کا حکم فرمایا یہ اس کی توڑ میں لگے رہتے ہیں ۔ ان تعلقات میں ایسے تمام تعلقات شامل ہیں جو الله تعالی اور بندوں کے درمیان ہیں یا بندوں کے بندوں کے درمیان ۔کافروں کی خصلت یہ ہے کہ ادھر شرک سے لگاؤ ، نبوت ورسالت کی تکذیب، حدود الله پر جرات کرکے الله تعالیٰ کے حقوق پا مال کرتے ہیں او راُدھر عزیز واقارب سے دشمنی، پڑوسیوں سے برا سلوک، امانت میں خیانت ، معاملات میں جھوٹ، دھوکہ بازی اور فریب کرکے بندوں کے حقوق پامال کرتے ہیں۔

اس مقام پر ہر مسلمان کو اپنے نفس کا احتساب کرنا چاہیے کہ اس کے عقیدہ میں کہیں شرک وبدعت کی آمیزش تو نہیں ؟ اور یہ کہ اپنے عزیز واقارب اور پڑوسیوں سے کیسا سلوک روا کھے ہوئے ہے؟ او رمسلمانوں کے ساتھ جھوٹ، خیانت، فریب سے تو کام نہیں لے رہا ؟ یہ آیت ایک ایسا آئینہ ہے جس میں ہر مسلمان اپنے اعمال وافعال کی تصویر دیکھ کر اپنے مقام کی تعیین کر سکتا ہے۔

تیسری خصلت: فساد فی الأرض کیا ہے ؟
فساد کا لفظ قرآن کریم میں معصیت ،قتل ، قحط کے علاوہ مختلف معانی کے لیے استعمال ہوا ہے ۔ (الرعد:25)

اہل کفر زمین پر جو فساد پھیلاتے ہیں ، اس میں بنیادی فساد عقیدے کا فساد ہے، اسی باطنی فسا دکا اظہار ان کے اعمال وافعال سے ہوتا ہے، چناں چہ یہ چوری، ڈکیتی، قتل وغارت گری کا بازار قائم کیے رکھتے ہیں ، اس کے علاوہ کافرانہ نظام زندگی کے ذریعے الله کے بندوں پر بندوں کی غلامی کا طوق ڈال کر زمین پر فساد پھیلانے میں پیش پیش رہتے ہیں۔

کافروں کا انجام
﴿اولئک ھم الخسرون﴾ میں ایسے لوگوں کے انجام بد کی خبر دی گئی ہے کہ یہی لوگ خسارہ اٹھائیں گے ، اس کے علاوہ سورة الرعد میں بھی ان پر لعنت کی گئی ہے:﴿ أولئک لھم اللعنة ولھم سوء الدار!﴾․

( ان کے واسطے ہے لعنت او ران کے لیے ہے برا گھر۔)

﴿کَیْْفَ تَکْفُرُونَ بِاللَّہِ وَکُنتُمْ أَمْوَاتاً فَأَحْیَاکُمْ ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیْکُمْ ثُمَّ إِلَیْْہِ تُرْجَعُونَ، ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَکُم مَّا فِیْ الأَرْضِ جَمِیْعاً ثُمَّ اسْتَوَی إِلَی السَّمَاء فَسَوَّاہُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَہُوَ بِکُلِّ شَیْْء ٍ عَلِیْم﴾․ (البقرة:29-28)
ترجمہ: ”کس طرح کافر ہوتے ہو خدا ئے تعالیٰ سے، حالاں کہ تم بے جان تھے پھرجِلایا تم کو، پھر مارے گا تم کو، پھرجِلائے گا تم کو ،پھر اسی طرف لوٹائے جاؤ گے، وہی ہے جس نے پیدا کیا تمہارے واسطے جو کچھ زمین میں ہے سب، پھر قصد کیا آسماں کی طرف سو ٹھیک کر دیا ان کو سات آسماں اور خدا تعالیٰ ہر چیز سے خبردار ہے۔“

ربطِ آیات
گزشتہ آیات میں توحید ورسالت کے واضح دلائل اور منکرین ومخالفین کے باطل خیالات کی تردید کرنے کے بعداس آیت سے ایک بار پھر توحید کی دعوت دوھرائی گئی ہے۔

دوسری آیت میں الله تعالیٰ نے اپنے انعامات واحسانات کا تذکرہ فرما کر انسانی شعور پر دستک دی ہے کہ اگر دلائل کی قوت تمہیں اطاعت الہٰی پر آمادہ نہیں کرسکتی تو ذرا اپنے ارد گرد پھیلے ہوئے الله تعالیٰ کے فضل و احسان اور رحمت بے پایاں پر تو نظر ڈالو کہ کس طرح قدم قدم پر وہ احاطہ کیے ہوئے ہے۔ احسان شناسی کا تقاضا تو یہی ہے کہ اپنے حقیقی محسن کے درپر سر تسلیم خم کر دیا جائے۔

تفسیر
﴿کیف تکفرون بالله﴾ اس آیت میں کافروں کو خطاب کرکے ان پر تعجب کا اظہار کیا گیا ہے کہ یہ ظالم کس طرح الله تعالیٰ کے کمالات وصفات کو نظر انداز کرکے کفر پر ڈٹے ہوئے ہیں ؟ کیا یہ نہیں جانتے کہ الله تعالیٰ ہی وہ عظیم ہستی ہے جس نے انہیں عدم سے نکال کر وجود کی روشنی بخشی اور ان کی فانی زندگی کو قدم قدم پر نعمتوں سے سر فراز فرمایا اور یہی وہ ذات ہے جوانہیں موت سے ہم کنار کرکے پھر روز محشر از سرِ نوزندہ بھی کرے گی۔ جہاں دنیا کی نعمتوں کا حساب وکتا ب ہو گا۔

﴿کنتم امواتا فأحیاکم﴾ میں الله تعالیٰ نے اپنے وجود کی عقلی دلیل دی ہے کہ جو ذات دوسروں کو وجود بخشے وہی خدا کہلانے کی مستحق ہے ﴿ثم یحیکم﴾ میں قیامت کے قائم ہونے پر عقلی دلیل دی ہے کہ پہلی بار پیدا کرنے والے کے لیے دوسری بار پیدا کرنا کیا مشکل ہے ؟ ﴿ ھو الذی خلق لکم ما فی الارض جمیعا﴾

الله تعالیٰ نے بے جان نطفے میں جان ڈال کر یوں ہی نہیں چھوڑ دیا، بلکہ اس جسم وجان کی پرورش کے لیے ان تمام چیزوں کو پیدا فرمایا جو اس زمین میں ہیں ، پھل، فروٹ، میوے ، درخت ، پہاڑ ، معدنیات، کتنی ہی ان گنت نعمتیں ہیں جن سے انسان نفع اٹھاتا ہے ۔ الله تعالیٰ کے اسی فضل وکرم سے نظریں پھیر کر شرک اختیار کرنا ، رسولوں کی تکذیب کرنا کس قدر تعجب خیز ہے ۔

اشیا میں اصل اباحت ہے یا حرمت؟
علماء کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ دنیا کی تمام چیزیں اصلاً مباح ہیں یا حرام؟ بعض علما نے دنیا کی تمام چیزوں کو اصلاً مباح قرار دیا اور استدلال اس آیت سے کیا،﴿ ھو الذی خلق لکم ﴾چوں کہ دنیا کی تمام چیزیں انسانوں کے واسطے پیدا کی گئی ہیں، اس لیے دنیا کی تمام چیزوں میں اصل یہ ہے کہ وہ اس وقت تک مباح ہوں جب تک مصادر شریعت میں سے کسی کی حرمت ثابت نہ ہو ۔ بعض علمانے مذکورہ موقف کی تردید کی ہے ان کا کہنا ہے کہ مذکور موقف ایک عقلی استدلال کے طور پر اختیار کیاگیا ہے، حالاں کہ علت وحرمت کا تعلق عقل سے نہیں بلکہ خالص شرعی ہے، لہٰذا شیاء میں اصل حلت ثابت نہیں ہوتی اور بعض علماء نے توقف کو ترجیح دی ہے ۔

ابن حیان رحمہ الله فرماتے ہیں کہ یہ آیت مذکورہ اقوال میں سے کسی کے لیے بھی حجت نہیں بن سکتی کیوں کہ ”خلق لکم“ میں حرف لام سبب بتانے کے لیے آیا ہے کہ تمہارے سبب سے یہ چیزیں پیدا کی گئی ہیں ، اس سے انسانوں کے لیے کسی چیز کے حلال ہونے پر دلیل قائم ہو سکتی ہے نہ حرام ہونے پر، بلکہ حلال وحرام کے احکام قرآن وسنت میں الگ سے مذکور ہیں، انہیں کی پیروی واجب ہے ۔

زمین پہلے پیدا کی گئی یا آسماں؟
قرآن کریم کی ایک آیت ہے: ﴿ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَکُم مَّا فِیْ الأَرْضِ جَمِیْعاً ثُمَّ اسْتَوَی إِلَی السَّمَاء فَسَوَّاہُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ﴾ (وہی ہے جس نے پید اکیا تمہارے واسطے جو کچھ زمین میں ہے سب، پھر قصد کیا آسمان کی طرف، سو ٹھیک کر دیا ان کو سات آسمان )اور سورہٴ حم السجدة کی آیت ہے:﴿قل ائنکم لتکفرون بالذی خلق الارض فی یومین وتجعلون لہ انداداً ذلک رب العالمین، وجعل فھا رواسي من فوقھا وبارک فیھا وقدر فیھا أقواتھا فی أربعة ایام سواء للسائلین، ثم استوی إلی السمآء وھی دخان﴾․

( تو کہہ کیا تم منکر ہو اس سے جس نے بنائی زمین دو دن میں اور برابر کرتے ہو اس کے ساتھ اوروں کو، وہ ہے رب جہاں کا اور رکھے اس میں بھاری پہاڑ اوپر سے اور برکت رکھی اس کے اند ر اورٹھہرائیں اس میں خوراکیں چار دن میں پورا ہوا پوچھنے والوں کو پھر چڑھا آسمان کو اور وہ دھواں ہو رہا تھا)۔

ان آیات سے تو یہ معلوم ہو رہا ہے کہ زمین پہلے پیدا کی گئی ، پھر آسمان پیدا کیا گیا ہے، لیکن سورة النازعات کی ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ آسمان پہلے اور زمین بعد میں پیدا کی گئی:﴿أَأَنتُمْ أَشَدُّ خَلْقاً أَمِ السَّمَاء بَنَاہَا ، رَفَعَ سَمْکَہَا فَسَوَّاہَا، وَأَغْطَشَ لَیْْلَہَا وَأَخْرَجَ ضُحَاہَا، وَالْأَرْضَ بَعْدَ ذَلِکَ دَحَاہَا﴾․ ( سورة النازعات:29-27)
ترجمہ: ”کیا تمہارا بنانا مشکل ہے یا آسماں کا؟ اس نے اس کو بنا لیا اور اونچا کیا اس کا ابھار، پھر اس کو برابر کیا او راندھیری کی رات ( تاریک کیا رات کو) اس کی اور کھول نکالی اس کی دھوپ اور زمین کو اس کے پیچھے صاف بچھا دیا۔“

اب دونوں قسموں کی آیتوں میں بظاہر تعارض محسوس ہو رہا ہے ، چناں چہ حضرت ابن عباس رضی الله عنہما سے اس تعارض کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا زمین پہلے پیدا کی گئی اور آسمان بعد میں پیدا کیا گیا (جیسے کہ سورة بقرہ اور سورہ حم سجدة کی آیات سے معلوم ہوتا ہے ) اور سورة النازعات کی آیت ”والارض بعد ذلک دحٰھا“ میں آسمان کے بعد زمین پھیلانے کا مطلب یہ ہے کہ زمین پر درخت پھل ، پانی مختلف قسم کے لذائذ اور طیبات آسمان بنانے کے بعد نمودار فرمائے، خلاصہ یہ کہ زمین پھیلانے سے درخت وغیرہ اُگانا مراد ہے۔ لہٰذا آیات میں کسی قسم کا کوئی تعارض نہیں ہے ، اسلاف نے اسی توجیہ کو پسند فرمایا۔ ( تفسیر ابن کثیر، البقرة، تحت آیہ رقم:29)

نیز عقلاً بھی یہی بات قرین قیاس معلوم ہوتی ہے، کیوں کہ زمین بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے اور آسمان بمنزلہ چھت کے ہے، جیسے کہ الله تعالیٰ کا ارشاد ہے ﴿وجلعنا السماء سقفاً محفوظاً ﴾(اور ہم نے بنایا آسمان کو محفوظ چھت) اور ظاہر ہے بنیاد پہلے قائم ہوتی ہے اور چھت بعد میں ڈالی جاتی ہے۔ (جاری) 
Flag Counter