Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ذوالحجہ 1433ھ

ہ رسالہ

11 - 14
تعلیمات رسول ﷺ کی اہمیت وضرورت
مولانا سید محمد واضح رشید ندوی

علم کی تاریخ میں اس سے بڑی کذب بیانی،غلط تر جمانی اور گم راہ کن رویہ کی مثال ملنا مشکل ہے،جتنی کذب بیانی ،افتراپردازی سیرت پاک کے سلسلہ میں مغربی اہل قلم کی تحریروں میں ملتی ہے ۔یہ با ت تو اس وقت قابل فہم ہے جب علم آزادنہ تھااور علم پر کلیسا کے رنگین گہرے پردے پڑے ہوئے تھے ،لیکن کلیسا سے آزاد ہونے کے بعد علم کی یہ جانب داری اور کلیسا سے بغاوت کے بعد نبی اسلام اور اسلام کے بارے میں اس کلیسائیت کا مظاہرہ اہل علم کی علمی تحقیقات اور موضوعی مطالعہ کو مشکو ک بنا دیتا ہے ۔

تعجب کی بات یہ ہے کہ بعض محققین جو اپنے علمی اور تحقیقی کام میں حجت سمجھے جاتے ہیں اور بات بہت ناپ تول کے کہتے ہیں اور بڑی گہرائی تک جاتے ہیں،وہ بھی جب سیرت پاک،قرآن کریم،حدیث نبوی یا اسلامی موضوعات پر آتے ہیں تو معلو م ہوتاہے کہ ان کو صلیبیت یا یہودیت کا زبردست کرنٹ لگا اور وہ ہوش وحواس کھو بیٹھے اور غیر معقول بات جو خودان کے بتائے ہوئے اصول وضوابط کے خلاف ہے،ان کے قلم سے نکل گئی اور بعض اپنے اس جذبے کا اظہار بھی کر بیٹھتے ہیں اور اس ایذارسانی کا علمی جوازبھی پیش کرتے ہیں۔

ان افترا پردازیوں میں ایک رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کے بارے میں جنگی مزاج کا دعوی ہے ،جو رسو ل پاک صلی الله علیہ وسلم کی سیرت کی الٹی تصویر ہے ،یہ اہل قلم رسول رحمت کو رسول سیف کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں اور قرآن کریم کو تشدد سکھانے والی کتاب قرار دیتے ہیں، اس بات کو یورپ کے اہل قلم اس قو ت سے دہراتے ر ہتے ہیں کہ وہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا خاصہ معلوم ہوتی ہے ،لیکن جب اس سے متاثر ہونے والے سیرت پاک اور قرآن مجید کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ کذب ،افترا پردازی اور شرانگیزی کھل جاتی ہے اور اس حقیقت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ وہ اسلام اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے بارے میں جو کچھ جانتے تھے وہ صرف پروپیگنڈہ تھا اور وہ اسلام قبول کرنے میں کسی طر ح کا تردد محسوس نہیں کرتے ، اس کی متعدد مثالیں اس عہد میں سامنے آرہی ہیں، اخباری اطلاعات سے معلوم ہوتا ہے کہ ڈنمارک اور ہالینڈ میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم اور قرآن کے خلاف جو تحریک چلی اوراس کی حقیقت جاننے کے لیے عیسائیوں نے قرآن اور سیرت پاک کا مطالعہ کیا تو اس کے نتیجہ میں کئی ہزار عیسائی مسلمان ہوگئے۔

حقیقت یہ ہے کہ رسول پاک صلی الله علیہ وسلم کی زندگی میں جنگ اورانتقام یا تشدد کی کارروائی کا مقابلہ کیا جائے تو محبت، امن اور سختیوں اور تکلیفات کو جھیلنے اور زیا دتی کرنے والوں کو معاف کرنے کا عنصر غالب نظر آئے گا اور وہی اس کی بنیادی خصوصیت معلوم ہوگی،خود آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ”بعثت لأتمم مکارم الأخلاق“۔ (مو طا امام مالک)

قرآن کریم نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو رحمت للعالمین کے وصف سے یاد کیا اور یہ آپ کی سب سے بڑی خصوصیت بتائی،وہ کہتاہے : ﴿فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّہِ لِنتَ لَہُمْ وَلَوْ کُنتَ فَظّاً غَلِیْظَ الْقَلْبِ لاَنفَضُّواْ مِنْ حَوْلِکَ فَاعْفُ عَنْہُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَہُمْ وَشَاوِرْہُمْ فِیْ الأَمْرِ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّہِ إِنَّ اللّہَ یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِیْن﴾]سورةآ ل عمران:159)

(پھر یہ الله کی رحمت ہی کے سبب سے ہے کہ آپ ان کے ساتھ نرم رہے اور اگر آپ تند خو،سخت طبع ہوتے تو وہ لوگ آپ کے پاس سے منتشر ہوگئے ہوتے،سوآپ ان سے درگزرکیجیے اور ان کے لیے استغفار کردیجیے ،اور ان سے معاملات میں مشورے لیتے رہیے، لیکن جب آپ پختہ ارادہ کر لیں تو الله پر بھروسہ رکھیے،بیشک الله ان سے محبت رکھتا ہے جو اس پر بھروسہ رکھتے ہیں۔)

اس طرح آپ صلی الله علیہ وسلم کی مجالس کے بارے میں ایثار قربانی، رحم دلی، تواضع کی صفات بیان کیں:﴿ہُوَ الَّذِیْ أَرْسَلَ رَسُولَہُ بِالْہُدَی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہِ وَکَفَی بِاللَّہِ شَہِیْداً مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہُ أَشِدَّاء عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَاء بَیْْنَہُمْ تَرَاہُمْ رُکَّعاً سُجَّداً یَبْتَغُونَ فَضْلاً مِّنَ اللَّہِ وَرِضْوَاناً سِیْمَاہُمْ فِیْ وُجُوہِہِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ذَلِکَ مَثَلُہُمْ فِیْ التَّوْرَاةِ وَمَثَلُہُمْ فِیْ الْإِنجِیْلِ کَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَہُ فَآزَرَہُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَی عَلَی سُوقِہِ یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیْظَ بِہِمُ الْکُفَّارَ وَعَدَ اللَّہُ الَّذِیْنَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحٰتِ مِنْہُم مَّغْفِرَةً وَأَجْراًعَظِیْماً ﴾(سورة فتح 29,28)

(وہ الله ہی تو ہے جس نے اپنے پیمبر کوہدایت اور سچا دین دے کربھیجا ہے تا کہ اس کو تمام ادیان پر غالب کردے اور اللہ کافی گواہ ہے ،محمد صلی الله علیہ وسلم اللہ کے پیمبر ہیں اورجو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ تیز ہیں کافروں کے مقابلہ میں، (اور)مہربان ہیںآ پس میں، تو انہیں دیکھے گا (اے مخاطب) کہ (کبھی) رکو ع کررہے کبھی سجدہ کررہے ہیں،الله کے فضل اور رضامندی کی جستجو میں لگے ہوئے ہیں،ان کی آثار سجد ہ کی تأثیر ان کے چہروں پر نمایاں ہیں، یہ ان کے اوصاف توریت میں ہیں۔اورانجیل میں ان کا وصف یہ ہے کہ وہ جیسے کھیتی کہ اس نے اپنی سوئی نکالی،پھر اس نے اپنی سوئی کو قوی کیا،پھر وہ اور موٹی ہوئی،پھر اپنے تنے پر سیدھی کھڑی ہوگئی کہ کسانوں کو بھی بھلی معلوم ہونے لگی ،یہ نشوونماصحابہ کو اس وجہ سے دیا تا کہ کافروں کو ان سے جلائے اورالله نے ان سے جو ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے نیک کام کیے مغفرت اور اجر عظیم کاوعد ہ کر رکھاہے۔)

اس رحم دلی کی سب سے بڑی مثال فتح مکہ کے وقت رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کا اعلان ہے،اس شہر میں جہاں کوئی ظلم وزیادتی ایسی نہیں ہے جو اس پاک ذات پر جس کو وہ صادق وامین کہتے تھے نہ کی گئی ہو،اس شہر کے لوگوں نے ان پر جنگ بھی تھو پی ،ان کے خلاف سازشیں بھی کیں ،اس کے فتح ہونے پر یہ کہا گیا:”الیوم یوم المرحمة“ اور جس نے سب سے زیادہ دشمنی کی اس کے بارے میں کہا گیا :”جو اس کے گھر میں پناہ لے وہ محفوظ ہے“اس کے بعد عام معافی کا اعلان،ایسی فتح اور ایسے فاتح کی تاریخ میں مثال نہیں مل سکتی،وہ واقعی رحمت للعالمین تھے۔

طائف والوں نے جیسی اذیت پہنچائی ؛لیکن جب فرشتے نے عذاب کی بات کی تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے منع فر مایا اور کہا کہ ”ان کی اولاد ہوسکتا ہے حق قبول کرے“۔

جنگوں کی تاریخ اور خود عصر حاضر میں عیسائیوں کے غلبہ کی تاریخ،مفتوحہ قوم کے ساتھ سخت قسم کے انتقام اور سفا کا نہ رویہ کی ہے، رومیوں نے ایسا کیا تو وہ پرانی بات ہے،لیکن خودرسول الله صلیٰ الله علیہ وسلم پر الزام لگانے والوں نے اپنی فتح کے موقع پرمفتوحہ قوموں کے ساتھ صلیب کے سا یہ میں کیا کیا؟وہ خودان کی تاریخوں میں محفوظ ہے، انیسویں، بیسویں اور اکیسویں صدی میں ان تہذیب اور انسانیت کا دم بھرنے والوں نے جو کیا وہ کسی پر مخفی نہیں ہے اور اس دور میں جو تشدد اور جبر و قہر کی کارروائیاں دنیا کے مختلف حصوں میں ہورہی ہیں،وہ اس کا سب سے بڑا ثبوت ہیں اور کلیسا کی اس پر خاموشی اس کی سے سب سے بڑ ی دلیل ہے۔

اس ذات کے بارے میں جو غلبہ کے وقت،قوت کے وقت ،طاقت کے استعمال کے بجائے عفو ودرگزر کا رویہ اختیار کرے،جو خادموں تک سے سخت لہجہ میں بات نہ کرے،جو جانوروں تک کے بارے میں رحم کا معاملہ کرنے کا حکم دے،اس کے بار ے میں ان علم کے دعوے داروں کی ہفوات ان کے علم کا پول کھول دیتی ہیں اور ان کی مو ضوعیت کے دعوی کے کھو کھلے پن کو ظاہر کرتی ہیں۔

مسلمان موٴرخین سے غلطی یہ ہوئی کہ سیرت پاک کے غالب عناصر کو اس تفصیل سے نہیں پیش کیا،بلکہ اپنے غلبہ کے عہد میں اپنی فتوحات اور عسکری کا رروائیوں کو زیادہ تفصیل سے بیان کیا اور اصلاحی اور انسانی خدمات کو اس تفصیل کے ساتھ نہیں بیان کیا جس کی ضرورت تھی،اسی طرح سیرت پاک کو مختلف زبانوں میں تفصیل سے پیش نہیں کیا ،سیرت کے رحم ،محبت ،انسانیت ،بشری خصوصیات اور ملکوتی صفات کو پیش کیا جاتا اور اسلام کے نتیجہ میں علم وفن اور تمدن کو جو فروغ ہوا اس کو مختلف زبانوں میں پیش کیا جاتا تو یہ معاندانہ رویہ اختیار نہیں کیا جاتا۔

اب جب کہ پھر یورپ سے آندھیاں اٹھنے لگی ہیں اور وہ موضوع پھر قوت کے ساتھ پیش کیا جانے لگا ہے ،ضرورت ہے کہ سیرت پاک کو اس رنگ میں پیش کیا جائے کہ وہ انسانیت کے لیے اس ظلماتی عہد میں کس طرح نجات کا ذریعہ بن سکتی ہے اور انسانیت اس سے کس طرح بیدار ہو سکتی ہے؟اس عہد میں جس میں قومی ،علا قائی اور نسلی عصبیت اورعلم کا غلط استعمال اور اپنے قومی مفادات کے لیے دوسروں پر جبر وقہر کا ماحول عام ہورہاہے ،رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کے اس پیغام کو عام کرنے ہی میں نجات ہے کہ”الناس بنو آدم، وآدم خلق من تراب،لا فضل لعربی علی عجمی الابا لتقوی“(سب آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے بنے ہیں،عربی کوعجمی پر امتیاز حاصل نہیں،امتیاز کی بنیاد صرف خدا کا خوف ہے)۔ 
Flag Counter