Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ذوالحجہ 1433ھ

ہ رسالہ

4 - 14
حجِ بیت الله
شرائط ‘اقسام اورادائیگی کا طریقہ
حافظ محمد زاہد
توحید و رسالت کی شہادت کے بعد نماز‘روزہ ‘زکوٰة اور حج اسلام کے عناصر ِاربعہ ہیں۔ ایسی کئی احادیث ہیں جن میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ان پانچوں چیزوں کو اسلام کے ارکان اور ستون بتایا ہے ۔مثلاً حضرت عبداللہ بن عمر رضی الله عنہروایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہصلی الله علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
((بُنِیَ الْاِسْلَامُ عَلٰی خَمْسٍ: شَھَادَةِ اَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰہِ‘ وَاِقَامِ الصَّلاَةِ‘ وَاِیْتَاءِ الزَّکَاةِ‘ وَحَجِّ الْبَیْتِ‘ وَصَوْمِ رَمَضَانَ))․
”اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے:گواہی دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمدصلی الله علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں ‘نماز قائم کرنا‘زکوٰة اداکرنا‘بیت اللہ کا حج کرنا اور رمضان المبارک کے روزے رکھنا۔“

ان عبادات میں سے نماز اور روزہ خالص بدنی ‘زکوٰة خالص مالی‘ جبکہ حج بدنی اور مالی عبادت کا مجموعہ ہے اس لیے کہ اس میں مال بھی خرچ ہوتا ہے اور انسانی جسم کی توانائیاں بھی۔

لفظِ حج کا معنی و مفہوم
لفظ ”حج“ ح کی فتح (حَجْ) اور کسرہ (حِجْ)دونوں طرح استعمال ہوتا ہے ۔مثلاً سورة البقرة‘آیت197 :﴿اَلْحَجُّ اَشْھُرٌ مَّعْلُوْمَاتٌ﴾ میں ح کی فتح کے ساتھ اور سورہٴ آلِ عمران ‘آیت 97:﴿وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ﴾ میں ح کے کسرہ کے ساتھ استعمال ہوا ہے۔حج کے لغوی معنی ہیں: عظمت والی جگہ کا ارادہ کرنا‘جبکہ حج کی شرعی تعریف یہ ہے:مخصوص مقامات کا مخصوص فعل کے ساتھ مخصوص زمانے میں ارادہ کرنا۔

حج کی فرضیت کی شرائط
حج کی شرائط دو قسم کی ہیں
1...حج کے فرض ہونے کی شرائط.    2... حج کی ادائیگی کی شرائط۔حج ہر مسلمان پر فرض نہیں ہے‘ بلکہ حج کے فرض ہونے کی چند شرائط ہیں، جو ذیل میں بیان کی جاتی ہیں:

1....مسلمان ہونا:حج اور اسلام کی باقی عبادات کے فرض ہونے کی اولین شرط اسلام ہے۔کسی بھی غیر مسلم پر اسلام کی کوئی عبادت فرض نہیں ہے۔

2... آزاد ہونا:آزادی حج کی دوسری شرط ہے، اس لیے کہ غلام اگر اپنی غلامی کے دنوں میں کئی حج بھی کرلے ‘لیکن جب وہ آزاد ہوگاتو اس کے ذمے حج فرض ہوگا۔اس نے جو غلامی کے دنوں میں حج کیے ہیں اُن کی حیثیت نفلی حج کی ہوگی۔

3... بالغ ہونا:حج کی تیسری شرط بلوغت ہے۔اگر کوئی نابالغ حج کرتا ہے تو اس کا یہ حج نفلی شمار ہوگا اور جب وہ بالغ ہوگا تو اسے اپنا فرض حج ادا کرنا ہوگا …نابالغ بچہ اگراپنے والدین کے ساتھ حج پر جاتا ہے تو اس کو حج کے تمام افعال ادا کرنے چا ہییں اور اگر وہ خود حج کے افعال ادا نہیں کرسکتا تو والدین کو چاہیے کہ وہ اسے اُٹھا کر سارے افعال ادا کریں، تاکہ اس بچہ کو بھی حج کا ثواب ملے۔

4... عاقل ہونا:اگر کوئی شخص پاگل یا مجنون ہے تو اس کے ذمے حج فرض نہیں ہے، اس لیے کہ پاگل اور مجنون شریعت کے کسی احکام کے مکلف ہی نہیں ہیں، اس لیے ان پر کچھ فرض نہیں‘البتہ اگر کوئی پاگل یا مجنون تن درست ہوجائے تو اس کے ذمے حج فرض ہے۔

5... صاحب استطاعت وقدرت ہونا:اگرکسی شخص میں مندرجہ بالاچاروں شرائط موجود ہیں، لیکن اس کے پاس مکہ مکرمہ جانے کے لیے سواری‘زادِ راہ اور قدرت نہیں ہے تو اس پر حج فرض نہیں ہے۔حج کے لیے ایک شرط صاحب استطاعت وصاحب قدرت ہوناہے۔اس بارے میں وضاحت قرآن وحدیث دونوں میں موجود ہے۔سورہٴ آل عمران میں فرمایا گیا:
﴿وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلاً وَمَنْ کَفَرَ فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْن ﴾
”اور لوگوں پر اللہ کا حق ہے کہ جو اس گھر تک پہنچنے کی قدرت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے۔ اور جس نے کفر کیا تو اللہ تمام دنیا والوں سے بے نیا زہے۔“

بہت سی احادیث مبارکہ میں بھی یہ وضاحت موجودہے، مثلاً حضرت علی ص سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
((مَنْ مَلَکَ زَادًا وَرَاحِلَةً تُبَلِّغُہ اِلٰی بَیْتِ اللّٰہِ وَلَمْ یَحُجَّ فَلَا عَلَیْہِ اَنْ یَمُوْتَ یَھُوْدِیًّا اَوْ نَصْرَانِیًّا، وَذٰلِکَ اَنَّ اللّٰہَ یَقُوْلُ فِیْ کِتَابِہ: ﴿وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلًا﴾))

”جو شخص زادِ راہ اور سواری کا مالک ہے جو اس کو بیت اللہ تک پہنچا دے اوروہ حج نہ کرے تو پھرکوئی فرق نہیں ہے کہ وہ یہودی مرے یا عیسائی۔ اور یہ اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا : ”اللہ کے واسطے ان لوگوں پر بیت اللہ کا حج فرض ہے جو اُ س تک پہنچنے کی طاقت رکھتے ہوں۔“

حج کی ادائیگی کی شرائط
جس شخص میں حج کی فرضیت کی مندرجہ بالا پانچوں شرائط پائی جائیں تو اس پر حج فرض ہے۔اب اس حج کوادا کرنے کا مرحلہ آتا ہے اور حج کی ادائیگی کی بھی مندرجہ ذیل چند شرائط ہیں۔یہ شرائط جس شخص میں پائی جائیں گی اس کے ذمے خود سے حج اداکرنا ضروری ہوگا۔اس صورت میں یہ شخص اپنی جگہ کسی اور کو حج کے لیے نہیں بھیج سکتا ۔

1... صحت مند ہونا:حج کی ادائیگی کی اولین شرط صحت مند اور تندرست ہونا ہے۔اگر کوئی شخص ایسا بیمار ہے کہ وہ مکہ مکرمہ کا سفر نہیں کر سکتا تواس پر خود سے حج کی ادائیگی فرض نہیں ہے۔

2... راستے کا پر امن ہونا:اگر راستہ پر امن نہیں ہے تو اس صورت میں بھی اس شخص پر حج کی ادائیگی ضروری نہیں ہے‘لیکن اب چوں کہ ہوائی جہاز جیسی سفری سہولیات میسر ہیں کہ انسان ہزاروں میل کا سفر گھنٹوں میں طے کر لیتا ہے تو اب یہ شرط تقریباً معدوم ہوچکی ہے۔

3.... عورت کے لیے شوہر یا محرم کا ساتھ ہونا:مندرجہ بالا شرائط کے ساتھ عورت پر حج فرض ہونے کی ایک اضافی شرط یہ ہے کہ اس کے ساتھ شوہر یا محرم ہو۔عورت کا بغیر شوہر یامحرم کے حج کے سفر پر جانا جائز نہیں ہے۔ حضرت ابن عباس رضی الله عنہماسے روایت ہے کہ رسول اللہ انے فرمایا:
((لاَ یَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَةٍ وَلَا تُسَافِرَنَّ امْرَأَ ةٌ اِلاَّ وَمَعَھَا مَحْرَمٌ)) فَقَالَ رَجُلٌ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، اکْتُتِبْتُ فِیْ غَزْوَةِ کَذَا وَکَذَا، وَخَرَجَتِ امْرَاَتِیْ حَاجَّةً․؟ قَالَ: ((اذْھَبْ، فَحُجَّ مَعَ امْرَأَتِکَ))․
”کوئی آدمی کسی عورت کے ساتھ خلوت نہ کرے اور نہ کوئی عورت سفر کرے مگر اس کے ساتھ محرم ہو“۔ ایک آدمی نے کہا :اے اللہ کے رسول!فلاں فلاں غزوہ میں شرکت کے لیے میرا نام لکھ دیا گیا ہے اور میری بیوی حج کی ادائیگی کے لیے نکلی ہے ۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”جا اور اپنی بیوی کے ساتھ حج کر!“

نوٹ:ہمارے معاشرے میں اس حوالے سے کافی کوتاہیاں دیکھنے میں آتی ہیں‘مثلاً عورتیں بغیر محرم کے حج کے لیے چلی جاتیں ہیں۔ ایک عورت کے ساتھ اس کا شوہر یا محرم ہوتا ہے تو دوسری عورت اس عورت کے ساتھ چلی جاتی ہے کہ چلو ایک کے ساتھ تومحرم ہے نا‘ حالاں کہ یہ سراسر غلط ہے۔منہ بولے بھائی محرم نہیں ہوتے ،اس لیے ان کے ساتھ حج پر جانا جائز نہیں ہے۔پاکستانی قانون کے مطابق چوں کہ عورت بغیرمحرم کے نہیں جاسکتی ،اس لیے عورتیں گروپ لیڈر یا کسی غیر محرم کو محرم بنا کر حج پر چلی جاتی ہیں ،ایسا کرنے میں دوگناہ لازم آتے ہیں، ایک غلط بیانی کا اور ایک بغیرمحرم کے حج پر جانے کا۔

4...عورت کا عدت میں نہ ہونا:عورت کے لیے ایک اوراضافی شرط یہ بھی ہے کہ وہ عدت میں نہ ہو۔ عدت بھی حج کی ادائیگی کے لیے رکاوٹ ہے۔

نوٹ:یہاں یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ اگر کوئی عورت بغیر محرم کے یا عدت کے دوران حج پر چلی جاتی ہے تو اس صورت میں اس کافرض حج تو ادا ہوجائے گا ‘لیکن بغیر محرم کے یا دورانِ عدت سفر کرنے کا گناہ اس کے سر رہے گا۔

حج بدل اور اس کے احکام
حج کے حوالے سے ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ آیا کسی اور کی طرف سے حج کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟اگر کیا جاسکتا ہے تواس کے احکام کیا ہیں؟اس حوالے سے یہ نوٹ کرلیں کہ اگر کسی شخص میں حج کی فرضیت کی تمام شرائط پائی جائیں، لیکن اس میں حج کی ادائیگی کی کوئی ایک شرط نہ پائی جائے تو اس صورت میں یہ شخص اپنی طرف سے کسی اور کو حج کے لیے بھیج سکتا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حج خالص بدنی عبادت نہیں‘ بلکہ مالی اور بدنی عبادات کا مجموعہ ہے، اس لیے اس میں کسی دوسرے کی نیابت مجبوری کی حالت میں جائز ہے۔ البتہ نماز اور روزہچوں کہ خالص بدنی عبادات ہیں، اس لیے ان میں کسی کی نیابت مجبوری کی حالت میں بھی جائز نہیں ہے، یعنی نماز یا روزہ کسی کی طرف سے ادانہیں کیا جاسکتا۔

کسی دوسرے کی طرف سے حج کرنے کو فقہی اصطلاح میں ”حج بدل“کہا جاتا ہے ۔حج بدل کے بارے میں چند احکام ملاحظہ ہوں:
1...کوئی نابالغ کسی کی طرف سے حج نہیں کر سکتا۔
2...جس شخص نے اپنا فرض حج ادا نہیں کیا، اس کا حج بدل کے لیے جانا مکروہ ہے۔
3...جس شخص کی طرف سے حج کیا جا رہا ہے، اس کے ذمے سے فرض حج ادا ہوجائے گا۔
4...جس شخص پر حج فرض ہو اور وہ فوت ہوجائے۔پھر وہ اتنا ما ل چھوڑے کہ اس کے تیسرے حصہ سے حج ادا ہوسکے اور وہ حج کرنے کی وصیت بھی کرے تو وارثوں پر اس میت کی طرف سے حج کرنا فرض ہے۔
5... جس شخص پر حج فرض تھااور وہ فوت ہوگیا، مگر اس نے اتنا ما ل نہیں چھوڑا یا اس نے حج کرنے کی وصیت نہیں کی تو اس کی طرف سے وارثوں پرحج کرنا فرض نہیں ہے‘لیکن اگر وارث اس کی طرف سے حج کرے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے امید ہے کہ اس میت کا فرض حج ادا ہوجائے گا۔
6... جس شخص پر حج فرض نہیں تھا ‘اگر اس کا وارث اس کی طرف سے حج کرے تو مرحوم کو اس حج کا ثواب ان شاء اللہ ضرور پہنچے گا۔
7... اگر کوئی اتنا بیمار ہے کہ حج کونہیں جا سکتا یا معذور ہے اور اسے اپنے ٹھیک ہونے کی امیدبھی نہیں ہے تو وہ اپنی زندگی میں ہی کسی سے حج کراسکتا ہے۔
8... اگر کسی عورت میں حج کی فرضیت کی تمام شرائط پائی جاتی ہیں، لیکن اس کے ساتھ حج پر جانے کے لیے شوہر یا محرم نہ ہو تو اس کو چاہیے کہ مرنے سے پہلے حج کی وصیت کرے یا اگر اسے محرم ملنے کا امکان نہ ہو تو اس کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنی زندگی میں ہی کسی سے حج بدل کرائے۔
9... اگر انسان صاحب استطاعت ہو تو اسے اپنے مرحوم والدین کی طرف سے حج بدل ضرور کرنا یا کسی سے کروانا چاہیے ۔
10... عمرہ کی حیثیت چوں کہ نفل کی ہے، اس لیے عمرہ کسی کا نام لے کر بھی کیا جاسکتا ہے اور اس کا ثواب بھی کسی کو پہنچایا جاسکتا ہے۔اس میں حج بدل کی طرح مجبوری بھی شرط نہیں ہے۔

حج زندگی میں صرف ایک بار فرض ہے
شریعت کی رو سے پوری زندگی میں حج صرف ایک بار فرض ہے، اس کے بعد اگر کوئی حج کرتا ہے تو اس کی حیثیت نفل کی ہوگی۔اس حوالے سے ایک حدیث ملاحظہ ہو۔حضرت ابو ہریرہ ص سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ دیا اور فرمایا:
((یَا اَیُّھَاالنَّاسُ قَدْ فَرَضَ اللّٰہُ عَلَیْکُمُ الْحَجَّ فَحَجُّوْا))․
”اے لوگو! اللہ نے تم پر حج فرض کیا ہے، پس تم حج کرو۔“

ایک شخض نے کہا :یا رسول اللہ !کیا یہ ہر سال فرض ہے؟آپ صلی الله علیہ وسلم خاموش رہے۔اس نے تین مرتبہ یہ سوال کیا۔توآپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:

((لَوْ قُلْتُ: نَعَمْ لَوَجَبَتْ وَلَمَّا اسْتَطَعْتُمْ)(
”اگر میں ہاں کہہ دیتا تو پھر حج ہر سال فرض ہوجاتا اور تم اس کی ہرگز طاقت نہ رکھتے۔“

اس حوالے سے بھی ہمارا معاشرہ افراط و تفریط کا شکار ہے ۔بعض لوگ تو ایسے ہیں جو استطاعت کے باوجود اپنا فرض حج ادا نہیں کرتے اور بعض ایسے ہیں جو ہر سال حج کے لیے جاتے ہیں۔ صاحب استطاعت لوگوں کو چاہیے کہ ہر سال خود حج پر جانے کے بجائے اپنے رشتہ داروں میں سے کسی غریب کو حج کرا دیں یا کسی غریب کی مدد کردیں۔یہ نفلی حج سے زیادہ ثواب کے کام ہیں۔اور باقی وہ لوگ جواستطاعت کے باوجود حج پر نہیں جاتے وہ اس تاخیر کے سبب گناہ کے مرتکب ہورہے ہیں، ان کو چاہیے کہ پہلی فرصت میں اپنا فرض حج ادا کریں۔

حج اصغر اور حج اکبر کی اصطلاح
اصغر کے معنی چھوٹے اور اکبر کے معنی بڑے کے ہیں۔شریعت کی رو سے عمرہ کوحج اصغر اور حج کو حج اکبر کہا جاتا ہے۔لیکن ہمارے معاشرے میں اس حوالے سے یہ کوتاہی دیکھنے میں آئی ہے کہ جو حج جمعہ والے دن ہو اُس کو حج اکبر کہا جاتا ہے اور جو حج جمعہ کے علاوہ باقی کسی دن ہو اس کو حج اصغر تسلیم کیا جاتا ہے‘حالاں کہ شریعت اسلامی کے رو سے ایسا نہیں ہے۔شریعت میں عمرہ کو حج اصغر اور حج ( چاہے وہ کسی بھی دن ہو)کو حج اکبر کہا گیا ہے۔اس حوالے سے ایک حدیث ملاحظہ ہو :

”حضرت ابوہریرہ ص فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکرصدیق ص نے مجھے ان لوگوں کے ساتھ روانہ کیا جو قربانی والے دن مقامِ منیٰ میں اس امر کا اعلان کر رہے تھے کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرے اور کعبہ کا طواف کوئی شخص برہنہ نہ کرے ۔اور حج اکبر قربانی والے دن ہے ۔اس کو حج اکبر اس لیے کہا گیا ہے کہ (دورِ جاہلیت میں)بعض لوگ عمرہ کوحج اصغر کے نام سے موسوم کرتے تھے …“

استطاعت کے باوجود حج میں تاخیر کرنا مناسب نہیں!
ہمارے معاشرے میں یہ کوتاہی بہت عام ہوتی جارہی ہے کہ ایک شخص میں حج کے فرض ہونے اور حج کی ادائیگی کی تمام شرائط پائی جاتیں ہیں، لیکن وہ بلاوجہ حج کرنے میں تاخیر کرتا رہتا ہے ۔ایسا کرنے کی سخت وعید آئی ہے۔امام شافعی اورامام محمد کے علاوہ باقی تمام ائمہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر کوئی شخص استطاعت کے باوجود حج میں تاخیر کرتا ہے تو وہ اس تاخیر کی وجہ سے گناہ گار ہے۔

دوسری کوتاہی یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کی اکثریت حج کے لیے بڑھاپے کا انتظار کرتی ہے اور اس وقت حج پر جاتی ہے جب ان میں کمزوری اس قدر ہوجاتی ہے کہ حج کے مناسک ادا کرنے میں ان کو بہت تکلیف اور مشقت برداشت کرنی پڑتی ہے۔اس حوالے سے ہمیں چاہیے کہ قدرت اور استطاعت ہوتے ہی حج کے لیے چلے جائیں ا وراس معاملے میں صحت اور جوانی کو بیماری اور بڑھاپے پر ترجیح دیں۔

حج کی اقسام اور ان کی تعریف
حج کی ادائیگی کا طریقہ بیان کرنے سے پہلے ضرور ی معلوم ہوتا ہے کہ حج کی اقسام بیان کی جائیں۔حج کی تین قسمیں ہیں:
(۱)حج اِفراد:اِفراد کے لغوی معنی ہیں:اکیلااور تنہا، جب کہ شرعی اصطلاح میں صرف حج کی نیت سے احرام باندھ کر حج کے افعال و مناسک ادا کرنا اور عمرہ ساتھ نہ ملانا ‘حج اِفراد کہلاتا ہے۔ حج اِفراد کرنے والے کو ”مفرد“ کہا جاتا ہے۔ امام شافعی کے نزدیک ”حج افراد“ افضل ہے۔ (اس حوالے سے یہ یاد رکھیں کہ مفرد پر قربانی واجب نہیں‘ مستحب ہے، جب کہ حج کی باقی دونوں اقسام میں قربانی واجب ہوتی ہے۔)

حج قران:قران(ق کے کسرہ کے ساتھ) کے لغوی معنی ہیں:دو چیزوں کوباہم ملادینا، جب کہ شرعی اصطلاح میں عمرہ اور حج دونوں کی نیت سے احرام باندھنا اور ایک ہی احرام کے ساتھ پہلے عمرہ اورپھر حج اداکرنا اور درمیان میں احرام نہ کھولنا‘حج قران کہلاتا ہے۔حج قران کرنے والے کو ”قارن“کہا جاتا ہے۔امام ابو حنیفہ کے نزدیک حج قران افضل ہے۔

حج تمتع:تمتع کے لغوی معنی ہیں:نفع اٹھانا، جب کہ شرعی اصطلاح میں عازمِ حج کا میقات سے پہلے عمرہ کی نیت سے احرام باندھنا اورعمرہ کے افعال ومناسک ادا کر نے کے بعد احرام کھول دینا اور پھر اسی سال حج کے دنوں میں حج کی نیت سے دوبارہ احرام باندھنا اور مناسک حج ادا کرنا‘ حج تمتع کہلاتاہے۔حج تمتع کرنے والے کو ”متمتع“کہا جاتا ہے۔امام امالک کے نزدیک حج تمتع افضل ہے۔

عمرہ کی ادائیگی کا طریقہ
برصغیر اور خاص کر پاکستانیوں کی اکثریت حج تمتع کرتی ہے، اس لیے حج کی ادائیگی کے طریقہ کو بیان کرنے سے پہلے عمرہ کی ادائیگی کے طریقہ کو بیان کیا جاتا ہے ۔عمرہ کے چار ارکان ہیں جن میں سے دو فرض اور دو واجب ہیں:سب سے پہلے عمرہ کی نیت کرتے ہوئے میقات سے احرام باندھیں اوراحرام کے بعد تلبیہ کا ورد شروع کر دیں۔مسجد حرام آکر طواف کریں۔یہ دونوں ارکان فرض ہیں۔ صفا ومروہ کی سعی کریں۔اوراس کے بعد حلق یا قصرکراکے احرام کھول دے۔یہ دونوں ارکان واجب ہیں۔یہ چاروں ارکان اداکرنے کے بعد عمرہ مکمل ہوگیا۔اب حج کے دنوں تک آپ جتنے چاہیں اس طریقہ پر عمرہ کریں۔یہاں یہ بات یاد رکھیں کہ حج کے مخصوص پانچ دنوں یعنی8 سے 12ذوالحجہ تک عمرہ کرنا مکروہ تحریمی ہے۔

حج کی ادائیگی کا طریقہ
آٹھ ذوالحجہ سے بارہ ذوالحجہ تک حج کے مخصوص پانچ دن ہیں ۔ان پانچ دنوں میں حج کے تقریباًتمام فرائض وواجبات ادا ہوجاتے ہیں۔ذیل میں ہر روز کے مناسک وافعال کو ترتیب وار بیان کیا جارہا ہے :

حج کے پہلے دن(8 ذو الحجہ) کے افعال
٭...میقات سے احرام باندھنا: 8 ذو الحجہ کو نمازِ فجرمکہ میں باجماعت ادا کریں اور غسل یا وضو کر کے میقات جا کر احرام باندھ لیں۔ اس کے بعد احرام کے دو رکعت نفل ادا کریں۔

٭...حج کی نیت کرنا اور تلبیہ پڑھنا: احرام کے نفل سے فارغ ہو کر حج کی نیت کریں اور یہ دعا پڑھیں: اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اُرِیْدُ الْحَجَّ فَیَسِّرْہُ لِیْ وَتَقَبَّلْہُ مِنِّیْ ”اے اللہ! میں حج کی نیت کرتا ہوں کرتی ہوں، اس کو میرے لیے آسان فرما اور اسے میری طرف سے قبول فرما“۔اس کے بعد تلبیہ پڑھیں اور دعا کریں ۔اب احرام کی پابندیاں شروع ہو گئیں۔

٭... منیٰ روانگی اوروقوفِ منیٰ :طلوعِ آفتاب کے بعد منیٰ روانہ ہو جائیں۔ 8ذوالحجہ کی ظہر‘ عصر‘ مغرب اورعشا کی نمازیں منیٰ میں باجماعت ادا کریں۔

نوٹ:اگرکوئی شخص 8ذوالحجہ کو منیٰ نہیں جاتا اور مکہ مکرمہ میں ہی رہتا ہے اور یہی سے۹ذوالحجہ کو عرفات کے لیے روانہ ہوجاتا ہے تو اس طرح کرنے سے مناسک حج کے حوالے سے تو کوئی خرابی لازم نہیںآ تی، اس لیے کہ8ذوالحجہ کو منیٰ میں حج کا کوئی مناسک ادا نہیں ہوتا، البتہ ا س طرح کرنے سے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی سنت کی خلاف ورزی ہوگی اور یہ شخص اس کی وجہ سے گناہ گار ہوگا۔اس لیے افضل یہی ہے کہ سنت نبوی کی پاس داری کرتے ہوئے 8ذوالحجہ کو منیٰ جائیں اور اگلے دن یہیں سے عرفات کے لیے روانہ ہوں۔

حج کے دوسرے دن(9ذو الحجہ) کے افعال
٭...منیٰ میں نمازِ فجر کی ادائیگی اور تکبیر تشریق:9 ذو الحجہ کو نمازِ فجر منیٰ میں ادا کریں۔9ذو الحجہ کی نمازِ فجر سے 13 ذو الحجہ کی نمازِعصر تک ہر نماز کے بعد تکبیر تشریق کہناواجب ہے، اس لیے حاجی اور غیر حاجی دونوں کو چاہیے کہ وہ ہر نماز کے بعد تکبیر تشریق کہے۔

٭... میدانِ عرفات روانگی اور وقوفِ عرفہ: طلوعِ آفتاب کے بعد غسل (جو کہ سنت ہے)یا وضو کر کے تلبیہ کہتے ہوئے عرفات روانہ ہو جائیں۔اگرکوئی نمازِ فجر کے بعد اور طلوعِ آفتاب سے پہلے عرفات کی طرف روانہ ہوگیا تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ زوال سے سورج غروب ہونے تک میدانِ عرفات میں وقوف کرنا حج کا سب سے بڑا رکن ہے۔اگر کوئی حاجی زوال سے غروبِ آفتاب تک ایک لمحہ کے لیے بھی عرفات پہنچ گیا تو اس کا حج ہوگیا۔ رسول اللہصلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ((اَلْحَجُّ عَرَفَةُ)) یعنی اصل حج تو عرفہ ہی ہے۔

نوٹ:وقوفِ عرفہ کے موقع پر”جبل رحمت“کے پاس وقوف کریں، اس لیے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے بھی اس پہاڑ کے پاس وقوف کیا تھا۔

٭...دورانِ وقوفِ عرفہ تلبیہ‘دعائیں اور استغفارکرنا:یہ وقت قبولیت ِدعا کا خاص وقت ہے، اس لیے تمام وقت تلبیہ‘ خشوع و خضوع اور گریہ وزاری کے ساتھ دعا اور استغفار میں مشغول رہیں ۔اپنے ماضی کے گناہوں اور کوتاہیوں پر اللہ کے حضور معافی کے اور اپنے مستقبل کے لیے گناہوں سے پاک زندگی کے طالب ہوں۔وقوفِ عرفہ کے موقع پر نبی اکرمصلی الله علیہ وسلم نے مندرجہ ذیل دعا کو بہترین دعااور بہترین کلمہ قرار دیاہے :
”لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہ لَا شَرِیْکَ لَہ لَہ الْمُلْکُ وَلَہ الْحَمْدُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ ․“

٭...عرفات میں نمازِ ظہر و عصر کی اکٹھی ادائیگی:عرفات کی مسجد نمرہ میں نمازِظہر وعصر ‘ ظہر کے وقت میں ایک ساتھ باجماعت ادا کریں۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ امام پہلے دو خطبے دے، جس میں حج کے مناسک کے بارے میں لوگوں کو آگاہی دے اور دو خطبوں کے درمیان جمعہ کے خطبوں کی طرح بیٹھے۔ خطبہ سے فارغ ہوکر موٴذن نمازِ ظہر کی اقامت کہے اور امام ظہر کی نماز پڑھائے۔پھر موٴذن نمازِ عصر کے لیے اقامت کہے اور امام عصر کی نماز پڑھائے۔اگر کسی نے ظہر کی نماز اپنے خیمہ میں اکیلے ادا کی تو وہ ظہر اور عصر کی نماز اکٹھی ادا نہیں کرے گا، بلکہ وہ ظہر کی نماز ظہر کے وقت میں اور عصر کی نماز عصر کے وقت میں اداکرے گا۔

٭...غروب آفتاب کے وقت مزدلفہ روانگی:غروب آفتاب کے بعد مغرب کی نماز پڑھے بغیر‘ تلبیہ کہتے ہوئے مزدلفہ روانہ ہوجائیں۔

٭...وقوفِ مزدلفہ اور نماز مغرب و عشا کی اکٹھی ادائیگی:مزدلفہ پہنچ کرمغرب وعشا کی نمازیں ایک اذان اور ایک اقامت کے ساتھ عشا کے وقت میں باجماعت ادا کریں۔ پہلے مغرب کے تین فرض ادا کریں‘ پھر تکبیر تشریق اور تلبیہ پڑھیں۔اس کے بعد ساتھ ہی عشا ادا کریں اور تکبیر تشریق اور تلبیہ پڑھیں۔پھر مغرب کی دو سنتیں‘ پھر عشا کی دو سنتیں اور پھر وتر ادا کریں۔ اگر کسی نے مزدلفہ پہنچنے سے پہلے ہی مغرب کی نماز پڑھ لی تو اس کی نماز نہ ہو گی اور اس کے ذمے مزدلفہ پہنچ کر ماقبل بیان کردہ ترتیب سے دوبارہ نماز پڑھنا لازم ہو گا۔

نوٹ:وقوفِ عرفہ کے دوران اگر حاجی بغیر جماعت کے اپنے خیموں میں نماز پڑھیں تو ان کے لیے حکم تھا کہ وہ ظہر کو ظہر کے وقت میں اور عصر کو عصر کے وقت میں ادا کریں‘لیکن وقوفِ مزدلفہ میں مغرب اور عشا کی نمازیں اکٹھی عشا کے وقت ادا کرنی ہیں، چاہے جماعت کے ساتھ پڑھیں یا الگ الگ۔

٭...مزدلفہ میں ذکر واذکار اور دعا ئیں کرنا:یہ بڑی فضیلت والی اور مبارک رات ہے ‘اس میں زیادہ سے زیادہ ذکر و تلاوت ‘ تلبیہ اور دُعا وٴں کا اہتمام کریں۔ اس رات اپنے پروردگار کو اس خشوع و خضوع سے یاد کریں کہ دل میں اللہ رب العزت کے علاوہ کسی کی یاد نہ ہو۔بالفاظِ قرآنی:
﴿فَاذْکُرُوا اللّٰہَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ وَاذْکُرُوْہُ کَمَا ھَدٰٹکُمْ﴾ (البقرة:198)
”پس اللہ کو یاد کرو مشعر حرام کے نزدیک( مشعر ِحرام ایک پہاڑ کا نام ہے جو مزدلفہ میں واقع ہے) اور اس کو ایسے یاد کرو جیسے اس نے تمہیں ہدایت کی ہے۔“

حج کے تیسرے دن(10ذو الحجہ) کے افعال
٭...مزدلفہ میں نمازِ فجر ادا کرنا:وقوفِ مزدلفہ کی رات دعاوٴں میں مشغول ہو کر گزارنے کے بعد فجر کی نماز اول وقت میں باجماعت ادا کریں۔ پھر سورج نکلنے تک ذکر و اذکار ‘دعا و استغفاراور تلبیہ میں مشغول رہتے ہوئے وہیں وقوف کریں۔

نوٹ:مزدلفہ میں جبل قُزح کے قریب وقوف کریں، اس لیے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے بھی اسی پہاڑ کے قریب وقوف کیا تھا۔

٭...مزدلفہ سے کنکریاں اُٹھانا:اس دوران مزدلفہ سے کنکریاں اُٹھائیں، جو جمرات کو مارنے کے لیے استعمال کی جا ئیں گی۔ہر حاجی چنے یا کھجور کی گٹھلی کے برابر ستر کنکریاں مزدلفہ سے اٹھا ئے۔

٭...منیٰ روانگی اور جمرئہ عقبہ( بڑے شیطان )کی رمی:طلوعِ آفتاب کے وقت منیٰ روانہ ہو جائیں اور منیٰ پہنچ کر سب سے پہلے جمرئہ عقبہ (بڑے شیطان) کی رمی کیجیے۔ 10 ذو الحجہ کو صرف بڑے شیطان کی رمی کی جاتی ہے ۔ اس دن رمی کا افضل وقت طلوعِ آفتاب سے زوال تک ہے، لیکن اس کا جائز وقت 10 ذوالحجہ کے طلوعِ آفتاب سے لے کر اگلے دن 11ذوالحجہ کے صبح صادق طلوع ہونے سے پہلے تک ہے۔

رمی کا طریقہ:10 ذوالحجہ کو صرف بڑے شیطان کی، جب کہ اگلے دونوں دن تینوں جمرات کی رمی کی جاتی ہے، اس لیے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ رمی کا سنت طریقہ بھی ذکر کر دیا جائے۔

رمی کا طریقہ یہ ہے کہ سات کنکریاں ہاتھ میں لے کر اس طرح کھڑے ہوں کہ منیٰ آپ کے دائیں جانب اور مکہ مکرمہ بائیں جانب ہو۔ دائیں ہاتھ کے انگوٹھے اور شہادت کی انگلی سے پکڑ کر ایک ایک کنکری ستون پر مارتے جائیں( کنکر کا احاطے میں گرنا کافی ہے‘ستون کو لگنا ضروری نہیں)۔ ہر کنکری مارتے وقت ”بسم اللّٰہ اللّٰہ اکبر“ کہیں اور یہ دعا پڑھیں:اَللّٰھُمَّ اجْعَلْہُ حَجًّا مَبْرُوْرًا وَذَنْبًا مَغْفُوْرًا ․
”اے اللہ! میرے حج کو قبول فرما اور میرے گناہوں کو بخش دے۔“

نوٹ:رمی کے دوران تلبیہ پڑھنا بند کر دیں اور جمرہٴ عقبہ (بڑے شیطان)کی رمی کے بعداُس کے پاس کھڑے ہوکر دعا نہ مانگیں۔

٭...قربانی کرنا:رمی کے بعد قربانی کیجیے۔قربانی کرنا واجب ہے۔اس قربانی کے لیے تین دن ‘یعنی 10‘11‘12 ذو الحجہ مقرر ہیں۔ ان دنوں میں جب چاہیں قربانی کر لیجیے، جب کہ پہلے دن قربانی کرنا افضل ہے۔

٭...حلق یا قصر کروانا:قربانی کرنے کے بعد مرد پورے سر کے بال منڈوائیں یاپورے سر کے بال انگلی کے پور سے کچھ زیادہ کاٹیں ‘مگر منڈوانا افضل ہے۔ خواتین پورے سر کے بال انگلی کے پور سے کچھ زیادہ کتروائیں ۔ تاہم چوتھائی سر کے بال کٹ جانے کا اطمینان ضرورکرلیں۔ حلق یا قصر کی شرعی حیثیت فرض کی ہے اور اس کے بعد سوائے ازدواجی تعلق قائم کرنے کے احرام کی باقی تمام پابندیاں ختم ہو جاتی ہیں۔

نوٹ: ماقبل 10ذوالحجہ کے جوتین مناسک:جمرئہ عقبہ (بڑے شیطان) کی رمی۔ قربانی اور حلق یا قصرذکر کیے ہیں، ان کو اسی ترتیب سے ادا کرنا واجب ہے ۔اگر کسی نے اس ترتیب کے اُلٹ کیا تو اس پر دم لازم ہو گا۔

٭...طوافِ زیارت:حلق یا قصر کے بعد غسل کیجیے۔ پھر سلے ہوئے کپڑے پہن کر یا احرام ہی کی چادروں میں مکہ جا کر طواف کیجیے۔ اس کا وقت حلق سے فارغ ہونے کے بعد 12ذو الحجہ کے غروب آفتاب تک ہے۔ افضل یہی ہے کہ10 ذو الحجہ ہی کو کر لیا جائے‘ ورنہ 12ذو الحجہ تک کبھی بھی کیا جاسکتا ہے۔ طوافِ زیارت کی شرعی حیثیت فرض کی ہے۔

٭...صفا و مروہ کی سعی : طوافِ زیارت اور دو رکعت نمازِ طواف سے فارغ ہو کر صفا و مروہ کی سعی کریں ۔ صفا مروہ کی سعی کرنا واجب ہے۔

نوٹ:اگر حاجی نے مکہ آنے کے بعد طواف قدوم(یعنی استقبالی طواف)کیا اور اس طواف میں رمل (طواف کے پہلے تین چکروں میں اکڑکر چلنا)بھی کیا اور اس کے بعد صفا ومروہ کی سعی بھی کی تو اب اس حاجی کے لیے طواف زیارت میں نہ تو رمل ہے اور نہ اس پر سعی واجب ہے۔ اور اگر حاجی نے مکہ آنے کے بعد طواف قدوم نہیں کیا تو اب وہ طواف زیارت میں رمل بھی کرے گا اور اس کے بعد سعی کرنا بھی اس پر واجب ہے۔

٭...منیٰ واپسی:10ذوالحجہ کو مندرجہ بالا تمام افعال و مناسک کی ادائیگی کے بعد منیٰ واپس آجائیں اور رات منیٰ میں ہی گزاریں۔

حج کے چوتھے دن(11ذو الحجہ) کے افعال
٭...تینوں جمرات کی رمی :11 ذو الحجہ کو زوال کے بعد تینوں جمرات کی رمی کریں، بایں طور کہ پہلے جمرئہ اولیٰ (چھوٹا شیطان) کو سات کنکریاں ماریں‘پھر اس کے پاس کچھ دیر قبلہ رخ کھڑے ہوکر دعا مانگیں۔ پھر جمرئہ وسطیٰ (درمیانہ شیطان) کو سات کنکریاں ماریں اور دعا مانگیں۔پھر جمرہٴ عقبہ (بڑا شیطان) کو سات کنکریاں ماریں، لیکن اس کے پاس نہ کھڑے ہو اور نہ دعا مانگیں۔ اس دن رمی کا سنت وقت زوال سے غروب آفتاب سے پہلے تک ہے، جب کہ اس کا جائز وقت زوال سے صبح صادق طلوع ہونے سے پہلے تک ہے ۔ رمی سے فارغ ہوکرمنیٰ واپس آجائیں۔

حج کے پانچویں دن(12ذو الحجہ) کے افعال
٭...تینوں جمرات کی رمی :اس دن بھی زوال کے بعد غروب آفتاب سے پہلے تینوں جمرات کی رمی کریں، جس طرح گزشتہ روز11 ذو الحجہ کو تینوں جمرات کی رمی کی تھی۔

13ذوالحجہ کومنیٰ رکنے اور مکہ جانے کا اختیار
٭...رکنا یا جانا:12 ذوالحجہ کوجمرات کی رمی سے فارغ ہونے کے بعد حاجی کو اختیار ہے کہ مکہ چلا جائے۔اور اگر وہ مکہ نہیں جاتا اور واپس منیٰ چلا جاتا ہے تو اب اس کے ذمے 13 ذوالحجہ کو بھی زوال کے بعد تینوں جمرا ت کی رمی کرنا لازم ہے(اگر طلوع آفتاب کے بعد زوال سے پہلے رمی کرلے تو بھی جائز ہے)۔ افضل یہی ہے کہ حاجی 13 ذوالحجہ کو بھی منیٰ میں ٹھہرے اور تینوں جمرات کی رمی کر کے پھر مکہ واپس جائے۔اس لیے کہ احادیث میں مذکور ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم حجة الوداع کے موقع پر 12 ذوالحجہ کو جمرات کی رمی کے بعد منیٰ واپس گئے اور پھر13ذوالحجہ کو زوال کے بعد تینوں جمرات کی رمی کی اور پھر مکہ روانہ ہوئے۔

٭...مکہ واپسی پر وادیٴ محصب میں جانا:12یا13 ذوالحجہ کو جب حاجی مکہ کی طرف واپسی کا کوچ کرے تو اس کو چاہیے کہ منیٰ اور مکہ کے درمیان وادیٴ محصب میں کچھ دیر قیام کرے، اس لیے کہ نبی اکرمصلی الله علیہ وسلم نے اس جگہ پر کچھ دیر قیام کیا تھا۔یہاں کچھ دیر قیام کرنا سنت ہے۔

طوافِ وداع
مندرجہ بالا افعال و مناسک اداکرنے کے بعد آپ کا حج پایہ تکمیل تک پہنچ گیا۔ البتہ ایک طواف رہ گیا جس کا وقت مکہ مکرمہ سے رخصت ہونے کا ہے۔اس کو طوافِ وداع کہا جاتا ہے۔ اس طواف کی شرعی حیثیت واجب کی ہے اور اس کا طریقہ عام نفل طواف کی طرح ہے، یعنی نہ اس میں رمل ہوگا اور نہ ہی اس کے بعد صفا اور مروہ کی سعی ہوگی، البتہ طواف کے دو نفل ضروری ہیں۔
        ہے زاہد کے لبوں پہ پس اِک ہی دعا
        یارب! مجھے بھی تو بیت اللہ دکھا دے!
Flag Counter