جہنم سے آزادی وخلاصی کیسے ؟
مفتی ابو عبیدالرحمن عارف محمود
رفیق شعبہٴ تصنیف وتالیف و استاد جامعہ فاروقیہ کراچی
ہر مسلمان کی یہ خواہش وچاہت ہوتی ہے کہ وہ آخرت میں کام یاب قرار پائے، جنت میں چلا جائے اور اسے جہنم سے خلاصی وآزادی عطا ہوجائے، یہ کیسے ہوگا؟ آئیے! احادیث مبارکہ کی روشنی میں اس کا جائزہ لیتے ہیں۔
امام احمد بن حنبل رحمة الله علیہ کی روایت میں ہے کہ حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ رمضان کے ہر دن اور رات میں الله تعالی کچھ لوگوں کو جہنم سے آزادی عطا فرماتے ہیں اور ہر مسلمان کی ہر دن اور رات ایک دعا قبول ہوتی ہے، امام احمد ہی کی ایک روایت میں ہے کہ ہر افطار کے وقت الله تعالی کچھ لوگوں کو جہنم سے آزادی عطا فرماتے ہیں۔
وہ کون سے اعمال واسباب ہیں جن کی بنا پر الله تعالی بندوں کو جہنم سے خلاصی وآزادی عطا فرماتے ہیں، خاص طور سے رمضان کے مبارک مہینے میں، جب الله کی رحمت عام ہوجاتی ہے، شیاطین مقید کردیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں اور جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، ہم گناہ گار مسلمانوں کو یہ موقعہ غنیمت سمجھنا چاہیے کہ بلا عوض جنت عطا کی جارہی ہے اور جہنم سے خلاصی عنایت ہورہی ہے۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی الله عنہ کے بارے میں حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: أنت عتیق الله من النار، آپ کو الله نے آگ سے آزادی عطا فرمائی ہے، حضرت ابوبکر کی طرح ہر مسلمان کو آگ سے خلاصی مل جائے اس کے لیے اعمال کو اختیار کرنا ہوگا۔
اعمال میں اخلاص
بخاری شریف کی روایت میں ہے کہ حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی بندہ اخلاص کے ساتھ، الله کی رضا کے لیے ”لا الہ إلا الله“کہتا ہے تو الله تعالی اس پر جہنم کی آگ حرام کردیتے ہیں۔
اخلاص کی واضح علامت یہ ہے کہ بندہ مکمل بیداری ،اہتمام اور نشاط کے ساتھ الله کی اطاعت کرے اور اس بات کو محبوب رکھے کہ سوائے الله کے کوئی اس کے اعمال پر مطلع نہ ہوسکے۔
ذو النون مصری رحمة الله علیہ سے کسی نے پوچھا کہ کب پتہ چلتا ہے کہ بندہ مخلصین میں سے ہے؟، انہوں نے فرمایا: اس وقت جب بندہ اپنی تمام کوششیں اور صلاحیتیں الله کی اطاعت میں صرف کرے اور یہ تہیہ کرے کہ بندوں کے نزدیک اس کا کوئی مقام و مرتبہ نہ ہو۔
تکبیر تحریمہ کے ساتھ باجماعت نماز کا اہتمام
ترمذی شریف کی روایت میں ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے چالیس (40) دن تک باجماعت تکبیر اولی کے ساتھ نماز پڑھی، اس کو دو پروانے عطا کیے جاتے ہیں، ایک جہنم سے آزادی کا اور دوسرا نفاق سے بری ہونے کا۔
ہم کوشش کریں کہ اذان ہونے کے بعد صرف نماز کی تیاری میں مشغول ہوں، ان شاء الله کبھی تکبیر اولی فوت نہیں ہوگی․
عصر اور فجر کی نمازوں پر محافظت ( پابندی)
مسلم شریف کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا وہ شخص ہرگز آگ میں داخل نہیں ہوگا جو سورج طلوع ہونے اور غروب ہونے سے پہلے نماز پڑھ لے، یعنی فجر اور عصر کی۔
فجر اور عصر کی نمازوں کے ساتھ ان کی سنتوں کا بھی اہتمام ہونا چاہیے۔
مسلم شریف ہی کی روایت میں ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا فجر کی دو رکعتیں دنیا وما فیہا سے بہتر ہیں․
ترمذی شریف کی روایت میں ہے کہ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: الله تعالی اس بندے پر رحم فرمائے جس نے عصر سے پہلے چار رکعت پڑھی۔
ظہر سے پہلے اور بعد میں سنتوں کا اہتمام
ترمذی، ابو داوٴد اور نسائی کی روایت میں ہے کہ الله کے نبی صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے ظہر سے پہلے اور بعد کی چار رکعتوں پر محافظت کی الله تعالی اس کو آگ پر حرام کردیتے ہیں۔
عزیزان گرامی! یہ فضیلت تو پابندی کرنے والوں کو حاصل ہوگی، کوشش کریں کہ اہتمام کے ساتھ ان کو ادا کریں۔
الله کی خشیت سے رونا
حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: وہ شخص ہرگز جہنم کی آگ میں داخل نہ ہوگا جو الله کی خشیت سے رویا، حتی کہ دودھ تھنوں میں واپس چلا جائے، الله کے راستے کا غبار اور جہنم کا دھواں کبھی جمع نہیں ہوسکتے۔ ( رواہ الترمذی والنسائی)
مبارک ہو آپ کو اگر آپ الله کی خشیت سے روتے ہیں، دلوں پر لگا ہوا گناہوں کا زنگ ندامت کے آنسوہی دھوتے ہیں ، حضرت سفیان ثوری رحمة الله علیہ نے فرمایا کہ اگر کوئی پورے سال میں ایک مرتبہ بھی الله کی خشیت سے رویا تو یہ بھی بہت ہے۔
مسلم شریف کی روایت کے مطابق الله کے عرش کا سایہ پانے والے سات خوش نصیبوں میں سے ایک وہ آدمی ہے جو تنہائی میں الله کا ذکر کرے اور اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوں۔
ترمذی شریف کی روایت میں ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: کہ دو قطروں سے بڑھ کر الله کو کوئی چیز پسندیدہ نہیں، ایک آنسو کا وہ قطرہ جو الله کی خشیت کی وجہ سے نکلا ہو اور دوسرا خون کا وہ قطرہ جو الله کے راستے میں بہایا گیا ہو۔
خالد بن معدان رحمة الله علیہ فرماتے ہیں : آنسوکا ایک قطرہ آگ کی کئی موجوں کو بجھانے کے لیے کافی ہوتا ہے، اگر کوئی آنسو آنکھ سے نکل کر رخسار پر بہہ پڑتا ہے تو وہ چہرہ کبھی آگ کو نہ دیکھے گا، کوئی بھی بندہ الله کی خشیت سے نہیں روتا ،مگر اس کے اعضا وجوارح بھی اس کے ساتھ خشیت اختیار کرتے ہیں،اس کانام اس کی ولدیت کے ساتھ ملااعلی پر لکھا جاتا ہے، اس کا دل الله کے ذکر کے ساتھ روشن ہوتا ہے۔(الرقة والبکاء لابن أبی الدنیا) ا لله تعالی ہمیں بھی خشیت کا کوئی آنسو نصیب فرمادے۔
الله کی راہ میں چلنے والے قدم
ترمذی شریف کی روایت میں یزید بن ابی مریم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں جمعہ کی نماز کے لیے جا رہا تھا تو عبایہ بن رفاعہ بن رافع رضی الله عنہ ملے اور کہا کہ تمہیں خوش خبری ہوکہ تمہارے یہ قدم الله کے راستے میں پڑرہے ہیں، میں نے ابو عبس رضی الله عنہ سے سنا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے دونوں پاوٴں الله کی راہ میں غبار آلود ہوجائیں وہ جہنم کی آگ پر حرام ہوجاتے ہیں۔
امام احمد رحمة الله علیہ کی ایک روایت میں ہے کہ پہلے وقت میں غسل کرکے جمعہ کی نمازکے لیے آنے اور بات چیت کیے بغیر خطبہ سننے پر ہر قدم کے بدلے ایک سال کے روزے اور قیام کا ثواب عطا کیا جاتا ہے۔
اہل ایمان بھائیو! آئیے ،کوشش کریں کہ ہمارااٹھنے والا ہر قدم الله کی راہ میں ، الله کی طرف بلانے کے لیے، مظلوم کی مدد کے لیے ، مسلمان بھائی کی حاجت کو پورا کرنے ، مریض کی عیادت اور جنازہ کی نماز میں شرکت کے لیے ہو۔
اخلاق کی نرمی
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص ہلکا، نرم خواورلوگوں کے قریب ہوگا الله اس کو آگ پر حرام کردیتے ہیں۔ (رواہ الحاکم)
علامہ مناوی” فیض القدیر“ میں فرماتے ہیں کہ حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم سب سے زیادہ نرم خو تھے، آپ کے صحابہ جب کسی دنیوی معاملہ کے بارے میں بات چیت کرتے تو آپ صلی الله علیہ وسلم بھی ان کے ساتھ شریک ہوجایا کرتے اور جب آخرت کے امور کا ذکر کرتے تو آپ بھی ان کے ساتھ آخرت کا تذکرہ فرماتے اور جب صحابہ کھانے کا ذکر کرتے تو آپ بھی ان کے ساتھ کھانے ہی کی بات چیت فرماتے تھے۔
بیٹیوں اور بہنوں کی پرورش
بیہقی کی روایت میں ہے کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت کا جو بھی شخص تین بیٹیوں یا بہنوں کی پرورش کرے گا اور ان کے ساتھ بھلائی کامعاملہ کرے گا تویہ (بیٹیاں اور بہنیں ) اس کے لیے جہنم کی آگ سے اوٹ بن جائیں گی۔
امام احمد کی روایت میں ہے کہ ان کو سنجیدگی کے ساتھ کھلایا ، پلایا اور پہنایا تو یہ اس کے لیے قیامت کے دن جہنم کی آگ سے حجاب بن جائیں گی۔
غلاموں کو آزاد کرنا
حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی بھی مسلمان مرد کسی مسلمان غلام کو آزاد کردے تو یہ اس کے لیے آگ سے آزادی کا باعث ہے، اس کی ہر ہڈی کے بدلے اس کی ہر ہڈی کوآزاد کردیا جائے گااور کوئی بھی مسلمان عورت کسی مسلمان باندی کو آزاد کرے تو یہ اس کے لیے آگ سے آزادی کا باعث ہے، اس کی ہر ہڈی کے بدلے اس کی ہر ہڈی کو آزاد کردیا جائے گا۔( رواہ ابو داوٴد والترمذی وابن ماجہ)
آج اگر چہ غلام وباندی کو آزاد کرنا ممکن نہیں رہا،لیکن الله کے فضل وکرم سے دوسرے ایسے اعمال ہیں جو ان کے قائم مقام قرار دیے گئے ہیں ، ابوداوٴد کی روایت میں ہے کہ مجھے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسل میں سے دو گردنوں کو آزاد کرنے سے زیادہ محبوب یہ ہے کہ میں فجر کے بعد سورج طلوع ہونے تک الله کا ذکر کروں الله أکبر ، الحمد لله، سبحان الله اور لا الہ إلا الله کہوں ۔ امام نسائی کی روایت میں ہے کہ حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے سورج طلوع اور غروب ہونے سے قبل سو مرتبہ” سبحان الله“ کہا تو یہ سو غلام آزاد کرنے سے افضل ہے اور جس نے سورج طلوع اور غروب ہونے سے قبل سو مرتبہ ” الحمد لله“کہا تو یہ الله کی راہ میں سو گھوڑے دینے سے افضل ہے اور جس نے سورج غروب وطلوع ہونے سے قبل سو مرتبہ”لا الہ إلا الله وحدہ، لا شریک لہ، لہ الملک، ولہ الحمد، وھو علی کل شيء قدیر“ کہا تو قیامت کے دن کوئی اس سے افضل عمل لے کر نہیں آئے گا، مگر یہ کہ وہ اس سے زیادہ مرتبہ کہے۔
نسائی ہی کی ایک روایت میں ہے کہ آگ سے بچاوٴ کے لیے ڈھال لے لو اور یہ کلمات کہو: سبحان الله ، الحمد لله، ولا الہ إلا الله والله أکبر ؛ اس لیے کہ قیامت کے دن یہ کلمات بندے کے آگے پیچھے اور دائیں بائیں سے آئیں گے اور یہی کلمات باقیات صالحا ت ہیں ۔
مسلمان بھائی کی عزت کا دفاع
حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے اپنے (مسلمان) بھائی کی مدد کی ، غیر موجودگی میں اس کی عزت کا دفاع کیاالله پر حق ہے کہ اس کو جہنم کی آگ سے آزاد کردے۔ (رواہ احمد والطبرانی)
پہلے تو کوشش کریں کہ کسی ایسی مجلس میں ہماری شرکت ہی نہ ہوجس میں غیبت ، بہتان وغیرہ کسی بھی ذریعہ سے دوسرے مسلمان کی ہتک عزت کی جارہی ہو، اگر مجبوراً بیٹھنا پڑے توکسی کی غیبت سننے سے اجتناب کریں ، زبان سے ،یا کم از کم دل سے اس پر نکیر کریں ،ورنہ اس مجلس سے اٹھ جائیں۔
الحاح وزاری اور دعا کی کثرت
امام ا حمدکی روایت ہے کہ حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی بھی مسلمان شخص تین دفعہ الله سے جنت نہیں مانگتا،مگر جنت یہ کہتی ہے کہ اے الله! اسے جنت میں داخل کردے اور کوئی بھی مسلمان شخص تین دفعہ جہنم کی آگ سے پناہ نہیں مانگتا ،مگر جہنم کی آگ یہ کہتی ہے کہ اے الله!تو اسے مجھ سے پناہ دے دے۔
کوشش اس بات کی کرنی چاہیے کہ ہم کثرت سے اپنی دعاوٴں میں الحاح وزاری کے ساتھ جہنم کی آگ سے پناہ مانگیں اور جنت کو طلب کریں۔
روزہ جہنم کی آگ کے لیے ڈھال ہے
امام طبرانی کی روایت میں ہے کہ حضور اقدس ا نے ارشاد فرمایا: روزہ ڈھال ہے، اس ڈھال کے ذریعہ بندہ جہنم کی آگ سے بچاوٴ کرتا ہے۔
کوشش کریں کہ اس ڈھال کو غیبت اور چغل خوری سے پھاڑ نہ ڈالیں ، تاکہ روزہ جہنم سے بچاوٴ کے لیے بطور ڈھال کام آسکے، کیوں کہ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ روزہ ڈھال ہے، جہنم کی آگ سے بچاوٴ کا ،جب تک اسے غیبت ، چغل خوری وغیرہ سے پھاڑ نہ ڈالا جائے۔
فقرا ، مساکین اور مستحق لوگوں کو کھانا کھلانا
”حلیة الأولیاء“ میں ایک اسرائیلی روایت منقول ہے کہ موسی علیہ السلام نے الله رب العزت سے پوچھا کہ اس شخص کا کیا بدلہ ہے جو آپ کی رضا کی خاطرمسکین کو کھانا کھلائے؟ الله رب العزت نے ارشاد فرمایا: اے موسی !میں ایک آواز لگانے والے کو حکم دیتا ہوں کہ وہ علی روٴس الاشہادا علان کرے کہ فلاں بن فلاں الله کی طرف سے جہنم کی آگ سے آزاد کردہ ہے۔
فقیروں، مسکینوں اور محتاجوں کو کھانا کھلانا الله کے نزدیک بڑے مرتبے والا عمل ہے، بلکہ اسے افضل الاعمال شمار کیا گیا ہے، طبرانی کی روایت میں ہے کہ حضو ر صلی الله علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کون سا عمل سب سے افضل ہے؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: کسی مسلمان کو خوش کرنا، بایں طور کہ آپ نے اسے پیٹ بھر کر کھانا کھلادیا، یا کپڑے پہنادیے، یا اس کی کوئی اور حاجت پوری کردی۔
طبرانی ہی کی ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنت میں کچھ کمرے ایسے ہیں جن کا ظاہر ان کے باطن (اندر)سے اور باطن ظاہر سے دکھائی دے گا، ابو موسی اشعری رضی الله عنہ نے پوچھا اے الله کے رسول! یہ کس کو ملیں گے؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: یہ ان لوگوں کے لیے ہیں جن کا کلام پاکیزہ ہوگا، جنہوں نے لوگوں کو کھانا کھلایا اور رات قیام میں گزاری جب کہ لوگ سورہے ہوں۔
محترم قارئین کرام ! فرائض وواجبات کی ادائیگی اور معاصی سے اجتناب کے بعدیہ چند اعمال ہیں جن کے اختیار کرنے اور ان پر مداومت سے ہم بھی جہنم کی آگ سے خلاصی پاسکتے ہیں، اگر پہلے سے ان پر عمل پیرا ہیں تو بہت ہی اچھی بات ہے ، رمضان میں مزید اہتمام کی کوشش کریں،اگر ایسا نہیں تو پھر آئیے ،ابھی سے نیت اور عزم کریں کہ ہم خود بھی ان اعمال کو اختیار کریں گے اور دوسروں کو بھی ان اعمال کی طرف متوجہ کریں گے ۔
یہاں ایک بات ذہن نشین رہے کہ اعمال صالحہ کے ساتھ عقائد کی درستگی نہایت ضروری ہے، وگرنہ یہ اعمال کسی کام نہ آسکیں گے، لہذا کوشش کریں کہ مستند اور معتمد علمائے کرام سے رجوع کرکے اپنے عقائد کی اصلاح کی بھی کوشش کرلیں، تاکہ اعمال کی عمارت کو صحیح اور مضبوط بنیاد فراہم ہو سکے۔
الله تعالی ہم سب کو ان اعمال خیر پر آنے کی توفیق عنایت فرمائے اور جہنم کی آگ سے مکمل خلاصی وآزادی عطا فرمائے۔