Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ذوالحجہ 1433ھ

ہ رسالہ

8 - 14
نومولود سے متعلق شرعی احکام
مفتی محمد راشد ڈسکوی، رفیق شعبہٴ تصنیف وتالیف و استاد جامعہ فاروقیہ کراچی

عن یحيٰ بن سعید؛ أن عمر بن الخطاب رضي اللہ عنہ قال لرجل: ما اسمک؟ فقال: جمرة، فقال: ابن مَن؟ فقال: ابن شھاب، قال: ممن؟ قال: من الحُرَقة، قال: أین مسکنک؟ قال: بحرة النار، قال: بأیھا؟ قال: بذات لظی، قال عمر: أدرک أھلک، فقد احترقوا، قال(الراوي): فکان کما قال عمر بن الخطاب رضي اللہ عنہ․(الموٴطا للإمام مالک،کتاب، باب ما یکرہ من الأسماء،رقم الحدیث:2790،2/566،دارالغرب الإسلامي)

مندرجہ بالا روایات سے یہ بات ظاہر ہو رہی ہے، کہ ناموں کے اثرات انسان پر پڑتے ہیں ، لہٰذا نام رکھنے سے قبل خوب اچھی طرح سوچ لینا چاہیے کہ ہم کس طرح کا نام اختیار کر رہے ہیں؟!

اچھے اور بُرے ناموں کی پہچان
ابھی تک یہ بات تو واضح ہو چکی کہ اچھے اور برے ناموں کے انسانی زندگی پر باقاعدہ اثرات مرتب ہوتے ہیں، اب سوال یہ ہے کہ کون سے نام اچھے شمار ہوتے ہیں اور کون سے بُرے؟تو اس کا اندازہ حضرت ابو وہب جُشَمِی رضی اللہ عنہ کی روایت سے ہو سکتا ہے کہ جنابِ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم (اپنی اولاد کے) نام انبیاء علیہم السلام کے ناموں پر رکھو اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ نام ”عبداللہ اور عبد الرحمن “ہیں اور زیادہ سچ ثابت ہونے والے نام ”حارث اور ہمام “ہیں اور زیادہ بُرے نام ”حرب اور مرة “ہیں۔

عن أبي وہب الجُشَمي (وکانت لہ صحبة) قال:قال رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم:”تسموا بأسماء الأنبیاء، وأحب الأسماء إلی اللہ عبد اللہ و عبد الرحمن، وأصدقھا حارث وھمام، وأقبحھا حرب ومرّة“․(سنن أبيداود، کتاب الأدب، باب في تغییر الأسماء، رقم:4950،5/149، دار ابن حزم)

مذکورہ حدیث ِ مبارکہ سے چار باتیں سمجھ میں آتی ہیں:
پہلی بات
بچوں کے نام وہ رکھے جائیں جو انبیاء علیہم السلام کے نام تھے،انبیاء کے نام پر اپنی اولاد کے نام رکھنا افضل اور مستحب ہے، انبیائے کرام کے نام جو کتب میں ملتے ہیں ، وہ درج ذیل ہیں:آدم ، شِیث ، ادریس ، نوح ، ہود ، صالح ، ابراہیم ، لوط ، اسماعیل ، اسحاق ، یعقوب ، یوسُف ، ایّوب ، ذُو الکِفل ، یُونُس ،شعیب ، موسیٰ ، ہارون ، یُوشع ، داوٴد ، سلیمان ، الیاس ، الیَسَع ، زَکَریا، یحییٰ ،عیسیٰ اور حضرت محمد علیہم الصلوات والتسلیمات۔

علاوہ ازیں سرکار ِ دو عالم صلی الله علیہ وسلم کے نام ایک سے زیادہ ہیں، اس بارے میں جان لینا چاہیے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے خود اپنی طرف جن ناموں کی نسبت کی ہے، وہ چند ہی ہیں، ان کی تعداداور تفصیل مختلف احادیث میں مختلف آئی ہے، ان سب کے مجموعے کو سامنے رکھتے ہوئے آپ علیہ السلام کے مندرجہ ذیل نام سامنے آتے ہیں:” مُحمَّد ، احمد ، المَاحِي ، الحاشِر ، خاتَم ، العاقِب ، المُقَفِّي ، نَبيّ التوبة ، نبيّ المَلحَمَة ، نبيّ المَلاحِم ، نبيّ الرَّحمة ، المُتَوکِّل ، المُختار“․

اس کے علاوہ اور بہت سے نام آپ علیہ الصلاةوالسلام کے گنوائے جاتے ہیں، تو جاننا چاہیے کہ ان ناموں میں سے بہت سے نام حضور صلی الله علیہ وسلم کی صفات ہیں، ان پر ”نام“کا اطلاق مجازاً کر دیاجاتا ہے،یعنی : یہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے حقیقی نام نہیں ہیں،بلکہ مجازا ًانہیں نام کہہ دیا جاتا ہے،بہرحال آپ صلی الله علیہ وسلم کے ذاتی و صفاتی ناموں میں جو نام آپ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ خاص نہیں ہیں ، ان ناموں کو رکھا جا سکتا ہے،مثلاً:خاتَم ، نَبيّ التوبة ، نبيّ المَلحَمَة ، نبيّ المَلاحِم ، نبيّ الرَّحمة، رحمةٌ للعالمین، وغیرہ کے علاوہ اور نام رکھے جا سکتے ہیں۔

دوسری بات
اللہ تعالی کے پسندیدہ نام ”عبد اللہ اور عبد الرحمن“ ہیں،ان ناموں کے پسندیدہ ہونے کی وجہ ان ناموں میں اللہ کے ذاتی نام ”اللہ“ اور اللہ کے صفاتی نام ”الرحمن“ کی طرف ”عبد “کی اضافت کا ہونا ہے،دراصل اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں کی طرف سے عبدیت کا اظہار پسند ہے اور ان ناموں کے ذریعے اظہارِ عبدیت علیٰ وجہ الکمال ہوتاہے۔

اللہ تعالیٰ کے ناموں کے ساتھ نام رکھنے کے بارے میں بھی تفصیل ہے، اللہ تعالیٰ کے ناموں کی دو قسمیں ہیں: ذاتی اور صفاتی، ذاتی نام صرف ”اللہ“ ہے۔اس ذاتی نام کو کسی انسان کے لیے رکھنا جائز نہیں ہے،پھر صفاتی ناموں کی دو قسمیں ہیں:ایک جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہیں، مثلاً:”رحمان،خالق، رزاق، قدوس، صمد، قیوم، باری،غفار،متکبر، قہار، احد، ذوالجلال والاکرام“ وغیرہ ، دوسرے جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص نہیں ہیں، مثلاً:سمیع ، بصیر، رحیم، علیم، روٴف، ستار ، جمیل ، اکرم، مالک، ماجد، رافع، باسط، قائم، معطی وغیرہ ، ان میں سے پہلی قسم والے صفاتی نام رکھنے کے بارے میں یہ تفصیل ہے کہ اگر یہ نام ”عبد“ کی اضافت کے ساتھ رکھے جائیں تو جائز ہے، اور اگرعبد کی اضافت کے بغیر رکھے جائیں تو جائز نہیں ہے، اسی طرح لفظ ِ عبد کے بغیر ان ناموں کا استعمال انسانوں کے لیے جائز نہیں ہے۔ اور دوسری قسم کے نام اضافت کے بغیر بھی رکھے جا سکتے ہیں،لیکن پسندیدہ نہیں ہے،البتہ ! اس قسم کے ناموں کے رکھنے کی صورت میں یہ ضروری ہے کہ ان ناموں کے وہ معنیٰ مراد نہ لیے جائیں جو اللہ تعالیٰ کی شان کے لائق ہیں،مثلاً: اللہ تعالیٰ کا سمیع ، بصیر ، علیم، رحیم، عزیز، مالک ہونا کامل ، ذاتی اور نقص سے خالی ہے اور مخلوق کے اندر یہ معنیٰ عطائی اور نقص والے ہیں، مطلب یہ کہ ان ناموں کا استعمال اللہ تعالیٰ کے لیے ہو گا تو اس کے خاص معنیٰ ہوں گے اور اگر ان ناموں کا استعمال بندوں کے لیے ہو گا تو ان کے معنیٰ اور ہوں گے۔

تیسری بات
ارشاد فرمایاکہ سب سے زیادہ سچ ثابت ہونے والے نام حارث اور ہمام ہیں،”حارث “ کے معنی کمانے والااور ”ہمام “ کے معنیٰ ارادہ کرنے والا ہیں،چوں کہ ہر شخص کمانے والا بھی ہے اور ارادہ کرنے والا بھی، اس لیے ان ناموں سے متعلق فرمایا کہ یہ نام سب سے زیادہ سچ ثابت ہونے والے ہیں۔اچھے اور سچے ناموں میں اسمائے باری تعالیٰ، اسمائے انبیائے کرام، اسمائے صحابہ کرام اور ان کے علاوہ ہر وہ نام جس کے معنیٰ اچھے ہوں ، بُرے نہ ہوں، تو ان ناموں کا رکھنا مستحسن اور افضل ہے۔

چوتھی بات
چوتھے نمبر پر ارشاد فرمایا کہ زیادہ بُرے نام ”حرب اور مُرّة“ ہیں،اس کی وجہ یہ کہ”حَرب“ کے معنیٰ جنگ اور لڑائی کے ہیں اور ”مُرّة“ کے معنیٰ کڑوہ کے ہیں، بوجہ ان ناموں کے معنیٰ بُرے ہونے کے ان ناموں کے رکھنے سے منع فرمایا گیا۔برے ناموں میں شرکیہ نام ، شیطانی نام ، متبعین ِ شیطان کے نام ، مہمل(جن کا کوئی معنیٰ نہ ہو) نام اورتمام وہ نام داخل ہیں جن کے معنیٰ برے ہوں۔

ذیل میں ان تمام قسموں کی قدرے تفصیل بیان کی جاتی ہے:
1... شرکیہ ناموں سے مراد وہ نام ہیں ، جن میں عبدیت کی نسبت غیر اللہ کی طرف کی گئی ہو، مثلاً: عبد الرسول، عبد النبی، عبد الحسین، عبد المصطفیٰ، عبد الحجر، نبی بخش، رسول بخش، علی بخش، حسین بخش، پیر بخش اور قلندر بخش وغیرہ۔
2... شیطانی ناموں سے مراد وہ نام ہیں جو شیطان کے ہوں یا جن ناموں کی نسبت شیطان کی طرف ہو، مثلاً: ابلیس ، شیطان، حُباب، اجدع، خنزب،اعور، ولہان وغیرہ۔
3... شیطان کے متبعین سے مراد فرعون، شداد، قارون، نمرود، ابو لہب، ابو جہل وغیرہ ہیں۔نیز! اسی طرح جو نام کفار کے دیوی دیوتاوٴں کے ہوں وہ بھی رکھنا جائز نہیں ہیں، مثلاً: کرشن، ہری لال، ہری چندر وغیرہ۔
4... اسی طریقے سے جن ناموں کو نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے تبدیل کیا، ان کی وجہ ان ناموں کے معانی ناپسندیدہ ہونا تھے، مثلاً: عاص،عاصیة، اصرم، شھاب، غُراب، عُتلہ، نُعم، زَحم، قلیل، مِیسَم، اَسود، حَرب، عَقْرَبةوغیرہ۔ یہ ایسے نام ہیں جن کے معانی اپنے مفہوم کے اعتبار سے ٹھیک نہیں تھے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے یہ نام تبدیل کر کے ان کی جگہ دوسرے اچھے معانی ومفہوم والے نام رکھے۔
5... مہمل ناموں سے مراد وہ نام ہیں جن کے اپنے کوئی معنی نہ ہوں،بلکہ انہیں محض رسمی طور پریا کسی دن، جگہ یا رمضان کی نسبت سے رکھا گیاہو، مثلاً:پیرو، منگل خان، بدھو، جمعراتی، جمعہ خان، رمضان خان، دریا خان، سمندر خان، شادی خان، شیر خان وغیرہ، ایسے نام رکھنا نہایت غلط طرزِعمل ہے، اس سے بچنا اور بچانا لازم ہے۔

نام رکھنے سے متعلق کچھ مسائل
1... بچے کی پیدائش کے ساتویں دن اس کا نام رکھنا مسنون ہے۔
2... اگر بچہ زندہ پیدا ہوا اور ساتویں دن سے پہلے، یعنی: نام رکھنے سے پہلے فوت ہو جائے تو بھی اس کا نام رکھنا مستحب ہے اور اگر بچہ مردہ پیدا ہوا تو اس کا نام رکھنے کی ضرورت نہیں اور اگر کسی نے رکھ دیا تو بھی کوئی حرج نہیں۔البتہ بعض کے نزدیک نام رکھا جائے گا ، اس لیے رکھ لینابہتر ہے۔
3... بچوں کے نام شرعی ضابطے کے مطابق رکھنا چاہیے،اگر کسی نے اپنی اولاد کے نام اسلامی اصولوں کے خلاف رکھے تو وہ اللہ کا مجرم شمار ہو گا،ان پر ایسے ناموں کو تبدیل کرنالازم ہے،اگر والدین ایسے نام تبدیل نہ کریں تو اولاد پر لازم ہے کہ بڑے ہو کر اپنے نام تبدیل کر کے اسلامی اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے صحیح نام رکھیں۔
4... بعض جگہ دستور ہے کہ پیدائش کے دن ، وقت ، مہینے اور ستاروں کی مناسبت سے نام تجویز کرتے ہیں، ان کے ذہن اور عقیدے کے مطابق اگر ایسا نہ کیا جائے ، یعنی : نام رکھنے میں ستاروں کی چال کا لحاظ نہ رکھا جائے ، تو ایسے نام انسان پر بھاری ہوتے ہیں اور پھر انسان اپنے اس نام کی وجہ سے بیماریوں، مصائب اور مشکلات کا شکار ہو جاتا ہے، ایسا عقیدہ رکھنا شرعاً جائز نہیں ہے اور نہ ہی اس کا لحاظ رکھنا ضروری ہے، بس اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ نام رکھ لینا کافی ہے۔
5... مسلمانوں کو غیر اسلامی نام رکھناجائز نہیں ہے، البتہ اگر کوئی قانونی مجبوری ہو، جیسے غیر مسلم ممالک میں غیر اسلامی نام ہی رکھنا ضروری ہو،تو ایسی صورت میں ایسے نام رکھنے چاہییں،جو مسلم اور غیر مسلم دونوں میں مشترک ہوں، مثلاً:ابراہیم، اسماعیل، داوٴد، اسحاق، سلیمان، موسیٰ، عیسیٰ وغیرہ۔ اس کے علاوہ ایسی جگہوں میں اس کی بھی گنجائش ہے کہ اصل نام تو اسلامی رکھا جائے اور عام بول چال میں اسے اسی نام سے پکارا جائے لیکن سرکاری معاملات،ا سکول ، کالج اور ملازمت وغیرہ میں کوئی اور نام درج کروا دیاجائے۔

چوتھا حکم: عقیقہ کرنا
والدین پر بچے کے حقوق سے متعلق چوتھا حکم ”عقیقہ “کا ہے،بچے کی طرف سے اللہ تعالیٰ کے نام پر ایسا جانور قربان کرنا، جس کی قربانی کرنا جائز ہو، عقیقہ کہلاتا ہے۔

وھو إسم لما یذبح عن المولود……قال الخطابي: ”العقیقة إسم الشاة المذبوحة عن الولد، سمیت بذٰلک لأنہا تعق عن ذابحھا، أي:تشق وتقطع“․(فتح الباريلابن حجر، کتاب العقیقة: 9/584، دارالمعرفة،بیروت)

عقیقہ کا حکم
رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کے زمانے سے لے کر اب تک امتِ مسلمہ میں عقیقہ کا عمل رائج چلا آرہا ہے، اس عمل کو امت میں تلقی بالقبول حاصل ہے، (یعنی: اس عمل کو ہر دور میں امت کے ہر طبقے نے اپنائے رکھا ہے)اس وجہ سے عقیقہ کرنا سنت و استحباب کی حیثیت رکھتا ہے، یہ عمل فرض وواجب نہیں ہے، بشرطِ وسعت مسلمانوں پر مستحب و مسنون ہے۔

إنما أخذ أصحابنا الحنفیة في ذٰلک بقول الجمھور وقالوا باستحباب العقیقة، لما قال ابن المنذروغیرہ:”إن الدلیل علیہ الأخبار الثابتة عن رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم وعن الصحابة والتابعین“، بعدہ قالوا: ”وھو أمر معمول بہ في الحجاز قدیماً وحدیثاً“․وذکر مالک في الموٴطا: ”إنہ الأمر الذي لا اختلاف فیہ عندھم“․ وقال یحییٰ بن سعید الأنصاري التابعي، أدرکت الناس وما یدعون العقیقة عن الغلام والجاریة․ (إعلاء السنن،کشف الحقیقة عن أحکام العقیقة، باب العقیقة:17 /114، إدارة القرآن)

بعض فقہاء و علماء نے اسے بدعت قرار دیا ہے، جب کہ جمہور فقہاء کے نزدیک ایسا نہیں ہے،ہمارے اکابرین نے ممانعین کی طرف سے یہ تاویل کی ہے کہ ان حضرات کی مرادجاہلیت والے طریقے کی نفی کرنا ہے، کہ جاہلیت والا عقیقہ اسلام میں منسوخ ہے، لہٰذا جاہلیت والے طریقے پر عقیقہ نہیں کرنا چاہیے۔

قلت:وإنما حملتہ علیہ عبارة محمد في ”موٴطئہ“، قال محمد: ”العقیقة بلغنا أنھا کانت في الجاھلیة، وقد جُعِلَت في أول الإسلام، ثم نسخ الأضحیٰ کل ذبح کان قبلہ…إلخ، فلم أزل أتردد في مراد الإمام، حتیٰ رأیت في کتاب ”الناسخ والمنسوخ“ عن الطحاوي أن محمداً قال في بعض أمالیہ: ”إن العقیقة غیر مرضیة“․ ثم تبیّن لي مرادُہ، أنہ کان یکرہ إسم العقیقة، لأنہ یوھِم العقوق، ولکونہ من أسماء الجاھلیة، ولأنھم کانوا یفعلون عند العقیقة بعض المحظورات، کتلطخ الأشعار بدم الحیوان، مع ورود الحدیث في النھي عن ذٰلک الإسم أیضاً، فکان مرادہ ھذا“․ (فیض الباري، کتاب العقیقة، باب إمامة الأذیٰ عن الصبي في العقیقة:5/647،648، دارالکتب العلمیة)

عقیقہ کا مقصد
عقیقةٴ سے مقصود و مطلوب ِ اصلی تو اتباع نبوی صلی الله علیہ وسلم ہی ہے، البتہ اس کے ضمن میں اور بہت سارے فوائد احادیث ِمبارکہ سے سامنے آتے ہیں، مثلاً:
1... اولاد جیسی عظیم نعمت کی عقیقہ کی صورت میں شکر کی ادائیگی ہوتی ہے۔

قال التوربشتي:”النعمة إنما تتم علی المنعم علیہ بقیامہ بالشکر ووظیفتہ والشکر في ھذہ النعمة ما سنّہ النبي صلی الله علیہ وسلم، وھو أن یعقّ عن المولود شکراً للہ تعالیٰ وطلباً لسلامة المولود“․(حاشیة السندي علی النسائی،کتاب العقیقہ :4219، 7/166، مکتب المطبوعات الإسلامیة)

2... اولاد کی مصائب ، بیماریوں اور آفات سے حفاظت عقیقہ کے ساتھ مشروط ہوتی ہے، اس عمل کی ادائیگی کے ذریعے ان مہلکات سے چھٹکارا حاصل کیا جاتا ہے۔

عن سمرة بن جندب، عن رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم قال: ”کل غلام رھینٴ بعقیقتہ تذبح عنہ یوم السابعة، ویحلق رأسہ ویسمّیٰ“․ (سنن النسائي، کتاب العقیقة، رقم الحدیث:8231،5/187، دارالمعرفة، بیروت)

3... اللہ رب العزت کی طرف سے ملنے والی ایک زندہ جان کا شکرانہ بصورتِ عقیقہ ادا کیا جاتا ہے، یہی شکرانہ عید الاضحیٰ والی قربانی میں بھی ہے۔

والسر في العقیقة؛ أن اللہ أعطاکم نفساً، فقربوا لہ أنتم أیضاً بنفس، وھو السر في الأضحیة؛ ولذا اشترطت سلامة الأعضاء في الموضعین، غیر أن الأضحیة سنویة، وتلک عُمریة․ (فیض الباري، کتاب العقیقة، باب إماطة الأذیٰ عن الصبي في العقیقة:5/648، دارالکتب العلمیة)

4... عقیقہ کے ذریعے اولاد کے اندر سے والدین کی نافرمانی کا عُنصر(بیج) ختم کر دیا جاتا ہے۔

عن عمرو بن شعیب عن أبیہ عن جدہ رضي اللہ عنہ قال: سئل رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم عن العقیقة، فقال:”لا یحب اللہ العقوق“، وقال:”من وُلِد لہ ولدٌ، فأحب أن ینسک عنہ، فلینسک عن الغلام شاتین، وعن الجاریة شاة“․

قال ملا العلي القاري تحت قولہ ”لا یحب اللہ العقوق“، أٰي:فمن شاء أن لا یکون ولدہ عاقاً لہ في کبرہ، فلیذبح عنہ عقیقة في صغرہ، لأن عقوق الوالد یورث عقوق الولد، ولا یحب اللہ العقوق وھذا توطئة لقولہ: ومن ولد لہ ولدٌ…إلخ (مرقاة المفاتیح، کتاب الصید والذبائح، باب العقیقة، رقم الحدیث:4156، 8/80,81،دارالکتب العلمیة)

عقیقہ کرنے کا وقت
عقیقہ کرنے کا افضل وقت بچے کی پیدائش کا ساتواں دن ہے، اگر کوئی ساتویں دن عقیقہ نہ کر سکے تو پھر چودہویں دن یا اکیسویں دن کیا جائے، لیکن اس میں اجر کم ہے، اسی طرح کوئی شخص اپنی اولاد کا بچپن میں عقیقہ نہ کر سکا، پھر برسہا برس کے بعد اسے وسعت حاصل ہوئی اور اس وقت وہ عقیقہ کرنا چاہے تو بھی کر سکتا ہے ، اسے اس وقت بھی ساتویں دن کی رعایت کرنا مستحب ہو گی، ساتواں دن پہچاننے کا طریقہ یہ ہے کہ جس دن بچہ پیدا ہوا ،اس سے پچھلے دن عقیقہ کرے، یہ دن ساتواں دن شمار ہو گا ، چاہے کتنے ہی برس گذر چکے ہوں، مثلاً: کوئی جمعرات والے دن پیدا ہوا تو اس کی پیدائش کا ساتواں دن بدھ کو بنے گا۔

السنة أفضل عن الغلام شاتان مکافئتان، وعن الجاریة شاة، تقطع جدولاً، ولا یکسر لھا عظم، فلیأکل، و یطعم، ویتصدق، ولیکن ذاک یوم السابع، فإن لم یکن ففي أربعة عشر، فإن لم یکن ففي إحدیٰ وعشرین․ (المستدرک علیٰ الصحیحین،کتاب الذبائح، طریق العقیقة وأیامھا، رقم الحدیث:7703، 4/238،دارالمعرفة)

اور اگر اکیسواں دن بھی گذر جائے تو پھر بعض علماء کے نزدیک جس دن بھی کرے ، ٹھیک ہے، فضیلت برابر رہے گی، ساتویں دن کی کوئی خاص فضیلت نہیں رہے گی۔

وإن تجاوز أحداً وعشرین، احتمل أن یستحب في کل سابع، فیجعلہ ثمانیة وعشرین، فإن لم یکن، ففي خمسة وثلاثین، وعلیٰ ھذا، قیاساً علی ما قبلہ، واحتمل أن یجوز في کل وقت؛ لأن ھذا قضاء فائت، فلم یتوقف، کقضاء الأضحیة وغیرھا․ وإن لم یعق أصلاً، فبلغ الغلام، وکسب، فلا عقیقة علیہ․ وسئل أحمد عن ھذہ المسألة، فقال:”ذٰلک علیٰ الوالد“․یعني: لا یعق عن نفسہ؛ لأن السنة في حق غیرہ․ (المغنيلابن قدامة، کتاب الذبائح، باب ویذبح یوم السابع، المسألة:1771، 13/397،دار عالم الکتب)

عقیقة میں کتنے جانور ذبح کیے جائیں گے؟
عقیقہ میں سنت یہ ہے کہ لڑکے کی طرف سے دو جانور اور لڑکی کی طرف سے ایک جانور ذبح کیاجائے گا، چاہے یہ جانور نر ہو یا مادہ؛ البتہ اگر لڑکے کے عقیقے کے لیے دو جانور نہ ہوں تو ایک جانور ذبح کرنے کی بھی گنجائش ہے۔

عن أم کرز أن رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم قال:”عن الغلام شاتان وعن الجاریة شاة، لا یضرکم ذکراناًً أم إناثاً“․ (سنن النسائي،کتاب العقیقة، کم یعق عن الجاریة؟ رقم الحدیث:4229،7/183،دارالمعرفة)

عقیقة میں کون سے جانور ذبح کیے جائیں گے؟
عقیقہ کے لیے ان تمام جانوروں کو ذبح کرنا جائز ہے، جنہیں قربانی میں ذبح کرنا جائز ہے، یعنی:گائے، بیل، بھینس، بھینسا، اونٹ، اونٹنی، بھیڑ، مینڈھا، بکرا، بکری، دنبہ، دنبی وغیرہ۔ لہذا جن جانوروں کی قربانی جائز نہیں ہے، انہیں عقیقہ میں بھی ذبح کرنا جائز نہیں ہے،خلاصہ کلام یہ کہ جو جو احکام قربانی کے جانوروں کے لیے ہیں ، وہی احکام عقیقے کے جانوروں کے لیے بھی ہیں۔

قلت: ھو مختلف فیہ حسن الحدیث، وفیہ أنہ سماہ نسیکة و نسکا، وھو یعم الإبل والبقر والغنم اجماعاً․ لا یجزیٴ فیہ ما دون الجذعة من الضأن، ودون الثنیة من المعز، ولا یجزیٴ فیہ إلا السلیم من العیوب، لأنہ صلی الله علیہ وسلم سماہ نسکا، فلا یجزیٴ إلا ما یجزیٴ في النسک․ (إعلاء السنن،کشف الحقیقة عن أحکام العقیقة، باب العقیقة:17 /117، إدارة القرآن)

عقیقے سے متعلق مسائل
1... بچے کی پیدائش کے ساتویں دن عقیقہ کرنا مسنون و مستحب ہے،اس عمل کو ہر حال میں لازم سمجھنا، وسعت نہ ہوتے ہوئے بھی اسے کرنا، اس عمل کے لیے قرضہ لینا، لمبی چوڑی دعوت کا اہتمام کرناسب امور غیر شرعی ہیں، ان کا ترک کرنالازم ہے۔ وسعت ہوتے ہوئے اسے بطور رسم ادا کرنا، برادری ،کنبے والوں کے طعن و تشنیع سے بچنے کی خاطر،یا نام و نمود کی غرض سے عقیقہ کرنا بھی جائز نہیں ہے، اس عمل کے موقع پرغیر شرعی امور (مرد و عورت کا اختلاط، تصاویر بنانا وغیرہ)سے بچنا بھی از حد ضروری ہے۔الغرض عقیقہ ایک عبادت ہے، اسے عبادت سمجھ کر اللہ کی رضا کے لیے ہی کرنا ضروری ہے۔

2... عقیقہ میں جانور کا ذبح کرنا ہی ضروری ہے، صدقہ کردینا یاویسے کسی کی دعوت کر دینا اس سنت کا بدل نہیں بنے گا۔

3... عقیقہ قربانی والے جانوروں کے ساتھ مخصوص ہے، پس جس جانور کی قربانی جائز ہے، اس سے عقیقہ بھی جائز ہے اور جس جانور کی قربانی جائز نہیں ہے، اس جانور سے عقیقہ کرنا بھی جائز نہیں ۔ نیز! جس طرح ایک بڑے جانور میں ایک سے زیادہ افراد قربانی کے لیے شریک ہو سکتے ہیں ، اسی طرح بچوں کا عقیقہ کرتے ہوئے ایک بڑے جانور میں ایک سے زیادہ بچوں کا عقیقہ کیا جاسکتا ہے، اسی طرح عید الاضحی کے موقع پر بڑے جانور میں قربانی کے حصوں کے ساتھ عقیقہ کے حصے بھی رکھ سکتے ہیں۔

4... عقیقہ کرنابچے کے والدین کا فعل ہے، جس طرح بچے کے جملہ اخراجات اور نفقہ والدین کے ذمہ ہے ، اسی طرح عقیقہ کرنے کی صورت میں عقیقہ کے اخراجات اس کے والدین پر لازم ہوں گے،بچے کے مال کو اس عمل میں استعمال نہ کیا جائے گا۔

5... عقیقہ کا جانور ذبح کرتے ہوئے دل سے نیت کرنا ضروری ہے، زبان سے کہنا ضروری نہیں، البتہ اگر زبان سے بھی دہرا لیں تو بہتر ہے کہ یہ دعا پڑھ لی جائے: ”بِسم ِاللّہِ، اللّٰہُمَّ مِنْکَ وَإِلَیْکَ ھٰذِہ عقیقةُ فُلانٍ“․ فلان کے لفظ کی جگہ اس بچے کا نام لیا جائے جس کا عقیقہ کیا جا رہا ہے۔

6... عقیقہ کے گوشت کو بھی قربانی کے گوشت کی طرح تین حصوں میں تقسیم کرنا، خود کھانا، دوسروں کو کھلانا جائز و بہتر ہے، عقیقے کے گوشت کو پکا کر رشتہ داروں کو کھلانا زیادہ بہتر اور پسندیدہ ہے اور اگر کچا گوشت تقسیم کیا جائے تو بھی جائز ہے۔

7... مستحب و بہتر یہ ہے کہ گوشت بناتے ہوئے نیک فالی کے طور پر جانور کی ہڈیاں نہ توڑی جائیں، لیکن واضح رہے کہ یہ عمل صرف بہتر ہے، فرض ، واجب یا سنت نہیں ہے، کہ اس کے خلاف سے عقیقہ میں کوئی کراہت وغیرہ پیدا ہوتی ہو۔

پانچواں حکم: بال منڈواکے ان کے بدلے صدقہ کرنا
نومولود سے متعلق احکامات میں سے پانچواں حکم بچے کے پیدائشی بال مونڈ کر ان کے وزن کے برابر چاندی، سونا یا ان کی مالیت کے بقدر روپے صدقہ کرنا ہے۔

حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب حضرت حسن رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ کیا میں اپنے بیٹے کے سر پر عقیقہ کے جانور کا خون مَل دوں؟تو آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ ”نہیں! بلکہ تو اس کے سر کو مونڈ دے، پھر بالوں کے وزن کے برابر چاندی مساکین یا اوفاض پر صدقہ کر دے“۔”اوفاض“ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے اصحاب میں سے وہ افراد تھے جو محتاج ہوتے تھے ،مسجد میں یا صفّہ میں قیام پذیر رہتے تھے،چناں چہ ! حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ایسے ہی کیا، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے تو اس وقت بھی میں نے ایسے ہی کیا۔اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی سمجھ آتا ہے کہ یہ صدقہ دین کے طالب علموں پر کیا جائے۔

عن أبي رافع، قال: لما وَلَدَتْ فاطمةُ حسَناً، قالت: أَلا أَعُقَّ عن ابني بِدَمٍ؟ قال صلی الله علیہ وسلم:”لا، ولکن احلقي رأسہ، ثم تصدَّقي بوزنِ شَعرہ مِن فضةٍ علی المساکین أو الأوفاض“․ وکان الأوفاض ناساً من أصحاب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم محتاجین في المسجد، أو في الصُّفَّة․ وقال أبو النضر: ”من الورق علی الأوفاض -یعني:أھل الصفّة- أو علی المساکین“ ففعلتْ ذٰلک، قالت: فلما ولَدْتُ حُسَیناً، فعلتُ مثل ذٰلک․(المسند للإمام أحمد بن حنبل، رقم الحدیث:27183، 45/163، الموٴسسة الرسالة)

بال منڈوانے کا وقت
بچے کے بال منڈوانے کا وقت عقیقہ کرنے کے بعد (یعنی ساتویں دن )ہے،جیسا کہ حضرت سمرة رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بچہ عقیقہ کے جانور کے بدلے مرہون ہوتا ہے، ساتویں دن اس کی طرف سے جانور ذبح کیا جائے اور اس کا نام رکھا جائے، اور اس کے سر کومونڈا جائے۔

عن سَمُرَة، قال: قال رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم: ”الغلام مرتھن بعقیقة، تذبح عنہ یوم السابع، ویسمیّٰ، ویحلق رأسہ“․ (مشکاة المصابیح، کتاب الصید والذبائح ، باب العقیقة، رقم الحدیث:4153، دارالکتب العلمیة)
(جاری)
Flag Counter