Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق صفر المظفر 1433ھ

ہ رسالہ

6 - 15
سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں
حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب

ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ کی دیرنیہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہلسنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے او رحضرت کا سایہ تادیر ہم پر قائم رکھے۔ آمین۔ (ادارہ)

تفسیر سورہ فاتحہ
جمہور علماء کے نزدیک یہ سورہ مکی ہے ۔ ( تفسیر ابن کثیر، سورہٴ فاتحہ)

سورة: یا ” سؤر“ سے مشتق ہے ، بمعنی بچا ہوا حصہ ۔سورة بھی چوں کہ قرآن کا ایسا حصہ ہے جس کی ابتدا وانتہا رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے توقیفاً ثابت ہے، اس لیے اس کو سورة کہا جاتا ہے۔

یا یہ لفظ” سور“ سے مشتق ہے، جو ایسی حفاظتی دیوار کو کہا جاتا ہے جو پورے شہر کو محیط ہو۔

سورة بھی چوں کہ اپنے معانی ومضامین کو محیط ہوتی ہے اسی لیے اس کو سورة کہا جاتا ہے ۔ ( تفسیر ابن کثیر، سورہٴ فاتحہ)

الفاتحہ: یہ لفظ ”فتح یفتح“ سے مشتق ہے، بمعنی کھولنا، چوں کہ قرآن پاک کا افتتاح اسی سورة سے کیا گیا ہے، اسی لیے اس کا نام ” فاتحہ“ ہے۔ ( زاد المسیر والکشف والبیان، سورہٴ فاتحہ)

سورة الفاتحہ کے اسماء

اس سورة کے متعدد اسماء ہیں۔

فاتحة الکتاب:

کیوں کہ قرآن کریم کی ترتیب معہود کی اسی سے ابتدا کی گئی ہے اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”ھی أم القرآن وھی فاتحة الکتاب“․ (روح المعانی، سورہٴ فاتحہ)

أم الکتاب وأم القرآن:

کیوں کہ یہ سورة قرآن کے اصولی مباحث پر مشتمل ہے۔

یعنی ”الحمد“ سے ”الرحیم“ تک حمد وثنا اور ”مالک یوم الدین“ میں احوال آخرت اور﴿ایاک نعبدو وایاک نستعین﴾ میں الله کے معبود ہونے او ربندے کے اس کی طرف محتاج ہونے کا بیان اور باقی آیات میں نبوت ورسالت اور مومنین کے لیے انعام واکرام کی بشارت اور مغضوبین وضالین کے لیے جہنم کی وعید کا بیان ہے۔ (روح المعانی: سورہٴ فاتحہ)

اور أم القرآن کا مطلب بھی یہی ہے، یعنی اصول القرآن ۔

السبع المثانی: کیوں کہ یہ سات آیات پر مشتمل ہے او رہر نماز میں مکرر پڑھی جاتی ہے۔ السبع المثانی کا مطلب بھی یہی ہے کہ وہ سات آیات جو مکرر ہوں۔ (بحر العلوم للسمر قندی: سورہٴ فاتحہ)

اس کے علاوہ اور بھی بہت سے اسماء ہیں: مثلاً: کنز، وافیہ، کافیہ ، حمد، شکر، دعاء، تعلیم المسئلہ، شفاء، نور، رقیہ، القرآن العظیم۔( تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں: روح المعانی، سورہٴ فاتحہ)

اس سورة کا ایک نام سورة الصلاة بھی ہے، کیوں کہ نماز میں اس سورة کا پڑھنا امام ومنفرد کے لیے واجب ہے ، جب کہ مقتدی کے لیے خاموشی سے امام کی متابعت کرنا ہی کافی ہے۔ ( البحر الرائق: کتاب الصلاة، صفة الصلاة، 546/1، رشیدیہ)

آخر الذکر مسئلہ میں فقہاء کا اختلاف ہے، لہٰذا یہ مسئلہ تفصیل طلب ہے، اس کی مکمل تفصیل تو حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ الله کے رسالہ ”ہدیة المغتذی فی قراء ة المقتدی“ اور مولانا ابوبکر غازی پوری صاحب کی کتاب ”ارمغان حق“ اور حضرت مولانا سرفراز خان صفدر صاحب کی کتاب”احسن الکلام“ میں ملاحظہ فرمائیں۔

البتہ اس مقام پر صرف امام اعظم ابوحنیفہ کے مسلک کی تائید میں اختصار کے ساتھ کچھ دلائل ذکر کرنا مقصود ہے۔

مسئلہ فاتحہ خلف الإمام

امام شافعی رحمہ الله کے نزدیک مقتدی کے لیے ہر نماز میں سورہٴ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے ، نماز خواہ سری ہو یا جہری ۔( بدائع الصنائع: کتاب الصلاة، واجبات الصلاة،681/1)

اور امام مالک رحمہ الله کے نزدیک مقتدی پر سری نمازوں میں فاتحہ پڑھنا واجب ہے او رجہری نمازوں میں مقتدی پر قرات فاتحہ واجب نہیں۔ ( الإستذکار لابن عبدالبر، کتاب الصلاة،506,491/1)

جب کہ احناف کے ہاں سری وجہری دونوں نمازوں میں مقتدی کے لیے قرات فاتحہ جائز نہیں۔

اس کے دلائل مندرجہ ذیل ہیں:

قرآن مجید میں ہے:﴿واذا قریٴ القرآن فاستمعولہ وانصتوا لعلکم ترحمون﴾․ ( سورة الأعراف، الآیة:204)

ترجمہ: جب قرآن پڑھا جائے تو اسے غور سے سنو او رخاموش رہو، شاید کہ تم پر رحم کیا جائے۔

روح المعانی میں ہے:” قرأ رجل من الأنصار خلف رسول الله صلی الله علیہ وسلم، فنزلت: وإذا قریٴ الیٰ آخرہ“․ ( تفسیر روح المعانی، الأعراف، الآیة:204)

ترجمہ: انصار میں سے ایک شخص نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی اقتداء میں قرأت کی تو یہ آیت نازل ہوئی۔﴿واذا قریٴ …﴾

لہٰذا مذکورہ آیت سے مقتدی کے حق میں فاتحہ خلف الإمام کی ممانعت ثابت ہوئی۔

صحیح مسلم میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے مروی ہے:”إنما جعل الإمام لیؤتم بہ، فإذا کبر فکبروإذا قرأ فانصتوا“ ․ ( الجامع الصحیح لمسلم بن الحجاج، کتاب الصلاة، باب: التشھد فی الصلاة، قدیمی)

ترجمہ: امام تو اقتدا ہی کے لیے بنایا گیا ہے ، پس جب وہ تکبیر کہے تو تم تکبیر کہو اور جب وہ قرات کرے تو خاموش ہو جاؤ۔

سنن ابن ماجہ میں آپ صلی الله علیہ وسلم سے مروی ہے : ”من کان لہ إمام، فقراء ة الإمام لہ قراء ة“۔ (سنن ابن ماجة، کتاب الصلاة، ص:61، قدیمی)

جس شخص کا امام ہو تو امام ہی کی قرات اس کی قرات ہے۔

اس حدیث کے بارے میں علامہ ناصر الدین البانی لکھتے ہیں: ”وھو حدیث صحیح عندنا، لہ طرق کثیرة جداً“ ․( سلسلة الاحادیث للألبانی،57/2، رقم:592)

ترجمہ: اور یہ حدیث ہمارے نزدیک صحیح ہے، اس کے بہت زیادہ طرق ہیں۔

اس کے علاوہ اور بھی متعدد روایات منع قرات فاتحہ خلف الإمام پر دلالت کرتی ہیں، جن کی تفصیل انہی کتب میں دیکھی جاسکتی ہے جن کا حوالہ ہم پہلے دے چکے ہیں۔

لہٰذا آیت قرآنی اور احادیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ جن احادیث میں قرأت فاتحہ خلف الإمام کی تاکید وارد ہوئی ہے وہ احادیث امام ومنفرد کے ساتھ خاص ہیں۔

چناں چہ امام احمد بن حنبل جو جلیل القدر ائمہ ومحدثین میں سے ہیں۔ انہوں نے بھی ایسی احادیث کو جن میں فاتحہ خلف الإمام کی تاکید وارد ہوئی ہے امام ومنفرد ہی کے حق میں خاص قرار دیا ہے۔

ترمذی میں ہے:

” فأما احمد بن حنبل: فقال معنی قول النبی صلی الله علیہ وسلم: لاصلوٰة لمن لم یقرأ بفاتحہ الکتاب اذا کان وحدہ، واحتج بحدیث جابر بن عبدالله حیث قال: من صلی رکعة لم یقرأ فیھا بأم القرآن فلم یصل الا ان یکون وراء الإمام“․

قال احمد: ھذا رجل من أصحاب النبی صلی الله علیہ وسلم ، تأول قول النبی صلی الله علیہ وسلم : لا صلوٰة لمن لم یقرأ بفاتحہ الکتاب: إن ھذا إذا کان وحدہ․ ( سنن الترمذی، کتاب الصلاة، باب ماجاء فی ترک القراء ة خلف الإمام :71/1، قدیمی)

ترجمہ: اور احمد بن حنبل نے فرمایا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا قول کہ جو شخص سورہٴ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں اس پر محمول ہے کہ جب نماز پڑھنے والا اکیلا ہو اور انھوں نے جابر بن عبدالله رضی الله عنہ کی حدیث سے استدلال کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ جس شخص نے کوئی رکعت پڑھی اور سورہٴ فاتحہ نہ پڑھی تو اس نے نماز نہیں پڑھی الایہ کہ وہ امام کے پیچھے ہو۔

اور حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ کی جو روایت ترمذی وغیرہ میں ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے بغیر فاتحہ کے نماز پڑھی تو اس کی نماز ناقص ہے ، آپ نے تین مرتبہ یہی فرمایا۔

ابوہریرہ رضی الله عنہ سے عرض کیا گیا کہ ہم امام کے پیچھے بھی نماز پڑھتے ہیں، اس وقت کیا کریں؟ ابوہریرہ نے فرمایا کہ امام کے پیچھے تو سورہٴ فاتحہ اپنے جی میں پڑھو ۔ آخری جملہ” امام کے پیچھے سورہٴ فاتحہ تم اپنے جی میں پڑھو“ حدیث مرفوع نہیں، بلکہ حضرت ابوہریرة رضی الله عنہ کا اجتہاد ہے، کیوں کہ پورے ذخیرہٴ احادیث میں کسی بھی صحیح حدیث میں صراحتاً مقتدی کو یہ حکم نہیں دیا گیا کہ تم امام کے پیچھے سورہٴ فاتحہ پڑھو، زیادہ سے زیادہ استثناء میں النھی( یعنی رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا مقتدیوں کو امام کے پیچھے قرأت کرنے سے منع فرماتے ہوئے یہ کہنا کہ”فلا تفعلوا إلابأم القرآن“ یعنی مت پڑھو سوائے سورہٴ فاتحہ کے) کا ثبوت ہے او راس سے امر مستفاد نہیں ہوتا، اس کی مکمل تشریح انہی رسائل میں دیکھی جاسکتی ہے جن کا حوالہ ہم پہلے دے چکے ہیں۔

حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ کے اجتہاد کے مقابلے میں ہم جابر بن عبدالله کا اجتہاد نقل کر چکے ہیں، لہٰذا آیت وروایات میں بہترین تطبیق اسی طرح ممکن ہے کہ جن روایات میں قرأت فاتحہ کی تاکید وارد ہوئی ہے وہ صرف امام ومنفرد کے حق میں خاص رکھی جائیں۔

علاوہ ازیں منع قرات خلف الإمام سولہ صحابہ کرام رضی الله عنہم سے ثابت ہے ، جن میں حضرت عمر ، علی ، عبدالله بن مسعود، عبدالله بن عمر اور زید بن ثابت رضی الله عنہم جیسے فقہائے کرام بھی شامل ہیں۔

جب کہ فاتحہ خلف الإمام کی روایات صرف چار صحابہ کرام رضی الله عنہم سے ثابت ہے، یعنی حضرت ابوہریرہ، ابوسعید خدری، عبادة بن الصامت اور عبدالله بن عباس رضی الله عنہم۔

لہٰذا اگر ترجیح دی جائے تب بھی فاتحہ خلف الإمام کی ممانعت ہی کثرت اصحاب کی وجہ سے راجح ہو گی۔

سورہٴ فاتحہ کے فضائل

احادیث میں اس سورة کے فضائل بکثرت وارد ہیں۔

تفسیر ابن کثیر میں ہے:”عن أبی سعید مرفوعاً: فاتحة الکتاب شفاء من کل داء“․ (تفسیر ابن کثیر: تفسیر سورہٴ فاتحہ)

ترجمہ: ابوسعید خدری رضی الله عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ سورہٴ فاتحہ ہربیماری سے شفاء ہے۔

ایک اور روایت میں ہے:

”قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: ما أنزل الله فی التورة ولا فی الإنجیل مثل أم القرآن، وھی السبع المثانی، وھی مقسومة بینی وبین عبدی نصفین“․

ترجمہ: رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ الله نے ام القرآن۔ (سورہٴ فاتحہ)کی طرح کوئی سورة نہ تورات میں اتاری او رنہ انجیل میں اتاری اور وہ سبع المثانی ہے، جو میرے اور میرے بندے کے درمیان دو حصوں میں تقسیم ہے۔

یعنی ”الحمد“ سے ”یوم الدین“ تک الله کی حمد وستایش ہے اور چوتھی آیت میں الله کی تعریف اور بندہ کی استعانت دونوں کا تذکرہ ہے، اس کے بعد آخر تک بندہ کی خود اپنے لیے دعا ہے۔

علاوہ ازیں اس میں چوں کہ الله رب العزت کی طرف سے بندہ کو دعا مانگنے کی تعلیم دی گئی ہے کہ پہلے الله کی حمد وثنا کرے اور پھر اپنے لیے دعا مانگے، لہٰذا یہ اتنی عظیم الشان دعا ہے کہ جب بندہ مکمل خشوع وخضوع کے ساتھ نماز میں یہ دعا مانگتا ہے تو بارگاہ رب العزت میں اس کا ایک ایک حرف شرف قبولیت سے بہرہ مند ہوتا ہے۔

چناں چہ صحیح مسلم میں ہے کہ: حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”قال الله تعالیٰ: قسمت الصلاة بینی وبین عبدی نصفین، ولعبدی ماسأل، فإذا قال العبد: الحمدلله رب العالمین، قال الله تعالیٰ: حمدنی عبدی، وإذا قال: الرحمن الرحیم، قال الله تعالیٰ: أثنیٰ علی عبدی، وإذا قال: مالک یوم الدین․ قال: مجدنی عبدی…، فإذا قال: إیاک نعبد وإیاک نستعین․ قال: ھذا بینی وبین عبدی، ولعبدی ما سأل․ فإذا قال: إھدنا الصراط المستقیم، صراط الذین انعمت علیھم غیر المغضوب علیھم ولا الضالین․قال: ھٰذا لعبدی، ولعبدی ماسأل․(صحیح مسلم، کتاب الصلاة، باب وجوب قراء ة فاتحہ الکتاب، ص،203، داراحیاء التراث)

ترجمہ: الله تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے نماز ( سورہٴ فاتحہ) کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے، جب بندہ ﴿الحمدلله رب العالمین﴾ کہتا ہے تو الله فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری تعریف کی اور جب بندہ ﴿الرحمن الرحیم﴾ کہتا ہے تو الله فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری ثناء بیان کی اور جب بندہ﴿ مالک یوم الدین﴾ کہتا ہے تو الله فرماتا ہے کہ یہ میرے او رمیرے بندے کے درمیان مشترک ہے اور میرے بندے کے لیے وہی ہے جو اس نے مانگا او رجب بندہ ﴿اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیھم غیر المغضوب علیھم ولا الضالین﴾ کہتا ہے تو الله فرماتا ہے کہ یہ میرے بندے کے لیے ہے او رمیرے بندے کے لیے وہی ہے جو اس نے مانگا۔

خلاصہٴ فاتحہ

”الحمد“ سے ”الرحیم“ تک الہٰیات کا بیان ہوا ہے اور ”مالک یوم الدین“ میں جزا وسزا او رمآل ومعاد کا بیان ہوا ہے۔

اور اس کے بعد آخر تک رسالت وشریعت ایمان وکفر اور ہدایت وضلالت کا بیان ہے۔

انہی تینوں نوعیتوں کے مضامین پورے قرآن میں جابجا تفصیل کے ساتھ بیان ہوئے ہیں او راس سے قبل نازل شدہ کتب سماویہ میں بھی یہی چیزیں بیان ہوئی ہیں۔

اسی لیے کہا جاتا ہے کہ تمام آسمانی کتب کا خلاصہ قرآن میں اور قرآن کا خلاصہ سورہٴ فاتحہ میں ہے اور سورہٴ فاتحہ کا خلاصہ ”بسم الله الرحمن الرحیم“ میں ہے۔

وہ اس طرح کہ لفظ”الله“ تمام صفات کمالیہ کی جامع ذات کا نام ہے ، لہٰذا اس میں الہٰیات کی ابحاث سمٹ گئیں اور الرحمن سے چوں کہ دنیاوی رحمتیں مراد ہیں، اس لیے اس میں دنیا سے متعلق امور یعنی رسالت وشریعت ایمان وکفر اور ہدایت وضلالت کا بیان آگیا۔

اور ”الرحیم“ سے آخرت کی رحمتیں مراد ہیں ، اس لیے اس میں ماٰل ومعاد اور امور آخرت کا بیان آگیا۔ (جاری) 9

 
Flag Counter