محمد اسحاق”اشوک کمار“ سے ایک دلچسپ ملاقات
مولانا احمد اوّاہ ندوی
بابری مسجد کو شہید کرکے احمد بھیا!یوں تو ہم نے اپنے ارمان پورے کر لیے، مگر نہ جانے صرف مجھ اکیلے کو ہی نہیں ، ہم تینوں کاحال یہ تھا کہ ہم اپنے دل میں انجانے خطرے سے ڈرے سے رہتے تھے او رہر ایک کو یہ لگتا تھا کہ شاید اب کوئی خطرہ آجائے، کبھی کبھی تو ایسا لگتا تھا کہ آسمان سے کوئی آگ کی چٹان ہمیں دبانے والی ہے۔
احمد اوّاہ: السلام علیکم ورحمة لله وبرکاتہ
محمد اسحاق: وعلیکم السلام ورحمة الله
سوال… اسحاق بھائی! آپ سے تو پچھلے سال 7دسمبر کی رات کے بعد ملاقات ہی نہ ہو پائی ، کل ابی نے بتایا کہ آپ کا فون آیا تھا آپ دہلی آرہے ہیں تو خوشی ہوئی ، رات ہی ابی نے فرما دیا تھا کہ آئندہ ماہ کے لیے آپ سے انٹرویو لوں۔
جواب… ہاں احمد بھائی! مولانا صاحب نے مجھے سے بھی آج صبح ہی بتایا کہ ارمغان میں اس مہینے تمہارا انٹرویو چھپنا ہے، میں نے کہا مجھے شرم آتی ہے، مگر انہوں نے حکم کیا کہ تمہارا حال سن کر لوگوں میں دعوت کا جذبہ پیدا ہو گا اور دعوت کا کام کرنے والوں میں خوف کم ہو گا ، تمہیں بھی ثواب ملے گا، میں نے کہا پھر تو اچھا ہے۔
سوال… اسحاق بھائی! اپنا خاندانی تعارف کرائیے؟
جواب… احمد بھائی! میں یوپی کے مشہور ضلع رام پور میں ٹانڈہ بادلی قصبہ کے قریب ایک گاؤں کے سینی خاندان میں 7 دسمبر1967ء میں پیدا ہوا، گھر والوں نے میرا نام اشوک کمار رکھا، پتا جی( والد صاحب) شری پورن سنگھ جی ایک کم پڑھے لکھے کسان تھے میں نے آٹھویں کلاس تک اپنے گاؤں کے جونیئر ہائی اسکول میں پڑھا، اسکول اور انٹر میں نے رام پور میں کیا، بعد میں لکھنو میں سول انجینئرنگ میں ڈپلومہ کیا، ایک پرائیویٹ کنسٹرکشن کمپنی میں نوکری لگ گئی تھی ، بچپن میں غصہ بہت تھا،کئی بار اسکول میں ٹیچر سے بھی لڑائی ہوئی ، کمپنی میں روز روز کچھ نہ کچھ ہوتا رہتا تھا، نوکری چھوڑ آیا، میرے دو دوست پہلی کلاس سے انٹر تک ساتھ پڑھے تھے، ایک کا نام یوگیش کمار اور دوسرے کا یوگیندرسنگھ تھا، دونوں ہماری برادری کے تھے ، ایک رشتے میں بھائی ہوتے تھے، تینوں ساتھ پڑھتے اور ورزش بھی ساتھ کرتے تھے ، کچھ روز پہلوانی بھی کی ، رام جنم بھومی بابری مسجد کا جھگڑا ہوا تو ہم تینوں نے بجرنگ دل میں اپنا نام لکھوایا، ایڈوانی جی کی رتھ یاترا میں ہم لوگ گوالیار جاکر شامل ہوئے اور چار روز ساتھ چلے، ہمارے گھر والے سبھی اس فیصلہ سے بہت خوش ہوئے، ایک روز یوگیش کے پتاجی نے جو اسکول میں ٹیچر بھی تھے، ہم تینوں کو اپنے گھر بلایا ،میرے اور یوگیندر کے پتاجی کو بھی بلایا اور بولے کہ ہم، تم تینوں بھاہیوں کو رام نام پر چھوڑتے ہیں ، اگر رام مندر کے نام پر تمہاری بلی بھی چڑھ جائے تو پیچھے نہ ہٹنا ، دنیا میں تم امر ہو جاؤگے، انہوں نے ہمارے تینوں کے سروں پر انگو چھاباندھا، ہم لوگوں کا بڑا حوصلہ بڑھا اور بھی جوش پیدا ہوا 30 اکتوبر کو ہم لوگ کارسیوا میں پہنچے، مگر ہم ابھی جگہ پر پہنچ نہیں پائے تھے کہ ملائم سرکار میں گولی چل گئی او رہمیں پولیس نے گرفتار کر لیا اور ٹرین میں سوار کرکے رام پور لاکے چھوڑا، ہمارے غصہ کی حد نہ رہی، میں نے راستہ میں کئی سپائیوں کی پٹائی بھی کی مگر انہوں نے ہمیں یہ کہہ کر ٹھنڈا کیا کہ ملائم سرکار تو گرے گی، ہماری سرکار آئے گی تو اس وقت تم اپنے ارمان پورے کر لینا، نومبر1991ء میں ہم لوگ بابری مسجد شہید کرنے کے شوق میں ایودھیا پہنچ گئے، سردی کے کپڑے بھی پورے ساتھ نہیں تھے، الگ الگ آشرموں میں رہتے رہتے، ہمیں وہاں رہ کر بڑی حیرت ہوئی کہ اکثر سادھوؤں نے ہمیں بابری مسجد شہید کرنے میں شامل ہونے سے منع کیا او رانہوں نے ہمیں اس طرح ڈرایا، جیسے ہم کوئی پاپ کر رہے ہوں، ایک سادھو نے تو یہ کہا کہ میں سچ کہتا ہوں ، اگر رام چند رجی جیوت (زندہ) ہوتے تو بھی ہر گز یہ پاپ یعنی بابری مسجد گرانے کا کام نہ کرنے دیتے، ہمیں ان سمجھانے والوں پر بہت غصہ آتا،6 دسمبر 1992ء کو بھیڑمسجد کے پاس جمع ہو گئی ہمارے سنچالک نے ہمیں بتایا تھا کہ جیسے ہی ہم اشارہ کریں دھاوابول دینا، ابھی اوما بھارتی نے نعرہ لگایا ہی تھا کہ ہم پل پڑے ، یوگیش تو بھیڑ میں گر گیا، لوگ اس پر چلتے رہے، کسی نے دیکھ کر اس کاہاتھ پکڑا، وہ اٹھا، مہینوں بیمار رہا، اس کی پسلیاں ٹوٹ گئی تھیں، خوشی خوشی ہم ایک اینٹ لے کر گھر آئے، راستے میں لوگ ہمارا سواگت (استقبال) کرتے تھے ، گھر والوں نے ہمارے سواگت میں ایک پروگرام کیا اور ہم کو پھولوں سے تولا گیا، اتنے سال تک لوگ ہمیں شاباشی دیتے رہے۔
سوال… اپنے قبول اسلا م کے بارے میں کچھ بتائیے؟
جواب… بابری مسجد کو شہید کرکے احمد بھیایوں تو ہم نے اپنے ارمان پورے کر لیے ، مگر نہ جانے صرف مجھ ا کیلے کوہی نہیں، ہم تینوں کا حال یہ تھا کہ ہم اپنے دل میں انجانے خطرے سے ڈرے سے رہتے تھے او رہر ایک کو یہ لگتا تھا کہ شاید اب کوئی خطرہ آجائے ، کبھی کبھی تو ایسا لگتا تھا کہ آسمان سے کوئی آگ کی چٹان ہمیں دبانے والی ہے ، بابری مسجد کی شہادت کی ہر برسی پر یعنی 6 دسمبر1992ء کو ہمارے لیے دن رات کاٹنا مشکل ہوتا تھا، ایسا لگتا تھا کہ آج تو ضرور کوئی آفت آئے گی، پچھلے سال 6 دسمبر کو یہ خطرہ پچھلے سالوں سے زیادہ ہی تھا، ہم لوگ ڈر کی وجہ سے 6 دسمبر کو کبھی گھر سے نہیں نکلتے تھے اور جب 6 تاریخ گزر جاتی تو ہم لوگ بہت سکون محسوس کرتے، 7دسمبر1992ء کی صبح کو ہم تینوں گھر سے نکلے مجھے رام پور میں ایک ضروری کام تھا، میرے ساتھی بھی ساتھ ہو لیے ، رام پور بس اڈہ پر ہمارا ایک کالج کا ساتھی رئیس احمد ملا، اس نے ہمیں دیکھا تو قریب آیا، مذاق کے انداز میں بولا، اشوک! اب تم لوگوں کی باری ہے، تیار ہو جاؤ۔ میں نے کہا کس چیز کی باری ہے؟ اس نے پہلے پاگل بننے کی او رپھر مسلمان ہونے کی ، میں نے کہاں چونچ بند کر، اس نے کہا اخبار پڑھا ہے کہ نہیں ، میں نے کہا اخبار میں کیا ہے ؟ اس نے اپنے بیگ سے ایک اردو سہارا اخبار نکالا اور محمد عامر او رعمر کے اسلام قبول کرنے کی خبر پوری سنا دی ، ہم لوگوں کو غصہ بھی آیااور ڈر بھی لگا، میں نے کہا اردو کا اخبار ہے، جھوٹی خبر ہو گی، اس نے ہندی کے دو اخبار نکالے اور مجھے دکھائے، چھوٹی چھوٹی دونوں میں خبریں دکھائیں میں نے دوبارہ اردو کی خبر، جو تفصیل سے تھی، پڑھنے کو کہا، میرے دوسرے دونوں ساتھیوں کو بھی غصہ آیا اور مشورہ کیا کہ پھلت جاکر معلوم کرنا چاہیے کہ جھوٹی خبر کیوں چھپوائی ہے اورخبر چھپوانے والوں کو مزہ چھکانا چاہیے ، بات کو صاف کرنا چاہیے، ورنہ کتنے لوگوں کے ( دھرم بھرشٹ) دین خراب ہو جائیں گے ، رام پور سے ہم لوگ میرٹھ کی بس میں بیٹھے او رپھر کھتولی پہنچے اور ایک جگاڑ میں بیٹھ کر پھلت پہنچے، مولانا صاحب کا پتہ معلوم کرکے آپ کے گھر پہنچے، مولانا صاحب نماز کے لیے گئے تھے، نماز پڑھ کر آئے تو ایک صاحب نے بتایا کہ یہ مولانا کلیم صاحب ہیں ، ہم لوگ کچھ تو غصہ میں تھے او رکچھ زیادہ سخت لہجہ میں، میں نے مولانا صاحب کو اخبار دکھاکر کہا، یہ خبر آپ نے چھپوائی ہے ، آپ نے کس طرح یہ خبر چھپوائی ہے ؟ ہم تین بالکل جٹ انداز میں بڑے سخت لہجہ میں بات کررہے تھے، مگر مولانا صاحب نہ جانے کس دنیا کے آدمی تھے بہت ہی پیار سے بولے، میرے بھائی! آپ اپنے خونی رشتہ کے بھائی کے یہاں آئے ہیں، آپ ہمارے، ہم آپ کے ،یہ تڑبڑ تو شہر کے لوگوں میں ہوتی ہے ، آپ کہاں سے تشریف لائے ہیں، پہلے یہ بتائیے؟ ہم رام پورٹانڈہ بادلی کے پاس سے آئے ہیں۔ مولانا صاحب بولے میرے بھائیو! اتنی سردی میں آپ نے اتنا لمبا سفر کیا، کتنے تھک رہے ہوں گے ، یہ آپ کا گھر ہے، آپ کسی غیر کے یہاں نہیں ہیں ، آپ جو معلوم کریں گے، ہم بتائیں گے ، پہلے آپ بیٹھیے ، چائے پانی ناشتہ کیجیے ، کھانا کھائیے ، خبر ہم لوگوں نے نہیں چھپوائی ہے، مگر ہے خبر سچی، ہم لوگ کچھ ٹھنڈے ہوگئے تھے، پھر سے گرمی سی آگئی،میں نے کہا آپ کیسے کہہ رہے ہیں؟ سچے لوگوں کا دھرم بھرشٹ کرنا چاہتے ہیں ، مولانا صاحب نے پھر پیار سے کہا چلو !اگر آپ سچ مانو گے تو مان لینا، ورنہ ہمیں اس کی بھی کوئی ضد نہیں، عامر اور عمر میں سے محمد عمر اتفاق سے ایک نو مسلموں کی جماعت لے کر پھلت آئے ہوئے تھے، جس میں نو مسلم تھے، امیر نہ ملنے کی وجہ سے مولانا صاحب نے ان کو پھلت بلایا تھا، جن میں تین ہریانہ کے تھے اور دو گجرات کے اور چار یوپی کے دو ان میں مندر کے سادھو بھی تھے، مولانا صاحب نے ایک حافظ صاحب کو بلایا او ران سے کہا عمر میاں کو بلاؤ، تھوڑی دیر میں محمد عمر آگئے، مولانا صاحب نے ہم سے کہا: دو جن کی خبر چھپی ہے، ان میں ایک محمد عمر یہ ہیں، آپ ان سے مل لیں او رمعلوم کریں خبر کیا ہے او رکتنی سچی ہے؟ عمر بھائی کے ساتھ ہم برابر والے چھوٹے کمرے میں بیٹھ گئے، مولانا صاحب نے ان کو آواز دی اور کچھ سمجھایا، بعد میں بھائی عمر نے مجھے بتایا کہ مولانا صاحب نے مجھے بہت تاکید کی کہ یہ کتنا بھی غصہ ہوں تم صبر کرنا اور بہت پیار نرمی سے، مریض سمجھ کر بات کرنا اور دل دل میں الله سے دعا کرنا، میں بھی گھر میں جاکر دو رکعت پڑھ کر الله سے ہدایت کی دعا کرتا ہوں، تھوڑی دیر میں پرتکلف ناشتہ آگیا، ہم سبھی کو سردی لگ رہی تھی، عمر بھائی نے ضدکرکے دو پیالی چائے پلائی اور خوب خاطر کی او رہمیں سمجھاتے رہے اور بتایا کہ پانی پت سے سونی پت تک ایڈوانی جی کی رتھ یاترا میں ہم دونوں سب سے پیش پیش تھے،30 اکتوبر میں ہم دونوں کے اوپر گنبد پر گولی لگی تھی، تھوڑی دیر میں کھانا بھی آگیا اب ہم تینوں کو لگا کہ ہمیں جوخوف تھا وہ سچ تھا اور 6 دسمبر کو ہماری یہ حالت کیوں ہوتی تھی ، میں نے عمر سے کہا اب ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ انہوں نے مجھے بتایا کہ دنیا کا عذاب تو کچھ نہیں، مرنے کے بعد بڑے دن کے عذاب سے بچنے کے لیے آپ کو میری رائے ماننی چاہیے اورکلمہ پڑھ کر مسلمان ہو جانا چاہیے ، ہم تینوں باہر مشورہ کے لیے آنے لگے تو عمر بھائی نے کہا میں ایک کام کے لیے باہر جاتا ہوں، آپ اندر بیٹھے رہیں ، ہم تینوں نے مشورہ کیا اور سب نے طے کیا کہ ہم کو مسلمان ہو جانا چاہیے، پھر عمر بھائی کو آواز دی او راپنا فیصلہ بتایا، عمر بھائی نے کہا کہ وہ دو رکعت نماز پڑھ کر سچے مالک سے آپ کے لیے دعا کرنے گئے تھے اور مولانا صاحب بھی آپ کے لیے دعا ہی کرنے اندر گئے ہیں ، خوشی خوشی عمر نے گھر میں مولانا صاحب کو آواز دی اور درخواست کی کہ ان تینوں بھائیوں کو کلمہ پڑھوا دیں، مولانا صاحب نے ہمیں کلمہ پڑھوایا، احمد بھائی! وہ حال ہم بتا نہیں سکتے کہ ہم تینوں پر کیا گذری، جیسے جیسے مولانا صاحب نے ہمیں کلمہ پڑھوایا اور توبہ کروائی ایسا لگ رہا تھا جیسے کانٹوں کا ایک لباس، جس سے جسم بندھا تھا، ہمارے جسم سے اتر گیا ، اندر سے خوف ایک دم کافور ہو گیا، جیسے ہم نہ جانے کس خطرہ سے نکل کر ایک محصور قلعہ میں آگئے ہوں، مولانا صاحب نے میرا نام محمد اسحاق رکھا، یوگیش کا محمد یعقوب رکھا اور یوگندر کا محمدیوسف اور حضرت یوسف ، حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب کا قصہ بھی سنایا اور ہمیں بتایا کہ کل سے فون آرہے تھے کہ یہ خبر چھپ گئی ہے خدا خیر کرے، کوئی فساد نہ ہو جائے ، میں دوستوں سے کہہ رہا تھا آپ ڈرئیے نہیں، ہم نے خبر نہیں چھپوائی، الله نے چھپوائی ہے، ان شاء الله اس میں ضرور خیر ہو گی ، الله نے اتنی بڑی خیر ظاہر کردی، مولانا صاحب نے کھڑے ہو کر گلے لگایا، مبارک باددی اور تینوں کو ”آپ کی امانت، آپ کی سیوا میں“ دی۔
سوال… اس کے بعد کیا ہوا؟
جواب… صبح کو نو مسلموں کی جماعت کے ساتھ ہم تینوں کو شامل کر دیا گیا، ایک مفتی صاحب بلند شہر کے سال لگارہے تھے، ان کو ہمارا امیر بنایا گیا اور دو لوگوں کوسکھانے کے لیے شامل کیا گیا، 15 لوگوں کی جماعت ایک روز میرٹھ رہی ، ہم تینوں نے میرٹھ میں سر ٹیفکیٹ بنوائے او رپھر جماعت کا رخ آگرہ کی طرف بنا، آگرہ او رمتھراضلع میں 40 دن پورے کیے، جماعت میں وقت ٹھیک لگا، نئے نئے لوگ تھے، ایک دوبار لڑائی بھی ہوئی، ایک روز ہم تینوں نے لڑکر واپس آنے کی سوچی، رات کو پکا ارادہ کیا کہ صبح چلے جائیں گے ، رات میں یوسف نے ایک خواب دیکھا، مولانا صاحب فرمارہے ہیں آپ کو الله نے کس طرح ہدایت دی، پھر بھی آپ الله کے راستہ سے بھاگ رہے ہیں، اس نے بعد میں ہم دونوں کو بتایا، ہم لوگوں نے طے کر لیا کہ جان بھی چلی جائے گی تو چلہ پورا کرکے ہی مولانا صاحب کو منھ دکھائیں گے، الحمدلله ہمارا چلہ پورا ہو گیا۔
سوال… جماعت سے واپس آنے کے بعد پھر کیا ہوا؟
جواب… مولانا صاحب نے مجھ سے معلوم کیا کہ اب آپ کا ارادہ کیا ہے ؟ اور مشورہ دیا کہ گھر پر فوراً جانا ٹھیک نہیں ہے، مگر ہم نے مولانا صاحب سے کہا کہ ہم بچے نہیں ہیں، مذہب ہمارا ذاتی معاملہ ہے او رہمارا حق ہے کہ حق کو مانیں، ہم گھر جاکر گھروالوں پر کام کریں گے او رہمیں کسی طرح کا کوئی خطرہ نہیں ہے ، مولانا صاحب کے سمجھانے کے باوجود ہم لوگ اپنے گاؤں پہنچے، پورے علاقہ میں ماحول خراب تھا، خبر مشہور تھی کہ مسلمانوں نے ان کو قتل کر دیا ہے،ہم لوگوں نے گھر والوں کوجاکر صاف صاف بتا دیا، پھر کیا تھا، پوری برادری میں ماتم مچ گیا بار بار پنچایت ہوئی، دور دور کے رشتہ دار آگئے، ایک بار اخبار والے بھی آگئے، گاؤں والوں نے ان کوپیسے دے دلاکر واپس کیا اور راضی کیا کہ خبر اخبار میں ہر گز نہ دی جائے، ورنہ اور بھی لوگوں کو خطرہ ہے ، ہمارے گھر والوں پر برداری والوں نے دباؤ دیا کہ اپنے لڑکوں کو کسی طرح باز رکھیں، مگر الله کا شکر ہے کہ الله نے ہمیں مخالفت سے اور پکا کر دیا، ہمارے ساتھ بہت سختیاں بھی ہونے لگیں ، ہمارے بیوی بچوں کو گھر بھیج دیا گیا، مجبوراً ہمیں گھر چھوڑنا پڑا، ہمیں پھلت جاتے ہوئے شرم آئی کہ مولانا صاحب کی بات نہیں مانی، ہم لوگ پہلے دہلی گئے او رپھر ایک صاحب ہمیں پٹنہ لے گئے ، پٹنہ میں ہم نے بڑی مشکل اٹھائی، کچھ دن رکشہ بھی چلایا، ضرورت کے لیے مزدوری بھی کی ، بعد میں مجھے ایک صاحب اپنی کمپنی میں کلکتہ لے گئے اور پھر میرے دونوں ساتھی بھی کلکتہ آگئے ، الحمدلله ہماری مشکل کا زمانہ زیادہ طویل نہیں ہوا او راب ہم سیٹ ہیں، اس دوران ہم تینوں کو بار ی باری حضور صلی الله علیہ وسلم کی زیارت بھی ہوئی، جس سے ہمیں بڑی تسلی ہوئی، مولانا صاحب کی یاد ہم لوگوں کو بہت آرہی تھی، مگر موقع نہیں مل سکا، الله کا کرم ہے آج ملاقات ہو گئی، مولانا صاحب سے ملنے کے بعد نو دس مہینے کی تکلیفیں ساری جیسے ہوئی ہی نہیں تھیں۔
سوال… اپنے گھر والوں سے کوئی رابطہ آپ نے کیا کہ نہیں؟
جواب… ہم لوگوں نے فون پر بات کی ہے ، ماں اور بھائی بہنوں سے بات ہو جاتی ہے، پتاجی سے بات تو نہیں ہو پاتی، ان شاء الله وقت کے ساتھ ساتھ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا،البتہ میری بیوی اور دونوں بچے ابھی میری سسرال میں ہیں، وہ بات نہیں کرتے ہیں، میں نے ایک دوست کو کسی طرح بھیجاتھا، اس نے ہماری سسرال کی ایک مسلمان عورت کو ان کے گھر بھیجا تھا، میری بیوی نے کہا جب کہیں جہاں کہیں جانے کو تیار ہوں، میری بھابھیوں سے بالکل نہیں بنتی او رمیں خود ایک پتی کی رہ کر مرنا چاہتی ہوں، آج مولانا صاحب سے مشورہ ہو گیا ہے، میں اب کسی طرح ان کو لے ہی جاؤں گا۔
سوال… دعوت کے سلسلہ میں آپ سے ابی نے کوئی بات نہیں کی، اس سلسلہ میں کچھ بتائیے؟
جواب… مولانا صاحب نے ہم سے عہد لیا ہے کہ بابری مسجد شہید کرنے والوں کی فکر کرنی ہے اورکارسیوکوں پر کام کرنا ہے او ران کے لیے اور گھر والوں کے لیے دعا کرنی ہے، مولانا صاحب سے مشورہ ہوا ہے، میں بہت جلد کلکتہ سے جماعت میں وقت لگاؤں گا او رالله کے راستہ میں نکل کر اپنے الله سے منظور کروانے کے لیے دعا کروں گا اور پھر آکر گھر والوں اور کارسیوکوں پر کام کروں گا۔
سوال… ارمغان کے قارئین کے لیے کچھ پیغام دیجیے؟
جواب… اسلام ہر انسان کی ضرورت ہے، کسی آدمی کو اسلام دشمنی میں سخت دیکھ کر یہ نہ سوچنا چاہیے کہ اس کے مسلمان ہونے کی امید نہیں ، سارے اسلام دشمن غلط فہمی یا نہ جاننے کی وجہ سے اسلام دشمن ہیں، ہمارے حال سے زیادہ اس کا اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے، اسلام قبول کرنے سے پہلے ہم بجرنگ دلی تھے، اسلام اور مسلمان ہمارے سب سے بڑے دشمن تھے اوراب ، ہم ہی ہیں، یہ تصور کہ خدانخواستہ ہم ہندو مر جاتے ( دھڑ دھڑی دے کر روتے ہوئے) تو ہماری ہلاکت کا کیا حال ہوتا اور کس طرح الله کی ناراضگی اور دوزخ کا ہمیشہ ہمیشہ کا عذاب برداشت کرتے۔
سوال… شکریہ اسحاق بھائی! آپ تینوں کا شکریہ، آپ دونوں سے بھی کسی وقت دوبارہ بات ہو گی، السلام علیکم ورحمة الله۔
جواب… وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاتہ۔