Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق صفر المظفر 1433ھ

ہ رسالہ

1 - 15
ایک اور سازش
مولانا عبیدالله خالد
رسالہ پریس جانے ہی کو تھا کہ پچیس محرم الحرام کو جامعہ فاروقیہ کراچی کے طلبہ کے ساتھ وہ دل سوزو جاں گداز واقعہ پیش آیا جس کی خبریا کم از کم بازگشت آپ تک ضرور پہنچ چکی ہوگی ۔ اس الم ناک واقعے میں جامعہ فاروقیہ کراچی کے ایک طالب علم حافظ احمد قمر کو اغوا کرنے کے بعد بے دردی سے شہید کردیاگیا اور دیگر پانچ طلبہ کو زخمی ۔ حیرت انگیز او رافسوس ناک امر یہ ہے کہ یہ سب کچھ قانون نافذ کرنے والے اداروں، پولیس اور رینجرز کے اہلکاروں، اور انتظامیہ کے اعلیٰ افسران کی موجودگی میں ہوا۔

یوں توہر سال محرم الحرام کے آغاز پر پورے ہی پاکستان میں کھلے عام توہین صحابہ کے واقعات کی بناء پر مذہبی فسادات کا خدشہ بڑھ جاتا ہے ، تاہم جامعہ فاروقیہ کراچی اور اس علاقے میں موجودا ہل تشیع کی عبادت گاہ حسینی مشن کے درمیان2004ء سے متفقہ طور پر تشکیل دیے گئے، ضابطہ اخلاق کی پابندی کے نتیجے میں یہ علاقہ کسی بھی ناخوش گوار واقعے سے محفوظ رہا ہے ، البتہ اس سال محرم کے آغاز سے پہلے ہی سے کچھ حالات وواقعات اس قسم کی پیشین گوئی کرتے نظر آرہے تھے کہ علاقے کے امن وامان کے خلاف کوئی گہری سازش کی جارہی ہے ۔ اس حوالہ سے حکام بالا اور علاقائی انتظامیہ کو بھی متنبہ کر دیا گیا تھا، جس کی وجہ سے آغاز محرم سے چوبیس محرم تک الحمدلله کوئی ناخوش گوار واقعہ جامعہ فاروقیہ اور اس کے قرب وجوار میں رونما نہیں ہوا۔ لیکن پچیس محرم کو اچانک ایسی صورت حال پیدا ہو گئی کہ جس کا بہ ظاہر کوئی امکان نہ تھا۔ نماز ظہر کے فوراً بعد حسینی مشین سے ہائی ٹون لاؤڈ اسپیکروں پر تقریریں شروع ہو گئیں اور اس کے ساتھ ہی مین روڈ سے جامعہ فاروقیہ کی طرف آنے والا راستہ بند کر دیا گیا۔ انتظامیہ کو فون پر اس کی اطلاع دینے کی کوشش کی جاتی رہی، مگر ساری کوششیں بے سود رہیں۔ نتیجتاً علاقے کے مسلمانوں میں اشتعال پھیلتا رہا۔ حالات کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے جامعہ کے گیٹ بند کرکے طلبا کی آمدورفت کو بھی روک دیا گیا تاکہ کسی قسم کا ناخوش گوار واقعہ پیش نہ آئے۔

خاصی تاخیر کے بعد جب رینجرز کے ایک کرنل جامعہ میں آئے تووہ بھی لاؤڈ اسپیکر کے غیرقانونی استعمال اور راستہ میں آمد ورفت کی بحالی کے بجائے جامعہ کی انتظامیہ اور علاقے کے عوام کو صبر اور برداشت کا درس دیتے رہے۔ بالآخرنماز عصر کے بعد خود رینجرز کے کرنل نے آکر جامعہ فاروقیہ کی انتظامیہ کو حالات کے پُرامن ہو جانے کی یقین دہانی کرائی۔ چناں چہ جامعہ فاروقیہ کے طلبہ حسب معمول باہر نکلے مگران نہتے طلبہ پر حسینی مشین سے اندھا دھند فائرنگ کی گئی جس سے متعدد طلبا زخمی ہو گئے جنہیں فوری طورپر ہسپتال میں داخل کر دیا گیا۔

فائرنگ سے بوکھلا کر محفوظ جگہ کی تلاش میں بھاگنے والے طلبا میں سے ایک طالب علم حافظ احمد قمر جسے ابتداءً اہل محلہ نے پناہ دی بالآخر پولیس کی بکتر بند گاڑی میں پناہ لینے میں کامیاب ہو گیا۔ مگر حیرت اس پر ہے کہ دہشت گرد اتنے تربیت یافتہ اور پولیس اتنی کمزور اور غافل ثابت ہوئی کہ اس طالب علم کو پولیس کی بکتر بند گاڑی سے بھی اغوا کر لیا گیا اور زنجیروں اور سریوں سے بہیمانہ تشدد کرکے شہید کر دیا گیا۔ اس منصوبہ بند دہشت گردی کے نتیجے میں علاقے کا امن درہم برہم ہوا۔ دوسری جانب سرکار ی انتظامیہ اتنا کچھ ہونے کے باوجود جامعہ فاروقیہ کے منتظمین ، طلبہ اور عوام کو صبر کی تلقین کرتی رہی۔

یہ عجیب انصاف ہے کہ ظلم اور جرم کرنے والوں کو گرفتار کرنے کے بجائے مظلوم کے لواحقین کو صبر کی تلقین کی جارہی ہے۔

سوال یہ ہے کہ گزشتہ سات برس سے جس معاہدے پر عمل جاری تھا اور اس سال بھی چوبیس محرم تک اس پر بہ حسن وخوبی عمل ہوا، آخر کیوں پچیس محرم کو اچانک اس کی خلاف ورزی کی گئی؟ سوال یہ بھی ہے کہ سرکاری انتظامیہ کی جانب سے جامعہ فاروقیہ کے منتظمین کو بار بار کلیئرنس دے کر طلبا کو باہر نکلنے پر اصرار کیوں کیا گیا؟ اور دہشت گردوں سے علاقے کو صاف کرنے کے بجائے ڈیوٹی پرمامور موٹرسائیکل سوار رینجرز کو بھی اس علاقے کو چھوڑ کر دور کیوں کھڑا کر دیا گیا؟ اور جناب بہت بڑا سوال یہ بھی ہے کہ پولیس کی بکتر بند گاڑی سے رینجرز، پولیس او راعلیٰ حکام کی موجودگی میں حافظ احمد قمر شہید کو کیسے اغواء کر لیا گیا؟

کیا یہ نکات اس بات کا ثبوت نہیں کہ علاقے کے مکین گزشتہ سات سال سے جس امن وامان کے ساتھ زندگی گزار رہے تھے اس کو تہس نہس کرکے لوگوں کی توجہ ایک بار پھر شیعہ سنی اختلاف کی طرف کرادی جائے اور اس واقعہ کو بنیاد بناکر مذہبی عدم رواداری کا رنگ دے کر اپنے آقاؤں کی باتوں کو سچا ثابت کیا جائے۔

ایسی صورت میں جامعہ فاروقیہ کراچی کا بالخصوص اور تمام علمائے اہلسنت کا بالعموم یہ مطالبہ ہے کہ اس واقعے کے حوالے سے انتظامیہ اپنی نااہلی اور عدم توجہی کو تسلیم کرے۔ واقعہ میں ملوث تمام مجرموں کو فوری گرفتار کرکے انہیں قانون کے مطابق سزا دی جائے۔ اور آئندہ کے لیے ایسے کسی بھی واقعے کے سدباب کے لیے ضابطہ اخلاق کی سختی سے پابندی کروائی جائے۔ بہ صورت دیگر عوام کا پیمانہ صبر اگر لبریز ہو گیا تو حالات کی سنگینی کی ذمے داری صرف اور صرف انتظامیہ اورحکومت پر ہو گی۔

اظہار تعزیت وملال
اس سانحے کے نتیجے میں جامعہ فاروقیہ کراچی کے طالب علم حافظ احمد قمر شہید ہو گئے۔ وہ حضرت مولانا قمر الدین صاحب مدظلہ کے بیٹے تھے،مولانا بلوچستان کے ممتاز عالم ربانی اور جمعیت علماء اسلام کے مرکزی رہنماؤں میں سے ہیں، حافظ احمد قمر شہید جامعہ فاروقیہ کراچی کے ایک ہونہار اور باادب طالب علم تھے ۔ جامعہ فاروقیہ کراچی کے اساتذہ اور طلبہ کو ان کی جدائی کا انتہائی افسوس اور صدمہ ہے ہم الله تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا گو ہیں کہ الله تعالیٰ شہید کو جنت میں اعلیٰ درجات سے نوازے اور شہید کے پس ماندگان کو صبر جمیل اور بدل عظیم عطا فرمائے۔ آمین۔
(اساتذہ وطلبہ جامعہ فاروقیہ کراچی) 
Flag Counter