Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق صفر المظفر 1433ھ

ہ رسالہ

2 - 15
دکھوں کا مداوا
محترم محمد منیر گل، پشاور

وطن عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان اسلام کی اساس پر عالمِ وجود میں آیا۔ پاک لوگوں کا پاک وطن، رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں، جسے الله تبارک وتعالیٰ نے اپنا مہینہ فرمایا ہے، 27 رمضان المبارک کو شبِ قدر کی مبارک ساعتوں میں آزادی کی شمع روشن ہوئی ۔ ان مبارک اور سعید گھڑیوں میں کسی خطہٴ ارض کا آزادی کی نعمت سے ہم کنار ہونا یقینا الله تعالیٰ کی طرف سے ایک بے بہا انعام ہے ۔ ایک عظیم عطیہ ہے۔ اس کے ملنے پر جس قدر زیادہ الله سبحانہ وتعالیٰ کا شکر ادا کیا جائے ، کم ہے، آزادی کی شمع فروزاں کرنے کے لیے ہمارے اسلاف واکابرین نے شبانہ روز جو محنت کی، فقید المثال قربانیاں دیں اور پھر تقسیم کے وقت بھارت سے اپنے نئے وطن کو ہجرت کرتے ہوئے ، راستے میں لُٹتے پِٹتے ہوئے مسلمانوں نے جو صعوبتیں برداشت کیں وہ ہماری تاریخ کا ایک درخشاں باب ہے ۔

شومئے قسمت! ایک آزاد خود مختار اسلامی مملکت کے قیام کے لیے جو زبردست قربانیاں پیش کی گئیں اُن کا یکسر لحاظ نہیں رکھا گیا، شروع دن ہی سے اِس نوزائیدہ، اسلام کے نام پر حاصل کی گئی ، مملکت میں اسلامی قوانین کے نفاذ، اسلامی تہذیب وتمدن اور شعائر اسلامی کی ترویج کی فکر، جس کے تحت یہاں کے باسیوں کی بحیثیت ایک پاکستانی قوم اسلامی خطوط پر تربیت ہوتی ، جیسے غیر معمولی اہمیت کے حامل اُمور کو سنجیدگی سے نہیں لیاگیا۔ ایک ناجائز قِسم کی بے اعتنائی اِن سے برتی گئی ، حالاں کہ ملک کی پوری آبادی ذہنی طور پر اس کے لیے تیار تھی، کیوں کہ قربانیاں تو اسی کے لیے دی گئی تھیں۔ یوں مقصد سے رو گردانی کرکے ملک کو صحیح اسلامی خطوط پر چلانے کے بجائے برعکس رُخ پر چلایا گیا اور تاہنوز چلا یا جارہا ہے ۔ دور غلامی کا فرسودہ اور مسلمانوں کے مزاج کے بالکل خلاف نظام تسلسل کے ساتھ جاری وساری ہے ۔ صرف چہرے تبدیل ہوتے رہے ہیں ، نظام وہی چل رہا ہے ۔ ملک وقوم کا درد، دل میں رکھنے والے ہر پاکستانی پر یہ امر شاق گزرا اور باعث کوفت رہا ہے۔

اسلامی نظامِ حیات، جو بِلا امتیاز، ہر شہری کے حقوق کی پاس داری کی ضمانت دیتا ہے، اس سے 63 سال تک تواتر کے ساتھ انحراف بلاشبہ ایک ناقابل معافی سنگین جرم ہے، اس کے جو برے نتائج مرتب ہوتے رہے اور ہو رہے ہیں وہ سب کے سامنے ہیں۔ دینی، معاشرتی اورمعاشی ہر سطح پر انحطاط کے باعث ملک گھمبیر مسائل کی آما ج گاہ بن چکا ہے او ران مسائل میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے، دینی پسماندگی کے اعتبار سے تو آج مسلم ایشیائی ممالک میں شاید ہی کوئی ملک پاکستان سے آگے بڑھا ہوا ہو۔ بے دینی کی شرح میں بلا خیز اضافے سے ہر آنے والا دن گزشتہ دن سے بدتر ہوتا جارہا ہے ۔ ایک مجلس میں بیٹھنے کا اتفاق ہوا۔ ایک عالم بیان فرمارہے تھے او ربیان کے دوران فرطِ غم سے رو پڑے۔ فرمایا کہ دس فیصد بھی مسلمان نماز نہیں پڑھتے۔ یہی حال روزوں کا ہے، حج اور زکوٰة کا تو پوچھنا ہی کیا؟ چلو مان لیتے ہیں کہ دس فی صد نماز پڑھتے ہیں ، یہ جو نوے فی صد نہیں پڑھتے، کتنے زبردست خسارہ میں جارہے ہیں او ران کی نحوست سے امت کا کتنا زبردست نقصان ہو رہا ہے ایک دیوار دس آدمی بنار ہے ہیں اور نوے اُسے گرا رہے ہیں ۔ کیا یہ دیوار قائم رہ سکتی ہے؟ اس قدر بڑے پیمانے پر بے دینی اور اس میں آئے دن کا اضافہ ! ان حالات میں الله تعالیٰ کی رحمت مسلمانانِ پاکستان کی طرف کیوں کر متوجہ ہو سکتی ہے ؟ اس وقت اگر خدائے عظیم وبرتر اپنی قدرت دکھا کر صحابہٴ کرام میں سے کسی صحابی کو زندہ کرکے ہمارے معاشرے میں بھیج دیں تو یقینی بات ہے کہ وہ ہمارے اطوار دیکھ کر بے ساختہ پکار اٹھیں گے” کیا یہ لوگ ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے“؟! یہ تو فرائض کا حال ہے۔ معاشرت، معاملات میں اورزیادہ اندھیر ہے، کس کس بے اعتدالی اور حدود کی پامالی کا ذکر کیا جائے ، رونا رویا جائے #
        تن ہمہ داغ داغ شد
        پنبہ کجا کجا نہم

آج مسلمان اپنی مسلمانی کا دعوی بھی بڑے فخر سے کرتا ہے اورساتھ ہی ساتھ دیدہ دلیری سے اُن جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے جن کو زبان پر لاتے ہوئے بھی شرم آتی ہے ۔ علامہ اقبال نے بجا فرمایا ہوا ہے #
        چوں مے گویم مسلمانم بہ لرزم
        کہ دانم مشکلاتِ لا اِلہ را

جب کسی قوم کے بُرے دن آتے ہیں اُس کے افراد زندگی دینے والے ، پالنے والے، اپنے شفیق، مہربان رب کو بھلا بیٹھتے ہیں ، اُس سے بے پروا ہو کر، اُس کی طرف سے جن اعمال کے کرنے کا انہیں حکم ہوتا ہے انہیں پس پشت ڈال کر وہ اعمال کرنے لگتے ہیں جو سراسراس محسن حقیقی کی ناراضگی والے ہوتے ہیں، اطاعت کا سیدھا، سہل راستہ چھوڑ کر بغاوت کا خار دار راستہ اختیار کر لیتے ہیں ، حالاں کہ انہیں اس بات کا بخوبی یقین ہوتا ہے کہ اس اُلٹی چال چلنے کے جو نتائج بد آخر میں سامنے آئیں گے ان کی پاداش میں سزا اُن ہی کو بھگتنی ہے، جلد یا بہ دیر! اس دنیا میں یا موت کے بعد والی اصل زندگی میں ! مگر وہ نفس امارہ کے ہاتھوں اس قدر مغلوب ومدہوش ہوتے ہیں کہ اندھے ہو کر نتائج کی پروا کیے بغیر بڑی بے باکی سے گناہ پر گناہ کرتے جاتے ہیں ۔ شرم وحیا یا باز پرس کا خوف ان کے ہاں بے معنی چیز ہوتی ہے ۔ ہمارے ہاں ہر دور میں برسرِ اقتدار طبقہ جس پر عندالله ملک کے کروڑوں باشندوں کی صحیح خطوط پر تربیت کرنے کی ذمہ داری او راسلام کے زرین اُصولوں کے مطابق بلا امتیاز ہر شہری کے حقوق کی پاس داری کی ذمہ داری عائد تھی ، اس ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کے لیے تیار نہ ہوا، بلکہ بعضوں نے تو اس کا احساس تک نہ کیا ۔ خود الٹا چلتے رہے تو دوسروں کو کیسے سیدھا چلنے کا کہتے؟ الناس علی دین ملوکہم۔ عوام اپنے بادشاہوں کے دین پر ہوتے ہیں ، اپنے حاکموں کو دیکھتے ہیں او ران جیسی چال چلتے ہیں مسند اقتدار پر فائز طبقہ زندگی کی صالح قدریں اپنا کر اپنی زندگی الله عزوجل کی منشا کے مطابق گزارنے لگے تو ان کی دیکھا دیکھی عوام الناس بھی صراط مستقیم پر چلیں اور اگر وہ خود راہ گم کردہ ہوں تو ان کی اقتدا میں عام لوگ بے دھڑکگم راہی کے راستہ پر چلیں گے اور گناہ آلود طرز زندگی اختیار کرنے میں انہیں کوئی باک نہ ہو گا۔ بڑے پیمانے پر بلا روک ٹوک گناہوں کا ارتکاب الله تعالیٰ کے غیظ وغضب کو دعوت دیتا ہے اوراس کے عذاب کے کوڑے کو حرکت میں لاتا ہے ، تنبیہ کے طور اولاً چھوٹے چھوٹے جھٹکے آتے ہیں ،تاکہ لوگ باز آجائیں ،ورنہ پھر بڑے اور شدید جھٹکوں کو آنے میں کوئی روک ٹوک نہیں ہوتی ۔ ﴿ولنذیقنھم من العذاب الادنی دون العذاب الاکبر لعلھم یرجعون﴾․

اسلام کے نام پرقائم ہونے والے ملک میں نظام اسلام کے نفاذ سے دیدہ دانستہ اعراض اور چشم پوشی پر الله تعالیٰ کی ناراضگی بالآخر اس صورت میں ظاہر ہوئی کہ ملک، ہجرت کرکے آئے ہوئے بے خانماں مہاجرین کی بحالی کے مسئلے سے ابھی پوری طرح عہدہ برآ بھی نہیں ہوا تھا کہ 1955 میں پنجاب کے وسیع وعریض علاقوں میں سیلابوں نے زبردست تباہی مچائی، کچی پکی آبادیاں مہندم ہوئیں، بڑے پیمانے پر زرعی اراضی او رکھڑی فصلوں کا نقصان ہوا ، مال مویشی بڑی تعداد میں ہلاک ہوئے، ان جانی اور مالی نقصانات سے ملکی معیشت کو زبردست دھچکا لگا، سیلاب نہیں، ایک عذاب تھا، ان ہلاکت خیز سیلابوں کے دوران بعض مقامات پر ایسے مناظر بھی دیکھنے میں آئے کہ مکان سیلاب میں گھرا ہوا ہے ، چاروں طرف پانی ہی پانی ہے اور چھت کے اوپر کچھ حضرات بے فکر بیٹھے تاش کھیل رہے ہیں ، گویا اُن کے ساتھ کچھ ہوا ہی نہیں ، یہ مناظر قوم کی غیر اسلامی خطوط پر تربیت ہونے کی واضح نشان دہی کرنے والے تھے۔ مشرقی بازو بھی وقتاً فوقتاً قیامت خیز سیلابوں اور سمندری طوفانوں کی زد میں رہا ،لیکن سیل العرم والوں کے انداز میں ہم ان کو معمول کے قدرتی عوامل پر قیاس کرتے رہے کہ ایسا ہوتا ہی رہتا ہے، جب کہ الله جل شانہ کا واضح ارشاد ہے۔ کہ ایسا کیوں اور کب ہوتا ہے۔ ﴿ظھر الفساد فی البر والبحر بما کسبت ایدی الناس لیذیقھم بعض الذی عملوا لعلھم یرجعون﴾․

خشکی اور تری میں فساد برپا ہو گیا، لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے، تاکہ مزا چکھائے ان کو ان کے بعض اعمال کا ، شاید کہ وہ باز آئیں (یعنی گناہ آلود زندگی گزارنا ترک کر دیں اور اپنے رب کے حضور گردن نہاد ہوں)۔

ستمبر1965ء میں غلط قیادت کی غلط اور ناہم وار پالیسیوں کے نتیجہ میں پڑوسی ملک بھارت کی طرف سے ہم پر غیر اعلانیہ جنگ مسلط ہوئی، جس سے ملک کا بھاری جانی ومالی نقصان ہوا، سترہ روزہ جنگ کے اختتام پر معاہدہ صلح ہونے کے بعدہر شخص نے محسوس کیا کہ نقصان تو فریقین کا کا فی ہوا ہے ،مگر جن وجوہ سے دونوں ممالک کے مابین لڑائی کی نوبت آئی ان کو مکمل طور پر ختم کرنے کا واضح فیصلہ معاہدہ صلح میں نہ ہوا، حالاں کہ یہ ایک بہترین موقع تھا کہ صلح متنازعہ فیہ مسائل کے حتمی حل پرکی جاتی، بعد کے لیے تنازعات کے کھڑے ہونے کی گنجائش نہ چھوڑی جاتی، صلح اس انداز سے طے پاتی کہ تمام تنازعات ختم کرکے او رجنگ کی تلخیاں فراموش کرکے آئندہ کے لیے دونوں ممالک اچھے پڑوسیوں کی طرح رہنے کا عہد کرتے اور اس پر عمل پیرا فوری طور ہو جاتے۔ اس جنگ کے موقعہ پر پاکستانی عوام کا جوش وخروش اور ہمت وحوصلہ قابل داد رہا، ہر شخص جذبہ حب الوطنی سے سرشار تھا، حکومت کی اپیل پر دفاعی فنڈ میں عوام نے دل کھول کر عطیے دیے، خواتین نے ہاتھوں کے کڑے، کانوں کی بالیاں او ردوسرے چھوٹے موٹے زیورات بڑی فراخ دلی سے دفاعی فنڈ میں جمع کیے، ہر پاکستانی نے ملکی دفاع کی خاطر بڑھ چڑھ کر اپنا حصہ ڈالا کوئی بھی پیچھے نہ رہا، اگر ہماری قیادت اس موقعہ پر کمزوری نہ دکھاتی تو بھارت ہر لحاظ سے مورد الزام تھا کہ اس نے رات کے اندھیرے میں چوروں کی طرح بین الاقوامی سرحد پا کرکے غیر اعلانیہ جنگ ہم پر ٹھونسی تھی، تاوان جنگ کا مطالبہ کرکے اس سے اس کی وصولی بھی کی جاسکتی تھی، مگر غیر نمائندہ قیادت کے آمرانہ اقدامات کے نتیجہ میں صلح میں جو فیصلہ کرنا چاہیے تھا وہ نہ ہوا، صلح کے بعد یوں محسوس ہوا کہ ہم جنگ سے پہلے جہاں تھے اب بھی وہاں ہی ہیں ، عوام میں بڑی مایوسی پھیلی ، ان کا مورال بری طرح نیچے گرا۔

چھے سال بعد 1971ء میں دوسرا زبردست جھٹکا یہ لگا کہ ملک ابھی اپنی آزادی کی سلور جوبلی کے قریب ہو رہا تھا کہ یکلخت دو ٹکڑے ہوا اور مشرقی بازو تن سے جدا ہو گیا، پاکستان کی اعلیٰ تربیت یافتہ فوج، جس کا شمار دنیا کی بہترین فوجوں میں ہوتا ہے، اُس وقت کی قیادت کی غلط عسکری پالیسی کے باعث اپنے ہی وطن میں محصور ہو کر ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوئی، عرصے تک بھارتی جیلوں میں سڑتی رہی، سقوط مشرقی پاکستان کے عظیم سانحہ سے دو چار ہونے کے بعد بھی ہماری آنکھیں نہ کھلیں۔ رویے تبدیل نہ ہوئے اور ان خرابیوں کا تدارک کرنے کی فکر نہ کی گئی، جس کے باعث قدرت نے ہمیں یہ سزا دی کہ اپنے عطا کردہ انعام کا ایک حصہ ہم سے واپس لے لیا۔ نعمتوں کی ناقدری کرنے والوں کے ساتھ ایسا ہی کیا جاتا ہے۔

اس سے ایک سال سے کم عرصہ میں ایک اور زور دارجھٹکا لگا۔1972ء میں سرحد کے ضلع کوہستان کے علاقہ پٹن میں زلزلہ سے زبردست تباہی مچی، گاؤں کے گاؤں ملیامیٹ ہوئے ،انسان او رمال مویشی بڑے پیمانہ پر ہلاک ہوئے ، پھر قریب کے زمانہ میں یعنی 2005ء میں ایک اور شدید جھٹکا زلزلے کی صورت میں سرحد کے ضلع مانسہرہ کے علاقوں گڑھی حبیب الله ، بالاکوٹ اور آزادکشمیر کے اضلاع مظفرآباد اور باغ میں لگا، جس کی تباہ کاری سے ہزاروں قیمتی نفوس لقمہٴ اجل ہوئیں، مکانات پیوند زمین ہونے کے باعث لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے ، ان کے باسی عرصہ تک کھلے آسمان تلے او ربعد میں خیمہ بستیوں میں کر ب ناک صورت حال سے دو چار اوقات گزارتے رہے ، ایک نسبتاً ہلکا سا جھٹکا بلوچستان کے علاقہ زیارت میں زلزلے کا کچھ عرصہ پہلے لگا، جہاں ابتدائی اعداد وشمار کے مطابق500 کے قریب افراد جان بحق ہوئے، بعد کی اطلاعات کے مطابق اموات کی تعداد میں کچھ مزید اضافہ ہوا، مارگلہ ( ضلع راولپنڈی) کی پہاڑیوں پر حال ہی میں پاکستانی طیارے کی تباہی کا حادثہ پیش آیا، جس میں 257 قیمتی جانیں تلف ہوئیں اور اس کے بعد وسیع پیمانے پر سیلاب کی تباہ کاریاں ، جس سے ملک کا کوئی گوشہ بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہا ، زرعی اراضی تباہ ہوئیں ، کھڑی فصلوں کابڑے پیمانے پر نقصان ہوا ،پل، دریا برد ہوئے ، بندوں کے شگاف ٹوٹ گئے، مکانات منہدم ہوئے، ہزاروں انسان او رجانور سیلاب کی نذر ہوئے، بالخصوص صوبہ سندھ تادیر سیلاب کے تابڑ توڑ حملوں کی زد میں رہا ، کئی شہر اور ہزاروں دیہات سیلابی پانی میں ڈوبے رہے ، نقصانات کا تخمینہ دوسرے صوبوں کے مقابلہ میں زیادہ رہا۔ ایک حیران کن امر یہ ہے کہ اس سے پہلے سیلاب پانچ دریاؤں کی سر زمین ، پنجاب ہی میں آتے رہے تھے، لیکن اس بار اس نے سارے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے کر تاخت وتاراج کیا، حتی کہ شمالی علاقہ جات بھی اس سے نہ بچ سکے۔ حالاں کہ ماضی میں ان علاقوں میں سیلاب کا نام تک بھی نہیں سنا گیا ، ظاہر ہوا کہ یہ سیلاب نہیں تھا، عذاب الہٰی تھا۔

یہ زمینی اور سماوی آفات تازیانے کے طور مسلمانانِ پاکستان کو متنبہ کرنے کے لیے وقوع پذیر ہوتے رہے ، تاکہ یہ ڈر جائیں ، سنبھل جائیں او راپنے بگاڑ کے سُدھار کی فکر کریں، جیسے حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کو عذاب کے آثار نظر آئے، فوراً توبہ تائب ہوئی تو الله تعالیٰ نے اپنا بھیجا ہوا عذاب ٹال دیا، رجوع الی الله ہی اس کے عذاب کے کوڑے سے محفوظ رہنے کا واحد ذریعہ ہے خوف خدا سے بے پروا ہو کر اس ملک میں انسانوں نے جامہٴ انسانیت کو پارہ پارہ کرکے انسانوں پر جو مظالم ڈھائے ان کا تذکرہ ذہنوں میں دبی ہوئی تلخی کو ابھارنے والا ہے ۔ ان میں سے چیدہ چیدہ واقعات حسب ذیل ہیں۔

2007ء میں قلب پاکستان اسلام آباد میں لال مسجد اور جامعہ حفصہ کا دل خراش سانحہ پیش آیا ، ملکی سطح پر نہیں بلکہ ملک کی صرف ایک شہر میں پیدا ہونے والے معمولی نوعیت کے مسئلے کو مذاکرات کے بجائے طاقت کے استعمال سے حل کرنے کی کوشش کی گئی ، جس سے بہت بڑی تباہی ہوئی ،بے گناہ انسانوں کو بڑی بے دردی سے خون میں نہلایا گیا ، اموات کی مقدار زیادہ تر ان بچوں او ربچیوں کی ہوئیں جو 2005 کے زلزلہ میں یتیم اور بے آسرا ہو گئے تھے او رجنہیں لال مسجد اور جامعہ حفصہ نے اپنی آغوش میں پناہ دی تھی، ان پر آگ اور لوہا بے تحاشا بارش کی طرح برسایا گیا اور بعد میں ان کی نعشوں اور ٹوٹی پھوٹی مسخ شدہ ہڈیوں کو کوڑے کرکٹ کی طرح اسلام آباد کے نواح میں کھائیوں اور نالوں میں پھینکا گیا۔ مسجد او رمدرسة البنات کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے وہ مظالم ڈھائے گئے جن کی مثال شاید کفار کے کسی ملکمیں بھی نہ مل سکے۔

ملک کے مایہ ناز سپوت ،جنہوں نے دن رات انتھک محنت کرکے سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں مہارت تامہ حاصل کی او راپنی صلاحیتوں اور کاوشوں سے پاکستان کو ایٹمی قوت بنایا، اسے اقوام عالم میں ایک قابل فخر مقام دلایا، ان کے خلاف فرضی اور بے بنیاد الزامات تراش کر اور صفائی کا موقعہ دیے بغیر انہیں قید وبند میں رکھا گیا ،ان کی کردار کشی کی گئی ، انہیں او ران کے لواحقین کو اذیتیں پہنچائی گئیں، ملک کے لیے ان کی خدمات کا انہیں یہ صلہ دیا گیا۔

عدلیہ کی مقتدر اور قابل احترام شخصیت، چیف جسٹس آف پاکستان پر بے بنیاد الزامات ( بقول ان کے بے ہودہ الزامات) عائد کرکے، کسی قسم کی ضابطہ کی کارروائی عمل میں لائے بغیر، یک جنبش قلم انہیں ان کے عہدہ سے معزول کیا گیا، ان کے کردار کو مسخ کرنے کی کوشش کی گئی ، اس طرح عدلیہ کے محترم ارکان او روکلاء برادری میں انتشار پیدا کیا گیا ، اس غیر قانونی اقدام کے خلاف احتجاجی مظاہرے، ریلیاں، لانگ مارچ اور ایجی ٹیشن ہوئے،ملک بھر میں ہنگامہ آرائی رہی، ملکی امن تہہ وبالا ہوا۔

ایک قدر آور سیاسی شخصیت کو، جس کی پارٹی کو پورے ملک میں نمائندگی حاصل ہے ،جان بوجھ کر مناسب سیکورٹی فراہم نہ کی گئی جس کی وجہ سے اس کو برسر عام بے دردی سے قتل کیا گیا جس پر سارے ملک میں ہنگامے پھوٹ پڑے ، سرکاری اور نجی املاک نذر آتش کی گئیں، چودہ ریلوے انجن جلا دیے گئے ، کئی مقامات پر ریل کی پٹری اُکھاڑ دی گئی، پورے ملک میں کئی دنوں تک افراتفری اور بدامنی کا دور دورہ رہا، کراچی میں جرائم پیشہ عناصر نے موقعہ غنیمت جان کر لوٹ مار کا بازار گرم کیا۔

شرفا اور سوسائٹی میں اچھی شہرت رکھنے والے بعض افراد کو،جو حکم رانوں کی جابرانہ اور غلط پالیسیوں سے اختلاف رکھتے تھے او ران پر تنقید کرتے تھے ،اغوا کرکے نامعلوم مقامات پر منتقل کر دیا گیا، ان کے لواحقین کی فریاد اور چیخ وپکار کی کوئی شنوائی نہیں ہوئی ان کے مطالبہ پر کہ اتنابتا دیا جائے کہ انہیں کس جرم میں محبوس رکھا گیا ہے اور آیا کہ وہ زندہ ہیں یا قتل کر دیے گئے ہیں ، اس مطالبے پرکوئی توجہ نہیں دی گئی ، کئی خاندانوں کو اذیت میں رکھا گیا۔

کراچی، لاہور اور پشاور میں کئی جید علمائے کرام کو اس تاریک دور میں محض حق گوئی اور قوم کی راہ نمائی کرنے کے جرم میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ، ان کے سفاک قاتلوں کا آج تک کوئی پتہ نہ چلا، حکومتی ارکان کی جانب سے ان کے اس طرح بے دردی سے قتل پر میڈیا میں محض رسمی مذمتوں کی نشر واشاعت ہوتی رہی۔

خودکش حملوں اور بم دھماکوں کا ایک طویل سلسلہ عرصہ تک پورے ملک میں جاری رہا ، پولیس، فوج کے اہلکار اور عام شہری کثیر تعداد میں ایک ہی خود کش حملے ، ایک ہی بم دھماکے میں لقمہ اجل ہوتے رہے ،تعلیمی اداروں کی عمارت سرکاری او رنجی اداروں کی عمارتیں ، تجارتی مراکز ، شہری آبادیاں نشانہ بنیں، مساجد تک کو نہیں چھوڑا گیا، قوم حیران وپریشان ہر آن خوف کی حالت میں رہی ، پاک آرمی کے جانباز آفیسران اور نوجوانوں، سول آرمڈ فورسز اور پولیس کے فرض شناس اور باہمت آفیسران اور اہلکاروں کی زبردست قربانیوں کی بدولت، جو انہوں نے طویل مدت کی پریشانیوں میں سردھڑ کی بازی لگا کر پیش کیں، اس فتنے پر قابو پا لیا گیا، ملک اور عوام دشمن عناصر کی سرکوبی میں اربوں کھربوں کا اسلحہ گولہ بارود اور دوسرا جنگی ساز وسامان استعمال ہوا۔ان سب پر مستزاد مہنگائی کاعذاب الگ رہا ،جس سے محدود آمدنی والے غریب عوام اور متوسط طبقہ کے لوگوں کی زندگی اجیرن ہو گئی ہے ، متمول طبقہ بھی پریشان ہے۔

جیساکہ عرض کیا گیا حالات کا تعلق براہِ راست اعمال سے ہوتا ہے، اعمال اچھے تو حالات اچھے، اعمال بُرے تو حالات بُرے اور دگرگوں ۔ ﴿إن الابرار لفی نعیم، وان الفجار لفی جحیم﴾ اس کلیے قاعدے کو جھٹلایا نہیں جاسکتا کیوں کہ یہ خالق کائنات کا وضع کردہ ہے۔ اس مضمون میں عرض کیے گئے حقائق پر غور کرنے سے بخوبی واضح ہوتا ہے کہ ابتدائے آزادی سے لے کر آج تک ہم نے خوشی کا منھ نہیں دیکھا، ہمارے احوال کبھی بھی اچھے اورپرسکون نہیں رہے، ہم ہمیشہ مسائل اورمصائب کے گرداب میں پھنسے رہے ہیں ، ایسے حالات درپیش ہوں تو ملک ترقی کی بجائے تنزل اورمفلوک الحالی کی طرف بڑھتا ہے ، غربت وناداری کا شکار ہوتا ہے ، الله تعالیٰ کی نافرمانی او راس کی ناراضگی والے برے اعمال کا ارتکاب کرکے ہم اپنے ہاتھوں اپنے حالات بگاڑتے رہے ، سب سے بڑی نافرمانی اور ظلم کی کمائی ہم نے یہ کی کہ آسمانی قانون کو رد کیا اور سامراجیوں کے قانون کو خوشی خوشی اپنے سینے سے چمٹائے رکھا ،اسے اپنے اوپر مسلط رکھنے پر راضی رہے ۔ ہم اگر چاہتے ہیں کہ ہمیں روز روز کے مصائب وآلام سے چھٹکارا ملے، ہمارے حالات اچھے ہوں ، ملک ترقی کرے ، عوام خوش حال ہو اور ہمیں ایسا چاہنا لازماً چاہیے ، یہ ہماری ناگزیر اولین ضرورت ہے ، اس کے بغیر ہمارا شمار زندہ قوموں میں ہو ہی نہیں سکتا، جھٹکوں پر جھٹکے آتے رہے اور ہم انہیں سہتے رہے ، پیشتر اس کے کہ ایک بڑا، زور دار، آخری جھٹکا آکر ہمیں بالکل فنا کر دے ، صفحہ ٴ ہستی سے ہمارا نام ونشان مٹا دے، ہمیں صدق دل سے اخلاص کے ساتھ توبہ کرنی چاہیے اور گڑ گڑا کر الحاح وزاری کے ساتھ الله تعالیٰ سے اپنی بد اعمالیوں اور حُکم عدولیوں کی معافی مانگنی چاہیے او راس بات کا پکا عہد کر لینا چاہیے کہ ہم آئندہ اس کی ناراضگی والے اعمال سے کامل اجتناب کریں گے ۔قوم موجود اور آئندہ کے چیلنجوں کا مقابلہ فقط اس صورت میں کر سکتی ہے کہ الله تعالیٰ کی معیت کو اپنے ساتھ کر لے، جیسا کہ سیدنا موسی علیہ السلام نے وقت ابتلا میں الله تعالیٰ کی معیت اپنے ساتھ کر لی تھی، جس کی بدولت ان کا اور ان کی قوم بنی اسرائیل کا بد ترین دشمن فرعون ذلیل ہو کر اپنے لاؤ لشکر سمیت بحیرہ قلزم میں ڈوب مرا، لیکن یہ یاد رہے کہ الله تعالیٰ کی معیت ان کے ساتھ ہوتی ہے جن سے وہ راضی ہوتا ہے ، اس کی رضا مندی حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انسانوں کے اعمال ، افعال او راقوال اس کی منشا کے موافق ہوں، نہ کہ اس سے متصادم ! ہم عوام کھلے دل سے اعتراف کر لیں کہ ہم نے اب تک کسی سختی اور پیش آمدہ مشکلات سے نجات حاصل کرنے کے لیے الله تعالیٰ کی معیت کو اپنے ساتھ کر لینے کی ضرورت کی پروانہ کی، اسے ساتھ کر لینے کے بجائے غیروں کی طرف دیکھتے رہے ، الله تعالیٰ ناراض ہو کر ہماری مدد نہ کرے تو غیروں کے لشکر جرار ہمار ی کوئی مدد نہیں کرسکتے ،مصائب وآلام وہی ذات دور کرسکتی ہے جس کی طرف سے یہ آتے ہیں، بشرطے کہ مصائب وآلام میں مبتلا انسان اس کی طرف رجوع کرکے اسے خوش کر دیں ، مائل بہ کرم کر دیں ، اب تک الله تعالیٰ کی ناراضگی کی روش اختیار کرنے پر ہم نادم وشرمسار ہوں ، اس کا عملی طور اظہار کرتے ہوئے اب تک کی گزاری ہوئی اپنی غیراسلامی طرز زندگی کو خیر بادکہیں ، اپنی چال ، ڈھال ، وضع قطع، لباس ، خوراک، رہن سہن، شادی غمی ، گفت وشنید، غرضے کہ اپنے ہر شعبہٴ زندگی کو اسلام کے اعلیٰ وارفع قوانین کے تحت کرکے الله رب العزت کی اطاعت وفرماں برداری کو اپنا شعار بنا لیں، تاکہ وہ ذات عالی خوش ہو کر ہماری اب تک کی کوتاہیوں سے در گزر فرما دے ، ہمارے گناہوں پر عفو کا قلم پھیر دے ، ہمیں ابتلا کے مزید جھٹکوں سے بچائے اور دنیوی واُخروی کامیابی سے بہرہ ور فرما دے۔ آمین
Flag Counter