Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق صفر المظفر 1433ھ

ہ رسالہ

3 - 15
اچھے لوگوں کی صحبت کے اثرات
مولانا سید عبدالله حسنی

صحبت کی مثال
آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس کو مثال سے سمجھایا کہ اچھی صحبت کی مثال عطر بیچنے والے کی ہے، اگر اس کے پاس بیٹھو گے تو خوش بو سے فائدہ اٹھاؤ گے، عطر بیز ہو جاؤ گے، مزہ آجائے گا ،اگر نہ خرید وتب بھی خوش بو لے کر جاؤ گے۔ اگر بھٹی پھونکنے والے کے پاس بیٹھو گے تو اس کا دھواں اور اس کی کالک ملے گی، کالک سے اگر تم نے اپنے کو بچا بھی لیا تو دھواں کہیں گیا ہی نہیں۔ جیسا کہ میں نے کہا یا تو برے بن جاؤ گے یا بری شہرت ہو جائے گی اس لیے کہا گیا ہے کہ بروں کی صحبت سے بچتے رہو یہ بہت ہی اہم بات ہے ۔ ہمارے حضرت مولانا محمد رابع حسنی ندوی ( الله آپ کی عمر دراز فرمائے) کے پاس ایک صاحب آئے، جو بڑے نیک نام تھے ، انہوں نے کہا کہ ایک شخص بڑا بد نام ہے، وہ مجھے بلا رہا ہے، سوچتا ہوں چلا جاؤں، ہو سکتا ہے کہ کچھ ٹھیک ہوجائے او راثر قبول کر لے۔ تو مولانا نے بڑی حکمت کی بات فرمائی ، کہا کہ اگر ان کے پاس جاؤ گے تو ان کی بری شہرت آپ کو مل جائے گی اور آپ کی اچھی شہرت انہیں مل جائے گی ۔ اس لیے برے لوگوں سے بچنا چاہیے۔ ہاں! جو الله تعالیٰ کے نیک بندے ہیں ، جن کو کچھ کیفیت حاصل ہے ، ان کے ساتھ رہے، جیسا کہ میں نے پہلے بتایا تھا کہ حضرت شاہ اسماعیل شہید وہاں تشریف لے گئے تو ان کی صحبت میں نہیں گئے تھے ، ان سے معاملہ کرنے نہیں گئے تھے، بلکہ ان کی اصلاح کی غرض سے گئے تھے ، اس نیت سے گئے اور واپس تشریف لے آئے ۔ لیکن اگر کوئی معاملہ کرنے جارہا ہے، اس کے پاس اٹھے بیٹھے گا تو اس کی شہرت تم کو مل جائے گی او رتمہاری شہرت اس کو مل جائے گی، یعنی تمہارا تھوڑا حصہ اسے ملے گا اور اس کا تھوڑا حصہ تمہیں ملے گا تو اس کا فائدہ ہو گا اورتمہارا نقصان ہوجائے گا، اس لیے آدمی کو احتیاط کرنی چاہیے ۔ بری صحبت کا اثر پڑ کر رہتا ہے، اسی طرح اچھی صحبت کا اثر بھی پڑ کر رہتا ہے ۔ دیکھیے! آپ نے ایک بیج ڈال دیا، بیج پڑ گیا، یہ ضروری نہیں کہ فوراً درخت سامنے اُگ آئے، بیج پڑ گیا، اب آہستہ آہستہ کام ہوتا رہے گا ۔ الله والوں کی صحبت کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ بیج بعض دفعہ پڑ جاتا ہے، وہ بھی کوئی ضروری نہیں ۔ آداب کی رعایت ہو گی تب ہو گا او روہ اس لائق بھی ہو جس کی خدمت میں آپ جارہے ہیں ، تو بیج پڑ جائے گا اور کچھ دنوں او ربرسوں کے بعد یک دم رنگ بدلے گا، معلوم ہوا کہ جو تھوڑی دیر ان کی صحبت میں رہے تھے اس کا اثر پڑا۔ بہت ادھر ادھر بھاگتے رہے، اخیر میں پھر لوٹ کر آگئے۔ الله والوں کی صحبت کا یہ اثر تو پڑتا ہی ہے ۔ حضرت مولانا  کے ساتھ بھی کتنے واقعات ایسے ہیں کہ حضرت مولانا  کے ساتھ کچھ دن رہے اور خدمت میں بیٹھے ، پھر بیٹھنا چھوڑ دیا، ادھر ادھر ٹہلتے رہے ، اخیر میں پھر پلٹ کر وہی رنگ چڑھا او رپھر وہیں آگئے جہاں سے چلے تھے۔ یہ الله والوں کی صحبت کا اثر ہے، اس لیے عربی کا ایک شعر ہے #
        أحب الصالحین ولست منھم
        لعل الله یرزقنی صلاحاً

(میں نیک لوگوں سے محبت کرتا ہوں، چاہے ان جیسا نہ ہوں ، ہو سکتا ہے کہ اس کی برکت سے الله تعالیٰ ہم کو بھی نیکی عطا فرما دے) تو الله والوں سے محبت تو کرنی ہی چاہیے، ورنہ اصل تو یہ ہے کہ ان کی صحبت میں بیٹھیں۔ اگر صحبت میں نہیں بیٹھ سکتا توان کی کتابوں کا مطالعہ کرے، ان کی سیرت وسوانح پڑھے۔ اس کے بھی اثرات پڑتے ہیں ،ورنہ ظاہر ہے کہ صحبت کا کوئی بدل نہیں ہے۔ جس طرح بغیر صحبت کے نسل نہیں چلتی، سوائے حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت عیسی علیہ السلام کے،ویسے ہی بغیر صحبت کے یہ نسبت حاصل نہیں ہوتی، الایہ کہ الله تعالیٰ کسی کو اپنی طرف سے عطا فرما دیں، کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے ۔ اس پر سب کو قیاس نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ا لله تعالیٰ کی سنت اوراس کا طریقہ یہی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی صحبت میں رہے تو صحابہ  بن گئے او رجو صحابہ  کی صحبت میں رہے تابعین بن گئے ۔ تابعین کی صحبت میں رہے توتبع تابعین بن گئے ، وہ سلسلہ نسب چل رہا ہے ، یہ سلسلہ علم و دین بھی چل رہا ہے ۔ علامہ ابن سیرین  نے لکھا ہے کہ علم دین اس سے سیکھو جو دین دار ہو، اس لیے کہ یہ علم دین ہے ، بے دین سے نہ سیکھو ”فانظروا عمن تأخذون دینکم“ سوچ لو دین کس سے لے رہے ہو ؟کیوں کہ جب اس کی صحبت میں جاؤ گے تو اس کے اثرات پڑیں گے ،وہ دین کی باتیں تو کرتا ہے، لیکن خو داس کے خلاف ہے ۔ یہ قیامت کی علامت میں سے ہے ۔

”اذا وسد الأمر الیٰ غیر أھلہ فانتظر الساعة“ جب نااہلوں کو کام سپرد کردیے جائیں تو قیامت کا انتظار کر وکہ اہل نہیں ہے او راس کو کام دے دیا گیا۔ حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی نے ایک جگہ لکھا ہے کہ حدیث پڑھانے کا وہی اہل ہے جو سنت پر عمل کرتا ہو ۔ صرف لچھے دار تقریر کرنے والا حدیث پڑھانے کا اہل نہیں ہے۔ جو سنت پر عمل کرتا ہو وہ اہل ہے ۔ بہرحال صحبت کا اثر کہیں جاتا نہیں ہے ، اس لیے آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، اس کو سوچ لینا چاہیے کہ اس نے کس سے دوستی کی ہے ۔ کیوں کہ اثرات پڑتے ہیں اور آپ صلی الله علیہ وسلم نے بہت سی حدیثوں میں یہ بات بیان فرمائی ہے کہ آپس میں محبت کرنے والوں کے لیے میری محبت ہے ۔ ان کو جنت میں اونچا مقام ملے گا، عرش کے سایہ میں رہیں گے ۔ اس کا ایک واقعہ بھی پیش آیا ، ایک بزرگ ہیں ابو ادریس خولانی وہ دمشق کی مسجد میں داخل ہوئے، انہوں نے دیکھا کہ ایک بہت خوب صورت نوجوان جس کے دانت آب دار، چہرہ چمکتا ہوا، الله نے اسے علم سے نوازا ہے ۔ بیٹھا ہوا درس دے رہا ہے ، جہاں رائے میں اختلاف ہوتا ہے لوگ اس کی طرف رجوع کرتے ہیں کہ جناب !کیا ارشاد ہے ؟ وہ بہت متاثر ہوئے اور کہنے لگے کہ میں ان سے الگ ملوں گا، دوسرے دن وہ بہت سویرے پہنچ گئے، تاکہ اکیلے میں ملاقات ہو جائے، دیکھا تو وہ حضرت پہلے ہی آچکے تھے، نماز پڑھ رہے تھے،انہوں نے سلام پھیرا تو میں سامنے سے آیا او رمیں نے عرض کیا کہ حضرت !مجھے آپ سے محبت ہے۔ تو انہوں نے کہا واقعی! الله کے لیے محبت ہے۔ دو تین دفعہ انہوں نے پوچھا، پھر میری چادر کا کونا پکڑا ،اس کو اپنی طرف کھینچا او رکہا کہ میں تمہیں خوش خبری سناتا ہوں، میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میری محبت واجب ہو گئی آپس میں محبت کرنے والوں کے لیے، آپس میں ایک ساتھ بیٹھنے والوں کے لیے، ایک دوسرے کی زیارت کرنے والوں کے لیے اور ایک دوسرے پر خرچ کرنے والوں کے لیے ، یہ ہیں حضرت معاذ بن جبل  ،جو حرام وحلال کے سب سے زیادہ جاننے والے تھے اور الله تعالیٰ نے ان کو حسن وجمال بھی عطا فرمایا تھا کہ جب بیٹھ کر پڑھاتے تھے تو لوگ دیکھا کرتے تھے۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ اگر کسی کو کسی سے محبت ہو تو اس کو بتا بھی دے ، بتانے سے محبت میں اضافہ ہو جاتا ہے اور محبت سے توجہ ہو جاتی ہے، توجہ سے محبت کا فائدہ ہوتا ہے ۔ جب محبت سے آدمی دیکھتا ہے تو محبت بھی عجیب چیز ہے ، اس کے اثرات پڑ کر رہتے ہیں، یہاں تک کہ بعض دفعہ چہرہ میں بھی مشابہت پیدا ہو جاتی ہے ، جب آدمی کو زیادہ محبت ہو جاتی ہے کسی الله کے نیک بندہ سے تو اخیر میں اس کے چہرے پر بھی اثرات پڑنے لگتے ہیں ۔ محبت کرتے کرتے ، ساتھ رہتے رہتے۔ بعض دفعہ لوگ دھوکہ کھا جاتے ہیں کہ وہی آرہا ہے ۔ جب دو طرفہ محبت ہوتی ہے تو یہ چیز پیدا ہو جاتی ہے ۔

اہل ایمان کی صحبت کا فائدہ
آپ صلی الله علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ صحبت میں رہو تو مؤمن ہی کی رہو ”لاتصاحب الامؤمنا“ صاحب ایمان کی صحبت میں رہا کرو ۔ جو لوگ مومن نہیں اور کھلم کھلا فسق وفجور میں مبتلا رہتے ہیں، ان کی صحبت سے توحتی الامکان بچنا چاہیے۔ جیسے کہ اکثر یہ ہوتا ہے کہ لوگ دفتر میں کام کرتے ہیں ، کافروں اور مشرکین کے درمیان رہتے ہیں ۔ فسق وفجور کے اڈوں میں بیچاروں کو رہنا پڑتا ہے ۔اس طرح وہاں پر بیٹھیں کہ ہر وقت جی یہ چاہے کہ یہاں سے بھاگیں، یہ نہیں کہ وہاں طبیعت لگے، بلکہ بس مجبوراً آگئے ہیں، رزق حلال کے لیے ، اب یہاں سے بھاگنا ہے او رکسی الله والے کی صحبت میں بیٹھنا ہے تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ جب وہ ریٹائر ہوں گے تو بہت خوش ہوں گے ۔ ہمارے ایک عزیز ہیں وہ جب ریٹائر ہوئے تو اتنا خوش ہوئے کہ اب کہتے ہیں کہ جب صبح سو کر اٹھتے ہیں تو یہ خوشی ہوتی ہے کہ آفس نہیں جانا ہے، ورنہ آفس والے جب ریٹائر ہوتے ہیں تو بیچارے زندگی سے ریٹائر ہو جاتے ہیں او رچکر میں رہتے ہیں کہ کہیں سے پیسہ کمانے کاکوئی دھندہ مل جائے، پھر فاسق وفاجر کی صحبت میں جاکر بیٹھیں، اس لیے کہ دل رنگے جاتے ہیں او رپھر ویسا ہی مزاج بن جاتا ہے ۔ر شوت لیتے ہیں ، رشوت کھاتے ہیں ، رشوت کے اڈوں میں رہتے ہیں ۔ الٹی سیدھی باتیں وہاں پر ہوتی ہیں، اسی کو وہ پسند کرنے لگتے ہیں اور وہی مزاج بن جاتا ہے ۔ آدمی جیسی صحبت میں رہے گا وہی مزاج بن جائے گا۔ اسی لیے ایسی صحبت سے بچنے کی ہر وقت فکر کرنی چاہیے کہ کس طرح الله چھٹکارا دے ۔ اسی فائدہ کے لیے آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا بھی کہ تمہارا کھانا اہل تقویٰ کھائیں، اس لیے کہ اس میں بھی صحبت کا معاملہ ہے ، جب آپ کے گھر میں نیک بندے آئیں گے، اس میں آپ کو فائدہ ہو گا، وہ آپ کو دیکھیں گے، آپ ان کی صحبت میں بیٹھیں گے اور آپ کو دعا ملے گی۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایسے لوگوں کو کھلانے کی فکر ہونی چاہیے۔ اچھے لوگ ہمارے دستر خوان پر کھائیں، یہ بات بھی آج کل ختم ہو گئی ہے، بڑے بڑے عہدہ داروں کو بلایا جاتا ہے او رالٹے سیدھے لوگوں کو بلایا جاتا ہے او راگر کسی بڑے کو بلاتے بھی ہیں تو فخر اتنا کہ دوسروں سے کہیں کہ میرے یہاں فلاں فلاں آتے ہیں۔ نیت خراب کر لی، خوب سمجھ لیں کہ صحبت اخلاص کے ساتھ ہونی چاہیے او رکھانا بھی حلال کا کھلانا چاہیے۔ ایسا نہیں کہ الٹا سیدھا کھلا دے، اس کا نتیجہ اچھا نہیں ہو گا، خود جس نے کھلایا ہے اس کو بھی نقصان ہو گا اورجس نے کھایا ہے اس کو بھی نقصان ہو گا، کھانا حلال کھلانا چاہیے او راخلاص کے ساتھ کھلانا چاہیے۔

جمع کرنے کی چیز کیا ہے؟
حضرت ثوبان فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی ﴿ والذین یکنزون الذھب والفضة﴾ کہ جو لوگ سونا اور چاندی کو اکٹھا کرتے ہیں…۔ آیت کے نزول کے وقت ہم لوگ تو سفر میں تھے، بعض صحابہ نے عرض کیا آیت تو سونا اور چاندی کے بارے میں نازل ہوئی ہے، اگر ہم کو معلوم ہو جائے کہ کون سا مال اچھا ہے جس کو ہم جمع کر سکتے ہیں تو ہم وہی مال جمع کیا کریں؟ تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ سب سے افضل جمع کرنے کی چیز ایسی زبان ہے جو ذکر کرنے والی ہو، ایسا قلب ہے جو شکر کرنے والا ہو اور ایسی بیوی ہے جو ایمان میں اس کا تعاون کرنے والی ہو ، یہ ہے اچھی صحبت، اچھی بیوی ہو گی تو اچھے کام میں تعاون کرے گی ، خراب بیوی ہو گی تو آپ بھی پریشان، گھر والے بھی پریشان ، جو آج کل ہر جگہ ہو رہا ہے ۔ اس لیے کہ عورتوں کی تربیت کرتے نہیں اور لڑکی کے دل ودماغ میں وہی ساری باتیں ہوتی ہیں۔ رسم ورواج کی، پیسے کی ، تو اس کے نتیجہ میں سب پریشان۔ اس لیے آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورت سے چار چیزوں کی وجہ سے شادی کی جاتی ہے۔ مال کی وجہ سے، مال کا سب سے پہلے ذکر کیا ،آج کل دیکھ لیجیے، جہیز او رمال کہاں پر زیادہ ملے گا اسی کو ترجیح دیتے ہیں، اس لیے اس کو اول نمبر پر رکھا، دوسرے نمبر حسب کو رکھا۔ بہت اونچے خاندان کی ہے ، بڑے پیسے والے کی بیٹی ہے ،مشہور خاندان کی لڑکی ہے ، اس سے شادی کرنا چاہتے ہیں ، تیسرے یہ کہ حسن وجمال، بہت خوب صورتی دیکھ کر گھر میں لانا چاہتے ہیں اور اخیر میں بیچارہ دین آتا ہے کہ دین دار ہے تو لانا چاہیے۔

حالاں کہ آپ ا نے فرمایا:”فاظفر بذات الدین“ دین والی کو لے کر کام یاب ہو جاؤ، مزے رہیں گے۔ مال، جاہ، حسن، یہ تو ظاہری ہیں، سب ختم ہو جانے والا ہے۔ دین دار بڑی مشکل سے ملے گی، لیکن اگر مل جائے تو مزے ہی رہیں گے”تربت یداک“ ترجمہ بڑا مشکل ہے ۔ اگر محاورہ سے اس کا ترجمہ کریں اور بے ادبی نہ ہو تو یوں کہیں کہ پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑھائی میں ۔ گھر میں برکت ہی برکت رہتی ہے۔ اورپھر پورا گھر جنت کا نمونہ بن جاتا ہے ۔ نیک بیوی آگئی، پورا گھر سنور گیا اوراگر بری بیوی آگئی تو پورا گھر برباد ہو جاتا ہے ۔ اس میں بہت احتیاط کرنی چاہیے، عام طور پر لوگ پیسہ دیکھتے ہیں ،پھر کچھ نہیں دیکھتے۔ یادیکھتے ہیں، تو کسی کا چہرہ دیکھ کر قائل ہو گئے ، کسی کا خاندان دیکھ کر قائل ہو گئے ۔ یہ نہیں دیکھا کہ نماز پڑھتی ہے کہ نہیں ، عقیدہ صحیح ہے کہ نہیں ، یہ دیکھنے کی چیزیں ہیں انہیں دیکھا ہی نہیں جارہا ہے او رجو دیکھنے کی نہیں ہیں ان کو خوب دیکھا جارہا ہے۔ اس قدر دنیا کی محبت غالب آگئی کہ اچھے اچھے لوگ اس میں مبتلا ہیں۔

دنیا کی محبت ہر برائی کی جڑ ہے
حدیث میں ہے کہ :”الدنیا رأس کل خطیئة“ دنیا کی محبت ہر برائی کی جڑ ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ دنیا کی محبت نکل جائے۔ دنیا کی محبت الله تعالیٰ کے ذکر سے نکلتی ہے، اس لیے کہا گیا ہے کہ کثرت سے ذکر کرو ، ورنہ آج کل سارے دل دنیا کی محبت میں چُور ہیں اور اس کی وجہ سے پریشان ہیں۔ چاہے بوڑھا ہو، چاہے جوان ہو ،یہاں تک کہ دین دار طلبا جو فارغ ہوتے ہیں اور دین کا کام کرنا چاہتے ہیں، ان کے والدین دِکھتے ہیں دین دار، لیکن ان کے پیچھے پڑے رہتے ہیں، تم ہم کو کما کر لا کر دو، کتنے بے چارے آکر شکایت کرتے ہیں کہ ہم کیا کریں، والدین پریشان کیے ہوئے ہیں کہ زیادہ پیسہ کما کر لاؤ؟ ہم نہیں جانتے کہ کہاں سے لاؤ، ہم کو پیسہ چاہیے اور اسی لیے کتنے لوگ پڑھاتے ہی نہیں، جو لوگ جاہل ہیں یا معمولی کاشت کار ہیں وہ تو بیچارے کسی کام کے نہیں ، نہ روٹی ملتی ہے، نہ دین ملتا ہے ، بھینس چرانے میں لگا دیا، کسی معمولی کام پر بیٹھا دیا، 15 روپے دن بھر میں لاکر دیتا ہے، بس! اسی میں خوش ہیں۔ جب دنیاکی محبت دل ودماغ پر چھا جاتی ہے تو پھر بڑے ہوں یا چھوٹے، بس معاملہ یہ ہوتا ہے کہ روئیے کا فرق ہوتا ہے۔ ایک بڑے عالم دین نے ایک مرتبہ کہا۔ ہم گومتی کے پل پر کھڑے ہوتے تھے ، ہمارے ایک بزرگ آئے ،انہوں نے کہا کہ دیکھو یہ آدمی جارہے ہیں، یہ کس چیز سے جارہا ہے ؟ سائیکل سے ، یہ کون ہے ؟ آدمی ہے ۔ دوسرا موٹر سائیکل سے گزرا تو وہ کہتے رہے کہ نہیں یہ دو روپیہ جارہا ہے، یہ پانچ روپیہ جارہا ہے ، یہ دس روپیہ جارہا ہے، بعض پانچ میں خوش ہیں بعض دس میں خوش ہیں ، بعض دس ہزار میں خوش ہیں ، انہیں دس لاکھ چاہیے، لیکن فکر ایک ہی ہے، چاہے بڑے سے بڑا سیٹھ ہو یا معمولی درجہ کا بیڑی پینے والا آدمی ہو، سب کا دل دوماغ بس ڈوبا ہوا ہے پیسے میں ۔ اسی لیے آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ دین میں اپنے سے اوپر والے کو دیکھو اور دنیا میں اپنے سے نیچے والے کو دیکھو، اگر دنیا کے بارے میں اپنے سے اوپر والے کو دیکھو گے تو الله تعالیٰ کی نعمت کی ناقدری کرو گے۔ اکثر معاملہ الٹا ہے ۔ دین میں تو نیچے والے کو دیکھتے ہیں ، ارے وہ بھی تو نماز نہیں پڑھتے ، وہ بھی تو تراویح نہیں پڑھتے ۔ ارے! وہ نہیں پڑھتے تو تم پڑھو، اس میں اپنے سے نیچے والے کو دیکھیں گے اور دنیا کے معاملہ میں اوپر والے کو دیکھیں گے کہ فلاں موٹر سے چل رہا ہے ، اس کا گھر بن گیا ہے اور آپ ابھی تک کوٹھری میں رہ رہے ہیں ، اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ خود بھی پریشان اور دوسرے بھی پریشان ،اس طرح ہر وقت پریشان رہے گا اور نہ جانے کن کن امراض میں مبتلا رہے گا۔ اس لیے اچھوں کی صحبت میں جب آدمی رہتا ہے تو اس کا دل اچھا ہو جاتا ہے ۔ دنیا کی محبت نکل جاتی ہے اور الله والا وہی ہیجس کے دل میں دنیا کی محبت نہ ہو ۔ یہ الله والوں کی نشانی ہے ۔ جھوٹ نہ بولتا ہو ، نماز کی پابندی کرتا ہو ، یہ موٹی موٹی علامات ہیں ،اس لیے پہچاننا آسان ہے ۔ سب سے پہلے دیکھ لیں کہ جھوٹ تو نہیں بولتا ، نماز کی پابندی کرتا ہے اور تیسری چیز اپنی خواہش کے چکر میں تو نہیں پڑا رہتا ہے ۔ کھانا ، کپڑا ، پیسہ۔ بس اسی کی فکر یا شہرت و نام وری کی ۔ الله کے جو نیک بندے ہوتے ہیں ان کو پیسہ کی پروا نہیں ہوتی، سونے کا ڈلا اور مٹی کا ٹھیکرا دونوں برابر ہو جاتے ہیں ۔ پیسہ ان کے پاس آتا ہے، لیکن سب بانٹ دیتے ہیں ،نہ شہرت کے لیے بھاگتے ہیں ،نہ نام وری کی ترکیبیں کرتے ہیں۔ بس الله کے نیک بندوں کی صحبت کی فکر کرنی چاہیے۔

اور اسی صحبت کی برکتوں کے لیے ہمارا پورا نظام اجتماعیت کے ساتھ مربوط کر دیا گیا ہے، کیوں کہ اجتماع میں ہر شخص کو دوسرے سے فائدہ پہنچتا ہے ، اس اجتماعیت کی ایک اچھی شکل نماز باجماعت ہے، سب نماز پڑھنے والے ہیں ، سب ماشاء الله ، الله والے ہیں ،اس کا فائدہ ایک دوسرے کو پہنچتا ہے۔ نماز سب ساتھ میں پڑھتے ہیں، اس میں صحبت کا فائدہ ہوتا ہے او راسی طرح جب حج کرتے ہیں تو ایک ساتھ رہنے کا فائدہ ہوتا ہے ، اسی لیے ہماری ہر چیز اجتماعیت کے ساتھ رکھی گئی ہے ۔ روزہ ایک ساتھ رکھنا ہے ،اسی طرح ایک ساتھ رہنے کا حکم ہے، جب اچھے لوگوں کے ساتھ ہم ملیں گے، چلیں گے تو ہمارے اندر بھی اچھائی پیدا ہو گی ۔ الله تعالیٰ ہم سب کو صحیح صحبت عطا فرمائے۔
Flag Counter