Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق صفر المظفر 1433ھ

ہ رسالہ

5 - 15
ضرورت عمرؓ کی مگر آج بھی ہے
محترم عبدالعلی فاروقی

قیصر روم کے قاصد کے ذہن ودماغ میں اس شخص کا کیا خاکہ ہو گا جس کے نام کی ہیبت سے سپر پاور روم میں زلزلے آرہے تھے، وہ کہ جس نے اپنی فقیرانہ اداؤں، پیوند لگے کپڑوں اور عیش وعشرت کے تصور سے بے نیاز کھر دری زندگی کے ذریعہ وقت کے فرعونوں کی نیندیں حرام کر رکھی تھیں، وہ نبی صلی الله علیہ وسلم کی دعائے مستجاب کا ثمرہ، مطلوب نبی اور مراد نبی… یعنی عمر بن خطاب!

جی ہاں! ان ہی عمر بن خطاب کے پاس قیصر روم نے اپنا قاصد وسفیر بھیجا، قاصد کی نظروں میں اپنے شاہ کے ٹھاٹ باٹ تھے، اس کی چشم تصور میں شاہی محل اورخدمت گزاروں کی ایک فوج تھی، اس نے تو یہ سوچا بھی نہ تھا کہ سپر پاور کی راتوں کی نیندیں حرام کر دینے اوراپنی ہیبت ورعب سے اپنے دین کے دشمنوں پر زلزلے طاری کر دینے والی شخصیت اسے اس طرح یکہ وتنہا کسی حفاظتی بند وبست اور سیکورٹی گارڈ کے بغیر مل جائے گی۔

قاصد نے امیر المؤمنین سے ملاقات کے لیے ان کے ”محل“ کا پتہ پوچھا تو اسے بتایا گیا کہ وہ کسی محل میں نہیں، بلکہ جنگل میں ہیں ۔ قاصد جنگل پہنچا تو یہ دیکھ کر حیرت زدہ رہ گیا کہ وہعمر جن کے نام کی ہیبت سے عرب وعجم تھرارہے ہیں ، وہ تو جنگل کی خاک پراپنے سر کے نیچے درہ رکھے چین کی نیند سو رہے ہیں ؟ اول اول قاصد کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا اور وہ دریائے حیرت میں ڈوب کر اپنے گردوپیش کا جائزہ لیتا رہا … پھر جب اس کے حواس بحال ہوئے تو اسے سوجھی کہ اب جب کہ انہیں اکیلے میں اور وہ بھی سوتے ہوئے پالیا ہے تو کیوں نہ ان کا کام تمام کر دیا جائے اورپھر جوں ہی وہ تلوار اٹھا کر قتل کے ارادے سے آگے بڑھا، اسے اپنی طرف دو شیر غضب ناک تیوروں کے ساتھ بڑھتے ہوئے نظر آئے اور خوف ودہشت کی وجہ سے تلوار اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر گر گئی، اس آہٹ سے حضرت عمر کی آنکھ کھل گئی اورانہوں نے بس یہ دیکھا کہ ایک حواس باختہ شخص ان کے قریب کھڑا تھر تھرا رہا ہے اوراس کی تلوار زمین پر پڑی ہوئی ہے ۔ حضرت عمر نے کسی خوف ودہشت کے بغیر اس شخص سے ماجرا پوچھا تو اس نے اپنے اوراپنے آنے کے بارے میں تفصیل سے بتا کر اپنی بدنیتی اوراس کے انجام کا حال بیان کرتے ہوئے نہ صرف اپنی ندامت کا اظہار کیا ، بلکہ اس دین حق کو قبول کرکے اسی وقت مسلمان بھی ہو گیا۔ جس نے عمر کو دنیا سے نہ صرف بے رغبت وبے خوف بنا دیا تھا، بلکہ ایسا بے پناہ بھی بنا دیا تھاکہ شاہوں کے تاج ان کے زیر قدم آگئے تھے۔

شاہ روم کے قاصد کے لیے بھلے ہی یہ ایک حیرت ناک منظر رہا ہو، جس نے اس کے لیے ہدایت کے دروازے کھول دیے ، لیکن امیر المومنین عمر بن خطاب کے لیے نہ یہ کوئی نیا اور نرالہ معاملہ تھا، نہ ہی ان کے لیے اس میں کوئی سامان حیرت تھا۔ وہ شیر تو پھر جان دار تھے جو امیر المومنین عمر کی حفاظت کے لیے آگے بڑھے تھے، انہیں شیروں کے اس اقدام پر کیا تعجب ہوتا ، جب کہ ان کا یقین کامل تو یہ تھا کہ #
        جو نبی کے غلام ہوتے ہیں
        دوجہاں کے امام ہوتے ہیں

اور اسی یقین کا یہ کرشمہ تھا کہ جب زمین میں زلزلہ آیا تو انہوں نے کسی خوف وخطر کے بغیر بس زمین پر اپنا درہ مارتے ہوئے اسے پھٹکار لگائی کہ:

”ٹھہر جا! کیا میں نے تجھ پر انصاف نہیں کیا؟“ اورحکم پاتے ہی زمین ساکت ہو گئی … کیسا زلزلہ اورکہاں کا زلزلہ؟ اور جب مدینہ طیبہ کے چند گھروں میں آگ لگنے کی انہیں اطلاع ملی تو آ گ بجھانے کا کوئی روایتی طریقہ اختیار کرنے کے بجائے صرف یہ کیا کہ ایک کپڑا لے کر اس پر لکھ دیا کہ :

”اے آگ ! تو اس رب کے حکم سے بجھ جا ،جس کی میں نے بندگی اختیار کی ہے“ اورحکم دیا کہ اس کپڑے کو لپٹیں مارتی آگ میں ڈال دیا جائے۔

اور جوں ہی الله کے سچے بندے اورالله کے نبی صلی الله علیہ وسلم کے وفا دار غلام عمر کا یہ حکم نامہ آگ میں ڈالا گیا، آگ فوراً سرد ہو گئی اورمکانات جلنے سے بچ گئے۔

اور اگر ” کرامات عمر“ ہی کا حال جاننا ہو تو اس واقعہ کی طرف بھی نظر کیجیے کہ ایک شخص سے آپ نے اس کا نام پوچھا، اس نے کہا میرا نام جمرہ (انگارا) ہے۔ پوچھا تمہارے باپ کا کیا نام ہے ؟ اس نے کہا میرے باپ کا نام شہاب ( شعلہ) ہے ۔ دریافت فرمایا کہ کس قبیلہ سے تعلق ہے ؟ اس نے بتایا کہ حرقہ ( سوزش) سے۔ پوچھا وطن کیاہے ؟ جواب ملاحرہ ( گرمی والا) ہے۔ فرمایا کس محلہ میں ؟ عرض کیا ذات لظیٰ ( لپٹ والے)… اس سوال وجواب کے بعد حضرت عمر نے اس شخص سے کہا: بہت جلد اپنے گھر والوں کے پاس پہنچو، کیوں کہ وہ سب جل چکے ہیں۔ وہ بھاگا دوڑا پہنچا تو گھرا ور گھر والوں کا وہی حال دیکھا، جو ایک مرد مومن نے پہلے ہی بیان کر دیا تھا۔

اور حضرت ساریہ کے ساتھ پیش آنے والا وہ واقعہ تو بے حد مشہور ہے کہ امیر المومنین عمر بن خطاب کے حکم سے حضرت ساریہ اپنے لشکر کے ساتھ ایک زبردست فوجی مہم پر دارلخلافہ مدینہ طیبہ سے سینکڑوں میل کی دوری پر میدان جنگ میں تھے کہ اچانک ان کے کانوں میں امیرالمومنین کی پر رعب وپرجلال آواز پہنچی : یا ساریةُ، الجبلَ ( اے ساریہ ! پہاڑ کی طرف) اور جب ساریہ  نے گھبرا کر گردوپیش کا جائزہ لیا تو انہیں پتہ چلا کہ ان کے پورے لشکر کو دشمن کی فوج نے تین طرف سے گھیر لیا ہے اور بچنے کا صرف وہی ایک راستہ بچا ہے جس کی را ہ نمائی امیر المومنین عمر بن خطاب نے کی ہے ۔ ساریہ نے فیصلہ کرنے میں نہ تاخیر کی، نہ غلطی ، بس فوراً اپنے لشکر کو لے کر پہاڑ پر چڑھ گئے اور لشکر کو منظم کرکے دشمن پر ایسا کاری حملہ کیا کہ اس کا سارا منصوبہ دھرا کا دھرا رہ گیا اور وہ شکشت کھا کر راہ فرار، اختیار کرنے پر مجبور ہو گیا۔

وقتی طور پر ایک بڑا مرحلہ تو طے پا گیا۔ فوجی مہم کام یاب ہوئی اور حضرت ساریہ  شاداں وفرحاں اپنے لشکر کے ساتھ فتح وظفر کے پھریرے اڑاتے ہوئے مدینہ طیبہ بھی پہنچ گئے ۔ لیکن ان کے لیے امیر المومنین کی وہ صدا ”یا ساریةُ، الجبلَ“ پر اسرار ہی بنی رہی ،جس نے ان کے کانوں سے ٹکرا کر جنگ کا نقشہ پلٹوا دیا تھا۔ ان کے لیے بجا طور پر حیرت کی بات یہ تھی کہ امیر المومنین عمر بن خطاب  تو میدان جنگ سے سینکڑوں میل کی دوری پر مدینہ طیبہ میں ہیں ، پھر کیوں کر ہمارے دشمن کے نرغہ میں گھر جانے کا انہیں علم ہوا؟ اورکس طرح انہوں نے ہمیں آگاہ کرنے کے لیے صدا لگائی اورپھر وہ صدائے آگہی بالکل ٹھیک وقت پر میرے کانوں تک پہنچ بھی گئی؟ اگر یہ سب کچھ بر وقت نہ ہوتا تو انجام جنگ کیا ہوتا؟ دوسری طرف دارالخلافہ مدینہ طیبہ کے لوگ بھی اس وقت حیرت زدہ ہو کر ایک دوسرے کا منھ تکتے رہ گئے تھے جب مسجد نبوی کے منبر پر خطبہ دیتے دیتے اچانک ہی امیر المومنین عمر بن خطاب نے پوری قوت کے ساتھ تین مرتبہ یا ساریةُالجبلکی صدا لگائی تھی۔ تمام حاضرین بھونچکا اور حیرت زدہ تھے کہ امیر المومنین جس ساریہ کو مخاطب کر رہے ہیں وہ یہاں کہاں؟ سوالات ابھرے، ایک دوسرے سے حیرتوں کے تبادلے بھی ہوئے، مگر کس کی مجال تھی کہ امیر المومنین سے اس ” شترگربہ“ کے سلسلہ میں اپنااعتراض جتا کر یہ پوچھتا کہ خطبہ کے دوران یہ ” بے ربط صدا“ کیوں اوراس کی وجہ جواز کیا؟

اس پورے راز سے پردہ تو اس وقت ہٹا جب حضرت ساریہ نے مدینہ طیبہ واپس آکر اپنے لشکر کی فتح اور اس فتح کی شاہ کلید اس ” صدائے عمر“ کا حال بتایا۔ اور پھر سب کو اپنے امیر وقائد عمر بن خطاب کی اس ” نئی کرامت“ کا حال بھی معلوم ہوا اوریہ کرامت تاریخ کے ریکارڈ میں آکر رہی کہ #

الله الله! یہ اعجاز روحانیت

نظم حکمت میں آیا یکایک خلل

”مرد مومن“ نے منبر پہ جب یہ کہا

ساریہ ساریہ! الجبل الجبل

ٹی وی، انٹرنیٹ اور وائرلیس کے تصور سے نا آشنا دور میں بات صرف کرامتوں کے اظہار کی نہیں ہے۔ بلکہ بات اس ” چشمہ کرامات“ تک رسائی اوراس سے فیض یابی کی ہے ،جسے ایمان بالله اورایمان بالرسول کے نام سے یاد کیا جاسکتا ہے اورجس نے عشق رسول کے سانچے میں ڈھل کر خالق سے ایسا رشتہ جوڑا تھا کہ انسان ہی نہیں ، شجر وحجر، بحر وبر اور ہوا وفضا تک ساری ہی مخلوق کو اپنی تابع داری پر مجبور کر دیا تھا #

سلام ہو عبدیت وطاعت کے ان روشن میناروں کو

سلام ہو مہر ووفا کی ایک نئی تاریخ رقم کرنے والوں کو

رضی الله عنہم وارضاہ․
Flag Counter