Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق صفر المظفر 1432ھ

ہ رسالہ

8 - 17
 کیا فرماتے ہیں علمائے دین؟
	

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

نماز میں ہاتھ کہاں باندھے جائیں؟
سوال… دوران نماززیر ناف ہاتھ باندھنے کے بارے میں ایک مولانا سے دوران وعظ یہ بات سنی کہ امام ابوحنیفہ رحمہ الله کی ایک روایت یہ بھی ہے کہ ”اگر آدھا ہاتھ ناف سے نیچے اور آدھا ہاتھ ناف سے اوپر باندھ لیا جائے تو باندھنے والی دونوں قسم کی احادیث پر عمل ہو جائے گا“ جب مفتی صاحب سے اس روایت کے بارے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ اس وقت میرے علم میں نہیں ہے کہ کہاں ہے، البتہ اگر تم اس کی تصدیق چاہتے ہو تو دارالافتاء سے رابطہ کرکے پوچھ لو ، چناں چہ اس سلسلے میں آنجناب سے رابطہ کر رہا ہوں، آپ حضرات اس بارے میں راہ نمائی فرمائیں کہ اس طرح کرنے سے سنت طریقے پر عمل ہو جائے گا کیوں کہ ذہن میں یہ بات اٹھتی ہے کہ اس طرح تو کسی ایک حدیث پر بھی عمل نہیں ہو گا، کیوں کہ ایک حدیث ناف سے نیچے کی ہے اور دوسری حدیث ناف سے اوپر کی اور اس صورت پر عمل کرنے میں ہاتھ نہ تو ناف سے اوپر ہے او رنہ ناف سے نیچے۔

نیزیہ بات بھی سنی کہ ناف سے نیچے ہاتھ باندھنے والی احادیث بنسبت ناف سے اوپر باندھنے والی احادیث کے ضعیف ہیں، صحیح مسئلے کی طرف نشا ن دہی فرمائیں۔

جواب…آدھا ہاتھ ناف سے نیچے اور آدھا ہاتھ ناف سے اوپر باندھنے کے متعلق امام ابوحنیفہ رحمہ الله کا کوئی قول یا روایت تلاش بسیار کے باوجود نہیں ملی۔

واضح رہے کہ نماز میں ناف سے اوپر اور ناف سے نیچے ہاتھ باندھنے کے متعلق دونوں طرح کی روایات موجود ہیں، اکثر روایات میں ناف سے نیچے ہاتھ باندھنے کا ذکر ہے جب کہ کچھ روایات ناف سے اوپر ہاتھ باندھنے کے متعلق بھی موجود ہیں، اسی بنا پر امام ترمذی رحمہ الله نے ناف سے نیچے او راوپر دونوں جگہ ہاتھ باندھنے کو جائز قرار دیا ہے۔

ناف سے نیچے ہاتھ باندھنے کے متعلق کئی صحابہ کرام اور تابعین عظام کی روایات اور اقوال موجود ہیں چناں چہ حضرت علی رضی الله عنہ کی روایت ”ان من سنة الصلاة وضع الیمین علی الشمال تحت السرة“ الفاظ کے ردوبدل کے ساتھ ابو داؤد، السنن الکبری للبیہقی، مسند احمد، مصنف بن ابی شیبہ، دارقطنی میں مذکور ہے اور حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ کی روایت السنن الکبری للبیہقی میں حضرت وائل بن حجر رضی الله عنہ کی روایت اور حضرت ابو مجلز، ابراہیم نخعی رحمہما الله کی روایات مصنف بن ابی شیبہ میں مذکور ہیں مذکورہ بالاسب حضرات کی روایتوں میں ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کی صراحت موجود ہے۔

جب کہ ناف کے اوپر ہاتھ باندھنے کے متعلق حضرت علی رضی الله عنہ کا فعل اور دیگر روایات کتب حدیث میں وارد ہیں ، لیکن ان کے مقابلے میں ناف سے نیچے ہاتھ باندھنے کے متعلق وارد ہونے والی روایات کو ترجیح حاصل ہے ۔

جیسا کہ إعلاء السنن میں ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کے بارے میں حضرت علی رضی الله عنہ کی قولی روایت ہے اور سینے پر ہاتھ باندھنے ( کے متعلق وارد ہونے ) والی تمام روایات فعلی ہیں او رحضرت علی رضی الله عنہ کی روایت میں ناف سے نیچے ہاتھ باندھنے کو سنت سے تعبیر کیا ہے۔

جب کہ اس کے علاوہ ناف سے اوپر سینے پر ہاتھ باندھنے کے متعلق روایات ایسے افعال پر مبنی ہیں جن سے ان کا عمومی ہونا اور آپ صلی الله علیہ وسلم کا اس فعل پر مواظبت اور پابندی کرنا معلوم نہیں ہوتا، اس کے علاوہ قیاساً بھی ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کو ترجیح حاصل ہے، اس لیے کہ تعظیم کے وقت ناف کے نیچے ہاتھ باندھے جاتے ہیں۔

بعض حضرات نے ان روایات پر کلام کیا ہے جن میں ناف سے نیچے ہاتھ باندھنے کا ذکر ہے ، لیکن محدثین کرام اور فقہاء عظام نے ان کے اعتراضات کے جوابات دیے ہیں۔

جیسا کہ حضرت علی رضی الله عنہ کی روایت ( جس میں ناف سے نیچے ہاتھ باندھنے کو سنت سے تعبیر کیا ہے ) مسند احمد میں موجود ہے اور بعض حضرات نے اس پر کلام کیا ہے ، لیکن کنز العمال کے خطبہ میں ذکر کیا گیا ہے کہ مسند احمد میں جو روایت بھی ہو وہ مقبول ہے ، اس لیے کہ مسند احمد میں جو ضعیف روایت بھی ہو وہ بھی حسن کے درجہ میں ہوتی ہے اور حافظ ابن حجر رحمہ الله نے اپنی کتاب تجرید زوائد مسند بزار میں لکھا ہے کہ جو روایت مسند احمد میں مذکور ہو اس کو کسی دوسری کتاب کی طرف مسنوب کرنے کی حاجت نہیں۔

اس کے علاوہ حضرت علی رضی الله عنہ کی روایت کئی کتب حدیث (جو اوپر ذکر کی گئی ہیں) میں مذکور ہے یہ بھی حدیث کے قوی ہونے کی علامت ہے او رحضرت ابو ہریرہ، حضرت انس، حضرت عائشہ، حضرت وائل بن حجر رضی الله عنہم کی روایت سے بھی حضرت علی رضی الله عنہ کی روایت کو تائید حاصل ہوتی ہے اور خود حضرت علی رضی الله عنہ کی روایت کئی اسناد سے مروی ہے ، جو کہ حدیث کے قوی ہونے کی علامت ہے ۔

لہٰذا ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کے سلسلے میں وارد ہونے والی روایات ناف سے اوپر اور سینے پر ہاتھ باندھنے کے متعلق وارد ہونے والی روایات کی بنسبت قوی ہیں اور انہی پر عمل کرنا اولیٰ ہے۔

مسبوق کا امام کے ساتھ سجدہ کے لیے سلام پھیرنا
سوال… کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اس سے پہلے تو ہم اس طرح نماز پڑھتے ہوئے آئے ہیں کہ مسبوق یعنی مقتدی سے کچھ رکعتیں جماعت سے چھوٹنے کی صورت میں امام جب سجدہ سہو کا سلام پھیرتا تو ہم بھی سلام پھیرتے تھے اور یہ سمجھ کر کہ امام کی اقتداء میں ہیں سلام پھیرنے سے کوئی اثر نہیں پڑتا، پھر کئی مرتبہ اس طرح بھی ہوا کہ مسبوق ہونے کے باوجود ہم نے امام کے آخری سلام کے ساتھ سلام پھیرا اور بغیر سجدہ سہو کیے بقیہ نماز پوری کر لی ، لیکن ابھی یہ معلوم ہوا کہ سجدہ سہو کے وقت جان بوجھ کر سلام پھیرنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے او راگر بھول کر سلام پھیر لیاتو سجدہ سہو واجب ہو گا۔

تو اب ہمارے لیے کیا حکم ہے ؟ اگر مسئلہ معلوم نہ تھا اور ہم سلام پھیرتے رہے کیا پھر بھی نماز فاسد ہو گی ؟جب کہ سجدہ سہو کے سلام کے وقت تو ہم امام کی اقتداء میں ہوتے ہیں تو کیا پھر بھی ہماری نماز فاسد ہو گی۔

جواب… واضح رہے کہ مسبوق پر سجدہ سہو کے ”سجدوں“ میں امام کی اتباع ضروری ہے لیکن ”سلام“ میں اتباع جائز نہیں، نیز عمداً سلام پھیرنے کی وجہ سے نماز فاسد ہو جاتی ہے اگرچہ امام کی اقتداء میں ہو او ربھول کر امام کے بعد سلام پھیرنے پر سجدہ سہو لازم ہو جاتا ہے ، لہٰذا مسبوق نے قصداً وعمداً یعنی یہ یاد ہونے کے باوجود کہ میں نے بقیہ نماز ( رکعتیں) پڑھنی ہیں ، امام کے ساتھ سجدہ سہو کا سلام پھیرا تو اس کی نماز فاسد ہو جائے گی ، اگر بھول کر سہواً سلام پھیرا تو نماز فاسد نہ ہو گی، نیز اگر مسئلہ معلوم نہ تھا لیکن اپنا مسبوق ہونا یاد تھا اور سلام پھیر دیا تو اس صورت میں بھی نماز فاسد ہو جائے گی۔

مسبوق نے عام سلام میں امام کے ساتھ عمداً سلام پھیر دیا تو بھی نماز فاسد ہو جائے گی ، البتہ بھول کر اگر امام کے لفظ”السلام“ کے میم کے ساتھ یا اس سے پہلے سلام پھیرا ہے تو نماز فاسد نہیں ہو گی بقیہ نماز پوری کر لے ، سجدہ سہو بھی واجب نہیں ، کیوں کہ اس کا سہو( غلطی) امام کی اقتدا سے خارج ہونے سے پہلے یعنی مقتدی کی حیثیت سے ہوا ہے۔

اگر امام کے لفظ”السلام“ کے بعد سلام پھیرا ہے، عموماً امام کے بعد ہی سلام پھیرا جاتا ہے تو سجدہ سہو واجب ہو گا، کیوں کہ جب امام نے ”السلام“ کہا تو نماز سے خارج ہو گیا اور مقتدی بھی اس کی اقتدا سے نکل کر منفرد کے حکم میں ہو گیا تو اس کے سلام پھیرنے پر سجدہ سہو واجب ہو گا۔

تبلیغی جماعتیں ایام تشکیل میں قصر کریں یا اتمام؟
سوال… کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ رائیونڈ مرکز سے تبلیغی جماعتوں کا مسلسل خروج ہوتا ہے ، وہاں سے مختلف شہروں میں تشکیل ہوتی ہے ، جس کی مختلف صورتیں پیش آتی ہیں، جو ذیل میں ذکر کی جاتی ہیں، ان سب کا تفصیلی حکم مطلوب ہے ، براہ کرم جلد جواب مرحمت فرما کر ممنون فرمائیں:

(الف)… مثلاً25 دن کی تشکیل کراچی شہر ہوئی ، تو رخ والی پرچی پر لکھا ہوتا ہے کہ مکی مسجد ( تبلیغی مرکز، کراچی) کے ذمہ دار احباب سے رُخ لے کر کام کریں ، پھر کراچی والے ہر ہفتے کی الگ الگ تشکیل کرتے ہیں ، کبھی یہ تشکیل شہر کے ایک ٹاؤن یا کالونی وغیرہ کی ہوتی ہے اور کبھی کراچی والے تشکیل کراچی کے دیہاتوں میں کر دیتے ہیں ، ایک ہفتے کے بعد یہ جماعتیں واپس مرکز تشریف لاتی ہیں اور نیا رُخ لے کر کام کرتی ہیں اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ پورے 25 دن کا رُخ شہر کی مختلف کالونیوں، یا صرف دیہاتوں یا کچھ دن شہر او رکچھ دن دیہاتوں کا رُخ دے کر بھیج دیتے ہیں۔

(ب)… 15 دن سے زائد کی تشکیل رائیونڈ مرکز سے ہوتی ہے اور پرچی پر لکھا ہوتا ہے کہ صرف شہر میں کام کریں۔

(ج)… 15 دن سے زائد کی تشکیل رائیونڈ مرکز سے ہوتی ہے اور پرچی پر 5 یا 6 بستیوں کے نام لکھے ہوتے ہیں ، بستیوں کی عام طور پر نوعیت یہ ہوتیہے کہ ایک ایک قبیلے یا خاندان نے اپنا کنبہ الگ بسایا ہوتا ہے وہاں مسجد بنائی ہوتی ہے ، اس کا الگ نام اہل علاقہ میں معروف ہوتا ہے ، ہر بستی میں دو یا تین دن کام کرکے اگلی بستی میں جاتے ہیں۔

نیز! کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہ مقامات الگ الگ ناموں سے بھی معروف ہوتے ہیں ، لیکن حقیقت میں اس علاقے میں ان تمام کو ایک شمار کیا جاتا ہے ۔

(د)…15 دن سے زائد کی تشکیل رائیونڈ مرکز سے ہوتی ہے اور پرچی پر شہر کی ہی مختلف مساجد کے نام لکھے ہوتے ہیں ، عام ہے کہ یہ مساجد ایک ہی محلے کی ہوں یا مختلف محلوں کی۔

اب ان تمام صورتوں میں نماز کے احکام بیان کریں کہ جماعت والے اپنی نماز ادا کرنے کی صورت میں قصر کریں گے یا اتمام؟

مسافر اگر قصداً یا نسیاناً پوری نماز ادا کر لے اور سجدہ سہو بھی ادا نہ کرے توکیا حکم ہے؟

جواب…(الف) رائیونڈ مرکز سے جماعت کی تشکیل مذکورہ صورت کے ساتھ ہوئی ہو تو اگر جماعت والوں کو اس بات کا علم ہو کہ ان کی تشکیل کراچی کی حدود ہی میں پندرہ دن یا اس سے زیادہ دن کی ہو گی ، یا کراچی کی حدود سے باہر ایک ہی مقام پر پندرہ دن یا زیادہ دنوں کی تشکیل ہو گی تو اس صورت میں جماعت والے اتمام کریں گے۔

البتہ اگر ان کو علم نہ ہو ( کہ ان کی تشکیل کراچی کے اندر یا باہر ایک مقام پر ہو گی ) تو چوں کہ اب یہ بھی ممکن ہے کہ ان کی تشکیل کراچی کی حدود کے اندر ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان کی تشکیل ایسے دیہات میں ہو جوکراچی کی حدود سے باہر ہو اور کراچی سے الگ مستقل حیثیت رکھتا ہو ، لہٰذا اس صورت میں ان کی جہاں بھی تشکیل ہو جائے تو وہ قصر کریں گے ، اس لیے کہ جہاں بھی ان کی تشکیل ہو گی تو وہاں ان کا ایک ہفتہ ٹھہرنا تو متعین ہے ، اس سے زیادہ ٹھہرنے کا یقین نہیں ، بلکہ یہ عین ممکن ہے کہ اگلے ہفتے تشکیل کہیں اور ہو جائے جو کراچی کی حدودکے اندر ہو یا باہر ہو۔

خلاصہ یہ کہ چوں کہ ( علم نہ ہونے کی) صورت میں ایک ہی مقام پر پندرہ دن یا اس سے زیادہ ٹھہرنے کا قصد متحقق نہیں ہو رہا، اس لیے جماعت والے قصر کریں گے۔

(ب)… مذکورہ صورت میں بھی چوں کہ جماعت والوں کو پندرہ دن سے زائد ایام ایک جگہ پر گزارنے ہیں اس لیے اس صورت میں بھی وہ اتمام کریں گے ۔

(ج)… اس صورت میں دیکھاجائے گا کہ ان بستیوں میں سے ہر ایک الگ الگ ہے ( مثلا: ان کے درمیان کھیتی کی زمینیں ہیں یا ان کے درمیان کا فاصلہ 137.16 میٹر ہے) یا سب ایک ہیں ، اگر سب بستیاں مل کر ایک شمار ہوتی ہیں تو ان بستیوں میں جماعت والے اتمام کریں گے او راگر ان بستیوں میں سے ہر ایک الگ الگ مستقل حیثیت رکھتی ہو ، تو جماعت والے اس میں قصر کریں گے۔

(د)… اس صورت میں بھی اتمام کیا جائے گا، کیوں کہ یہ سب مسجدیں ایک جگہ کی ہیں ، الگ الگ نہیں۔

نوٹ: جماعت والوں کو چاہیے کہ ابتداء میں ہی تشکیل والوں سے اپنی مکمل تشکیل کی صورت دریافت کر لیں تاکہ متعین صورت کے مطابق احکامات پر عمل کرنا بسہولت ممکن ہو سکے۔

مسافراگر قصداً اتمام کرے تو اس کی نماز واجب الاعادہ ہے ، چاہے سجدہ سہو کرے یا نہ کرے، اس کے علاوہ وہ گناہ گار بھی ہو گا او راگر اتمام سہواًکرتا ہے تو سجدہ سہو نہ کرنے کی صورت میں نمازکا اعاد کرنا واجب ہے۔

دینی تعلیم کے لیے والدین اجازت نہ دیں تو کیا کیا جائے
سوال… میں چاہتاہوں کہ میں دینی تعلیم حاصل کروں مگر میرے والد مجھے نہیں چھوڑ رہے اب میں کیا کروں؟ وہ تو مجھے داڑھی رکھنے سے بھی منع کر رہے ہیں کیا گھر سے بھاگ کر جانا جائز ہے اس موقع پر؟

جواب… اگر آپ کے والدین خدمت کے محتاج ہوں اور آپ کے علاوہ کوئی او ران کی خدمت کرنے والا نہ ہو تو آپ کے لیے ان کی اجازت کے بغیر گھر سے بھاگ کر جانا جائز نہیں اور اگر والدین خدمت کے محتاج نہیں ، تو والدین کی اجازت کے بغیر بھی جانے کی گنجائش ہے ، بشرطیکہ مثلاً ہلاکت کا خوف نہ ہو البتہ بہتر یہ ہے کہ والدین کو کسی طرح ادب واحترام سے راضی کرکے ان کی اجازت سے جائیں۔

واضح رہے کہ گناہ کے کام میں کسی کی فرماں برداری جائز نہیں خواہ وہ والدین ہی کیوں نہ ہوں، لہٰذا اگر آپ کے والدین آپ کو کسی شرعی حکم پر عمل کرنے سے روکیں تو آپ کے لیے اس معاملہ میں ان کی فرماں برداری جائز نہ ہو گی ، لیکن اس صورت میں بھی ان کا ادب واحترام ضروری ہے۔
Flag Counter