حجاب اور تعلیمات نبوی صلی الله علیہ وسلم
محترم فضل الرحمن
پردہ اور احادیث نبوی صلی الله علیہ وسلم
پردے کے بارے میں قرآنی آیات کے بعد بعض احادیث پیش کی جاتی ہیں ، جن سے پردے کے اسلامی تصور پر روشنی پڑتی ہے۔
* …حضرت ام سلمہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ جب رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ازارکا ذکر فرمایا تو انہوں نے پوچھا کہ اے الله کے رسول (صلی الله علیہ وسلم)! عورت کے لیے کیا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا عورت ایک بالشت لٹکالے۔ حضرت ام سلمہ نے عرض کیا ایسی صورت میں تو اس کے پاؤں نظر آئیں گے ، آپ نے فرمایا تو پھر اسے چاہیے کہ وہ ایک ہاتھ کی مقدار تک چادر لٹکالے۔
اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جب گھر سے باہر نکلتے وقت عورت کے لیے پاؤں چھپانے کا اتنا اہتمام ہے تو چہرہ چھپانے کا کتنا اہتمام ہو گا، جو حسن وجمال کا اصل مظہر او رجذبات کو برانگیختہ کرنے میں پاؤ سے کہیں زیادہ مؤثر ہے۔
*…ابوداؤد میں حضرت ابو اسید انصاری سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے مردوں اور عورتوں کو راستے میں باہم مخلوط ہو کر چلتے ہوئے دیکھا تو عورتوں کو مخاطب کرکے فرمایا کہ تم ادھر ادھر ہو جاؤ، تمہیں راستے کے درمیان میں نہیں چلنا چاہیے۔ یہ سن کر عورتیں دیواروں سے لگی لگی چلنے لگیں، یہاں تک کہ ان کے کپڑے دیواروں سے رگڑکھاتے تھے۔
اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جب عورتوں کو راستہ چلتے وقت مردوں کے ساتھ مخلوط ہو کر چلنے کی اجازت نہیں تو ان کو کھلے منھ مردوں کے سامنے آنے جانے کی اجازت کیسے ہو سکتی ہے؟
* …ایک مرتبہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کفار پر مسلمانوں کی کثرت ظاہر کرنے کے لیے عورتوں کو بھی عید کی نماز کے لیے نکلنے کا حکم فرمایا تو ایک عورت نے سوال کیا کہ اگر کسی کے پاس چہرہ ڈھانپے کے لیے بڑی چادر نہ ہو تو وہ کیا کرے؟ آپ نے فرمایا کہ اس کی ساتھی عورت کو چاہیے کہ وہ اپنی چادر عاریتاً اسے دے دے۔
اگر اسلام میں عورت کے بے پردہ نکلنے کی اجازت ہوتی تو آپ صلی الله علیہ وسلم عاریتاً دینے کی بات نہ فرماتے۔ اس سے معلوم ہوا کہ چہرے کے پردے کی اتنی تاکید ہے کہ اگر دوسری عورت سے چادر لینی پڑے تو لے لے ،مگر بے پردہ مردوں کے سامنے نہ آئے۔
* …حضرت بریدہ رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے حضرت علی رضی الله عنہ سے فرمایا۔ اے علی ! عورت پر اچانک نظر پڑ جانے کے بعد دوسری مرتبہ ( قصداً) نگاہ مت ڈالو۔ پہلی اچانک نظر تو معاف ہے، مگر دوسری ( بالارادہ) جائز نہیں ۔
* …حضرت جریر بن عبدالله سے روایت ہے کہ میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ کسی نامحرم عورت پر اچانک نظر پڑ جائے تو کیا کرنا چاہیے؟ آپ نے فرمایا کہ ( فوراً) نظر کو ہٹا لو ۔
* …حضرت حسن بصری رحمة الله علیہ نے فرمایا کہ مجھے باوثوق ذریعے سے یہ حدیث پہنچی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ الله تعالیٰ نے دیکھنے والے پر بھی لعنت فرمائی ہے اور اس پر بھی جس کو دیکھا جائے۔
* …حضرت ابوامامہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو مسلمان کسی عورت کے محاسن حسن وجمال کو پہلی مرتبہ دیکھ کر اپنی آنکھ بند کر لیتا ہے تو الله تعالیٰ اس کو ایسی عبادت نصیب فرمائے گا، جس کی حلاوت ( شرینی) وہ اپنے دل میں محسوس کرے گا۔
* …حضرت علی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے پاس حاضر تھے ۔ آپ نے فرمایا کہ (بتاؤ) عورت کے لیے کون سا کام سب سے بہتر ہے؟ اس پر صحابہ خاموش ہو گئے۔ حضرت علی کہتے ہیں کہ میں نے واپس آکر حضرت فاطمہ سے دریافت کیا کہ عورتوں کے لیے سب سے بہتر کام کون سا ہے ؟ حضرت فاطمہ نے فرمایا کہ نہ وہ مردوں کو دیکھے اور نہ مرد اس کو دیکھیں ۔ میں نے یہ جواب رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے عرض کیا تو آپ نے فرمایا کہ فاطمہ میری ہی لخت جگر ہے ۔
* …حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ حجة الوداع کے سال قبیلہ خثعم کی ایک عورت آئی او راس نے عرض کیا یا رسول الله ( صلی الله علیہ وسلم)! الله تعالیٰ نے بندوں پر جو حج فرض کیا ہے وہ میرے باپ پر ایسے وقت میں عائد ہوا ہے کہ وہ بہت بوڑھا ہے۔ سواری پر ٹھیک طرح بیٹھ بھی نہیں سکتا۔ اگر میں اس کے بدل میں حج کر لوں تو کیا اس کی طرف سے ہو جائے گا؟ آپ نے فرمایا ہاں! حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ فضل ( جواس وقت آپ کے پیچھے سوار تھے ) اس عورت کی طرف دیکھنے لگے اور وہ عورت بھی فضل کی طرف دیکھ رہی تھی ۔ آپ نے فضل کا منھ دوسری طرف پھیر دیا۔
* …حضرت ابن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ محرمہ ( احرام والی) عورت ( چہرے پر) نقاب نہ ڈالے اور نہ ( ہاتھوں میں ) دستانے پہنے۔
اس سے معلوم ہواکہ آپ کے زمانے میں بھی عورتوں کو چہرہ چھپانے کا حکم تھااور عورتیں چہرے پر نقاب ڈال کر نکلتی تھیں۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ حج کے دوران حالتِ احرام میں عورت پر غیر مردوں سے چہرے کو چھپانا اور پردہ کرنا فرض نہیں، بلکہ حج کے دنوں میں حالت احرام میں بھی غیر مردوں سے چہرہ چھپانا اسی طرح فرض اور ضروری ہے جس طرح عام دنوں میں فرض ہے ۔ فرق صرف یہ ہے کہ احرام کی حالت میں چہرے پر نقاب اس طرح ڈالنا ہے کہ وہ چہرے کو مس بھی نہ کرے اور پردہ بھی ہو جائے ۔ اس کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں ۔ ایک یہ کہ چہرے اورنقاب کے درمیان ہاتھ رکھ کر نقاب کو چہرے سے علیحدہ رکھے۔ دوسری صورت یہ کہ چھجے والی ٹوپی سر پر رکھ کر نقاب اس کے اوپر سے ڈالی جائے۔ یہ صورت زیادہ سہل ہے اور بھی صورتیں ہو سکتی ہیں ، اصل مقصود پردہ کرنا اور نقاب کو چہرے سے علیحدہ رکھنا ہے۔ جیسا کہ آگے حضرت عائشہ کی روایت میں بیان ہو رہا ہے۔
* …ابن عباس کی روایت میں ہے کہ عورت اپنی زینت صرف اپنے گھر میں ان لوگوں کے سامنے ظاہر کر سکتی ہے جن کو اس کے سامنے آنے او رگھر میں داخل ہونے کی شرعاً اجازت ہے ۔
اس کا مطلب محارم کے سامنے آنا ہے ، بے پردہ پھرنا مراد نہیں۔
* …حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ ہم رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ حج کو جاتے ہوئے احرام کی حالت میں تھے۔ جب ہمارے پاس سے کوئی سوار گزرتا تو ہم اپنی چادر اپنے سر کے اوپر کھینچ کر اپنے چہروں پر لے آتے اور جب ہم آگے بڑھ جاتے تو ہم اپنے چہروں کو کھول دیتے تھے۔
*…حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بے پردہ عورت شیطان کی صورت میں سامنے آتی ہے اور شیطان کی صورت میں ہی واپس جاتی ہے ۔
ؤحضرت عبدالله بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ عورت گویاستر ہے۔ جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیاطین اس کو اپنی نظر کا نشانہ بناتے ہیں ۔
یعنی جس طرح ستر کو چھپانا ضروری ہے اسی طرح عورت کے لیے پردے میں رہنا ضروری ہے ۔
*…ترمذی ، ابوداؤد اور نسائی کی روایت میں ہے کہ ہر آنکھ زانیہ ہے ۔ عورت جب عطر لگا کر، پھول پہن کر، مہکتی ہوئی مردوں کی مجلس کے پاس سے گزرے تو وہ ایسی اور ایسی ہے ۔( یعنی زانیہ)
فقہائے کرام اور حجاب
یہ چند احادیث کے حوالہ جات تھے ، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ چہرہ پردے کا نہ صرف حصہ ہے، بلکہ اس کا اہم ترین جز ہے ، اب ہم فقہا کی خصوصاً ائمہ اربعہ کی روایات اور اقوال کی روشنی میں اس مسئلے کا جائزہ لیتے ہیں۔
چناں چہ مالکیہ ، شافعیہ او رحنابلہ کے نزدیک تو مطلقاً ہر حالت میں چہرے کا پردہ فرض ہے ، حنفیہ میں سے متقدمین نے شہوت کے ہوتے ہوئے چہرے کا پردہ فرض کیا، بصورت دیگر اس میں گنجائش دی تھی، مگر متاخرین نے فساد زمانہ کی وجہ سے مطلقاً حرمت کا فتوی دیا ہے ۔
اس طرح شامیہ میں ہے کہ عورت کے لیے چہرہ چھپانا واجب ہے ، کیوں کہ اگرچہ یہ ستر میں داخل نہیں لیکن شہوت او رمیلان کو برانگیختہ کرنے کا سبب ہے۔
اسی طرح عورت کے بالوں اور ناخنوں کو دیکھنا جائز نہیں، اگر چہ بدن سے جدا ہو چکے ہوں۔ جب بال او رناخن کو جدا ہونے کے بعد بھی دیکھنا جائز نہیں تو جیتے جاگتے چہرے کا دیکھنا کیسے جائز ہو سکتا ہے؟
اس کے علاوہ فقہا کی بعض دوسری عبارتوں سے بھی اس مسئلے پر روشنی پڑتی ہے ، یہ وہ عبارتیں ہیں ، جن کا تعلق براہ راست پردے کے ساتھ نہیں ہے ، مگر ان میں خواتین کے لیے وہ احکامات ذکر کیے گئے ہیں ، جن کا مقصد انہیں مشکلات سے بچانا اور فتنے کے امکان کو کم سے کم کرنا ہے، جو پردے کی مشروعیت کا اصل سبب ہے، ذیل میں ان میں سے چند عبارتیں پیش کی جاتی ہیں۔
امام سرخسی عورت کے لیے حالتِ سفر میں محرم کی ضرورت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : عورت فتنے کا محل ہے او رعورتوں کے زیادہ ہونے سے فتنہ بڑھے گا، ختم نہ ہو گا، یہ فتنہ صرف محافظ کی وجہ سے ہی اٹھ سکتا ہے، جو صرف حفاظت کرتا ہے اور خود ان میں خواہش نہیں رکھتا اور وہ محرم ہی ہو سکتا ہے۔
علامہ بدر الدین عینی زیارت قبور کا مسئلہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
اس ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ قبور کی زیارت خواتین کے لیے مکروہ ہے، بلکہ اس زمانے میں حرام ہے او ربالخصوص مصر کی خواتین ( کے لیے) کیوں کہ ان کا باہر نکلنا ایسے طریقے سے ہوتا ہے جو فساد اور فتنے کا باعث ہے۔
دوسرے مقام پر امام عینی فرماتے ہیں کہ جو ان عورتوں کے علاوہ دیگر عورتوں کو سلام کرنا جائز ہے، کیوں کہ ان عورتوں سے گفتگو کرنے میں نظر بہک جانے کا خدشہ ہوتا ہے۔ اور امام نووی فرماتے ہیں کہ فقہائے احناف کا موقف یہ ہے کہ جب عورتوں میں کوئی محرم نہ ہو تو مرد عورتوں کو سلام نہ کریں۔
امام ابن عابدین فرماتے ہیں کہ صالحہ عورت کو چاہیے کہ اس کی طرف فاجرہ عورت نہ دیکھے، کیوں کہ وہ اس نیک خاتون کے حسن کا آدمیوں کے سامنے چرچا کرے گی، سو نیک عورت کو ایسی فاحشہ عورت کے سامنے اپنی اوڑھنی اور چادر کو بھی نہ اتارنا چاہیے۔
اسی طرح امام شافعی رحمہ الله فرماتے ہیں:
سو خواتین کو ستر کا حکم ہے کہ کسی شخص کا عورت کی آواز کو نہ سنناان خواتین کے حق میں بہتر اور زیادہ ستر کا باعث ہے ۔ سو عورت اپنی آواز تلبیہ کے وقت بلندنہ کرے اور صرف اپنے آپ کو سنائے۔
امام شرف الدین نووی فرماتے ہیں: اگر اجنبی عورت کو دیکھنا حرام ہے تو اسے چھونا بدرجہ اولی حرام ہے ، کیوں کہ اسے چھونا بہت زیادہ لذت کا باعث ہے۔
دوسرے مقام پر فرماتے ہیں:
اور جب کوئی شخص عورت کے دروازے پر دستک دے تو وہ نرم آواز سے جواب نہ دے، بلکہ سخت آواز سے جواب دے۔
سو جب محض آواز کو نرم کرنے کی ممانعت ہے تو کیا کھلے چہرے کے ساتھ مردوں کے سامنے آنے کی اجازت شریعت دے سکتی ہے؟
امام جلال الدین محلی فرماتے ہیں:
مسلمان خواتین کے لیے ان (کافر خواتین) کے سامنے ستر کھولنا جائز نہیں۔
یہ حکم بھی فتنے کے رفع کرنے کے لیے ہے۔ ان تمام مسائل میں بنیاد فتنے کو بنایا گیا ہے ، ہر باشعور شخص اندازہ کرسکتا ہے کہ عورت کی آواز، جسم ، حرکات وسکنات او رباپردہ آنے جانے میں زیادہ فتنے کا امکان ہے ، یا کھلے چہرے کے ساتھ نامحرموں کے سامنے آنا زیادہ فتنے کا باعث ہے؟ اس لیے اس مسئلے کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے، جس تناظر میں شریعت نے اسے بیان کیا ہے ، اپنے فہم وجدان اور ماحول کو شریعت پر چسپاں کرنا نہ عین شریعت ہے نہ منشائے شریعت کے مطابق ہے ، نہ اسے دین کی خدمت تصور کیا جاسکتا ہے ، اسی لیے اسے قبولیت عامہ بھی حاصل نہیں ہوسکتی۔
اوپر بیان ہونے والی تفصیل یہ بات واضح کرنے کے لیے کافی ہے کہ حجاب اور پردے کی شریعت کے ہاں کیا حیثیت ہے ؟ اور اس کا شرعی طریقہ کیا ہے ؟ اگر مقصود شریعت کا حکم جاننا ہو تو اس کے لیے یہ دلائل کافی ثابت ہو سکتے ہیں ، باقی ہدایت تو الله ہی کے ہاتھ میں ہے۔
وماتوفیقی الا بالله
English
عربي
ابتداء
اپنے بارے میں
جامعہ فارقیہ
الفاروق
اسلام
قرآن
کتب خانہ
منتحب سائٹس