Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق صفر المظفر 1432ھ

ہ رسالہ

5 - 17
 فن اسماء الرجال کی اہمیت
مولانا محمد حسین صدیقی
علمی دنیا کا اس پر اتفاق ہے کہ مسلمانوں نے اپنے نبی علیہ الصلوٰة والسلام کی حیات طیبہ ہی نہیں، بلکہ ہر اس شخص کے حالات کی، جس کا ادنیٰ سا تعلق بھی آپ صلی الله علیہ وسلم کی ذات مبارک سے تھا، جس طرح حفاظت کی، وہ انسان تاریخ کا ایک عجوبہ ہے۔

روایت حدیث
جن لوگوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے اقوال وافعال اور احوال کو روایت کیا، جن میں صحابہ کرام رضی الله تعالیٰ عنہم، تابعین وتبع تابعین رحمہم الله تعالیٰ او راس میں چوتھی صدی ہجری تک کے راویانِ احادیث وآثار داخل ہیں۔ ان کے مجموعہٴ احوال کا نام ” فنِ اسماء الرجال“ ہے۔ جب حدیث وسنت کی تدوین ہو چکی ، تو ان رواة حدیث کے حالات بھی قلم بند کیے گئے ، اس میں حسبِ ذیل باتوں کا خیال رکھا گیا، ہر راوی کا نام، اس کی کنیت، اس کا لقب، کہاں کے رہنے والے تھے؟ ان کے آباء واجداد کون تھے؟ کس مزاج وطبیعت کے تھے حافظہ کیسا تھا؟ تقوی اور دیانت کے لحاظ سے کیا معیار تھا؟کن اساتذہ اور شیوخ سے علم حاصل کیا تھا؟ طلب علم کے سلسلے میں کہاں کہاں کا سفر کیا؟ 11 کن لوگوں نے ان سے علم حاصل کیا؟ غرض ان ہزار ہاہزار راویانِ حدیث کے بارے میں تحقیق وتفتیش کا اتنا زبردست ریکارڈ جمع کیا گیا کہ دنیائے قدیم و جدید کی تاریخ میں اس کی نظیر نہیں، ڈاکٹر اسپنگر نے، جس کی اسلام دشمنی مشہور ہے، ”الاصابة فی معرفة الصحابة“ کے انگریزی مقدمہ میں لکھا ہے :

”کوئی قوم نہ دنیا میں ایسی گزری، نہ آج موجود ہے جس نے مسلمانوں کی طرح اسماء الرجال جیسا عظیم الشان فن ایجاد کیا ہو ، جس کی بدولت آج پانچ لاکھ شخصیتوں کا حال معلوم ہو سکتا ہے۔“

صرف طبقہ اوّل کے راویانِ حدیث، یعنی صحابہٴ کرام کی تعداد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے آخری دورِ حیات میں ایک لاکھ سے زائد تھی ، اگرچہ ان کتابوں میں جو صحابہ کرام رضی الله تعالیٰ عنہم کے تذکرہ میں لکھی گئیں ہیں ان میں تقریباً دس ہزار کا تذکرہ ملتا ہے ، جیساکہ حافظ سیوطی رحمہ الله تعالیٰ نے لکھا ہے :

”یہ وہ لوگ ہیں جن میں سے ہر ایک نے آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے اقوال وافعال اور واقعات کا کچھ نہ کچھ حصہ دوسروں تک پہنچایا، یعنی انہوں نے راویت حدیث کی خدمت انجام دی۔“

احادیث نبویہ کی حفاظت کے لیے یہ مسلمانوں کا وہ کارنامہ ہے کہ دوسری قومیں اپنی مذہبی روایات کے ثبوت وحفاظت کے لیے آج بھی اس سے نا آشنا ہیں ۔

احادیث میں نبی اکرم صلی الله عیہ وسلم نے اس کی خبر دی ہے کہ کچھ لوگ تمہارے پاس ایسے آئیں گے جو مجھ سے منسوب کرکے تمہیں حدیث سنائیں گے، لیکن وہ احادیث جھوٹی ہوں گی ، چناں چہ مقدمہ صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی الله تعالیٰ عنہ نے یہ حدیث مرفوع نقل کی ہے”انہ سیکون فی آخر امتی اناس یحدثونکم مالم تسمعوا، انتم ولا آباء کم، فایاکم وایاھم“ کہ آخری زمانہ میں میر ی امت کے کچھ لوگ تمہیں ایسی حدیثیں سنائیں گے جو نہ تم نے سنی ہوں گی او رنہ تمہارے آباء واجداد نے تم اپنے آپ کو ان سے بچاؤ۔

حضرت ابوہریرہ رضی الله تعالیٰ عنہ ہی کی ایک اور روایت میں ہے کہ ”قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: یکون فی آخر الزمان دجالون کذابون یاتونکم من الاحادیث بمالم تسمعوا، انتم ولا آباء کم فایاکم وایاھم، لا یضلونکم ولا یفتنونکم“․

اس حدیث کا مفہوم بھی وہی ہے کہ کچھ دجال وکذاب تمہارے پاس آکر ایسی حدیثیں سنائیں گے جو تم نے اور تمہارے آباء واجداد نے نہیں سنی ہوں گی، تم اپنے آپ کو ان سے محفوظ رکھو، کہیں تمہیں گمراہ کرکے فتنہ میں مبتلا نہ کر دیں۔

حضرت عبدالله بن مسعود رضی الله تعالیٰ عنہ کی روایت میں ہے کہ:”ان فی البحر شیاطین مسجونة اوثقھا سلیمان یوشک ان تخرج فتقرأ علی الناس قرانا“․

حضرت سلیمان علیہ السلام نے کچھ شیاطین کو دریا میں قید کر دیا تھا، عنقریب وہ نکلیں گے اور لوگوں کو کچھ پڑھ کر سنائیں گے اور یہ روایت تو متواتر سندوں سے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے مروی ہے کہ ”من کذب علی متعمداً فلیتبوأ مقعدہ من النار“ جو شخص جان بوجھ کر جھوٹ بولے تو وہ خود اپنا ٹھکانہ آگ میں مقرر کر دے ۔

ان روایات پر غور کرنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ الله تعالیٰ کی جانب سے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو اس کی اطلاع مل چکی تھی کہ کچھ لوگ آپ کے اوپر جھوٹ بولیں گے، آپ نے پہلے اپنی امت کو اس کی اطلاع بھی دی اور اس کے متعلق وعید بھی بیان فرمائی، جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جیسے ایک عام آدمی یہ برداشت نہیں کرتا کہ اس پر جھوٹ بولا جائے تو نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم ،جو الله تعالیٰ کے پیغمبر ہیں اور آپ صلی الله علیہ وسلم کا ہر قول وعمل دوسرے لوگوں کے اقوال واعمال کے لیے کسوٹی اور قانون کا درجہ رکھتا ہے وہ اس کو کیسے یہ برداشت کرسکتے ہیں کہ آپ پر جھوٹ بولا جائے؟! اس لیے بحیثیت ایک امتی اور دین کی حفاظت کرنے والے کے، ہم پر لازم ہے کہ جو احادیث آپ صلی الله علیہ وسلم کی طرف منسوب کی جائیں ہم اس کی تفتیش کریں کہ کہیں کوئی ایسی بات آپ صلی الله علیہ وسلم کی طرف منسوب نہ ہو اورکہیں ایسی بات پر ہم شریعت واحکام کی بنیاد نہ رکھ دیں جو یقینا آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد نہ فرمائی ہو اور غلط طور پر آپ صلی الله علیہ وسلم کی طرف منسوب کی گئی ہو اور ظاہر ہے کہ اس تفحص وتلاش کے لیے علم اسماء الرجال کے علاوہ او رکوئی ذریعہ نہیں، یہ وہ ذریعہ ہے کہ جس کو استعمال کرتے ہوئے ہم سچ اورجھوٹ میں امتیاز کرسکیں۔ نیز اس فن کی اہمیت کے سلسلے میں علامہ سخاوی رحمہ الله تعالیٰ نے لکھا ہے کہ:

” وھو فن عظیم الوقع من الدین، قدیم النفع للمسلمین، لا یستغنی عنہ، ولا یغتنی باعم منہ، خصوصاً ما ھو القصد الاعظم منہ، وھو البحث من الرواة، والفحص عن احوالھم فی ابتدائھم وحالھم واستقبالھم، لان الاحکام الاعتقادیة والمسائل الفقھیة ماخوذة من کلام الھادی من الضلالة والمبصر من العمی والجھالة، والنقلة لذلک ھم الوسائط بیننا وبینہ والروابط فی تحقیق ما اوجبہ وسنہ، فکان التعریف بھم من الواجبات، والتشرف بتراجمھم من المھمات، ولذا قام بہ فی القدیم والحدیث اھل الحدیث، بل نجوم الھدی ورجوم العدی ووضعوا التاریخ المشتمل علی ماذکرنا، مع ضمھم لہ الضبط لوقت کل من السماع وقدوم المحدث البلد الفلانی فی رحلة الطالب وما أشبھہ“․

یہ فن دین میں بہت اونچا مقام رکھتا ہے اور مسلمانوں کے لیے اس میں عظیم فوائد ہیں، اس فن سے کوئی مستغنی نہیں ہوسکتا ہے اور نہ اس کو چھوڑ کر کوئی دوسرا عام فن اختیار کر سکتا ہے، خاص کر اس فن تاریخ کاجو مقصد اعظم ہے وہ رواة حدیث کے متعلق بحث وتفتیش اور ان کے ابتدائی اور حال ومستقبل کے حالات سے واقفیت ہے، کیوں کہ تمام مسائل اعتقادیہ اورفقہیہ اس ذات بابرکات کے کلام سے ماخوذ ہیں جو ہادی اور جہالت کے اندھیروں سے ہدایت وشریعت کی روشنی کی طرف لانے والے تھے اور ظاہرہے کہ ہمارے اور ان کے درمیان رابطہ ان ہی رواة کے ذریعے ہے اور آپ کے واجبات وسنن کی تحقیق وعلم ہم ان ہی کے ذریعے حاصل کرسکتے ہیں اس لیے ان کے احوال وواقعات معلوم کرنا واجبات دین میں سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے محدثین نے اس طرف توجہ فرمائی او ران روایات حدیث کے متعلق وہ تاریخیں لکھیں، جوان کے احوال او رتاریخ پیدائش وتاریخ وفات او ران کے ضبط اور سن سماع اور حالات علمیہ جیسے اہم مسائل پر مشتمل ہیں۔

ڈاکٹر عجاج الخطیب اپنی کتاب اصول الحدیث میں لکھتے ہیں کہ:

”علم رجال الحدیث ذالک لان علم الحدیث یتناول دراسة السند والمتن ورجال السند ھم رواة الحدیث، فھم موضوع علم الرجال، الذی یکون احد جانبی الحدیث، فلا غرو حینئذ من ان یھتم علماء المسلمین بھذا العلم اھتماما کبیراً“․

رجال حدیث کا علم علوم حدیث کے اہم علوم میں سے ہے، اس لیے کہ علم حدیث میں متن وسند سے بحث ہوتی ہے اور سند میں مذکور لوگ ہی رجال حدیث کہلاتے ہیں ، اسی لیے مسلمان علماء نے اس علم کا بہت اہتمام کیا ہے ۔

متقدمین ومتاخرین کی ان عبارتوں سے علم اسماء رجال کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے، بلکہ بقول علامہ سخاوی رحمہ الله تعالیٰ یہ ان علوم میں سے ہے کہ جن کا جاننا علم حدیث وفقہ سے تعلق رکھنے والوں کے لیے واجب ہے، اسی بنا پر اس علم کی معرفت وحصول بہت ضروری ہے، اب ہم اس کی تعریف وموضوع ا وراس کی تدوین کو اختصار کے ساتھ بیان کریں گے ۔

آغاز علم اسماء رجال
ابن عدی رحمہ الله تعالیٰ او رعلامہ سخاوی رحمہ الله تعالیٰ کے کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ اس علم کی ابتدا بھی صحابہ کے وقت سے ہوئی، چناں چہ ڈاکٹر موفق بن عبدالله بن عبدالقادر نے دارقطنی کی کتاب الضعفاء والمتروکون کے مقدمہ میں لکھاہے کہ:” وبدأ التحری فی اخذ السنة فی وقت مبکر منذ عہد ابی بکر وعمر رضی الله عنہما، ثم استمر التفتیش عن احوال الرجال وازداد، فتکلم عدد من التابعین فی الجرح والتعدیل“․

یعنی سنت اور احادیث کے قبول کرنے میں تحری اور تفتیش کی ابتدا حضرت ابوبکر وعمر رضی الله عنما کے دور سے ہوئی تھی، پھرتابعین کے دور میں اس میں ترقی ہوئی۔

امام ذہبی رحمہ الله تعالیٰ نے بھی تذکرة الحفاظ میں حضرت ابوبکرکے تذکرہ میں لکھا ہے کہ ”وکان اول من احتاط فی قبول الاخبار“․

اس کے ثبوت میں امام ذہبی رحمہ الله تعالیٰ نے دادی کی میراث کا وہ واقعہ پیش کیا ہے، جو موطا امام مالک او رالکفایة میں منقول ہے۔

حضرت عمر رضی الله تعالیٰ عنہ کے تذکرے میں بھی ذہبی نے لکھا ہے کہ ”وھو الذی سن للمحدثین التثبت فی النقل وربما کان یتوقف فی خبر الواحد اذا ارتاب“ یعنی حضرت عمر رضی الله تعالیٰ عنہ وہ ہستی ہیں کہ جنہوں نے محدثین کے لیے نقل روایت میں تثبت کا راستہ اختیار کیا ( اور آنے والے محدثین کو اس کی تلقین کی آپ کبھی کبھی شک کی وجہ سے خبر واحد کے قبول کرنے میں توقف کیاکرتے تھے۔

فتنہ کا آغاز
حضرت عثمان رضی الله تعالیٰ عنہ کے اخیر دور خلافت میں کچھ ایسے حالات پیدا ہوگئے جن کی وجہ سے اسلام کے خلاف ایک عجیب وغریب تحریک شروع ہوئی ۔ اس تحریک کا بانی عبدالله بن سبا یہودی تھا، جو اپنے مسلمان ہونے کا اظہار بھی کر تا تھا ، اس کا خاص نصب العین یہ تھا کہ لوگوں کو یہ سمجھایا جائے کہ صحابہ کرام رضی الله تعالیٰ عنہم میں سے نہ تو کوئی اپنے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا سچا دوست تھا اور نہ ہی ( معاذ الله) آپ صلی الله علیہ وسلم سے انہیں کوئی عقیدت تھی ۔ یہ بات ظاہر ہے کہ جماعت صحابہ رضی الله تعالیٰ عنہم سے اگر اعتماد اٹھ جائے تو سارا دین ہی مسمار ہو کر رہ جائے گا، اس فتنے نے زور پکڑا،بالآخر اسی کے نتیجہ میں حضرت عثمان رضی الله تعالیٰ عنہ شہید ہوئے ، حضرت علی رضی الله تعالیٰ عنہ کے دورِ خلافت میں مسلمان خانہ جنگیوں میں مبتلا ہو گئے۔ موقع پاکریہ سبائی جماعت حضرت علی رضی الله تعالیٰ عنہ کی فوج میں گھل مل گئی۔

مؤرخین کا اتفاق ہے کہ جنگ ”جمل“ کا واقعہ بالکل پیش نہ آتا… اگر یہ سبائی جماعت صلح کو جنگ سے بدلنے میں کامیاب نہ ہوئی ہوتی، جنگ ”جمل“ کے بعد صفین وغیرہ کی لڑائیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر یہ سبائی جماعت اپنے خیالات اور بے سروپا روایات پھیلاتی رہی۔

اسی بات کو حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ الله تعالیٰ فرماتے ہیں ”اول من کذب عبدالله بن سبا“ (روایات کے سلسلہ میں جس شخص نے سب سے پہلے جھوٹ چلایا، وہ عبدالله بن سبا تھا) یعنی اس نے سب سے پہلے جھوٹی حدیثوں کو پھیلانے کی کوشش کی ، بالآخر حضرت علی رضی الله تعالیٰ عنہ اس سازش سے جب واقف ہوئے تو سخت ناراض ہوئے اور فرمایا:” ومالی ولھذا الخبیث الاسود“

کہ اس سیاہ کالے خبیث سے مجھے کیا علاقہ؟

او راعلان عام کر دیا کہ جو اس طرح کی باتیں کرے گا اس کو سخت سزا دی جائے گی ، بالآخر حضرت علی رضی الله تعالیٰ عنہ نے اس جماعت سے داروگیر میں سختی سے کام لیا۔

اس سلسلے میں حافظ ابن حجر رحمہ الله تعالیٰ فرماتے ہیں:” قد احرقھم علی رضی الله تعالیٰ عنہ فی خلافتہ“․

کہ ان لوگوں کو حضرت علی رضی الله تعالیٰ عنہ نے اپنی خلافت کے زمانے میں آگ میں ڈلوادیا۔

فی الواقع یہ لوگ حضرت علی رضی الله تعالیٰ عنہ کے خدا ہونے کا اعتقاد رکھتے تھے۔

مگر اس جماعت کے نمائندے کوفہ، بصرہ، شام، مصر وحجاز ہر جگہ پھیلے ہوئے تھے، اس لیے حضرت علی رضی الله تعالیٰ عنہ نے پوری قوت سے اس فتنے کو دبایا اور لوگوں کو اس جماعت کی سازش سے آگاہ کیا۔ حضرت علی رضی الله تعالیٰ عنہ نے اس کے بارے میں فرمایا:” قاتلھم الله ای عصابة بیضاء سودوا، وای حدیث من حدیث رسول الله صلی الله علیہ وسلم افسدو!!․“

کہ خدا انہیں ہلاک کرے ، کتنی روشن جماعت کو انہوں نے سیاہ کیااور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی کتنی حدیثوں کو انہوں نے بگاڑا۔

حافظ ابن تیمیہ رحمہ الله تعالیٰ فرماتے ہیں:

”دورصحابہ رضی الله تعالیٰ عنہم میں بعد کے ادوار کے مقابلے میں بہت کم فتنے تھے ، لیکن جتنا زمانہ عہد نبوت سے دور ہوتا گیا ، اختلاف وگروہ بندی کی کثرت ہوتی چلی گئی، حضرت عثمان رضی الله تعالیٰ عنہ کے عہدِ خلافت میں کوئی بدعت کھل کر سامنے نہیں آئی، مگر ان کی شہادت کے بعد لوگ مختلف گروہوں میں تقسیم ہو گئے اور دو مقابل کی بدعتوں کا ظہور ہوا، ایک خوارج کی بدعت، جو (معاذ الله) حضرت علی رضی الله تعالیٰ عنہ کی تکفیر کرتے تھے اور دوسری روافض کی بدعت، جو حضرت علی رضی الله تعالیٰ عنہ کی امامت اور عصمت کے مدعی تھے، بلکہ روافض میں سے بعض ان کی نبوت کے اور بعض الوہیت تک کے قائل تھے۔

سب سے زیادہ وضع حدیث کا کام روافض نے کیا ہے۔

فتنہ کے آغاز کے بعد روایت حدیث میں احتیاط
صحابہ کرام رضی الله تعالیٰ عنہم اور تابعین عظام رحمہم الله تعالیٰ نے پوری قوت سے اس فتنہ کی بیخ کنی کی کوشش کی ، سبائی جماعت جو جھوٹی حدیثوں کو پھیلانے کے لیے کوشاں تھی ، چوں کہ اس کا علم حضرت علی رضی الله تعالیٰ عنہ کو بھی ہو گیا تھا، اس لیے اس فتنہ کے رونما ہونے کے بعد حضرت علی رضی الله تعالیٰ عنہ نے صحیح وغلط کے درمیان امتیاز پیدا کرنے کے لیے ایک عمومی ضابطہ بیان فرمایا، جس کو علامہ ذہبی نے نقل کیا ہے: ”حدثوا الناس بما یعرفون، ودعوا ماینکرون الخ“

کہ لوگوں سے انہیں باتوں کو بیان کرو جنہیں وہ جانتے ہوں اور جن سے وہ آشنا نہ ہوں، ان کو بیان نہ کرو۔

حافظ ذہبی رحمہ الله تعالیٰ اس کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

”حدیثوں کے پرکھنے کے لیے یہ ایک معیار وکسوٹی ہے کہ منکر وواہی احادیث کے بیان کرنے سے باز رہا جائے ۔ خواہ فضائل سے متعلق ہوں یا عقائد ورقاق سے اور اس سے واقفیت رجال کی معرفت کے بغیر ممکن نہیں۔“

الله تعالیٰ نے اس دین کو قیامت تک اپنی اصلی وصحیح صورت میں باقی رکھنے کا فیصلہ فرمایا ہے او راس کا بھی کہ اس کے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا کلام اہل اہواوملحدین کی دست برد سے محفوظ رہے ۔ اس لیے امت میں ایسے لوگوں کو اس کی حفاظت کے لیے پیدا فرمایا جنہوں نے حق وباطل، صحیح وموضوع میں تفریق قائم کی۔ صحابہ رضی الله تعالیٰ عنہم وتابعین رحمہم الله تعالیٰ اور بعد کے ائمہ نے عہد صحابہ رضی الله تعالیٰ عنہم سے تدوین سنت کے زمانہ تک جو کوششیں صرف کی ہیں، انہیں دیکھ کر انسان حیران رہ جاتا ہے۔

بہرحال فتنہ سبائیہ کے بعد علمائے امت نے روایت حدیث کے سلسلے میں خصوصیت سے رجال کی تحقیق اور اسناد کا خصوصی التزام کیا۔

اسناد کا اہتمام اور رجال کی چھان بین
فتنہ کے رونما ہونے کے بعد روایان حدیث کے حالات معلوم کرنے کی بھی ضرورت پڑی۔ محمد بن سیرین رحمہ الله تعالیٰ فرماتے ہیں:

”لم یکونوا یسالون عن الاسناد، فلما وقعت الفتنة، قالوا: سموا لنا رجالکم، فینظر الی اھل السنة فیؤخذ حدیثھم، وینظر الی اھل البدع فلا یؤخذ حدیثھم“․

کہ لوگوں سے پہلے اسناد کے بارے میں نہیں پوچھا جاتا تھا، لیکن جب فتنہ پھیلا تو حدیث بیان کرنے والوں سے یہ کہا جانے لگا کہ اپنے راویوں کے نام بتاؤ۔ اگر وہ اہل سنت میں سے ہیں تو ان کی روایات قبول کی جائیں گی اور اگر وہ اہل بدعت میں سے ہیں تو ان کی روایات قبول نہیں کی جائیں گی۔

صحابہ کرام رضی الله تعالیٰ عنہم وتابعین جس صدق وامانت اوراخلاص کے مقام پر تھے ، اس کی بنا پر ہر وقت اسناد کا اہتمام نہیں رکھتے تھے ، کبھی سند کے ساتھ حدیثوں کو نقل کرتے اور کبھی ترک کر دیتے تھے، جیسے حضرت علی رضی الله تعالیٰ عنہ نے حضرت براء بن عازب رضی الله تعالیٰ عنہ سے یہ حدیث بیان کی :

”عن فاطمة اخبرتہ ان رسول الله صلی الله علیہ وسلم امرھا ان تحل فحلت، ونضحت البیت بنضوح“․

حضرت ابوایوب انصاری رضی الله تعالیٰ عنہ، حضرت ابوہریرہ رضی الله تعالیٰ عنہ کے واسطے سے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ارشادات کو نقل کرتے تھے ، جن کو وہ براہ راست نہیں سن سکے تھے۔ (جاری)
			

English
عربي
ابتداء
اپنے بارے میں
جامعہ فارقیہ
الفاروق
اسلام
قرآن
کتب خانہ
منتحب سائٹس

Flag Counter