جرم توہین رسالت ۔۔۔ چند پہلو
شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم الله خان مدظلہ
صدر وفاق المدارس العربیہ پاکستان
آبروئے ماز نام مصطفیٰ است
حضور اقدس صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کی ذات اقدس میں اللہ جل شانہ نے وہ تمام انسانی بلند اوصاف واخلاق جمع فرمادئیے تھے جن پر ”شرف انسانی“ کی بنیاد قائم ہے اور جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن کریم نے﴿وانک لعلیٰ خلق عظیم﴾ کے بلیغ الفاظ ارشاد فرمائے ہیں، ایک مسلمان کے لیے حضور اکرم صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کی ذات، آپ کی سنت و سیرت اور زندگی گزارنے کی ایک ایک ادا، اس طرح قابل تقلید اور محبوب ہے کہ اس کے سوا کسی اور کی طرف اس کا اسلام اور ایمان نگاہ اٹھانے کی اجازت نہیں دے سکتا، حضورصلی الله علیہ وسلم ہی اس کے لیے عقیدتوں اور محبتوں کا چشمہٴ خیر ہیں اور ان ہی کے نام سے اس کی آبرو قائم ہے، وہ بجا طور پر یہ کہنے میں حق بجانب ہے کہ ”آبروئے ماز نام مصطفیٰ است“ … بلکہ اس کی عقیدت اور عقیدے کا معیار یہ ہوتا ہے کہ :
محمد عربی کہ آبروئے ہر دوسرا است
کسے کہ خاک درش نیست خاک بر سر او
اور اس میں کوئی شک نہیں کہ حضور کی سیرت، کسی خاص ملت کا نہیں بلکہ وہ سرمایہ انسانیت ہے، خود غیر مسلم مورخین نے جگہ جگہ اس کا اعتراف و اقرار کیا ہے، ان مورخین اور مصنفین کی ایک طویل فہرست ہے، یہاں صرف مشہور فرانسیسی مورخ لامارتاں کی تحریر کا ایک اقتباس درج کیا جاتا ہے، وہ اپنی مشہور کتاب ”تاریخ ترکیہ“ میں لکھتا ہے:
”دنیا میں کسی انسان نے محمد صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کے نصب العین سے بلند نصب العین اپنے سامنے نہیں رکھا۔ یہ عظیم الشان نصب العین کیا تھا، خدا اور بندے کے درمیان توہمات کے پردے اٹھا دینا، خدا کو انسان کے قلب میں رچا دینا، انسان کو خدائی صفات کے رنگ میں رنگ دینا اور صد ہا باطل خداؤں کے بجائے خدا کا منزہ اور مقدس تصور پیش کرنا۔ آج تک کبھی کسی انسان نے اتنے بڑے کام کا بیڑا نہیں اٹھایا، جس کے وسائل اور ذرائع اس قدر محدود ہوں اور مقصد اتنا دشوار اور اس کی قدر سے باہر ہو… نصب العین کی بلندی، وسائل کی کمی اور پھر نتائج ایسے درخشاں حاصل کرنا اگر یہ کسی انسان کی غیر معمولی قابلیت کا معیار نہیں تو کون ہے، جو اس میدان میں محمد صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کے مقابلہ میں کسی دوسرے انسان کو پیش کرنے کی جرات کرسکتا ہے؟ دنیا کے اور بڑے بڑے انسانوں نے صرف اسلحہ، قانون یا سلطنتیں پیدا کیں، وہ زیادہ سے زیادہ مادی قوتوں کی تخلیق کرسکے جو اکثر اوقات خود ان کی آنکھوں کے سامنے راکھ کا ڈھیر ہوکر رہ گئیں۔ لیکن اس انسان نے صرف جیوش و عساکر، مجالس قانون ساز، وسیع سلطنتوں، قوموں اور خاندانوں کو ہی حرکت نہیں دی بلکہ ان کروڑوں انسانوں کے قلوب کو بھی، جو اس زمانہ کی آباد دنیا کے ایک تہائی حصہ میں بستے ہیں اور اس سے بھی زیادہ اس شخصیت نے قربان گاہوں، دیوتاؤں، مذاہب ومناسک، تصورات اور معتقدات بلکہ روحوں تک کو ہلا دیا … اس نے ایسی قومیت کی بنیاد رکھی، جس نے دنیا کی مختلف نسلوں اور زبانوں کے امتزاج سے ایک امت واحدہ پیدا کردی۔ یہ لافانی امت اور باطل خداؤں سے سرکشی اور تنفر اور ایک خدائے واحد کے لیے والہانہ عشق … اس نے تمام باطل خداؤں کی عبادت گاہوں کو ڈھا دیا اور ایک تہائی دنیا میں آگ لگا دی۔ …”اس کی پاک زندگی ، اس کی توہم پرستی کے خلاف جنگ، مکی دور میں طرح طرح کے مصائب کا حیرت انگیز استقلال اور صبر سے مقابلہ کرنا، پھر اس کی ہجرت اور دعوت رشد وہدایت، خدا کی راہ میں غیر منقطع جہاد، اپنے مقصد کی کامیابی پر یقین محکم اور نامساعد حالات میں اس کی مافوق البشر جمعیت خاطر، فتح و کامرانی میں تحمل و عفو، کسی سلطنت سازی کے لیے نہیں، بلکہ خالص خدائی مقاصد کی کامیابی کے واسطے۔ اس کی شبانہ روز نمازیں، دعائیں، اپنے معبود سے راز و نیاز کی باتیں، اس کی حیات، اس کی رحلت اور بعد وفات اس کی مقبولیت، یہ تمام حقائق کس قسم کی سیرت کی گواہی دیتے ہیں۔ عظیم مفکر ، بلند پایہ خطیب، پیغامبر، مقنن، سپہ سالار، نہ صرف اجسام بلکہ اذہان و قلوب پر غلبہ پانے والا، صحیح نظریہ حیات کو علی وجہ البصیرت قائم کرنے والا، بہت سی سلطنتیں اور ان سب پر آسمانی بادشاہی کا بانی … یہ ہیں محمد صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم… ان تمام معیاروں کو اپنے ساتھ لاؤ، جس سے انسان کی عظمت اور بلندی کو ناپا اور پرکھا جاسکتاہے، اس کے بعد بتاؤ کہ کیا دنیا میں اس سے بزرگ تر اور کوئی انسان کبھی ہوا ہے“؟ (تاریخ ترکیہ جلد اول، صفحہ: 276)
جناب نبی کریم صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ کسی مسلمان کی عقیدت و محبت، بے حقیقت جذباتی نظریہ کی بنیاد پر نہیں، بلکہ یہ اس کے ایمان کا جز اور اس کے دین کا حصہ ہے، حضور ہی اس کی محبتوں کا محور اور اس کی تمناؤں کی آماج گاہ ہیں، حضورصلی الله علیہ وسلم ہی کی اتباع اس کی سعی و عمل کے لیے نمونہٴ بہشت ہے اور اسی میں اس کی ابدی سعادت کا راز مضمر ہے، قرآن کریم نے جگہ جگہ اس حقیقت کو بیان فرمایا ہے، ارشاد ہے:
﴿قل إن کان آباوٴکم وأبناوٴکم وإخوانکم وازواجکم وعشیرتکم وأموال ن اقتر فتموھا وتجارة تخشون کسادھا ومساکن ترضونھا أحب إلیکم من الله ورسولہ وجھاد فی سبیلہ فتربصوا حتی یأتی الله بأمرہ والله لایھدی القوم الفاسقین﴾․
”آپ کہہ دیجئے کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارا کنبہ اور وہ مال جو تم نے کمائے ہیں اور وہ تجارت جس کے بیٹھ جانے کا تم کو اندیشہ ہو، اور وہ گھر جن کو تم پسند کرتے ہو، اگر تم کو اللہ سے اور اس کے رسول سے اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ پیارے ہیں تو تم منتظر رہو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ (سزا دینے کے لئے ) اپنا حکم بھیج دے اور اللہ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا“۔ (التوبة: 24)۔
ایک اور آیت میں حضور صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کی اتباع کا حکم دیتے ہوئے کہا گیا ہے:
﴿وما آتٰکم الرسول فخذوہ ومانھٰکم عنہ فانتھوا واتقوا الله إن الله شدید العقاب﴾․
”اور رسول جو کچھ تمہیں دے دیا کریں وہ لے لیا کرو، اور جس سے وہ تمہیں روک دیں، رک جایا کرو۔ اللہ سے ڈرو، بے شک اللہ سخت سزا دینے میں بڑا سخت ہے“۔(الحشر:7)
ایک دوسری آیت میں اللہ اور اللہ کے رسول کے حکم پر لبیک کہتے ہوئے، سرتسلیم خم کرنے کو موٴمنین کا شیوہ بتلاتے ہوئے کہا گیا:
﴿إنما کان قول المومنین اذا دعوا الی الله ورسولہ لیحکم بینھم ان یقولوا سمعنا واطعنا﴾․
”ایمان والوں کا قول تو یہ ہے کہ جب وہ بلائے جاتے ہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف کہ (رسول) ان کے درمیان فیصلہ کردیں تو وہ (ایمان والے) کہیں کہ ہم نے سن لیا اور مان لیا“۔ (النور: 51)
ایک اور جگہ وضاحت کردی ہے کہ اللہ اور رسول کے فیصلے اور حکم آنے کے بعد کسی موٴمن مرد، عورت کے شایانِ شان نہیں کہ وہ اس کے برعکس من مانی کریں، ایسی صورت میں سوائے تعمیلِ حکم کے اس کے لئے کسی اور راہ کو اختیار کرنے کی گنجائش نہیں، ارشاد ہے:
﴿وماکان لموٴمن ولاموٴمنہ إذا قضی الله ورسولہ أمرا ان یکون لھم الخیرة من أمرھم ومن یعص الله ورسولہ فقد ضل ضللا مبینا﴾․
”اور کسی مومن مرد یا مومن عورت کے لئے یہ درست نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی امر کا حکم دے دیں تو پھر ان کو اپنے (اس) امر میں کوئی اختیار باقی رہ جائے اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا، وہ صریح گمراہی میں جا پڑے گا“۔ (الاحزاب:36)
حضرت انس کی حدیث امام بخاری اور امام مسلم نے نقل فرمائی ہے، کہ حضور اکرم صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا :
لایوٴمن احد کم حتی أکون احب إلیہ من والدہ وولدہ والناس أجمعین․
”تم میں سے کوئی مومن نہیں بن سکتا جب تک اس کو مجھ سے اپنے ماں باپ، اولاد اور باقی سب لوگوں سے بڑھ کر محبت نہ ہو“۔
(صحیح بخاری، کتاب الایمان، رقم:14، صحیح مسلم، کتاب الایمان، رقم: 177)
عہد نبوی کے واقعات
حضور اکرم صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کی شان اقدس میں بعض بدبختوں کی طرف سے گستاخی کا سلسلہ کوئی نیا نہیں، خود عہد نبوی میں دربار نبوت کی بے حرمتی کے واقعات پیش آئے ہیں اور آپ کی ناموس پر کٹ مرنے والی پاکیزہ ہستیوں نے ان دریدہ دہن بدبختوں کو اپنے انجام تک پہنچایا ہے : …ایک نابینا صحابی کی باندی حضور کی شان میں گستاخی کرتی تھی، وہ ایک رات اٹھے اور تلوار سے اس باندی کا پیٹ چاک کرکے اس کو قتل کردیا، حضور صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کو خبر ملی تو فرمایا کہ اس کا خون ہدر اور رائیگاں ہے۔ (بلوغ المرام فی احادیث الاحکام ، ص: 123) …کعب بن اشرف مشہور یہودی رئیس تھا، حضور صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرتا اور ہجویہ اشعار کہتا، حضرت محمد بن مسلمہ نے حضور صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کی خواہش پر جاکر اس کاکام تمام کیا… (صحیح بخاری، کتاب المغازی، رقم: 4037) …مدینہ منورہ میں ابوعفک نامی ایک شخص نے بارگاہ رسالت میں ہجویہ نظم لکھی، حضرت سالم بن عمیر نے حضور صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کے اشارے پر جاکر اسے قتل کیا… (سیرة ابن ہشام، جلد:4، صفحہ282) … فتح مکہ کے موقع پر عام معافی کا اعلان کردیا گیا تھا، لیکن شاتم رسول ابن خطل کو معافی نہیں دی گئی، اس نے خانہ کعبہ کا پردہ پکڑا تھا اور اسی حالت میں اسے قتل کیا گیا، ابن خطل کی دو لونڈیوں کا خون بھی حضور صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم نے رائیگاں قرار دیا تھا کیونکہ وہ بھی حضور صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کی شان میں ہجویہ اشعار گایا کرتی تھیں۔ (الکامل لابن اثیر: 169/2، صحیح بخاری، کتاب المغازی، رقم: 4035) … عصما ء بنت مروان شاعرہ تھی اور قبیلہ بنو امیہ سے اس کا تعلق تھا، اس نے حضور صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی کی، حضرت عمیر بن عدی نے حضور صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کے کہنے پر جاکر اس کو قتل کیا۔ (سیرت ابن ہشام، جلد:4، صفحہ283)
توہین رسالت کی سزا
عہد نبوی کے ان واقعات سے ایک بات بالکل بے غبار ہوکر سامنے آجاتی ہے کہ ”توہین رسالت“ کا جرم ایسا نہیں جس سے چشم پوشی کی جائے یا اس سے درگزر کیا جائے، چنانچہ تمام ائمہ کا اس پر اجماع ہے کہ توہین رسالت کا مجرم واجب القتل ہے … علامہ شامی رحمہ الله تعالیٰ لکھتے ہیں: ”حاصل یہ ہے کہ شاتم رسول کے کفر اور اس کے قتل کے درست ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں اور یہی ائمہ اربعہ سے منقول ہے“۔ (جلد4، صفحہ:64)
فقہ مالکیہ کے مشہور عالم قاضی عیاض رحمہ الله لکھتے ہیں: ”رسول اللہ صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی اور تنقیص کرنے والے کے قتل پر امت کا اجماع ہوچکا ہے“۔ (کتاب الشفاء: 211/2)
فقہ حنفی کی مشہور شخصیت امام سرخسی رحمہ الله شاتم رسول کے قتل پر اجماع نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”جس شخص نے رسول الله صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم پر شتم کیا، آپ کی توہین کی، دین یا شخصی اعتبار سے آپ پر عیب لگایا، آپ کی صفات میں کسی صفت پر نکتہ چینی کی تو چاہے یہ شاتم رسول مسلمان ہو یا غیر مسلم، یہودی ہو یا عیسائی یا غیر اہل کتاب، ذمی ہو یا حربی، خواہ یہ شتم واہانت عمداً ہو یا سہواً ، سنجیدگی سے ہو یا بطور مذاق، وہ دائمی طور پر کافر ہوا،اس طرح پر کہ اگر وہ توبہ بھی کرلے تو اس کی توبہ نہ عنداللہ قبول ہوگی نہ عندالناس اور شریعت مطہرہ میں متاخر و متقدم تمام مجتہدین کے نزدیک اس کی سزا اجماعاً قتل ہے“۔ (خلاصة الفتاویٰ: 286/3)
بعض مغرب زدہ مسلمان دانشوروں نے ”تنقید اور توہین“ کا شوشہ چھوڑ کر اس بات پر جو زور دیا ہے کہ مسلمانوں کو تنقید اور توہین کا فرق ملحوظ رکھنا چاہیے، توہین رسالت کی تو گنجائش نہیں لیکن تنقید پر مسلمانوں کو جذبات میں نہیں آنا چاہیے، یہ درست نہیں، منصب نبوت ہر قسم کی تنقید سے بلند ہے، انبیا معصوم ہوتے ہیں اور حضورصلی الله علیہ وسلم سید الانبیاء ہیں، منصب نبوت کی طرف کسی قسم کی انگشت نمائی یا تنقید ”توہین رسالت“ ہی کے زمرے میں آتی ہے، امت کے جلیل القدر علما نے اس موضوع پر مستقل کتابیں لکھی ہیں، یہ دانشور اگر ان کتابوں کا بغور مطالعہ کرلیں تو انہیں مستشرقین کے دائرہ اثر سے نکلنے کا موقع مل جائے گا، علامہ تقی الدین سبکی کی کتاب ”السیف المسلول علی من سب الرسول“ علامہ ابن الطلاع اندلسی کی تالیف ”اقضیة الرسول“ مشہورحنفی عالم، علامہ زین العابدین شامی کی ”تنبیہ الولاة علی احکام شاتم خیر الأنام“ اور علامہ ابن تیمیہ کی شہرہ آفاق تصنیف ”الصارم المسلول علی شاتم الرسول“ … اس موضوع پر ایسی کتابیں ہیں جنہوں نے کوئی پہلو تشنہ نہیں چھوڑا اور سب اس پر متفق ہیں کہ بارگاہ رسالت میں کسی بھی قسم کی تنقید کی سزا موت اور قتل ہے۔ چنانچہ جب اسلام اور مسلمانوں کا غلبہ تھا اور مسلمانوں کی عدالتیں دشمنوں کے دباؤ سے آزاد تھیں، تب کوئی ایسا واقعہ پیش آتا تو مجرم موت کی سزا پاکر کیفر کردار تک پہنچ جاتا بلکہ نویں صدی کے وسط میں اندلس کے اندر ”شاتمین رسول“ نے ایک جماعت کی شکل اختیار کرلی تھی لیکن مسلمان قاضیوں نے کوئی نرمی نہیں برتی اور اس کیس کے ہر مجرم کو سزائے موت دی، یولوجیس نامی عیسائی اس گروہ کا سربراہ تھا اور اس کی سزائے موت کے ساتھ ہی مسلم ہسپانیہ میں اس بدبخت جماعت کا خاتمہ ہوا۔(تفصیل کے لیے دیکھئے، تاریخ ہسپانیہ، جلد۱، صفحہ:200)
عیسائی دنیا کی اسلام دشمنی
عیسائی دنیا کے ساتھ عالم اسلام کے تصادم کی بڑی طویل تاریخ ہے اور باہمی دشمنی کی جڑیں صدیوں پر محیط ہیں، عیسائی پادریوں کی اسلام دشمنی اور مسلمانوں کے خلاف ان کے پروپیگنڈے کا خود عیسائی موٴرخین نے اعتراف کیا ہے۔ مشہور مورخ ڈوزی اپنی کتاب میں لکھتا ہے:
”سب سے بڑھ کر پادری تھے جو شدید پیچ و تاب کھاتے تھے۔ جبلی طورپر وہ محمد صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کے پیروکاروں سے نفرت کرتے تھے اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اسلام اور پیغمبر اسلام صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم اور ان کی تعلیمات کے بارے میں وہ انتہائی باطل نظریات رکھتے تھے یا جس طرح وہ عربوں کے درمیان رہتے تھے، تو ان کے لیے اس سے زیادہ کوئی چیز آسان نہ تھی کہ وہ ان معاملات میں سچائی سے آگہی حاصل کرتے، لیکن انہوں نے اڑیل انداز سے ، سرچشمہ کے اس قدر قریب ہونے کے باوجود اس حصول آگہی سے انکار کرتے ہوئے مکہ کے پیغمبر صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم سے متعلق ہر قسم کے مضحکہ خیز افسانے پر اعتبار کرنے اور اس کی تشہیر کرنے کو ترجیح دی، خواہ ایسے افسانے کا ماخذ کچھ بھی نہ ہو“۔ (ہسپانوی اسلام، صفحہ:268)
اور جے جے سانڈرس لکھتا ہے: ”اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پیغمبر عربی صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کو عیسائیوں نے کبھی بھی ہمدردی اور التفات کی نظرسے نہیں دیکھا جن کے لیے حضرت عیسیٰ کی شفیق اور معصوم ہستی ہی آئیڈیل رہی ہے۔ عیسائیت کو اسلام سے پہنچنے والے نقصانات اور وہ پروپیگنڈا جو صلیبی جنگوں کے دور میں پھیلایا گیا، غیر جانبدارانہ رائے کے لیے ممد و معاون نہ تھے اور اس وقت سے لے کر تقریباً آج تک محمد صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کو متنازعہ لٹریچر میں پیش کیا گیا ہے۔ بے ہودہ کہانیاں پھیلائی گئیں اور طویل عرصے تک ان پر یقین کیا جاتا رہا ہے“۔ (عہد وسطی کے اسلام کی تاریخ،ص:35-34)
ڈبلیو منٹگمری واٹ اپنی کتاب ”اسلام کیا ہے؟“ میں رقمطراز ہے:
”مشکل یہ ہے کہ ہم اس گہرے تعصب کے وارث ہیں، جس کی جڑیں قرون وسطی کے جنگی پروپیگنڈے میں پیوست ہیں۔ اب اس کا وسیع پیمانے پر اعتراف کیا جانا چاہیے۔ تقریباً آٹھویں صدی عیسوی سے عیسائی یورپ نے اسلام کو اپنا عظیم دشمن سمجھنا شروع کیا جو عسکری اور روحانی دونوں حلقہ اثر میں اس کے لیے خطرہ تھا۔ اسی مہلک خوف کے زیر اثر عیسائی دنیا نے اپنے اعتقاد کو سہارا دینے کے لیے اپنے دشمن کو ممکنہ حد تک انتہائی ناپسندیدہ نظر سے پیش کیا۔ حتی کہ بیسویں صدی کے دوسرے نصف میں بھی ان کے کچھ اثرات باقی ہیں“۔ (اسلام کیا ہے؟ صفحہ: 201)
ایک اور جگہ ڈاکٹر واٹ اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ: ”اسلام کے بارے میں ہمارا رویہ مجموعی طور پر غیر جانبدرانہ نہیں ہے۔ کسی حد تک اب بھی ہم عہد وسطیٰ کے جنگی پروپیگنڈے کے زیر اثر ہیں“۔
ان اقتباسات کے پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اسلام کے ساتھ عیسائی دنیا کی دشمنی اسے توہین رسالت کے جرم پر وقتاً فوقتاً آمادہ کرتی رہی ہے اور گذشتہ دو تین صدیوں سے ”آزادیٴ اظہار رائے“ کی جو مسموم ہوا یورپ میں چل پڑی ہے، اس ناقابل معافی جرم کو بھی وہ اس کے بھینٹ چڑھانے کی سعی کررہی ہے، پاکستان میں قابل فہم طور پر ایک اسلامی ریاست ہونے کے ناطے ’‘’توہینِ رسالت“ کی سزا موت ہے، مغربی ممالک نے اس قانون کے خلاف بڑا واویلا مچایا اور اسے ”آزادی“ کے خلاف قرار دے کر مختلف حکومتوں پر یہ قوتیں دباؤ ڈالتی رہیں لیکن الحمدلله یہاں کی عوامی قوت کے خوف سے کوئی حکومت اب تک اس میں تبدیلی نہیں کرسکی ہے۔ایک مشہور بیورو کریٹ اور ادیب قدرت اللہ شہاب نے اس سلسلے میں مسلمانوں کے جذبات کا تجزیہ کرتے ہوئے کافی حد تک صحیح لکھا ہے کہ:
”رسول خدا کے متعلق اگر کوئی بدزبانی کرے تو لوگ آپے سے باہر ہوجاتے ہیں اور کچھ لوگ تو مرنے کی بازی لگا بیٹھتے ہیں، اس میں اچھے، نیم اچھے، بُرے مسلمان کی بالکل کوئی تخصیص نہیں، بلکہ تجریہ تو یہی شاہد ہے کہ جن لوگوں نے ناموس رسالت پر اپنی جان عزیز کو قربان کردیا، ظاہری طور پر نہ تو وہ علم و فضل میں نمایاں تھے اور نہ زہد و تقوی میں ممتاز تھے، ایک عام مسلمان کا شعور اور لاشعور جس شدت اور دیوانگی کے ساتھ شانِ رسالت کے حق میں مضطرب ہوتا ہے، اس کی بنیاد عقیدہ سے زیادہ عقیدت پر مبنی ہے ، خواص میں یہ عقیدت ایک جذبہ اور عوام میں ایک جنون کی صورت میں نمودار ہوتی ہے“۔
ایک عام مسلمان کا حضور اکرم صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ عقیدت ومحبت کا یہ عالم ہے کہ وہ ناموس رسالت پر کٹ مرنے کو اپنے لیے مایہ فخر سمجھتا ہے اور مولانا محمد علی جوہر کی ایمانی غیر ت وحمیت کے یہ الفاظ تقریباً ہر مسلمان کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہیں:
”جہاں تک خود میرا تعلق ہے، مجھے نہ قانون کی ضرورت ہے نہ عدالتوں کی حاجت، اگر کوئی ہندوستانی اس قدر شقی القلب ہے کہ انسان جو اشرف المخلوقات ہے ان میں سب سے اشرف نبی سرور کونین اور باعثِ تکوین دوعالم صلی الله علیہ وسلم کا جو تقدس میرے دل میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے، اس کا اتنا پاس بھی نہیں کرتا کہ اس برگذیدہ ہستی کی توہین کرکے میرے قلب کو چور چور کرنے سے احتراز کرے … تو مجھ سے جہاں تک صبر ہوسکے گا، صبر کروں گا، جب صبر کا جام لبریز ہوجائے گا تو اٹھوں گا اور یا تو اس گندہ دل ، گندہ دماغ ، گندہ دہن کافر کی جان لے لوں گا یا اپنی جان اس کی کوشش میں کھو دوں گا“۔ (مولانا محمد علی جوہر، آپ بیتی اور فکری مقالات، صفحہ:232)
جب کہیں مسلمان خود اقلیت میں ہوگئے یا مسلمانوں کی عدالتیں غیروں کے دباؤ میں آگئیں اور وہاں توہینِ رسالت کے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے انصاف کے راستوں میں رکاوٹیں پیش آنے لگیں، تب سے عام مسلمانوں نے کسی قانون اور عدالت کی پروا نہیں کی، غازی علم الدین شہید سے لے کر عامر چیمہ شہید تک ناموسِ رسالت پر کٹ مرنے والے سعادت مندوں نے خود کو فنا کرکے دوام حاصل کیا۔
جہاں تک آزادی یا آزادی اظہار رائے کا تعلق ہے تو دنیا کے کسی بھی دستور میں ”آزادیِ مطلق“ کا حق نہیں دیا گیا، یہاں سیکولر ہونے کے دعویٰ دار چند معروف دستوروں کے حوالے دئیے جاتے ہیں: سب سے پہلے فرانس کو لے لیں جہاں کے اخبارات نے حضور اکرم صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کی شان میں اہانت آمیز خاکے شائع کیے ہیں اور اسے ”آزادی اظہار رائے“ کا اپنا حق قرار دیا ہے، اس کے آرٹیکل نمبر ۱ میں کہا گیا ہے: ”انسان آزاد پیدا ہوا ہے اور آزاد رہے گا اور سب کو مساوی حقوق حاصل ہوں گے، لیکن سماجی حیثیت کا تعلق مفاد عامہ کے پیش نظر کیا جائے گا“۔ اور آرٹیکل نمبر4میں کہا گیا ہے: ”آزادی کا حق اس حد تک تسلیم کیا جائے گا جب تک کہ اس سے کسی دوسرے شخص کا حق متاثر یا مجروح نہ ہو اور ان حقوق کا تعین بھی قانون کے ذریعہ کیا جائے گا“۔ جرمنی کے آئین کے آرٹیکل نمبر5 میں کہا گیا ہے: ”ہر شخص کو تحریر، تقریر اور اظہار خیال کی آزادی کا حق حاصل ہے“۔ مگر اس کے ذیلی آرٹیکل نمبر 2 میں واضح کردیا گیا ہے کہ یہ حقوق شخصی عزت و تکریم کے دائروں میں رہتے ہوئے استعمال کئے جاسکیں گے۔ امریکی دستور میں بھی مطلق آزادی کا کوئی تصور نہیں، امریکن سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق دستور میں ایسی تحریر اور تقریر کی اجازت نہیں جو عوام میں اشتعال انگیزی یا امن عامہ میں خلل اندازی کا سبب بنے یا اس سے اخلاقی بگاڑ پیدا ہو، ریاست کو ایسی آزادی سلب کرنے کا اختیار دیا گیا ہے، اسی طرح آزادیٴ مذہب کے نام پر توہین مسیح کے ارتکاب کو ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ (امریکن سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی تفصیل محمد اسماعیل قریشی ایڈووکیٹ نے اپنی کتاب ”ناموس رسالت اور توہین رسالت“ کے باب پنجم میں لکھی ہے) یہی حال برطانیہ کا ہے، وہاں بھی حضرت عیسی علیہ السلام یا برطانیہ کی ملکہ کی شان میں کسی قسم کی گستاخی کی اجازت نہیں، وہاں ہائیڈ پارک میں ”اسپیکر کارنر“ کے نام سے ایک گوشہ مختص ہے جہاں مخصوص اوقات میں ہر شخص کو جو جی میں آئے کہنے یا بکنے کی چھوٹ دی گئی ہے، لیکن یہاں بھی کسی کو یہ اجازت نہیں کہ وہ حضرت عیسی علیہ السلام کی توہین کرے یا ملکہ کی شان میں گستاخی کرے۔ جب خود ان قوموں کے دساتیر میں ”آزادیٴ اظہار رائے“ کو مشروط کیا گیا کہ اس کی اسی وقت اجازت ہے جب وہ کسی کے حق اور جذبات مجروح کرنے کا ذریعہ نہ بنے، ایسے میں قانونی حوالے سے اس کا جواز کیونکر ہوسکتا ہے کہ کائنات کی سب سے بزرگ ہستی کی توہین کی جائے۔ جو دنیا کے مختلف خطوں میں رہنے والے اربوں مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے کا ذریعہ بنتی ہے!! حقیقت یہ ہے کہ ناموس رسالت پر حملوں کے اس طرح کے افسوس ناک واقعات، عیسائی دنیا کی اس پرانی اسلام دشمنی کا نتیجہ ہیں جو صدیوں سے قائم ہے اور قرب قیامت تک قائم رہے گی، پیغمبر اسلام، اور اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ، اس کے متعصبانہ خمیر میں شامل ہے اور اس کے لیے انہوں نے بڑے بڑے ادارے قائم کیے جن کے تحت ہزاروں افراد کام کررہے ہیں ، یہ لوگ صدیوں سے اسلام کے قلعے پر علمی ، عملی اور سائنسی محاذوں سے حملہ آور ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ اس قلعے میں شگاف پڑے، انہیں معلوم ہے کہ دین اسلام ہی ان کی ظاہری چمک دمک والی لیکن اندر سے کھوکھلی اور فرسودہ تہذیب کو کارزارحیات میں شکست وریخت سے دوچار کرکے مٹا سکتا ہے کہ وہی ایک زندہ، جاوید اور قیامت تک رہنے والا دین برحق ہے … ﴿یریدون لیطفئوانور الله بأفواھھم والله متم نورہ ولو کرہ الکٰفرون﴾․
پاکستان میں توہین رسالت کا قانون اور پس منظر
پاکستان، اسلام کے نام پر بننے والا ملک ہے جس کی پہچان اور دنیا کے نقشے پر جس کے وجود میں آنے کا جواز اسلام اور اس کی تعلیمات کا عملی نفاذ تھا، برصغیر میں ناموس رسالت کے تحفظ کے لیے بڑی ایمان افروز تحریکیں چلی ہیں اور خواجہٴ بطحا صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کے تقدس پر جانیں قربان کرنے کی لہو رنگ تاریخ مرتب ہوئی ہے، عام مسلمانوں نے جب بھی دیکھا کہ توہین رسالت کے مجرم کو قانون گنجائش فراہم کررہا ہے اور انصاف پر قانون کی گرفت ڈھیلی پڑرہی ہے تب مسلمانوں نے انصاف خود اپنے ہاتھوں میں لیا ہے، انہوں نے پھر کسی قانون، کسی کالے ضابطے کی پروا نہیں کی۔ انیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں راجپال نامی بدبخت نے حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی پر مشتمل ایک کتاب ”رنگیلا رسول“ کے نام سے لکھی تھی، انگریز کا قانون نافذ تھا، مسلمان بجا طور پر مشتعل تھے، دفعہ 144 نافذ کردی گئی تھی اور کسی قسم کے جلسے اور اجتماع کی اجازت نہیں تھی، اس موقع پر خطیب الہند، حضرت سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ الله نے جو تقریر کی اس سے مسلمانوں کے جذبات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، انہوں نے فرمایا:
”جب تک ایک مسلمان بھی زندہ ہے، ناموس رسالت پر حملہ کرنے والے چین سے نہیں رہ سکتے، پولیس جھوٹی، حکومت کوڑھی اور ڈپٹی کمشنر نااہل ہے وہ ہندو اخبارات کی ہرزہ سرائی تو روک نہیں سکتا لیکن علمائے کرام کی تقریریں روکنا چاہتا ہے، وقت آگیا ہے کہ دفعہ 144 کے یہیں پرخچے اڑا دئیے جائیں۔ میں دفعہ144 کو اپنے جوتے کی نوک تلے مسل کر بتا دوں گا #
پڑا فلک کو دل جلوں سے کام نہیں
جلا کے راکھ نہ کردوں تو داغ نام نہیں
راجپال کو غازی علم دین نے حملہ کرکے ٹھکانے لگایا اور یوں جس انصاف کو فراہم کرنے میں عدالت پس وپیش سے کام لیتی رہی، ایک عام مسلمان نے بڑھ کر قانون اپنے ہاتھ میں لیا اور مجرم کو کیفر کردار تک پہنچایا۔
انگریزی دور حکومت میں مجموعہ تعزیرات ہند نافذ تھا جس کی دفعہ 295میں مذہبی محترم شخصیات اور مقدس مقامات کی بے حرمتی اور توہین کی سزا زیادہ سے زیادہ دو سال قید اور جرمانہ تھا، پاکستان بننے کے بعد اس مجموعہ کو ضابطہ تعزیرات پاکستان کے طورپر تسلیم کرلیا گیا لیکن اس میں جناب نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کے مجرم اور اس کی سزا شامل نہیں تھی۔ 1986 ء میں تعزیرات پاکستان میں ایک نئی دفعہ ”295، سی“ کا اضافہ کیا گیا جس میں پیغمبر اسلام صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کے مجرم کو عمر قید یا موت کی سزا مقرر کی گئی، 30 اکتوبر 1990ء میں وفاقی شرعی عدالت نے ”عمر قید“ کی سزا کو غیر شرعی قرار دے کر منسوخ کردیا اور صرف موت کی سزا کو برقرار رکھا، جس کے الفاظ یہ ہیں:
”جو شخص بذریعہ الفاظ زبانی ، تحریری یا اعلانیہ اشارتاً یا کنایتاً بہتان تراشی کرے، یا رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے پاک نام کی بے حرمتی کرے، اسے سزائے موت دی جائے گی اور وہ جرمانہ کا بھی مستوجب ہوگا“۔
مغرب اور حقوق انسانی کی نام نہاد تنظیموں نے اس قانون کے خلاف زبردست پروپیگنڈہ کیا اور مختلف حکومتوں پر اس میں ترمیم اور تخفیف کے لیے دباؤ ڈالا جاتا رہا، بعض حکمران اس میں ترمیم کے لیے آمادہ بھی ہوئے لیکن عوامی طاقت کے خوف سے وہ اس میں تبدیلی نہیں کرسکے … اس سلسلے میں تحفظ ختم نبوت سے وابستہ علما اور مخلص کارکنوں کا کردار قابل رشک رہا، انہوں نے جہاں کہیں، اس طرح کی سازش کی بو محسوس کی، عوام میں بیداری کے لیے ”ہشیار باش“ کی صدا لگائی اور لوگوں کو بروقت جگانے کا فریضہ انجام دیتے رہے اور ایک مومن کے لیے اس سے بڑھ کر اور سعادت کیا ہوسکتی ہے کہ اس کے وقت، اس کے مال، اس کی فکر اور اس کی مساعی کا محور آقا ئے نامدار صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ناموس کا تحفظ ہو، مبارک ہیں ایسے لوگ! اور قابل رشک ہیں ان کی زندگی کے لمحات!
آخری بات
جہاں تک مغرب اور کفریہ طاقتوں سے دلائل کی روشنی میں مکالمے کا تعلق ہے، یہ بات اپنی جگہ بے غبار ہے کہ ان کا رویہ عناد اور دشمنی پر مبنی ہے اور ایک عناد اور کینہ رکھنے والا دشمن، دلائل سے کبھی متاثر نہیں ہوتا، اس کے پاس اگر طاقت ہوتی ہے تو دلائل کی ٹکسال بھی اس کی اپنی ہوتی ہے اور خیر و شر کے پیمانے بھی وہ خود بناتا اور بگاڑتا ہے … ہاں! اہل اسلام کا یہ فریضہ ضرور ہے کہ وہ انسانیت کی ابدی صداقتوں کی روشنی میں حق اور حقیقت کو اجاگر کریں، خیر و شر اور نیکی اور بدی کے صحیح پیمانوں کا تعارف کرائیں اور داعیانہ اسلوب میں واضح کریں کہ کائنات کی مقدس ترین ہستی کی شان میں گستاخی صرف مسلمانوں کے جذبات مجروح ہونے کا سبب نہیں بلکہ یہ اہانت آمیز رویہ اختیار کرنے والی ان قوموں کے لیے دنیا اور آخرت کی بربادی اور تباہی کا ذریعہ بھی ہے، قرآن کریم نے اپنے بلیغ اسلوبِ بیان میں جگہ جگہ اس کا ذکر کیا ہے، ارشاد ہے:
﴿ولقد استھزیٴ برسل من قبلک فحاق بالذین سخروامنھم ماکانوا بہ یستھز ء ون ﴾․ (الانعام: 10)
اور بلاشبہ آپ سے پہلے رسولوں سے بھی ہنسی کی جاتی رہی، پھر گھیر لیا ان ہنسی کرنے والوں کو اس چیز نے جس پروہ ہنسا کرتے تھے، یعنی انبیا علیہم الصلوة والسلام کے ساتھ استہزا کرتے تو انبیا ان کو عذاب سے ڈراتے لیکن وہ اس عذاب کا بھی تمسخر اڑاتے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو اسی عذاب میں مبتلا کیا جس کا وہ مذا ق اڑاتے تھے۔
اس آیت مبارکہ میں رسول اکرم صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کو دو طرح سے تسلی دی گئی ہے، ایک تو انبیائے سابقین کے ساتھ بھی کفار کے استہزا کا ذکر کیا گیا اور بتایا گیا کہ یہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ آپ سے پہلے بھی انبیا کو ان حالات سے دو چار ہونا پڑا ہے لہذا آپ کفار کی تمسخر آمیز فرمائشوں سے دل گیر نہ ہوں، برابر اپنی دعوت کو آگے بڑھاتے رہئے۔ اور آیت کے دوسرے حصے میں بتایا کہ ایسے بدبخت اورموذی لوگوں سے متعلق سنة اللہ بھی یہ رہی ہے کہ ان کو کچھ مہلت دینے کے بعد بالآخر دنیا ہی میں عذاب الٰہی سے دوچار ہونا پڑا ہے اور اپنے انجام بد کو وہ پہنچے ہیں ،مفسرین نے لکھا ہے کہ کفار میں سے جو لوگ آپ کا زیادہ مذاق اڑایا کرتے تھے ان میں ولید بن مغیرہ، عاص بن وائل، اسود بن عبدالمطلب، اسود بن عبدیغوث اور حارث بن قیس پیش پیش تھے۔ ایک مرتبہ آپ صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم حرم میں تشریف فرما تھے کہ جبرئیل امین تشریف لائے اور ان پانچوں میں سے ہر ایک کے مختلف اعضا کی طرف اشارہ کیا جو ان کی ہلاکت کا سبب بنا۔
ایک دوسری آیت کریمہ میں ارشاد ہے: ﴿ولقد استھزیٴ برسل من قبلک فاملیت للذین کفروا ثم اخذتھم فکیف کان عقاب﴾․ (الرعد: 32)
اور بہت سے پیغمبر وں کا آپ سے پہلے بلاشبہ مذاق اڑایا گیا، میں نے پہلے تو ان کو مہلت دی، پھر ان کو پکڑ لیا ، سو ان کا عذاب کس قدر درد ناک تھا!
اس لیے فخر موجودات حضرت پیغمبر اسلام صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والے، انسانیت کے مجرموں پر اس حقیقت کو بار بار واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ ان کا یہ رویہ، ان کی دنیوی اور اخروی تباہی اور بربادی کا ذریعہ ہے، اللہ کے ہاں دیر ہے، اندھیر نہیں، اس کی پکڑ آئے گی اور ضرور آئے گی، پس اقوام و ملل کی تباہی کی تاریخ سے ہے کوئی عبرت حاصل کرنے والا!!
English
عربي
ابتداء
اپنے بارے میں
جامعہ فارقیہ
الفاروق
اسلام
قرآن
کتب خانہ
منتحب سائٹس