Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق صفر المظفر 1432ھ

ہ رسالہ

6 - 17
 اصلاح نفس کے لئے عالم ربانی کی ضرورت
مولانا عبدالماجد دریا بادی
مولانا عبدالماجد دریا بادی نے اپنے رسالہ ” سچائی اور ”صدق“ اور ”صدق جدید“ کے ذریعہ مادیت پرستی کی عالم گیر تحریک کی ہر برائی کا جس ہمت، استقامت، بصیرت اورمستقل مزاجی سے مقابلہ کیا ہے ، اس کی مثال ملنا مشکل ہے ۔ ان کی تحریروں نے پچاس سال تک برصغیر ہند کے مسلمانوں کی بہتر راہ نمائی کی ہے۔ ان کی تفسیری خدمات بھی ناقابل فراموش ہیں، قرآن مجید کی اردو اور انگریزی میں تفسیر ان کا اہم کارنامہ ہے۔ برصغیر ہند میں1925ء سے لے کر 74ء تک معاشرے کی سطح پر جو بھی فتنے اٹھے، موصوف نے اپنے رسالہ کے ذریعہ ان کے خلاف قلمی جہاد کیا۔ مولانا کا ذرج ذیل مضمون ”سچائی“ 1928ء کے شمارے سے ماخوذ ہے۔

ایک صاحب کاایک بہت طویل مراسلہ آیا ہے۔ مراسلہ کا زیادہ حصہ حسب ذیل ہے۔

”مدت سے ایک ضمیری الجھن میں مبتلا ہوں اورکوئی روحانی طبیب مجھے ملتا نہیں ۔ بحیثیت مسلمان، پیری مریدی سے متعلق آپ کے حقیقت آگیں خیالات سے مستفیض ہونا چاہتا ہوں۔ خوش نصیبی یا بدنصیبی سے میرے خاندان میں دونوں شغل ہوتے ہیں ۔ مجھے کسی الله والے سے نسبت ارادت حاصل نہیں ، بہت گناہ گار ہوں، مگر قلب وضمیر کی حالت بحمدالله بہت کچھ قابل اطمینان ہے…

اسلامی نقطہٴ نظر سے پیری مریدی کے اغراض ومقاصد کیا ہیں؟
ملت مرحوم کے لیے من حیث الاسلام یہ کہاں تک لازمی ہے ؟ کیا قرن اول میں جو یقینا اسلام کا عہد سعادت تھا، ایسی مثالیں ملتی ہیں ؟ عہد نبوت وعہد صحابہ کے بعد دورِتابعین میں بھی کیا پیری مریدی کی کثرت اور نا خوش آیند بہتات تھی؟ تمسک بالکتاب والسنةکے بعد کیا یہ بھی لازمی ہے کہ کسی رسمی پیر کی پیروی کی جائے ؟ ایک مسلمان امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا پابند ہے ، الله سے ڈرتا ،سچ بولتا، مشائخ کرام اور صلحائے امت کا ادب واحترام رکھتا ہے ، لیکن عرف عام میں مرید نہیں ، کیا عندا لله وہ اس کا ذمہ دار ہے؟ اگر بیعت کا مقصد دعوت الی الحق ، رشد وہدایت وغیرہ ہے ، تو آج کل پیروں کی جماعت عموماً یہ خدمات کہاں تک انجام دے رہی ہے ؟ پھر محترم علمائے امت کی موجودگی میں، اس جماعت کی ضرورت ہی کیا ہے ؟ پھر صوفیہ کرام کی جماعت میں اگر کچھ صاحبان علم وعمل افراد ہیں بھی ، تو ان میں ایسوں کا تو بالکل پتہ نہیں ، جوبلا خوف لومة لائم اظہارِ حق میں بے باک ہوں…

صحابہ کرام رضی الله عنہم کے اسوہٴ حسنہ محفوظ ہیں۔ کیا ان سے اس نظریہ کی تائید ہوتی ہے کہ مسلمانوں کی دو جماعتیں ہونی چاہییں ، ایک دین کی راہ نمائی کے لیے اور دوسری دنیا کی ۔ یا یوں کہا جائے کہ ایک مسلمانوں کے قلب وضمیر کی اصلاح کرے اور دوسری شریعت کے ظاہری احکام کی طرف راہ نمائی ؟ پھر اگر کوئی مسلمان اپنی فطری صلاحیت سے اپنی اخلاقی اصلاح کرنا چاہے تو کیا یہ ممکن نہیں؟

جناب رسالت مآب صلی الله علیہ وسلم کے ارشادگرامی ”من مات لیس فی عنقہ بیعة مات میتة الجاھلیة“․ کا کیا مفہوم ہے ؟ امام سے مراد امیر امت، قائد عسکر ، مرشد طریقت، امام جماعت؟لیکن اول الذکر دو صورتوں میں ہندوستان کے سات کروڑ حلقہ بگوشان اسلام کے لیے صورت تشفی کیا ہے؟

مشائخ کرام، سورہ فتح کی آیتِ کریمہ﴿ان الذین یبایعونک﴾ سے استدلال فرماتے ہیں او ربیعت طریقت کو لازمی بتاتے ہیں ۔ کیا موجود بیعتوں کو کوئی نسبت اس بیعت سے ہے ؟ اسلام میں بیعت کی مختلف صورتیں ہیں، متداول بیعتیں کس شق میں داخل ہیں ؟ ایک بیعت اس خیال سے بھی کی جاتی ہے کہ چاہے تمام عمر کچھ بھی کرتے رہیں، لیکن اگر کسی سلسلہ میں داخل ہو گئے تو ہمارے تمام اگلے پچھلے گناہ معاف کر دیے جائیں گے … اب واقعی بیعت کی دو صورتیں رہ گئیں ۔ کسی مسلمان کا پنے گناہوں سے پشیمان ہونا اور کسی محترم شخصیت کے ہاتھ پر ترک گناہ کا عہد کرنا… مگر ظاہر ہے کہ آج کل یہ خیال سرے سے پیش نظر ہی نہیں ۔ اب رہی دوسری صورت اور وہی یقینا مبارک ہے، یعنی کسی مسلمان کو پورا پورا پابند شریعت او رمتبع سنت پائے او راس کے قدم بہ قدم چل کر اپنی دنیا وعاقبت سنوارے۔ لیکن جناب محترم مجھ سے کہیں زیادہ باخبر ہیں کہ آج مسلمان اس پر کہاں تک عامل ہیں … جامعہ عثمانیہ کے ایک ممتاز فاضل سے تبادلہ ٴ خیال کا اتفاق ہوا۔ ان کی تقریر کا ماحصل یہ نکلا کہ مسلمان ان معاملات میں بھی دوسری اقوام کے عقائد وخیالات سے متاثر ہوئے او رانہوں نے کئی تاریخی شہادتوں سے استناد کیا۔“

مراسلہ نویس کے دل میں جو خیالات اور سوالات پیدا ہوئے ہیں ، بہتوں کے ذہن انہیں الجھنوں میں مبتلا ہیں اور سچ یہ ہے کہ کس سے وہ جواب اور اپنی تشفی چاہتے ہیں ، وہ خود بھی نہ ابھی تک کسی کے مرید ہیں اور نہ ان الجھنوں سے آزاد ہو ہوئے ہیں ۔ بیمار کے علاج کے لیے ضرورت طبیب کی ہے، نہ کہ کسی دوسرے بیمار کی۔ تاہم بعض پرانے مریض طبیبوں کی باتیں سنتے سنتے خود بھی کچھ نیم طبیب سے ہو جاتے ہیں او رگوخود بدستور بیمار چلے جاتے ہیں ، لیکن اپنے ان تجربوں سے نئے مریضوں کی ایک گونہ ہمدردی ودل دہی کرسکتے ہیں۔

سب سے پہلے ایک اہم حقیقت کو پیش نظر کر لینا چاہیے ، جو اگرچہ بالکل صاف، واضح اور غیر اختلافی ہے ، لیکن اکثر ذہن سے نکل جاتی ہے اوراسی کے نظر انداز ہو جانے سے طرح طرح کی غلط فہمیاں اور الجھنیں پیدا ہو جاتی ہیں۔ وہ حقیقت یہ ہے کہ خالص دینی علوم بھی آج جن با آئین وباضابطہ صورتوں میں موجود ہیں اور جو مصطلحات ان میں رائج ہیں ، عہد رسالت مآب صلی الله علیہ وسلم میں، ان میں سے کوئی شے بھی نہ تھی اور اس خاص لحاظ سے یہ سب ” بدعت“ ہی ہیں ۔ خود سنت رسول صلی الله علیہ وسلم ہی کو لیجیے۔ آج فن احادیث وسنن ایک مستقل ومخصوص فن ہے ، جس میں صدہا اصطلاحات ہیں ، جس کے اصول پر تصانیف کا ایک دفتر ہے ، جس کی مختلف شاخیں اور شعبے ہیں اور جس کے سیکھنے کے لیے برسوں کی محنت او راساتذہٴ کاملین کی ہدایت کی ضرورت ہے۔ ظاہر ہے کہ عہد رسالت صلی الله علیہ وسلم میں یہ کچھ بھی نہ تھا، رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی معمولی سادہ گفتگو کا نام ”حدیث“ اور روزانہ زندگی کا نام سنت تھا۔ محدثین کرام کی کاوشوں کو کوئی شخص ” بدعت“ کہنے کی جرات نہیں کر سکتا، یہی حال ائمہ تفسیر کی نکتہ سنجیاں اور ائمہ فقہ کے قیاس ، اجتہاد ، واستنباط کا ہے ۔ لغوی معنی کے لحاظ سے یہ سب کچھ بدعت ہی ہے ، لیکن اگر حقیقةً بخاری ومسلم ، ابوحنیفہ ومالک رحمہم الله کی جاں فشانیوں سے یکسر قطع نظر کر لی جائے ، تو شریعت اسلام کے پاس باقی کیا رہ جائے گا؟ خود صحیفہٴ ربانی تک ، اس ہیئت وترتیب وتدوین کے ساتھ مکتوبی صورت میں ، عہد رسالت میں کہیں یک جا موجود نہ تھا۔

بات بالکل صاف اور موٹی ہے، لیکن ذہن انسانی کا خاصہ ہے کہ اکثر سامنے کی چیزوں کو بالکل بھلائے رکھتا ہے اور دور دور کی باریکیوں میں الجھنے لگتا ہے ۔غرض جو حال فقہ کا ہے ، تفسیر کا ہے ، حدیث کا ہے ، ٹھیک وہی حال تصوف وسلوک کا ہے ۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے عہد مبارک میں نہ لفظ ”تصوف “ موجود تھا۔ نہ”لفظ“ صوفی اور نہ ” احوال“ و” مقامات“ ”اذکار“ و”اشغال“ کی وہ سینکڑوں دوسری اصطلاحیں، جن سے موجودہ تصوف بھرا پڑا ہے۔

”پیری“ و”مریدی“ کے الفاظ بھی اس زمانہ میں ناپید تھے۔ پس جہاں تک لفظ واصطلاح کا تعلق ہے ، یہ دعویٰ بالکل درست ہے کہ تصوف اور پیری مریدی بدعت ہے ۔ لیکن اس معنی میں خود فن حدیث بھی بدعت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے عہد مبارک میں نہ کوئی فن ” اسماء الرجال“ تھا، نہ ”جرح“ و”تعدیل“ کے اصول وقواعد مدون تھے، نہ ”ضعیف“ و” موضوع“ کی اصطلاحیں وضع ہوئی تھیں اور نہ کوئی دماغ ”متواتر“ و” صحیح“ ” حسن“ و”غریب“ کی بحثوں سے آشنا ہوا تھا، لیکن لفظ واصطلاح کی بحث سے گزر کر، اگر اصل حقیقت تک پہنچنا مقصود ہے، تو جس طرح ہر صحابی ، بزم رسول صلی الله علیہ وسلم کا ہر صحبت یافتہ ، دربار رسول صلی الله علیہ وسلم کا ہر حاضر باش، مفسر تھا، محدث تھا اور فقیہ تھا، اسی طرح صوفی بھی تھا۔ اور بلا استثنا ہر صحابی مرید بھی تھا۔ سب کے پیر، مرشد کامل ، سرکار رسالت صلی الله علیہ وسلم تھے۔

کہا جاتا ہے کہ تمسک بالکتاب والسنة کے بعد، کسی رسمی پیر کے مرید ہونے کی ضرورت کیا رہتی ہے؟ سارا مغالطہ سوال کے لفظ ”رسمی“ میں میں موجود ہے۔ ”رسمی“ تو کسی شے کی بھی ضرورت نہیں۔ نہ رسمی اسلام کی ، نہ رسمی اتباع رسول صلی الله علیہ وسلم کی ، نہ رسمی تمسک بالکتاب کی۔ لیکن حقیقی اسلام، حقیقی ایمان، حقیقی تمسک بالکتاب والسنة ، بغیر کسی زندہ شخصیت کے توسط کے ممکن کیوں کر ہے ؟ اور اسی زندہ شخصیت کا اصطلاحی نام” پیر“ ہے ، ” مرشد“ ہے ، ” صاحب بیعت وارشاد“ ہے ۔ ابوبکر وعمر ، عثمان وعلی، حسن وحسین رضی الله عنہم اجمعین سے بہتر فطری صلاحیت واستعداد کس میں موجود ہو سکتی ہے ، پھر جب ان کے لیے ایک زندہ شخصیت صلی الله علیہ وسلم کا اتباع ناگزیر رہا تو اور کسی کو کب مفر ہو سکتا ہے ؟ حدیث کی جن کتابوں کو ہم سر چشمہٴ تقدیس سمجھ رہے ہیں ،ان کے نقوش وحروف، ان کے کاغذ کی سفیدی اور الفاظ کی سیاہی میں کیا رکھا ہوا ہے، ان میں جو کچھ تقدس ہے وہ سارے کا سارا اسی بنا پر تو ہے کہ ان کے اندر کسی زندہ شخصیت کی روح کس حد تک محفوظ ہے ، یہ روح مردہ کاغذ کے مردہ طومار میں تو محفوظ ہو جائے اور زندہ انسان کے زندہ قلب میں نہ محفوظ ہو سکے! یہ روح الماریوں کے سفینوں میں تو منتقل ہو جائے اورپاکوں اور پاکبازوں کے سینوں کو منور نہ کر سکے!

قرآن، رسول کا تو کلام نہیں، الله ہی کا کلام ہے اور بندوں کی ہدایت ہی کے لیے نازل ہوا ہے ۔ یہ بھی ہم سب کا ایمان ہے اور خود قرآن بار بار اس کا دعویٰ کرتا ہے کہ اس میں ساری ضروری ہدایات، تفصیل وتشریح کے ساتھ موجود ہیں۔ بایں ہمہ یہ نہ ہوا کہ قرآن براہ راست تمام بندوں کے پاس پہنچ جاتا۔ منکرین او رمومنین اسے آسمان سے اترتا ہوا اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتے ، کسی اونچے پہاڑ کی چوٹی پر رکھا ہوا مل جاتا ، یا ایک روز جب صبح ہوتی تو اس کا ایک ایک نسخہ ہر شخص کے سرہانے رکھا ہوا موجود ہوتا، اس طرح کی تو کوئی چیز بھی نہ ہوئی ۔ بلکہ الله نے اس کے بالکل برعکس طریقہ یہ اختیار کیا کہ پہلے ایک انتہائی بد کار قوم کے درمیان ایک پاک اور برگزیدہ ہستی پیدا کی ، چالیس بر س کی عمر تک اس شخصیت کو اس قوم کے درمیان ہر قسم کے سابقہ کے ساتھ رکھا اور اس کی طینت وسیرت کے ایک ایک جزئیہ کی جانچ اور پرکھ کا پورا موقع دیا۔ جب یہ سب مراتب طے ہوچکے، اس وقت کہیں جاکر پیام کا نزول شروع ہوا، لیکن اس وقت بھی ”پیام“ کے پیش کرانے سے قبل ”پیام بر“ کی شخصیت ہی کو پیش کرایا گیا اور جب قوم اس شخصیت کے صادق وامین ہونے کا اقرار کر چکی ، تب اس سچے کی زباں سے سچی باتیں کہلائی جانی شروع ہوئیں۔ اس پر بھی سارے پیام کویک بیک اور دفعةً نہیں پیش کر دیا گیا، بلکہ پیامبر کی شخصیت پر مختلف او رمتعدد دور حاوی کرکے …23 برس کی طویل مدت میں ، بہت ہی تدریج کے ساتھ اس پیام کو پہنچایا گیا۔ پس نظری اور ربانی طریقہ تو یہی ہے کہ پہلے پیام بر پھر پیام، پہلے طبیب، پھر نسخہ، پہلے ہادی پھر ہدایت۔ اب اگر ہم اس ترتیب کو الٹ دینا چاہیں، اگر ہادی سے بے نیاز ہو کر ہدایت تک اور شخصیتوں سے قطع نظر کرکے محض اصول وسائل تک پہنچ جانا چاہیں تو یہ ترتیب ربانی سے جنگ کرنا ٹھہری۔

یہ نہ خیال گزرے کہ یہ طریق ودعوت وہدایت صرف وحی الہیٰ کے ساتھ مخصوص تھا، بلکہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اپنی بعثت کے بعد اپنے قصد وارادہ کے ساتھ یہی طریقہ اختیار کر رکھا تھا۔ آپ نے یہ نہ کیا کہ قرآن مجید کے نسخوں کی نقلیں کثرت سے کراکے محض انہیں اطراف ملک میں بھیج دیا ہوتا، یا اپنے اقوال وسنن کو ضبط تحریر میں لا کر ملک میں ان کے نسخوں کی اشاعت کر دی ہوتی، بلکہ آپ نے صحابیوں کی جماعت پیدا کی ، اشخاص پیدا کیے ، جو اپنی زندگیوں میں آپ کی تعلیم اور آپ کے عمل کے عملی نمونہ تھے اور دین کی روشنی آپ نے ان زندہ شخصوں کے ذریعہ سے پھیلائی ۔ الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے یہ کبھی نہ کیا کہ کسی گوشہ میں تشریف فرماہو کر ، سکون وخاموشی کے ساتھ قلم وکاغذ لے کر تصنیف وتالیف میں مشغول ہو جاتے اورحسن عمل وحسن اخلاق پر مقالات تیار فرمانے لگتے، بلکہ آپ نے اپنی نورانیت سے قلوب کر منور کرنا شروع کیا او راپنی پاکیزگی کے عکس سے دوسروں کے سینوں کو پاک بنا دیا۔ رسول صلی الله علیہ وسلم نے کچھ تصنیفات اپنی یاد گار چھوڑیں؟ ہاں! بے شبہ چھوڑیں، لیکن وہ کاغذ کے طومار، اور سیاہی کے ڈھیر نہیں ، وہ وگوشت وپوست کے بنے ہوئے جسم اور تقویٰ وطہارت میں ڈھلی ہوئی روحیں تھیں۔ ان تصانیف کا شمار ہزار ہاتک پہنچتا ہے، چند مشہور ترین کے نام ابوبکر رضی الله عنہ وعمر رضی الله عنہ، عثمان رضی الله عنہ، علی رضی الله عنہ تھے، پھر یہ حضرات بھی کتابی تصنیف وتالیف پر ایک لمحے کے لیے متوجہ نہ ہوئے ۔ انہوں نے بھی زندہ ہستیوں کو اپنے نمونہ پر ڈھالنا شروع کیا اور اپنے شاگردوں کے جسموں میں اپنی روحیں پھونکنے کا عمل جاری رکھا۔ ” صحابہ“ تابعین“ اور ”تبع تابعین“ یہ سب کون تھے ؟ شاگردوں کی جماعت ،مریدوں کی جماعت، بیعت کرنے والوں کی جماعت، ارادت رکھنے والوں کی جماعت۔

مادی علوم میں آج کون سا علم اور دست کاری کے پیشوں میں آج کون سا پیشہ ایسا ہے ، جس میں استاد کی مدد لازمی نہیں ؟ پھر روحانیت کا علم ، جو ان تمام علوم سے زیادہ لطیف ، تزکیہ نفس کافن، جوان تمام فنون سے زیادہ دشوار، الله کی معرفت ، جوہر شے سے زیادہ نازک ہے ، ممکن ہے کہ اسی میں ” استاد“ کی ضرورت نہ پڑے ؟ اس سفر میں تو قدم قدم پر راہ نماناگزیر ہے ۔ اسی راہ نما یا ایسے استاد کااصطلاحی نام پیر ومرشد ہے۔ کہا جاتا ہے کہ علماء کے ہوتے ہوئے ، پیروں کی ضرورت کیا ہے ؟ لیکن یہ ” مولیوں“ اور”پیروں“ کی موجودہ تفریق بھی تو ہماری آپ کی قائم کی ہوئی ہے، اسلام اس کا ذمہ دار کب ہے ؟ اسلام تو ”صادقین“ ”متقین“ ”مومنین“”صالحین“” محسنین“ کی جو جماعت پیدا کرنا چاہتا ہے ، اس میں اس تفریق کا گزرہی نہیں ۔ وہ ہستیاں تو علم وعمل ، قول وفعل، فقہ وفقر، دونوں کی جامع ہوتی تھیں۔ یہ تفریق تو سینکڑوں دوسری تفریقوں کی طرح، دور انحطاط او رامت کی بدبختی وبداقبالی نے پیدا کر رکھی ہے اور وہی اس کی ذمے دار ہے۔

مریدی کا اصلی راز، پیر کی صحبت ہے۔ چناں چہ لفظ”صحابی“ بھی ”صحبت“ ہی کی اہمیت کو واضح کر رہا ہے او رپیر کے مفہوم کی جانب بھی اشارہ ہو چکا ہے ، یعنی وہ شخص جس کے نفس کا تزکیہ اس حدتک ہو چکا ہے کہ وہ اپنی رفاقت سے دوسرے کے نفس کا بھی تزکیہ کر دے ، وہ کامل جو دوسروں کو بھی کامل بنا سکے ، مصلح جس کی ہم نشینی دوسروں کی فطری صلاحیتوں کو ابھار دے ۔ پس مرید ہونے کے معنی ، اس سے زائد کچھ نہیں کہ جس کے پاک وصالح ہونے پر بھروسا ہو ، جس کے تزکیہ نفس پر اعتماد ہو ، یا بہ اصطلاح صوفیہ اس سے قلب کو ارادت ہو ، اس کی خدمت میں اطاعت ونیاز مندی کے ساتھ حضوری کی جائے اور یہ مریدی، کلام مجید کے حکم ﴿وکونوا مع الصادقین﴾ کی عین تعمیل ہے … آیت کے الفاظ یہ ہیں ﴿یا ایھا الذین آمنوا، اتقوا الله وکونوا مع الصادقین﴾، محض ایمان کافی نہیں ۔ ایمان والوں سے ہی تو خطاب ہے۔ ایمان تو پہلے ہی قائم ہو چکا ہے ۔ اب اس کے بعد حکم ہوتا ہے کہ الله سے تقوی اختیار کرو ، صدق دل سے نمازیں پڑھو، روزے رکھو، ادائے حقوق کرو ، وغیرہ۔ لیکن یہ سارے اعمال بھی کافی نہیں، بلکہ دوسرا حکم یہ ملتا ہے کہ صادقوں کی معیت اختیار کرو، راست بازوں کی صحبت میں رہو ، پاکوں کی پیروی کرتے رہو اور یہ مریدی ہے۔

اتباع رسول کا نام لیا گیا ہے لیکن رسول خدا صلی الله علیہ وسلم کی زندگی محض خارجی اعمال اور ظاہری اعمال کے مجموعہ کانام نہ تھا۔ پیکر خاک کے اندر نور پاک جلوہ گر تھا۔ اس نور کی تجلی ریزیاں ہر گھڑی اور ہر لمحہ ہوتی رہتی تھیں۔ تمام صحابہ رضی الله عنہم ہر حیثیت سے مساوی نہ تھے اپنا اپنا ظرف اوراپنی اپنی نظر تھی۔ حضرت خالد میدان جہاد کے کماندار ہوئے، حضرت بلال رضی الله عنہ کسی کی نگاہ ناز کے خود ہی گھائل ہوئے ، حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ روایات حدیث کی اشاعت کرتے رہے، حضرت ابن عباس رضی الله عنہ کی قسمت میں ترجمان القرآن بننے کی سعادت آئی، حضرت حسین بن علی رضی الله عنہما کو خاک کربلا میں تڑپنا او رخون میں نہانا نصیب ہوا۔ ہر صاحب کا مذاق طبیعت جدا گانہ تھا۔ قدرة ایک بڑی اطاعت کی توجہ امور خارجی پر زیادہ مبذول رہی ۔ اور اس کا بڑی تفصیل سے مطالعہ ہوتا رہا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے نماز میں ہاتھ سینے پر باندھا یا ناف پر ، آمین آہستہ فرمائی یا آواز سے ، لیکن ایک دوسری جماعت بھی برابر موجود رہی ، جس کی نظر ظاہر سے زیادہ باطن پر ، قال سے زیادہ حال پر رہی ، یہ خوش نصیب تھے ، جنہوں نے محض ”فتح مکہ“ کی جلوہ طرازیوں کا تماشا نہیں دیکھا، بلکہ ”غارِحرا“ کی خلوت آرائیوں کا مزہ بھی چکھا، جنہوں نے محض ﴿حرض المؤمنین علی القتال ﴾ہی کا پیام نہیں سنا، بلکہ﴿ سبحان الذی اسری﴾ کی حقیقت کو بھی پہچانا اور جن کی نگاہیں محض یہیں تک محدود نہیں رہیں کہ نماز کی کتنی رکعتیں پڑھی گئیں ، بلکہ یہاں تک بھی پہنچیں کہ نماز کس دل سے پڑھی گئی، کس ذوق شوق سے ادا کی گئی اور قلب کے اندر خضوع وخشوع کی کیا کیفیتیں رہیں۔ شجرہٴ تصوف وطریقت کے سر سلسلہ یہی بزرگان کرام ہوئے ہیں۔

اس نعمت کے حصہ دار کم وبیش تمام صحابیان کرام رضی الله عنہم تھے، لیکن خصوصیت کے ساتھ اس دولت سے مالا مال، حضرت ابوبکر صدیق ، حضرت علی مرتضیٰ، حضرت حذیفہ، حضرت سلمان فارسی، حضرت ابوعبیدہ، حضرت ابودرداء، حضرت ابوہریرہ، حضرت معاذ بن جبل، حضرت عمران بن حصین، حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی الله عنہم وغیرہم تھے۔ چناں چہ صوفیہ کے قدیم تذکرے انہیں حضرات سے شروع کیے گئے ہیں ۔ اور تصوف کی بعض قدیم ترین تصانیف میں تو حضرت عمر  اور حضرت عثمان کو بھی صراحت کے ساتھ اساطین تصوف میں شمار کیا ہے ۔

شریعت وطریقت کے درمیان کوئی تخالف یا تضاد مطلق نہیں، بلکہ اکابر طریقت کے حسب تصریح کمالِ شریعت ہی کا نام طریقت ہے ۔ اتباع رسول صلی الله علیہ وسلم جب تک محض ظواہر تک محدود ہے ، اس کا نام شریعت ہے او رجب قلب وباطن بھی نورانیت رسول صلی الله علیہ وسلم سے منور ہو گیا تو یہی طریقت ہے ۔ ایک شخص نے نماز حسب قواعد مندرجہ کتب پڑھ لی ، شریعت کی رو سے یہ نماز جائز ہو گئی ۔ طریقت اسے کافی نہ سمجھے گی ۔ وہ اس پر مصر ہو گی کہ جس طرح چہرہ کعبہ کی جانب متوجہ رہا، قلب بھی رب کعبہ کی جانب متوجہ رہے او رجس طرح جسم حالت نماز میں ظاہری نجاستوں سے پاک رہا ، روح بھی باطنی آلایشوں، پریشان خیالیوں سے پاک رہے ۔ یہ شریعت کی مخالفت ہوئی یا منشا شریعت کی عین تکمیل؟ حضرت اکبر نے اس مقام اور اس منزل کی توضیح اپنے مخصوص انداز میں کی ہے #
        شریعت در محفل مصطفی
        طریقت عروج دل مصطفی
        عبادت سے عزت شریعت میں ہے
        محبت کی لذت طریقت میں ہے
        شریعت میں ہے صورت ”فتح بدر“
        طریقت میں ہے معنی ”شق صدر“
        شریعت میں ہے قیل وقال حبیب
        طریقت میں حسن وجمال حبیب
        نبوت کے اندر ہیں دونوں ہی رنگ
        عبث ہے یہ ملا وصوفی کی جنگ

آخر یہ ارشاد بھی تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم ہی کا ایک باخبر سائل کے جواب میں ہے ، کہ:

” قال: ما الاحسان؟ قال: ان تعبد الله کانک تراہ، فان لم تکن تراہ، فانہ یراک“․ (بخاری، کتاب الایمان)

”احسان نام اس کا ہے کہ تو الله کی عبادت اس طرح کرے کہ گویا تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر تو اسے نہیں دیکھتا تو وہ تجھے دیکھ رہا ہے ۔“

پوری حدیث میں ایمان کے معنی بعض عقائد کے بتائے گئے ہیں اور اسلام کے معنی بعض اعمال کے ارشاد ہوئے ہیں۔ اس کے بعد ، احسان، کی یہ توضیح فرمائی گئی ہے۔ گویا عقیدہ وعمل کے بعد ایک تیسری منزل ، ان دونوں سے بلند تراحسان کی آتی ہے، جس کا تعلق محض جاننے اور کرنے سے نہیں ، بلکہ ”مشاہدہ“ و ”رویت“ سے ہے۔ یہی منزل، تصوف وطریقت کی منزل ہے۔ چناں چہ شاہ ولی الله نے”اہل تصوف“ کے بجائے ”اہل احسان“ ہی کی اصطلاح اختیار کی ہے ۔ اور شاید” اہل صدق“ و”صدیقین“ کی اصطلاحیں بھی یہی کام دے سکیں۔ لیکن یہ ساری بحثیں محض لفظی ہیں۔ سوال صرف یہ ہے کہ ایمان کے اجزا اور اسلام کے ارکان تو کتابوں کے مطالعہ سے معلوم ہوسکتے ہیں ، ایمان وعمل کے ظاہری اور خارجی پہلو تو کتابوں سے دریافت ہو سکتے ہیں ، لیکن قلب کو مرتبہ احسان تک پہنچا دینا، تزکیہٴ باطن، تجلیہ نفس، تطہیر اخلاق، بغیر ایک زندہ شخصیت ، بغیر ایک مرشد کامل کی وساطت کے کیوں کر ممکن ہے ؟ جو قانون اور ضابطے کتابوں میں درج کرنے والے تھے، حدیث وآثار وفقہ کی کتابوں میں مدون ہوتے رہے، لیکن جن چیزوں کا تعلق وجدانیات وکیفیات سے ہے ، وہ تحریر میں کیوں کر آسکتی تھیں، وہ تو ایک قلب سے دوسرے قلب پر اپنا عکس ڈال سکتی ہیں۔

یہ مرشد کوئی خودرو اور خود رائے ہستی نہیں ہوتی ، بلکہ جس طرح آپ قرآن کی ساری عبارت کو محض سند متصل کی بنا پر کلام الہیٰ مانتے چلے آتے ہیں ، جس طرح آپ بخاری کی کسی روایت کو محض اس لیے کلام رسول صلی الله علیہ وسلم تسلیم کر لیتے ہیں کہ وہ معتبر سند تسلسل کے ساتھ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے روایت ہوئی ہے ، ٹھیک اسی طرح اس مرشد کا قلب بھی ، ایسے مضبوط واسطوں کے ساتھ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے قلب مبارک سے ملا ہوا ہوتا ہے ۔ اس کا رابطہٴ روحانی بھی ، ایسی ہی زنجیر کی مضبوط کڑیوں کی طرح، سرچشمہ ٴ تقدس وروحانیت سے جڑا ہوا ہوتا ہے ۔ جس طرح امام بخاری  اورامام مسلم ( الله ان کی تربتوں کو ٹھنڈارکھے) ”آثار رسول“ و”اخبار رسول “ کو اپنے ضخیم دفتروں میں ضبط وفراہم کرتے رہے ، اسی طرح حسن بصری وجنید ، ”اسرار رسول“ ”انوار رسول “ سے اپنے سینوں کو منور کرتے رہے ادھر رسول کا ”قال “ ایک سفینے سے دوسرے سفینے میں نقل ہوتا رہا ، ادھر رسول کا ”حال“ ایک سینے سے دوسرے سینے کو طور سینا بناتا رہا۔ دونوں شعبوں کی جامعیت ، عہد صحابہ ہی میں ، صرف تھوڑے سے خوش نصیبوں کے حصے میں آئی ، پھر آج چودھویں صدی میں اس کی تلاش پر کیوں اصرار ہے ؟ تاہم زمانہ اب بھی یکسر خالی نہیں ۔ شیخ الہند مولانا محمود حسن او رمولانا شاہ بدرالدین  کی مبارک ہستیاں، اسی چودھویں صدی میں تھیں۔

سوال کیا گیا ہے کہ اگر کوئی مسلمان اپنی فطری صلاحیت سے اپنے اخلاق کی اصلاح کر لینا چاہے، تو کیا یہ ممکن نہیں؟ جواب میں ایک دوسرا سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص محض اپنی عقل سلیم کی مدد سے خالق ومخلوق کے حقوق پوری طرح ادا کرنے لگے تو کیا یہ کافی نہیں ؟ نہیں اور یقینا نہیں۔ اگر محض عقل سلیم اور صلاحیت فطری ، خدا شناسی کے لیے کافی ہے ، تو کیا کتابوں کے نازل کرنے، انبیائے کرام کے بار بار بھیجنے او ران سے منکرین کے جدال وقتال کا سارا نظام، معاذ الله بے کاروعبث ہی ٹھہرتا ہے۔

یہ تنگی نہیں ، عین وسعت اورسختی نہیں ، عین رحمت ہے کہ دین اورمعرفت دین کی نزاکتوں کا بار، محض قوائے عقلی پر نہیں ڈال دیا گیا، بلکہ اس کے لیے تو اسے عقلی سے کہیں برتر وبلند ترقوت، وحی الہٰی سے امداد بہم پہنچائی گئی اور اس نعمت غیر مرئی کو اجسام انبیاء کرام کی شکل میں مرئی ومجسم کرکے پیش کیا گیا اور دنیا پر ان کی پیروی فرض کی گئی ۔ لفظ فرض اچھی طرح ذہن میں رہے۔ محض مستحب یا مستحن نہیں، انبیائے کرام خصوصاً سب سے آخری نبی صلی الله علیہ وسلم کی پیروی ،فرض اور قطعی فرض ہے ۔ اگر آج کوئی شخص محض عقلی دلائل سے یا اپنے باطن کی اشراقیت کو بیدار کرکے ، اس نتیجے تک پہنچ جاتا ہے کہ صحیح عقیدہ، عقیدہٴ توحید ہے اور نماز اور روزہ وغیرہ میں بے شمار فوائد ہیں تو ایسے شخص کا شمار ہر گز مسلموں میں نہیں،کیاجاسکتا، اس لیے کہ اس نے ان مسائل کو صحیح راستہ سے، پیروی رسول صلی الله علیہ وسلم سے ، اتباع وحی سے نہیں حاصل کیا، مسلم بننے کے لیے رسول کے لائے ہوئے دین کی ، رسول صلی الله علیہ وسلم کے نمونے کی پیروی لازمی ہے۔ اور اسلام اور عدم اسلام کے درمیان یہی ایک شے فرق وامتیاز پیدا کرنے والی ہے۔

جب پیروی رسول ناگزیر ٹھہری تو سوال یہ ہے کہ پیروی رسول کے معنی کیا ہیں ؟ کیا محض الفاظ رسول کو قبول کر لینا مراد ہے ؟ کیا محض ہیئت عبادت رسول کا اقتدا مقصود ہے؟ کلام مجید میں ایک جگہ نہیں ، متعدد بار اور کنایہ، نہیں صراحتاً اتباع رسول کا حکم وارد ہوا ہے ۔ جہاں کہیں بھی یہ حکم آیا ہے اپنی مطلق وغیر مقید صورت میں آیا ہے ۔ یہ نہ کہیں ارشاد ہوا ہے، نہ کہیں سے یہ نکلتا ہے کہ امت کے لیے رسول صلی الله علیہ وسلم کے صرف ظاہر کی پیروی کافی ہے او رباطن کی پیروی غیر ضروری ہے ۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم جس طرح ہمارے لیے اسوہٴ حسنہ کا حکم بلحاظ اپنی نماز کی تعداد رکعات کے ، رکوع وسجود کے ، قیام وقرات کے رکھتے ہیں، اسی طرح وہ نماز میں خشوع وخضوع کے لحاظ سے ، ذوق ووجد کے لحاظ سے، کیف واستغفراق کے لحاظ سے بھی ہمارے لیے اسوہٴ حسنہ کے حکم میں داخل ہیں۔ پس جب باطن رسول کی پیروی بھی ویسی ہی ضروری ٹھہری جیسی ظاہر رسول کی تواب ارشاد ہوا کہ اس پیروی باطن کی صورت کیا ہے ؟ رسالت کے لفظ اور ظاہر کی پیروی تو کتابوں کے ذریعہ سے ممکن ہے ، پر معنی او رباطن کی پیروی کا کیا ذریعہ ہے ؟ اخبار رسول تو مجلدات کے الٹ پلٹ سے ہاتھ آسکتے ہیں ، لیکن انوار رسول صلی الله علیہ وسلم کا عکس کس آئینہ میں نظر آئے؟

﴿بعث فی الامیین رسولا منھم یتلوعلیھم آیاتہ ویزکیھم ویعلمھم الکتاب والحکمة﴾․

رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی بعثت کے اصلی مقاصد کلام مجید میں ، امت پر تلاوت آیات کے بعد دوبتائے گئے ہیں، ایک تزکیہٴ نفوس، دوسرے تعلیم وتشریح ،کتاب وحکمت۔ تشریح کتاب وحکمت کا سامان تو امام بخاری اور امام مسلم کی وضاحت سے بحمدالله ہو گیا، لیکن اس سے بھی مقد م تر مقصد ”تزکیہ“ کی آخر کیا صورت ہے ؟ ” مرشد کی تلاش“ ایک زندہ نائب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی معیت، انہی سوالات کا جواب ہے ؟

یہ مرشد، صحیح معنی میں ، مقلد ہوتا ہے، ”آئینہ“ کے پیچھے ” طوطی صفت“ رہ کر ” استاد ازل“ کے سبق کی تکرار کرتے رہنے سے ، اس کا کام زائد نہیں۔ کوئی نیا مجاہدہ، ایجاد واختراع کرنا، ہر گز اس کا کام نہیں ۔ لیکن ” اجتہاد“ ”استنباط“ کا دروازہ تو مقلدوں کے ائمہ فقہ اور غیر مقلدوں کے ائمہ حدیث کے لیے کھلا ہوا ہے ، پھر رحمت عام کا وہ دروازہ غریب صوفی ہی کے حق میں کیوں بند کر دیا جائے؟ وہ ایجاد واختراع کی بدعت سے یقینا بچے گا۔

جس طرح اہل ظاہر اپنے ” فہم“ و”قیاس“ و”استنباط“ کو معطل نہیں کر دیتے ، اپنے ”کشف“ اپنے ”وجدان“ اپنے”اشراق“ کو سرے سے معطل نہ کر دے گا۔ جب کبھی بھی لکھے گا، یقینا شفاخانہ نبوت ہی کے قرابا دین سے لکھے گا، لیکن وقت کے مزاج وخصوصیات، موسم کے حالات،آب وہوا کے اثرات وغیرہ کی رو سے اجزائے نسخہ کی ترکیب اس کی اپنی ہو گی ۔ یہ اس کی خودرائی نہیں، عین بدعت نہیں، عین پیروی سنت ہو گی۔

بڑی مصیبت یہ آن پڑی ہے کہ دلیل کے مقدمات میں مثالیں ، بہروں او رجعلسازوں کی پیش نظر رہتی ہیں او رنتائج نکالتے وقت سرے سے حقیقت کا انکار کر دیا جاتا ہے ! یہ کہاں کا انصاف ہے کہ اگر پیتل کی دمک پر آپ کو کئی بار سونے کا دھوکا ہو چکا ہے تو اب آپ سرے سے سونے ہی کے وجود کے منکر ہو چلے ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ اگر بیعت کا مقصد دعوت الحق ہے تو پیروں کی جماعت آج کہاں تک اس فرض کو ادا کر رہی ہے؟ سوال معقول ہے ، لیکن تلاش کو یہیں ختم نہ ہو جانا چاہیے ، بلکہ مزید سوالات بھی پیش ہونے چاہئیں کہ آج علمائے ظاہر کہاں تک اپنے فرائض ادا کر رہے ہیں؟ قومی راہ نماؤں میں سے کتنوں کے عمل ان کے دعووں کے موافق ہیں؟ ایڈیٹروں میں کس حدتک خلوص وصداقت ہے ؟ مسلمان تاجروں کو کہاں تک دیانت واکل حلال کا خیال ہے ؟ وقس علیٰ ہذا۔ ظاہر ہے کہ کوئی طبقہ بھی اپنے اصلی معیار پر قائم ہوتا تو آج یہ دن دیکھنا ہی کیوں پڑتے؟! لیکن بَدوں کی اکثریت کی بنا پر نیکوں کی اقلیت سے منکر ہو جانا، ہر گز نہ حق کے مطابق ہے، نہ عقل کے۔ نفی حکمت کمسن ازبہردل عامے چند! سینکڑوں ہزاروں بدنام کرنے والوں کے ہجوم میں کچھ سچے صوفی تو اس وقت موجود ہیں۔

حضرت شاہ ولی الله القول الجمیل میں تحریر فرماتے ہیں کہ رسم بیعت اور بیعت صرف بیعت خلافت تک محدود نہیں، بلکہ عہد نبوی میں بیعت کی کئی صورتیں رائج تھیں، مثلاً بیعت اسلام، بیعت ہجرت، بیعت جہاد وغیرہ۔ اور صوفیہ کی مروّجہ بیعت، بیعت تقویٰ کی قسم میں داخل ہے ۔ خلفائے راشدین کے زمانے میں تو اس بیعت کی علیٰحدہ ضرورت ہی نہ تھی ، اس لیے کہ قلوب ونفوس، شرف صحبت رسول صلی الله علیہ وسلم سے خود ہی نورانی تھے، خلفائے راشدین کے بعد فتنہ کے خوف سے اور بیعت خلافت کے ساتھ اشتباہ والتباس سے یہ بیعت موقوف رہی اور صوفیہ اس بیعت کا قائم مقام خرقہ کو سمجھتے رہے ۔ جب ملوک وسلاطین کا دور آیا او ربیعت خلافت بند ہو گئی تو صوفیہ کرام نے فرصت کو غنیمت سمجھ کر سنت بیعت کی از سر نوتجدید کی۔ آگے چل کر حضرت شاہ ولی الله دہلوی جہاں بیعت لینے والے مرشد کے اوصاف کو شمار کراتے ہیں، اس کی ایک وجہ یہ فرماتے ہیں:

”والشرط الخامس ان یکون صحب المشایخ، وتادب بھم دھرا طویلا، واخذ منھم النورالباطن والسکینة، وھذا لان سنة الله بان الرجل لا یفلح الا اذا رای المصلحین کما ان الرجل لایتعلم بصحبة العلماء وعلی ھذا القیاس غیر ذلک من الصناعات علی ھذا القیاس“․

پانچویں شرط یہ ہے کہ مشائخ کی صحبت میں ان سے طویل عرصہ تک ادب حاصل کرے اور اس سے نور باطن واطمینان حاصل ہو اور یہ شرط اس لیے ہے کہ سنت الہٰی یوں جاری ہے کہ کسی انسان کو مراد نہیں ملتی، جب تک اس نے مراد پانے والوں کو نہ دیکھا ہو ، جس طرح علم نہیں حاصل ہوتا ، بغیر صحبت علماء کے اور دوسرے پیشے بغیر استاد کے…

مضمون یوں ہی بہت طویل ہو گیا ہے، اگر مزید طوالت کا اندیشہ نہ ہوتا تو حضرت شاہ صاحب کے اس ارشاد کی کہ حصول فیض کے لیے کسی زندہ شخصیت کی صحبت لازمی ہے، کلام مجید سے تشریح کی جاتی اور مرشد کی ضرورت، نیز مرشد پر واقعہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام سے استدلال کیا جاتا۔ نیز انسان کے آگے، جو حقیقةً خلیفة الله ہے، سر نہ جھکانے کی وعید پر واقعہ حضرت آدم وابلیس سے روشنی ڈالی جاتی ہے، وہیں رسوم صوفیہ اور خرقہ، ذکر وغیرہ۔ سوان کا لازمی تعلق تلاش مرشد ومقصد بیعت سے نہیں، تاہم اگر ان رسوم کی مسنونیت، سلاسل صوفیہ کی سند رسول کریم صلی الله علیہ وسلم تک معلوم کرنے سے دلچسپی ہو تو شیخ شماسی کی السمط المجید ملاحظہ کی جاسکتی ہے، جو دائرة المعارف، حیدر آباد دکن سے شائع ہو چکی ہے.
			

English
عربي
ابتداء
اپنے بارے میں
جامعہ فارقیہ
الفاروق
اسلام
قرآن
کتب خانہ
منتحب سائٹس

Flag Counter